تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 39 - 40

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

سورہ انفال، آیۃ ۳۹-۴۰
وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۳۹﴾
اس آیت کی روشنی میں اسلام کا موقف غیر مسلم لوگوں کے بارے میں، اس آیہ شریفہ میں ارشاد فرمایا:
وَ قَاتِلُوۡہُمۡ ان کافروں کے ساتھ لڑائی کرو، جنگ کرو، حَتّٰی حتی کا معنی کل آپ کو بتایا؛ تاکہ، لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ حتی بیانِ علت کے لیے ہے کہ قَاتِلُوا کس وجہ سے؟ قَاتِلُوا کی وجہ یہ ہے کہ لوگ سب مسلمان ہو جائے، قَاتِلُوا کی غرض و غایت یہ ہے کہ سب لوگ کلمہ پڑھیں؟ نہ، قرآن کی تعبیر یہ ہے کہ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ فتنہ نہ رہے، اسلامی جنگیں فتنے کے خلاف ہیں، دفاعی جنگیں ہیں، اور اگر اسلام کے خلاف آئے دن فتنہ برپا نہ کرتے تو قرآن نے کہا ہے وَ اِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجۡنَحۡ لَہَا اور اگر یہ لوگ سلم یعنی امن کے مائل ہو جاتے ہیں تو مسلمانوں کے لیے بھی حکم ہے کہ امن کے ساتھ رہیں۔ بات فتنے کی ہے، فتنہ نہ ہونے تک جنگ کرو ان لوگوں کے ساتھ کہ وہ اپنے فتنے سے باز آئیں۔ اگلا جملہ ہے وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ، قَاتِلُوا، جنگ کرو تاکہ فتنہ نہ رہے، جب فتنہ نہیں رہے گا تو اس وقت دین جو ہے وہ خالص اللہ کے لیے ہو جائے گا۔ فتنہ نہ رہے تو دین اللہ کے لیے خالص ہو جائے گا۔ کُلُّہٗ لِلّٰہِ اس کا کیا یہ مفہوم ہے کہ ان کے ساتھ لڑائی کرو تاکہ یہ لوگ دین اسلام میں آجائے، سب لوگ کلمہ پڑھے، کلمہ پڑھنے تک، پھر تو یہ اعتراض آتا ہے کہ اسلام جو ہے وہ تلوار کی طاقت سے پھیلا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ کی تشریح کے لیے اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضَہٗ بَعْضًا قرآن تفسیر کرتا ہے خود اپنی تفسیر کرتا ہے، قرآن خود مفسَر بھی ہے مفسِر بھی۔ اس آیت کی تفسیر کے لیے ہم دیگر آیات کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ کیا حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ سے مراد یہ ہے کہ لوگ کلمہ توحید پڑھیں اور اسلام میں داخل ہو جائیں؟ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ کا کیا مقصد؟ دیگر آیات کا ارشاد ہے؛ فَاعۡتَدُوۡا عَلَیۡہِ بِمِثۡلِ مَا اعۡتَدٰی عَلَیۡکُمۡ یہی ہے وَ اِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ کا بھی ابھی ذکر ہوا، لہٰذا اگر وہ امن کے ساتھ رہنا چاہتا ہے تو تم بھی امن کے ساتھ رہو۔ جبر وبر نہ چلو، کلمہ کہنے تک کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، کبھی بھی نہیں کہا۔ فتنہ ختم ہونے تک اور دین اللہ کے لیے دِّیۡنُ کُلُّہٗ اللہ کے لیے ہو، اس کی وضاحت ضروری ہے۔ دِّیۡنُ کُلُّہٗ اللہ کے لیے ہو کا کیا مطلب ہے؟
