تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 55 - 60

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الَّذِينَ كَفَرُوا فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿۵۵﴾
اللہ جل جلالہ کے نزدیک زمین پر چلنے والوں میں بدترین وہ لوگ ہیں جو کافر ہو گئے ہیں، پھر وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
زمین پر چلنے والوں میں الدَّوَابِّ، دَآبَّۃ کی جمع ہے، دَآبَّۃ زمین پر رینگنے والوں کو کہتے ہیں۔ زمین پر رینگنے والا ایک جامع لفظ ہے تمام جانداروں کے لیے اس میں پرندے بھی شامل ہو سکتے ہیں اس عنوان سے کہ وہ بھی زمین پر ہی،زمین کے اوپر ہی سہی، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں۔ تو دَآبَّۃ زمین پر رینگنا، خواہ وہ زمین سے ملحق ہو، متصل ہو یا زمین سے فاصلے پر ہو۔ دونوں زمین کے اوپر رینگنے والوں میں۔ ایک جامع تعبیر ہے جس میں تمام قسم کے جانور شامل ہو جاتے ہیں اس تعبیر میں، دَآبَّۃ میں۔ اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ زمین پر رینگنے والوں میں سب سے بدتر وہ لوگ ہے جو کافر ہو گئے ہیں اور ایمان نہیں لائے گے۔ کافر زمین پر رینگنے والے چرند پرند وحوش اور مار و عقرب بچھو اور سانپ اور دیگر جو مکروہ رینگنے والے زمین پر جانور ہیں ان سب میں بدتر ہے کافر۔ کیوں؟ وجہ کیا ہے؟ حال اینکہ اگر چہ کافر سہی انسان ہے۔ انسان کو ایک قسم کی ایک بالا دستی قائم ہے زمین پر رینگنے والوں میں۔ انسان اشرف ہے سب میں لیکن یہ ان سب سے بدتر کیوں ہو جاتا ہے؟ یہ بات اپنی جگہ واضح ہے روشن ہے، بیان ہوتی رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ کے مخلوقات میں ایک فرشتے ہیں اور ایک یہی جانور ہے اور ایک انسان۔ فرشتے سو فیصد روحانی ہے، ان میں خواہشات کا اصلاً کوئی شائبہ موجود نہیں ہے۔ اور جانور جو ہے وہ سو فیصد خواہشات کے لیے ہے، ان میں روحانیت کا، عقل اور دانش کا کوئی شائبہ نہیں۔ اور انسان ہے وہ مخلوق جس میں دونوں باتیں موجود ہیں۔ اگر انسان ان دونوں باتوں میں توازن برقرار رکھتا ہے باین معنیٰ کہ اس خواہشات کو عقل کے کنٹرول میں، گرفت میں رکھتا ہے، عقل کے اوپر کام کرتا ہے تو فرشتوں سے بھی زیادہ درجہ حاصل کر سکتا ہے یہ انسان۔ اور اگر خواہشات کا پہلو غالب آتا ہے اور عقل جو ہے وہ دب جاتی ہے تو یہ جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انسان کی انسانی قدریں ہیں۔ انسانی قدریں وہ خواہشات کی طرف سے تو نہیں ہے کہ انسان کا گوشت بہتر ہے، پوست بہتر ہے ان کا خون بہتر ہے وغیرہ۔۔۔ انسان کے انسان ہونے اور سب مخلوقات میں بہتر ہونے کی جو وجہ وہ ان میں نہیں ہے۔ وہ ہے عقل اور خرد۔ عقل اور خرد کو جب کام میں نہیں لاتے۔ دوسرے لفظوں میں اپنی غرض تخلیق پر نہیں چلتا یہ انسان جانوروں سے بد تر ہو جاتا ہے۔ جانور غرض تخلیق پہ چلتا ہے، ہاں! چلتا ہے۔ جانوروں کا اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے جس غرض اور جس مقصد کے لیے پیدا کیا ہے اس میں وہ لگے رہتے ہیں۔ جانوروں کو اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے انسان کے لیے مسخر پیدا کیا ہے۔ ان کی غرض خلقت تسخیر برائے انسان ہے۔ انسان کی تسخیر، کیا مطلب؟ یعنی کیا کرنا تھا ان جانوروں کو انسان کے لیے تسخیر دے کر؟ انسان کے لیے دودھ پیدا کرنا تھا، کرتے ہیں، گوشت پیدا کرنا تھا کرتے ہیں، سواری فراہم کرنا تھا کرتے ہیں۔ جو جو بھی حیوان سے جانور سے اللہ تعالیٰ جل جلالہ انسانوں کے لیے کام لینا چاہتا ہے، اس کام میں آتے ہیں یہ لوگ۔ پھر تو یہ لوگ اپنے غرض تخلیق میں آ گئے، اور یہ انسان ظلوم و جہول انسان یہ اپنے غرض تخلیق سے انحراف ہوتا ہے تو جانور سے بدتر لازمی طور پر ہو گیا۔ شَرَّ الدَّوَابِّ زمین پر رینگنے والوں میں سب سے بد تر وہ لوگ ہیں جو انسان ہوتے ہوئے بھی انسانی خصوصیات سے وہ نا آشنا ہے۔ انسانی قدروں سے نا آشنا ہیں۔ وہ انسانی قدریں کیا تھی جن سے یہ لوگ۔۔۔ ؟ ایمان بالله! اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی بندگی تھی، جس نے خلق کیا ہے، جس نے پیدا کیا ہے۔ اور جس نے جس ارتقا کے لیے بھیجا ہے اس ارتقا کی طرف جانا تھا اس انسان کو۔ اللہ جل جلالہ کی بندگی بندے کی ارتقا ہے معراج، یہ نہیں جاتا، معراج کی طرف نہیں جاتا، اللہ جل جلالہ کی بندگی اختیار کر کے۔ یہ نیچے کی طرف جاتا ہے، کھائی کی طرف گر جاتا ہے۔ تو پھر زمین پر رینگنے والوں سے بد تر اور کھائی میں جاتا ہے زمین کے نیچے دفن ہونے والے مخلوق۔ عِنْدَ اللَّهِ اللہ تعالیٰ جل جلالہ کے نزدیک، اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی قدریں اور ہوتی ہیں، اور بندوں کی قدریں اور ہوتی ہیں۔ عِنْدَ اللَّهِ یہ لوگ شَرَّ الدَّوَابِّ ہیں۔ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ البتہ وہ قابل ہدایت بھی نہیں ہوتے اور کافر مرتے ہیں، ان لوگوں کی بات ہے۔ الَّذِينَ آگے ان لوگوں کے اوصاف بیان ہو رہے ہیں ؛ جو لوگ ایمان لانے والے بھی نہیں۔ فی الحال بھی مؤمن نہیں ہے اور آگے ایمان لانے والے بھی نہیں اور الَّذِينَ عَاهَدْتَ مِنْهُمْ نشاندہی صحیح طریقے سے کہ اس میں کسی قسم کی غلط فہمی کے لیے گنجائش نہیں ہے یہ وہ لوگ ہے جن سے آپ نے معاہدہ کیا ہے۔ معلوم ہو گیا نا کہ اس آیت کا اشارہ کن لوگوں کی طرف ہے! الَّذِينَ عَاهَدْتَ مِنْهُمْ یہ وہ لوگ ہیں شَرَّ الدَّوَابِّ وہ لوگ ہیں جن سے آپ نے معاہدہ کیا تھا اے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم! ثُمَّ يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ ثُمَّ نَقَضُ نہیں، يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ بار بار آگے تصریح بھی ہے، فِي كُلِّ مَرَّةٍ لفظ يَنْقُضُونَ سے ہم سمجھ سکتے ہیں یہ تجدد کے لیے آتا ہے، نہ صیغہ فعل مضارع تجدد کے لیے آتا ہے۔ يَنْقُضُونَ پھر وہ توڑا کریں گے، کرتے ہیں، توڑا کرتے ہیں عہد کو، فِي كُلِّ مَرَّةٍ ہر بار، جب بھی آپ ان سے معاہدہ کرتے ہیں یہ لوگ عہد کو توڑتے ہیں۔ معاہدہ عہد اسلامی تعلیمات میں جب کسی کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے آپ کا کسی فرد کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے، ہمارے لوگوں کا کسی کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے ملازمت کے لیے، یا حکومت کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے اس معاہدے پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے، یہ اور بات ہے کہ حکومت عادلہ ہے یا حکومتِ غیر عادلہ ہے۔ حکومت مالک ہے یا حکومت مالک نہیں ہے۔ ہمارے اس فقہی مسئلے سے جدا ہے یہ۔ یہ ذہن میں رہے، سامعین کے ذہن یا ناظرین کے ذہن میں رہے۔ کہ حکومت کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے یا کسی کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے کہ آپ نے اتنے گھنٹے کام کرنا ہے اتنی تنخواہ لینا ہے۔ آپ کو معاہدہ کے اوپر عمل کرنا ہوتا ہے تب وہ تنخواہ حلال ہے ورنہ تنخواہ حلال نہیں ہے۔ عہد اور معاہدہ انسانی حقوق میں شامل ہے۔ اسلامی تعلیمات میں بعض باتیں ہیں عدل انصاف اور امانت کی واپسی اور عہد و میثاق کے اوپر عمل کرنا انسانی حقوق ہے۔ یہ مسلمان اور غیر مسلم اس میں فرق نہیں ہے۔ کسی مسلمان کے ساتھ آپ کا معاہدہ ہوتا ہے آپ کو عہد پورا کرنا ہوگا، غیر مسلم کے ساتھ ہوتا ہے معاہدہ پورا کرنا ہوگا۔ پابند ہے آپ، نہیں توڑ سکتے جب تک وہ نہیں توڑتے۔ کسی مسلم غیر مسلم نے آپ کے پاس کوئی چیز امانت رکھی ہے، آپ اس میں خیانت نہیں کر سکتے، ادا کرنا ہوتا ہے، عدل و انصاف دینا ہے خواہ یہود ہے، نصاریٰ ہے ہندو ہے کافر ہے، آپ کے پاس عدالت کے لیے آتا ہے فیصلہ آپ کو عدالت کے ساتھ ان میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے، عدل و انصاف، عہد و معاہدہ، ادائے امانت یہ انسانی حقوق میں سے ہے۔ اس میں مسلم و غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ لوگ اس انسانی حقوق سے بھی نا آشنا ہے، شَرَّ الدَّوَابِّ کیوں شَرَّ الدَّوَابِّ ہیں یہ لوگ؟ یہ انسانی حقوق سے نا آشنا ہے یہ لوگ، آپ ان کے ساتھ معاہدہ کرتے ہیں اور پھر وہ اس عہد کو توڑتے ہیں، عہد کا توڑنا انسانی حقوق کی پامالی ہے۔
آگے ارشاد فرمایا فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ ﴿۵۷﴾
ارشاد فرمایا کہ؛ اگر آپ لڑائی میں ان پر غالب آ جائیں تو ان کو ایسی کڑی سزا دے دو کہ ان کے ذریعے بعد میں آنے والوں کو بھگا دے۔ شَرِّدْ بھگا دیں بِهِمْ ان کو سزا دے کر مَنْ ان لوگوں کو بھگا دیں خَلْفَهُمْ جو آنے والے ہیں ان کے پیچھے۔ جو دشمنوں کے جو لین لگی ہوئی ہے آپ کے خلاف، اسلام کے خلاف،وہ ایک سلسلہ جاری ہونے والا ہے اسلام کے خلاف تو آنے والے دشمنوں کو عبرت دے دو ان لوگوں کو کڑی سزا دے کر۔ فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ یہ لوگ آپ کے ساتھ عہد و میثاق توڑتے ہیں۔ معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو پھر لڑائی ہوگی۔ یعنی آگے ہم بتا دیں گے کن لوگوں کے ساتھ یہ معاہد ہیں۔ لڑائی ہوگی، یعنی امن نہیں ہوگا، معاہدہ تھا امن کے ساتھ باہمی ہم زیستی امن کے ساتھ زندگی کرنے، ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے، آپ ہم کو کچھ نہ کہیں۔ آپ ہمارے دشمن کے ساتھ تعاون نہ کریں ہم آپ کے دشمن کے ساتھ تعاون نہ کریں۔ ہماری کسی دشمن کے ساتھ لڑائی ہوتی ہے تو آپ غیر جانبدار رہیں گے۔ آپ کی کسی کے ساتھ لڑائی ہوتی ہے تو ہم بھی غیر جانبدار رہیں گے۔ اس قسم کا معاہدہ ہوتا ہے۔ اس معاہدے کو جب چھوڑتے ہیں توڑتے ہیں جب عہد کو تو لڑائی چھڑ جاتی ہے۔ لڑائی چھڑ جائے یہ عہد توڑنے والے جو انسان قدروں سے نا آشنا لوگ ہیں یہ جو معاہدہ توڑتے ہیں پھر آپ کے ان کے ساتھ لڑائی ہوتی ہیں تو ایسی سزا دیں ان کو کہ؛ صرف ان کو سامنے نہ رکھیں، پیچھے بہت سے دشمن جو اپنی سازشوں کو تیار کر رکھتے ہیں آپ کے اور اسلام کے خلاف ان کو بھی بھگا دیں، ان کو بھی مایوس کر دیں۔ ایسی عسکری اور جنگی حکمت عملی اختیار کریں اور کیا گیا کہ بعد میں بتا تے ہیں۔ ایسا حربی حکمتِ عملی اختیار کریں کہ ان کی سازشیں ناکام ہو جائیں۔ اور یہ اپنے برے عزائم میں نا امید ہو جائیں۔ ایسا ہی کیا رسالتمآب نے، آگے بتا دیتے ہیں کہ کون لوگ ہیں اور رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس آیت پر عمل کرتے ہوئے کیا کیا؟ اور اس کام سے جزیرہ عرب میں یہودیوں کی سازش وہ کس طرح ناکام بنا دی گئی اور یہودیوں کے جو عزائم تھے اسلام کے خلاف وہ خاک میں کیسے مل گئے، اس آیت پر عمل کرنے کی وجہ سے۔ فَشَرِّدْ بِهِمْ ان کو سزا دے کر بھگا دیں مَنْ خَلْفَهُمْ آنے والوں کو، لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ شاید یہ لوگ عبرت حاصل کریں۔
وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ
اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا خوف ہو خیانت کس چیز کی خیانت؟ عہد و معاہدہ ہے ہم باہمی امن آشتی کے ساتھ زندگی کریں گے کا معاہدہ ہے اور خیانت کے آثار سامنے آتے ہیں خیانت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ تو پھر آپ بھی اس عہد کو توڑ دیں۔ یعنی عہد توڑا تو ان لوگوں نے ہے، جب وہ اس معاہدے کو توڑ دیں گے تو آپ اس عہد کی پابندی نہیں کریں گے۔ عہد کو توڑنے میں مسلمانوں کے لیے منع ہے کہ وہ پہل نہیں کریں۔ نہیں کر سکتے، انسانی حقوق میں سے ہے۔ اگر وہ توڑتے ہیں آپ بھی اس عہد کو مسترد کر دیں عَلَىٰ سَوَاءٍ اسی طرح، زیادہ نہیں، جیسے انہوں نے عہد توڑا ہے اسی طرح عہد توڑ دیں۔ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ خدا خیانت کاروں کو دوست نہیں رکھتا۔
اس کے بعد فرمایا؛ وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَبَقُوا
کافر لوگ یہ خیال نہ کریں کہ وہ بچ نکلے ہیں، تھے وہ کسی قسم کی غلط فہمی میں۔ یہاں ہم نے مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کیا اور ان کو غلط فہمی میں ڈال کیا اور ان کو غلط فہمی میں ڈال کر کے ہم نے اپنا کام کر دیا، اور اب ہم ان کی گرفت میں نہیں آئیں گے۔ فرمایا کہ یہ خیال نہ کرو، إِنَّهُمْ لَا يُعْجِزُونَ وہ ہم کو عاجز نہیں کر سکیں گے۔ اس میں مسلمانوں کے لیے ایک نوید ہے۔ فتح اور کامرانی کی۔ نوید ہے کہ وہ مسلمانوں کی گرفت سے نہیں بچیں گے۔ وہ اپنے عہد شکنی کی وجہ سے، عہد شکنی کا مطلب یہ ہے کہ ہم عہد شکنی کریں گے کیا کر سکتے ہیں یہ لوگ۔ وجہ یہ تھی کہ یہودیوں کی اس سوچ کی وجہ کہ وہ یہ خیال کرتے تھے کہ ہم بچ نکلے ہیں۔ کہ اسلامی معاشرہ مدینہ میں اس وقت جس وقت اس معاہدے کی بات ہو رہی ہے، اس وقت مختلف مشکلات میں گھرا ہوا تھا اسلامی معاشرہ۔ پہلی بات یہ تھی کہ مدینے کا جو اسلامی چھوٹا سا معاشرہ وہ اپنی تشکیل کی ابتدائی دنوں سے گزر رہا تھا، تشکیل نو کر رہا ہے، تازہ تازہ مکے سے ہجرت کر کے مدینے میں آئے ہیں اور مدینے میں رہنے سہنے میں جگہ بھی نہیں گھر بار بھی نہیں، معیشت بھی نہیں۔ کھیتی باڑی کو تو یہ لوگ جانتے بھی نہیں مکہ والے۔ جنہوں نے کوئی کھیتی باڑی نہیں دیکھی تھی۔ اور کوئی زمین بھی نہیں ہے کھیتی باڑی جانتے بھی نہیں ہے۔ اور اس قسم کا معاشرہ۔۔۔ سب کا سب بوجھ تھا انصار کے اوپر، انصار کی بہت بڑی خدمت ہے اسلام کے لیے۔ خطبہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) سے بھی معلوم ہے کہ انصار تمہاری وہ وہ خدمت ہے آج کیا ہوا کہ ہماری مدد کر رہے ہیں! اس عنوان سے۔ ایک یہ مجبوری ہے کہ بے سر و سامانی میں معاشرہ سا ہے جو اپنی تشکیل نو میں لگا ہوا ہے اور نہایت بے سر و سامان ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جنگ بدر کے بعد مشرکین جو ہے وہ انتقامی جذبے میں اور ویسے حسد کے جذبے میں سرشار مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کی تیاریوں میں لگا ہوا ہے۔ دو، تیسری طرف منافقین نے سر اٹھانا شروع کیا ہے، تین۔ چوتھی طرف یہ لوگ! یہ لوگ کون ہیں؟ کون لوگ ہیں؟ یہود! ان چار طرف سے اسلامی ایک چھوٹے سے معاشرے کو خطرات نمودار ہو رہے تھے، ہر چار طرف سے۔ اس وقت یہود نے دیکھا کہ اب ہم بچ نکلے۔ یہ لوگ مشکلات میں ہے، ایک نہیں کئی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں، توڑ دو معاہدہ، کیا کر سکتے ہیں یہ لوگ؟ وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَبَقُوا یہ خیال نہ کریں کہ ہم نکل گئے، بچ گئے، نہیں بچ گئے تم، إِنَّهُمْ لَا يُعْجِزُونَ یہ بہت بڑی فتح کی نوید ہے، خوشخبری ہے، مسلمانوں کے لیے اصل میں یہود جو مدینے میں ہوتے تھے، مختلف بنی نظیر ہے، بنی قریضہ ہے، بنی قینقاع۔ اس قسم کے مختلف قبائل تھے جو اس عہد و معاہدے میں رسالتمآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ شریک تھے ان لوگوں نے اپنا عہد و معاہدہ توڑ دیا اور رسالتمآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا کیا ان لوگوں کے ساتھ؟ ان لوگوں کے ساتھ جب ان لوگوں نے عہد وہ معاہدہ توڑ دیا تو ان لوگوں کو مدینہ سے نکال باہر کر دیا۔ یہ فَشَرِّدْ بِهِمْ ان کو بھگاؤ دور، شَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ ان کو ایسے دور بھگایا، ان کو اپنے املاک سے بھی محروم کر دیا، اپنی زمینوں سے محروم، اپنے گھروں سے محروم کر دیا، جب دیکھا کہ وہ مشرکیوں کے ساتھ جو ہے وہ ہمنوا ہیں، انکو اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔ اس طرح فَشَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ رسالتمآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمل کیا اور یہود کی سازش وہ ناکام بنا دی وہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کی سازش کرنے یا مشرکین کے ساتھ ہم دست ہونے کے پوزیشن میں نہیں رہے۔ وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَبَقُوا ۚ إِنَّهُمْ لَا يُعْجِزُونَ یہ ایک اسلام کے اور قرآن کی حقانیت کی بھی ایک دلیل ہے کہ اس سلسلے میں یہود نا کام رہ گئے۔
اگلی آیت ہے سورہ انفال کی آیت نمبر 60، اس میں ارشاد فرمایا؛
وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ
اس آیت کے اوپر مشروحاً آئندہ گفتگو کریں گے، آج ایک مختصر سی بات کہ یہود کے ساتھ عہد و معاہدہ توڑنے اور ان کے سازشوں کو ناکام بنانے کو ذکر کرنے کے بعد وَأَعِدُّوا اور تیار رکھو! لَهُمْ ان دشمنوں کے مقابلے کے لیے، مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ جتنا ہو سکتا ہے تم سے، تیار رکھو، مَا اسْتَطَعْتُمْ، یہ خطا ہے تمام مسلمانوں سے خطاب ہے۔ بحیثیت ایک قوم، بحیثیت ایک معاشرہ، بحیثیت ایک ملت یہ حکم ہے سب کے لیے اس میں فرد فرد سامنے آتا ہے کہ ہر ایک کے اوپر واجب ہے کہ حربی قوت میں اضافے کے لیے اپنا حصہ ڈالے۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ قوت طاقت، طاقت سے مراد وہ افرادی طاقت ہے اور دیگر افرادی مالی طاقت، مالی بعد میں ذکر بھی آتا ہے، وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ اور پلے ہوئے گھوڑوں کے حوالے سے بھی مستعد رکھو، وَأَعِدُّوا گھوڑے اس زمانے میں مواصلات کا بہترین ذریعہ تھا گھوڑا،یہ ایک ہر زمانے کے ساتھ ایک تعبیر ہوتی ہے، لیکن العبرۃ بعموم اللفظ لابخصوص السبب اگر یہ عہد و معاہدہ جو ہے یہودیوں کے ساتھ ہے تو اس زمانے کے یہود کے ساتھ یہ آیت مخصوص نہیں ہے یہ اصول تفسیر میں ہم ہمیشہ بیان کرتے ہیں کہ یہ صرف اس زمانے کے یہود کے ساتھ کا معاملہ ہے، لَهُمْ ہم کہیں گے ان کے ساتھ لڑنے کے لیے کرو ورنہ نہ کرو، ایسا نہیں ہوتا۔ اگر وہ لوگ خیانت کرتے ہیں کہ اگر سبب نزول یہود ہے تو غیر یہود اگر یہ معاہدہ کرتے ہیں معاہدہ توڑتے ہیں تو وہاں بھی یہ آیت اس کے اوپر۔۔۔ کوئی ہنود ونود معاہدہ توڑتے ہیں اور کوئی اور دشمنوں کا جو مقابلے میں کافر لوگ ہیں معاہدہ توڑتے ہیں ان سب کے لیے یہ حکم ہے، صرف اور صرف شان نزول اور جن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ان تک محدود نہیں ہے۔ یہ تفسیری اصول میں ایک مسلمہ اصول ہے العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