تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 68 - 70

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

سورہ انفال: 67
مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہٗۤ اَسۡرٰی حَتّٰی یُثۡخِنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ تُرِیۡدُوۡنَ عَرَضَ الدُّنۡیَا ٭ۖ وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۶۷﴾
کسی نبی کے شایان نہیں ہے کہ زمین میں دشمن کو کچل دینے سے پہلے اس کے پاس قیدی ہو تم لوگ دنیوی مفاد چاہتے ہو جبکہ اللہ تمہارے لیے آخرت چاہتا ہے یقیناً اللہ بڑا غالب آنے والا حکمت والا ہے۔
جنگ بدر کے سلسلے میں نازل ہونے والی آیات کا تسلسل ہے اس میں ارشاد فرمایا کسی نی کو یہ حق نہیں پہنچتا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہٗۤ اَسۡرٰی کہ اس کے پاس قیدی ہو دشمن کو قیدی بنانا نبی کے شایان نہیں ہے حَتّٰی یُثۡخِنَ فِی الۡاَرۡضِ دشمن کو زمین میں کچل دینے سے پہلے اس وقت تک قیدی بنانا کسی نبی کے لیے شایان شان نہیں ہے تُرِیۡدُوۡنَ عَرَضَ الدُّنۡیَا دنیا کا مفاد چاہتے ہو قیدی بنا کر ان سے فدیہ لینا چاہتے ہو ان کو غلام بنانا چاہتے ہو دشمن کو کچل کر ان کی قوت کو ختم کرنا نہیں چاہتے ہو اس کی جگہ قیدی بنانا چاہتے ہو وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ مسئلہ یہ ہے کہ جب جنگ ہو رہی ہوتی ہے قتال جاری ہے اس وقت کسی کو قیدی نہیں بنایا جانا ہے اور جب قتال ختم ہو تا ہے تو لوگ ان کو اسیر بنایا جاتا ہے تو کسی اسیر کو قتل نہیں کیا جا سکتا لڑائی میں جب لڑائی ہو رہی ہے تو قتل کی جگہ اسیر بنانا درست نہیں ہے لڑائی تھمنے کے بعد اسیر کو اسیر بنانے کی جگہ قتل کرنا درست نہیں قتل و اسارت دونوں میں سے ہر ایک کے لیے اسلام میں ایک جگے کا تعین ہے اس جگہ کے تعین کے خلاف کرنا خالف ورزی ہے یہاں خلاف ورزی ہوئی تھی پہلی جنگ تھی نا آشنا تھے نہیں جانتے تھے یا جانتے ہوئے مفادات کے گرفت میں آ گئے تھے انسان ہے بشر ہے۔ مَا کَانَ لِنَبِیٍّ کسی نبی کے لیے مناسب نہیں ہے نبی کسی کو اسیر بنائے مطلب یہ ہے کہ نبی کسی اسیر بناتا نبی کے زیر سایہ نبی کے لشکر میں جو جنگ لڑی جا رہی ہے نبی کی طرف سے نبی کی معیت میں نبی کی قیادت میں ایک جنگ لڑی جا رہی ہے تو اس جنگ کے لیے مناسب نہیں ہے اس نبی کے لیے نساب نہیں ہے بات تو یہ ہوتی ہے نا نبی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اس کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ میں حالت جنگ کو قتل کی جگہ لوگ اسیر بنانا شروع کرے یہ درست نہیں۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے اس لیے یہ حکمت قتال حکمت جہاد کے خلاف ہے یہ بات۔ اگر آپ دشمن کو قتل کرنے کی جگہ اسیر بنانا شروع کر دیتے ہیں تو اس میں ایک تو دشمن کو شکست دینے دشمن کو ختم کرنے کی جگہ آپ ادھر ان کو اسیر میں مصروف ہو جائے گے اور ان کی جان بچ جائے گی جو اصل مقصد ہے کارزار جنگ میں میدان جنگ میں لڑائی کرنا ہوتا ہے۔ لوگوں کو اسیر بنانا نہیں ہوتا لوگوں کو اسیر بنانے کے اوپر لشکر کا ایک حصہ جو ہے وہ ادھر مفلوج ہو جائے گا، لڑائی جو ہے متاثر ہوتی ہے دشمن جو ہے وہ فتح حاصل کر سکتا ہے مسلمانوں پر یا کم از کم دشمن کو ختم کرنے کچلنے میں ناکا م رہتا ہے جنگ بدر میں یہی ہوا تھا دوسری خامی اس میں یہ ہے کہ اگر آپ دشمن کو قتل کرنے کی جگہ پکڑنا شروع کر دیتے ہیں تو یہ کم خطرہ ہے دشمن کے لیے یا یہ لوگ قتل تو نہیں کر رہے پکڑ لیتے ہیں بعد میں فدیہ دے کر کے جان چھڑا لے گے کوئی حرج نہیں۔ دشمن کو خطرے میں کمی آ جاتی ہے دشمن کے لیے خطرہ کم ہوتا تو وہ دلیر ہو جاتا ہے ان کے اندر وہ زبردست حوصلہ آتا ہے جنگ کرنے کا یہ بھی مسلمانوں کے خلاف ہے۔
تیسری بات یہ جہاد کے غرض و غایت کے خلاف ہے حالت جنگ میں جدال میں لوگوں کو اسیر بنانا اس لیے کہ کافر کو قتل کرنا وہ اسلام کے بول بالا اور دشمن کو ختم کرنا اور دشمن کی قوت کو دشمن کی کمر کو توڑ دینے کی جگہ آپ ان کو اسیر بنانا شروع کر دیتے ہیں تو آپ اصل مقصد سے رہ جاتے ہیں اصل مقصد دشمن کی کمر توڑنا آپ اس کی جگہ اپنے مفاد کے اوپر لگ کے جب آپ کسی کو اسیر بناتے ہیں تو اس کو فدیہ دے کر پیسہ دے کر جان چھڑانا ہوتا ہے آپ کو پیسہ مل جاتا ہے۔ یا اس کو غلام بنایا جاتا ہے چونکہ اسارت کی صورت میں تین صورتیں ہوتی ہیں کافر جب مسلمان کے ہاتھ اسیر ہوتے ہیں تو اس وقت حالتیں تین ہوتی ہیں۔ یا تو سربراہ اسلامی جو ہے وہ اس کو چھوڑ دیتا ہے جان بخش دیتا ہے آزاد کرتے ہیں دوسری صورت یہ ہے کہ ان سے فدیہ لے کر کے چھوڑ دیتے ہیں یا پیسہ لیتے ہیں کہ ہر شخص سے اتنا ہزار درہم و دینار دے دو اور تمہاری جان بخشی ہو جائے گی اور تیسری صورت یہ ہے کہ ان کو غلام بنایا جاتا ہے۔ غلام بنایا جاتا تو بھی مال ہوتا ہے وہ ایک انسان بطور مملوک آپ کے ہاتھ میں آتا ہے ضمناً یہ بات بھی آپ لوگ ذہن میں رکھ لے کہ لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ انسانوں کو غلام بنانا ایک غیر انسانی کام ہے ہاں وہ کافر ہے مشرک ہے مسلمان ہے انسان ہونے تو کوئی فرق نہیں۔ آپ کے اسلام میں آپ کی شریعت میں یہ کس طرح ممکن ہوا کہ ایک انسان کو انسان ہوتے ہوئے بھی مویشی کی طرح اس کو مال بنائے انسان کو مال بنانا یہ کیسے جائز ہوا آپ کے اسلام میں غلام بنانا مال بنانا ہے مملوک ہے جس طرح جانور جو ہے کوئی مثلاً گھوڑا، کوئی خچر اور کوئی گدھا جو ہے آپ ملکیت میں رکھتے ہیں اسی طرح اس صف میں انسان کو بھی اپنی ملکیت میں رکھا اس سے کام بھی لے لیا کیسے یہ درست ہوا ؟ انسان کو غلام بنانا۔
اس کے جواب میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اسلام ایک آزاد انسان کو غلام بنانے کے حق میں نہیں نہ وہ غلا بنتا ہے اسلام کے نزدیک، ایک آدمی ہے غریب ہے سیاہ حبشی ہے فقیر ہے مسکین ہے اس کو آپ پکڑ کے لے آتے ہیں اور ا س کو ملوک بنا دیتے ہیں جائز نہیں کس نے کہا کہ آزاد انسان کو غلام بناتا ہے مال مویشی کی طرح جو ہے مملوک بناتا ہے، نہیں بناتا۔ اسلام کے ہاں یہ جائز نہیں ہے اسلام کے ہاں انسان کے غلام بننے کی ایک ہی صورت ہے صرف ایک صورت وہ یہ ہے کہ کافر لڑائی کرے مسلمانوں کے خلاف اور جنگ میں وہ اسیر ہو کر آجائے اور اسیر ہونے کی تین صورتوں میں سے ایک اس کو غلام بنانا ہوتا ہے کوئی بھی اپنے اسیر کو ایسے مفت نہیں چھوڑتا اسارت میں رکھتے ہیں اور اپنے جنگی، حربی اور ریاستی مفادات کے تحت چھوڑتے ہیں ایسے نہیں چھوڑتے۔ شروع میں اسلام کے حربی اور ریاستی مفادات کے تحت ان کو اسیر بنایا جاتا ہے اور اسی مفادات کے تحت یا چھوڑ دیا جاتا ہے فدیہ دے کر کے یا ان کو اسیر بنایا جاتا ہے۔ دنیا کا کوئی حربی قانون ایسا نہیں ہے کہ اسیر کو ایسے مفت میں چھوڑ دیا جائے البتہ اس زمانے میں چونکہ غلام اور مملوکیت کا رواج تھا اور اس وجہ سے اسلام نے بھی اس رواج کو حربی قوانین کے تحت باقی رکھا، ریاستی قوانین کے تحت باقی نہیں رکھا حربی قوانین کے تحت باقی رکھا اس لیے کہ دشمن کے مقابلے کے لیے واحد صورت یہی بنتی تھی کہ دشمن کو اسیر بنایا جائے اور اس کے بعد غلام بنائے پھر غلام بنانے کے بعد اس غلامی سسٹم کو ختم کرنے کے لیے اسلام کے پاس بہت سے فنکشنز(Functions) ہیں۔ کفارے میں غلام آزاد کرو اس میں غلام آزاد کرو یہ ثواب ہے غلام آزاد کرنے کی وغیرہ وغیرہ۔
اس کی الگ ایک بحث ہے اس کی یہاں صورت یہ ہے کہ اس کو غلام بنایا جائے اسیر کو جنگ بدر میں یہ چونکہ اسلام کی پہلی جنگ تھی اس وجہ سے مومنین کو لڑنے والوں کو ہو سکتا ہے پتا نہیں تھا لیکن اس کا بھی یہ جواب بنتا ہے کہ یہ نہیں کہ سکتا حربی ایک قانون ہوتا ہے وہ پہلے بھی لڑتے رہے ہیں اور چنانچہ سب نے یہ کام بھی نہیں کیا کچھ لوگوں نے کچھ لڑنے والے مجاہدین نے کوئی کسی ایک بندے کو بھی اسیر نہیں پکڑا دوران حرب دوران لڑائی اسیر نہیں پکڑا وہ لڑتے رہے ستر افراد ان کے مارے گئے ان میں سے ستائیس افراد صرف علی ابن ابی طالب ؑ نے مارے باقی تینتالیس افراد ستر میں سے باقی تمام مجاہدین کی طرف سے قتل ہو گئے وہ لڑتے رہے کسی کو اسیر نہیں بنایا۔ کچھ لوگوں نے اسیر بنانا شروع کیا جس کی وجہ سے کچھ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا اس اسارت میں مصروف ہونے کی وجہ سے ایک بہت بڑا حصہ اسلامی لشکر کا تھوڑا سا تو تھا لشکر اس میں سے بھی ایک حصہ لوگوں کو اسیر بنانے میں صرف ہو گیا تو دشمن جو ہے بچ کے نکل گیا اگرچہ کچھ لوگوں نے تعاقب کیا ان لوگوں کا لیکن وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا اگر یہ کام نہ کیا ہوتا یہ اسارت بنانے والی غلطی مسلمانوں سے سرزد نہ ہوئی ہوتی تو اس دن دشمن کو نابود ہونا تھا بہت بڑی بات تھی اور بہت بڑا جرم تھا یہ کام اس لیے آگے اس سلسلے میں دو عتاب تُرِیۡدُوۡنَ عَرَضَ الدُّنۡیَا والا عتاب کہ تم دنیا خواہ دنیا پرست ہو گئے ہو دنیا چاہتے ہو عَرَضَ الدُّنۡیَا دنیا کا مفاد چاہتے ہو جبکہ اللہ اس جنگ سے تمہارے دنیا اور آخرت دونوں کے لیے تم کو حکم دیا تھا وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ اللہ تو غالب آنے والا ہے حکمت والا ہے حکمت الہی پر عمل ہونا چاہیے تھا اللہ کی غالبیت پر ایمان ہونا چاہیے تھا مفادات کے پیچھے نہیں جانا چاہیے تھا ان کو دنیا پرست کہہ کر کے عتاب کیا ان اسیر پکڑنے والوں کو عتاب کیا۔
دوسری بات اگلی آیت میں ہے اس سے زیادہ سخت عتاب ہے لَوۡ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ اور اگر اللہ کی طرف سے ایک بات لکھی نہ جا چکی ہوتی ایک فیصلہ نہ ہوا ہوتا اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ایک اٹل فیصلہ نہ ہوا ہوتا لَمَسَّکُمۡ فِیۡمَاۤ اَخَذۡتُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ سبحان اللہ ک جو کچھ تم نے لیا ہے مال اسیر وغیرہ اپنے ہاتھ میں قبضے میں کر دیا ہے اس عوض میں تمہیں بڑی سزا ہو جاتی بہت بڑا عذاب تم پر نازل ہو جاتا لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک پہلے سے فیصلہ ہے وہ فیصلہ کیا ہے یہاں اس کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ یہاں رائے زنی ہوئی ہے یہ ہوسکتا ہے یہ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کافر جو ہے وہ شکست کھائے بہر حال اور مومنین اور مسلمانوں کی کمزور سی قوت جو ہے وہ برقرار رکھنے اور ان کو مہلت دینے کا فیصلہ نہ ہوتا ان کو برقرار رکھنا ہے۔ آخر اک کی غلطی کی وجہ سے ان کو تباہ کر دو تو اسلام کے لیے کچھ نہیں بچتا اس لیے ان کو مہلت دینے کا فیصلہ ہے غلطیوں کے باوجود خامیوں کے باوجود کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ تھا کہ ان کمزوریوں اور غلطیوں کی باز پرسی اور فوری عذاب نہ ہو۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ کا فیصلہ تھا پہلے سے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک عذاب دینے والا نہیں ہے جب تک اے حضور اے محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے حضور تو موجود ہے تیرے وجود کہ وجہ سے چونکہ ان پر عذاب نہ ہونے کا فیصلہ تھا اللہ کا حتمی فیصلہ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تم پر عذاب نازل نہیں کیا ورنہ تمہارا یہ کام تمہاری یہ لغزش تمہاری یہ غلطی عذاب عظیم کے لیے سزاوار تھی بہت بڑی بات ہے۔ یہاں پہ بعض ہمارے معاصر مفسرین اور قرآن مجید پر حاشیہ لکھنے والوں نے ایک اچھا تبصرہ کیا ہے بہر حال یہ مقام ذکر نہیں ہے۔ فَکُلُوۡا اب تم نے لوگوں کو اسیر بنا ہی لیا ہے غلطی تھی اور ایک کوتاہی تھی جس کے باوجود تم نے ان کو بنایا فَکُلُوۡا مِمَّا غَنِمۡتُمۡ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ لہذا جو کچھ بھی ہوا تم لوگوں نے ان کو اسیر بنا لیا ہے تو یہ اسیر جس کے نتیجے میں جو غنیمت تم کو ملنے والی ہے ان کو کھاؤ چونکہ پہلے حکم آیا تھا سورہ انفال کے شروع میں فرمایا تھا اللہ اور رسول کی ملکیت ہے اللہ اور رسول کی ملکیت ہے اور رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب میں برابر تقسیم کیا تھا لڑنے والوں میں ان اسیروں کو بھی اور مال غنیمت کو بھی تو مال غنیمت کو حلال اور طیب طریقے سے کھاؤ اگرچہ تم نے ایک غلط طریقے سے ان حاصل کیا ہے پھر بھی مال حرام نہیں ہوتا حلال ہے۔ مثلاً آپ نماز میں مصروف تھے آپ نماز توڑ کر کے کوئی شکار بھاگ کر پکڑ لیا نما ز توڑ کے نماز چھوڑ کے تو شکار آپ کے لیے حلال ہے اگرچہ نماز توڑنا درست نہیں نماز توڑنا غلط ہے نماز کو چھوڑ کے شکار کے پیچھے جانا بہت بڑی غلطی ہے آپ نہیں کرنا چاہیے تھا آپ کو یہ کام پھر بھی یہ شکار آپ کے لیے حلال ہے نماز کو چھوڑ کے جانے کی وجہ سے اس جر م میں کی وجہ سے اس گناہ کی وجہ سے وہ شکار حرام نہیں ہوتا۔ فَکُلُوۡا وہاں بھی یہی حکم آئے گا کہ تم نماز توڑ کے نماز چھوڑ کے نہیں جانا چاہیے تھا اب چھوڑ کے تو گیا ہے تو پھر فَکُلُوۡا اس شکار کو کھاؤ حَلٰلًا طَیِّبًا حلال طیب ہے شکار حرام نہیں ہوتا اسی طرح تمام فقہی احکام فقہی ابواب میں یہی ہے کہ مقدمہ حرام ہونے سے ذی المقدمہ حرام نہیں ہوتا حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ اتَّقُوا اللّٰہَ البتہ ایک تقوی ہمیشہ اپنے ساتھ ہونا چاہیے اپنے کو بچاؤ ہمیشہ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اللہ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچاؤ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ اگرچہ اللہ تعالیٰ غفور ہے رحیم ہے۔
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّمَنۡ فِیۡۤ اَیۡدِیۡکُمۡ مِّنَ الۡاَسۡرٰۤی
اے نبی کہہ دیجیے لِمَنۡ ان لوگوں سے فِیۡۤ اَیۡدِیۡکُم جو تمہارے ہاتھ میں ہیں مِنَ الۡاَسۡرٰۤی اسیروں میں سے اِنۡ یَّعۡلَمِ اللّٰہُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ خَیۡرًا یُّؤۡتِکُمۡ خَیۡرًا مِّمَّاۤ اُخِذَ مِنۡکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُم اور اگر اللہ کو علم ہوا اِنۡ یَّعۡلَمِ اللّٰہُ اللہ کو علم ہوا کہ تمہارے دلوں میں کوئی اچھائی ہے، اچھائی سے مراد ایمان ہے اسلام کا قبول کرنا ہے تم ایمان لانے والے ہو تو جو تم سے فدیہ میں لیا گیا ہے وہ تہیں اس سے بہتر عطا کرے گا۔ اگر اللہ کو علم ہو جائے تمہارے اندر کوئی بھلائی ہے کوئی اچھائی ہے تو وہ فدیہ جو پیسہ تم سے لیا ہے اسلام میں آنے کے بعد اس لیے کہ یہ فدیہ سے بہتر دولت مال عزت ان کو ملے گی اور ساتھ ساتھ جو تمہارا شک اور کافرانہ حرکتیں ہیں۔ سب سے بڑا جرم جنگ چدر میں لڑائی کے لیے آنا ہے ان سب کو معاف کر دیا جائے گا رسول اور مسلمانوں کے ساتھ لڑائی کا معاف ہو ہی ہوگا لیکن شک کا گناہ بھی تو معاف ہوتا ہے جو اس سے بڑا جرم بڑا گناہ ہے شک سب سے بڑا گناہ ہے اسلام میں آنے کے بعد وہ معاف ہو جائے گا یہاں جنگ بدر کی لڑائی میں قریش کے قریبی لوگ مہاجرین جو آئے تھے مدینے سے لڑائی کے لیے ان کے قریبی لوگ ادھر سے لڑائی کے لیے آ گئے تھے قریبی رشتہ دار لوگ آئے ہوئے تھے خود رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبی رشتہ دار عباس ابن عبدالمطلب اس میں آئے ہوئے تھے اور وہ اسیر ہونے والوں میں اسیر ہوگئے چنانچہ اسیروں کو جب رسی میں بندھا گیا تو سب لوگ کراہ رہے تھے رسالت ماب نے اپنے چچا کی کراہنے کی آواز سنی تو نہیں سوئے۔ لوگ بھی متوجہ ہوئے تو لوگ ان کو چھوڑ دیا رستے سے چھوڑ دیا آزاد کیا تو رسالت ماب سو گئے تھے اس موقع کے اوپر رسالت ماب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا تھا این ابی العباس میرا اب، اب فرمایا عم کو اب این ابی العباس میرا باپ عباس کہاں ہیں۔ یہاں پر ہم استشہاد کرتے ہیں کہ ابراہیم نے اپنے باپ آذر سے کہا آذر ہمارا موقف یہ ہے کہ سگے باپ کو ولد کہتے ہیں اور اب کہنا جو ہے اس میں عم بھی آتا ہے اور سگے باپ کے لیے بھی عم کہتے ہیں جیسا کہ قرآنی اصطلاح میں بھی ہے چنانچہ رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی یہاں پر عباس کو عباس بن عبدالمطلب کو اب کر کے پکارا تھا این ابی العباس تو عباس ابن عبدالمطلب بھی یہاں جنگ میں شریک تھے اور اسیر ہوگئے اور اسارت میں فدیہ بھی دیا اور فدیہ دے کر کے ان کو چھوڑ دیا گیا اور بعد میں بعض مسلمان ہوگئے اور اسلام قبول کیا عباس نے اور مسلمان بننے کے بعد مگر ہجرت نہیں کی یہ ہم اگلی آیت میں آپ کو بتائے گے یہ ایک قابل توجہ مسئلہ ہے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا عباس ابن عبدالمطلب نے ایمان قبول کیا، اسلام قبول کیا لیکن ہجرت نہیں کی اس کا ایک اثر ہے ایک قانون آتا ہے ہجرت نہ کرنے پر ایک قانون آتا ہے اسلام کا امت اسلام کا ایک ایسا ممبر بننا ہوتا ہے کہ جس میں صلح و جنگ ایک ہو سب کی جنگ اور سب کی صلح ایک ہو۔ اس صلح اور جنگ ایک ہونے کو ولایت کہتے ہیں مومن ایک دوسرے کے ساتھ ایک ولایت کے اندر منسلک ہیں اس ایک ولایت کے اندر منسلک ہونے کے لیے ہجرت شرط ہے عباس نے ہجرت نہیں کی لہذا وہ اس ولایت میں منسلک نہیں ہے۔ اور بہت سے لوگوں نے ہجرت نہیں کی لیکن وہ اس ولایت میں منسلک نہیں ہیں۔