اس دین کے بارے میں قرآن نے کہا ہے لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ، الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ جس دین کے بارے میں اس آیت میں ارشاد ہے کہ دین کُلُّہٗ لِلّٰہِ ہو اس دین کے بارے میں تو اکراہ نہیں ہے، لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ اس دین میں اکراہ نہیں ہے ایک طرف، اور دوسری طرف دین سب کا سب اللہ کے لیے ہو، تک جنگ کرو، دو باتیں، یہ دو باتیں کیسے جڑتی ہیں؟ یہ دین اسلام، دین اسلام کا دستور حیات کیا ہے؟ دستور حیات یہ ہے کہ اس میں اس دین کو اپنانے کے لیے جبر نہیں۔ یہ جبر نہ ہونا دین کا حصہ ہے۔ جبر نہیں ہے، وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ جبر نہیں ہے اس دین میں، نہ دین کے حق میں جبر ہے نہ دین کے خلاف جبر ہے۔ دونوں جبر نہیں ہے، آخر جب جبر نہیں ہے تو اسلام قبول کرنے کے لیے بھی جبر نہیں استعمال ہوگا لَسْتَ عَلَیْهِمْ بِمُصَۜیْطِرٍ صرف آپ تبلیغ کر سکتے ہیں ان کے اوپر آپ کو جبر چلانے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس دین کے قبول کرنے کے لیے بھی جبر نہیں ہے اکراہ نہیں ہے۔ اور اس دین کے رد کرنے کے لیے بھی جبر اور اکراہ جو ہے وہ دین میں نہیں ہے۔ آپ دونوں میں جبر نہیں کر سکتے۔ جب آپ اسلام قبول کرنے کے لیے جبر نہیں کر سکتا تو اسلام قبول کرنے والوں پر بھی جبر نہیں ہو سکتا کہ اسلام کو چھوڑو، اسلام کو اپناؤ کے لیے بھی جبر نہیں ہے اور اسلام کو چھوڑو یا اسلام کی طرف نہ جاؤ کے لیے بھی جبر نہیں ہے۔ اکراہ نہیں ہے، اکراہ نہیں ہے لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ایجاباً و سلباً لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ دونوں پہلوؤں میں جبر نہیں ہے، یہ دین ہے۔ عدم جبر دین ہے۔ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ فتنہ نہ ہو، جب فتنہ ہو گا وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ہو جائے گا، جبر نہیں رہے گا دین قبول کرنے والوں کے خلاف بھی جبر نہیں رہے گا اور دین قبول نہ کرنے والوں کے خلاف بھی جبر نہیں رہے گا جب جبر ختم ہو جائے گا تو یہ دین کُلُّہٗ لِلّٰہِ ہو جائے گا۔ پھر دین کُلُّہٗ لِلّٰہِ ہوتا ہے۔ اس کے لیے استشہاد ہے اور ایک اور آیت سے کہ اہل کتاب کے ساتھ جنگ کرو حَتّٰی یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ جزیہ دینے تکل، جزیہ ملنے تک جنگ کرو، جزیہ دینے تک جنگ کرو، اہل کتاب کی طرف سے جزیہ وصول کرنا دین ہے، جزیہ وصول کرنے کے بعد جنگ نہ کرنا دین ہے، جزیہ ان سے وصول کرنے کے لیے ہمارے کچھ لوگ معذرت خواہانہ لہجہ اختیار کرتے ہیں اصلا کوئی ضرورت نہیں اس چیز کی کہ اسلام نے کہا ہے کہ اہل کتاب سے جنگ کرو جزیہ دینے تک، جزیہ دینا کیا ہوتا ہے؟ فتنہ نہ کرو، امن و سکون کے ساتھ رہنے کے لیے معاہدہ کرو، آپ مسلمان سے زکوٰۃ لیتے ہیں اور غیر مسلم سے جزیہ لیتے ہیں۔ اور مسلمانوں سے زکوٰۃ لینے کے بعد ان مسلمانوں کو اسلامی ریاست تحفظ دیتی ہے، اہل کتاب کو بھی تحفظ دے گا یہ اسلام یہ دین۔ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ یہ پورا کا پورا دین اللہ کے لیے ہو جائے یعنی جبر کا اور اکراہ کا خاتمہ ہو جائے، جب وہ جزیہ دیں گے تو قتال نہیں ہے، جزیہ دینے کا مطلب یہ ہے وہ مسلمان نہیں ہوئے، کلمہ پڑھا۔ کلمہ پڑھے تو پھر تو جزیہ نہیں لیں گے ان سے زکوٰۃ لیں گے۔ اگر کلمہ نہیں پڑھتے ہیں وہ اپنے دین کے اوپر یہود رہتے ہیں، نصاریٰ رہتے ہیں، مجوسی رہتے ہیں، ان کو رہنے دیا جائے گا، ان کو اپنے دینی مراسم ادا کرنے میں سو فیصد آزادی ہوگی۔ نجران کے لوگ مباہلے کے لیے آئے تھے رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں، ان کی عبادت کا وقت آتا ہے، اور عبادت کرنا شروع کر دیتے ہیں مسجد نبوی میں، خود رسالتمآب موجود ہیں، اصحاب میں سے کچھ لوگوں نے کہا؛ ان کو یہ نہ کرنے دو! رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منع کیا ان کو اپنا مذہبی عبادت جو ہے وہ ان کو کرنے کی اجازت دے دو۔ ہماری مسجد حرام کے بعد مسجد نبوی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل مسجد ہے۔ مسجد نبوی میں مسیحیوں نے اپنی عبادت کی آزادی کے ساتھ، یہ ہے اسلام، یہ دین ہے۔ حَتّٰی یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ میں یہ بات بھی شامل ہے، عدمِ جبر، کہ غیر مسلم کو بھی اہل کتاب کو اپنے مذہب کے اوپر عمل کرنے کی اجازت دی جائے۔ یہ دین کا حصہ ہے وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ دین سب کے سب اللہ کے لیے ہو، مطلب یہی ہے کہ دین اسلام نے جو مسلمانوں کو دستور حیات دیا ہے کلمہ پڑھنے والوں کے لیے، اور اسی دین اسلام کے دستور حیات میں کلمہ نہ پڑھنے والوں کے لیے بھی حکم ہے اور مشرکین کے لیے بھی حکم ہے؛ فَاعۡتَدُوۡا عَلَیۡہِ بِمِثۡلِ مَا اعۡتَدٰی عَلَیۡکُمۡ یہ دین دین اسلام کے دستورِ حیات کا ایک حصہ ہے، اور غیر مسلم لوگوں کے ساتھ کس طرح پیش آنا ہے یہ تعلیم اسلامی نظام حیات کا ایک حصہ ہے، اس حصے کے اوپر عمل پیرا ہو جاتے ہیں تو یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ہو گیا، فتنہ اور فساد کے لیے، سازش کے لیے، جبر و اکراہ کے لیے، آئے دن کی یہ جو فتنہ ہے مسلمانوں کے خلاف، چنانچہ آج کل بھی ہے یہ فتنہ، مسلمانوں کے خلاف بہت بڑا فتنہ ہے، اور نبرد آزما ہے حقیقتاً اس وقت عالمِ استعمار اور عالمِ کفر کے خلاف آئے دن اسلامی مقدسات کی اہانت ہوتی ہے آئے دن اسلامی مقدسات کے خلاف گستاخی کرتے ہیں۔ اور یہ ہم ہمیشہ دیکھ رہے ہیں، یہ فتنہ اسلام قبول نہیں کرتا، یہ فتنہ نہ کرو، وہ اگر اپنے مذہب کے اوپر عمل کرتے ہو تو کرو، تم کو اسلام کی طرف ٹیڑی نگاہ رکھنے کا حق حاصل ہے اور نہ اسلام کو تمہارے خلاف جبر اور اکراہ کا حق حاصل ہے۔ یہ حق حاصل نہیں ہوگا، ہر ایک کو آزادی حاصل ہوگی، اپنے مذہب اختیار کرنے میں آزادی ہے، دین کا تعلق انسان کے قلب اور شعور سے ہے۔ انسان کا قلب جو ہے اکراہ کو قبول نہیں کرتا، قلب انسان اکراہ کی زبان نہیں سمجھتا، اصلاً سمجھتا ہی نہیں۔ وہ دلیل اور منطق کی زبان سمجھتا ہے، کہ دین قبول کرنے والا دل منطق اور دلیل کی زبان سمجھتا ہے جبر کی زبان اصلاً سمجھتا ہی نہیں کہ یہ کہا جائے کہ لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ دین میں اکراہ نہیں ہے، باین معنی بھی ہے کہ اگر کسی کے اوپر اگر آپ جبر چلائیں گے اکراہ کریں گے اور وہ کلمہ پڑھ دے گا، جبر کی وجہ سے اکراہ کی وجہ سے، وہ کلمہ نہیں ہے، وہ دین نہیں ہے، کلمہ پڑھتے ہیں یا اسلام قبول کرتے ہیں تو اس کا دل قبول کرے تو وہ اسلام ہے، وہ کلمہ ہے۔ دل جبر کو نہیں مانتا، اگر کسی کے اوپر کوئی جابر کوئی ظالم جبر چلاتا ہے تو گردن جھک جاتی ہے دل نہیں جھکتا، دل زیادہ اس سے متنفر ہو جاتا ہے اور دور بھاگ جاتا ہے، دل جبر کی زبان نہیں سمجھتا۔ لہٰذا لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ کا جو حکم ہے یہ حکمِ ارشادی ہو سکتا ہے، حکم تشریعی نہیں ہے۔ چونکہ اسلام نے کہا ہے جبر نہیں ہے لہٰذا ہم جبر نہیں چلاتے ورنہ ہم مجبوراً مسلمان بنا دیتے، مجبوراً جو آپ بناتے ہیں وہ مسلمان نہیں ہوتا، یہ حکمِ ارشادی ہے ایک واقع اور نفس الامری کی نشاندہی ہے۔ لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ایک امر واقع کی نشاندہی ہے کہ واقع میں حقیقتاً ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ہو نہیں سکتا کہ کسی کے دل کے اوپر اس کے قلبی رجحانات کے اوپر جبر چلائیں، یہ قلب اس قسم کی جبر کے منطق کو سمجھنے کے لیے حاضر نہیں ہے۔
فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ اگر یہ لوگ باز آ جائیں، کس چیز سے؟ فتنہ سے! فتنہ کرنا بند کر دیا ان لوگوں نے، فتنہ نہیں کیا، جب فتنہ نہیں کیا تو قَاتِلُوا نہیں۔ فَاِنِ انۡتَہَوۡا جب یہ لوگ فتنے سے باز آ جاتے ہی، یہ نہیں کہا؛ فَاِنۡ اَسۡلَمُوۡا
اللہ نے یہ نہیں کہا کہ لڑائی کرو، اور دین سب کے سب اللہ کے لیے ہونے تک لڑائی کرو، پھر اس کے بعد یہ نہیں فرمایا فَاِنۡ اَسۡلَمُوۡا اگر وہ لوگ اسلام قبول کرتے ہیں تو فَلَا عُدۡوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ایک اور آیت میں ہے وَ قٰتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ، یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ تو فَاِنِ انۡتَہَوۡا کہہ دیا، اگر ظلم سے، فتنہ سے باز آ جائے، یہ نہیں کہا فَاِنۡ اَسۡلَمُوۡا لہٰذا یہ بات فتنے کی ہے، اور یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ وہ مذہبی رواداری ہے، خود مختاری ہے، عقیدہ اور نظریہ اختیار کرنے میں آزادی کی بات ہے۔ لیکن یہاں فتنہ اگر ختم کرتے ہیں مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے، لڑائی ختم کرنے کے لیے، امن و سلامتی کے لیے، امن و سکون کے ساتھ باہم ہم زیستی کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ اسلام قبول کرے کلمہ پڑے، یہ ضروری ہے اِنِ انۡتَہَوۡا باز آ جائے، باز آ جائیں تو فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ باقی جو ان کے انفرادی عمل ہوتے ہیں وہ لوگ سب جمع ہو کر کے مسلمانوں کے خلاف فتنہ قائم کرنے، مسلمانوں کے اوپر جبر قائم کرنے، اسلام کی طرف جانے والوں کے اوپر ظلم و ستم کرنے سے یہ لوگ باز آ گئے، باز آنے کے بعد وہ شرک کرتے رہے، اس کو اللہ جانتا ہے، شرک کی جزا یہاں نہیں ملے گی۔ فَاِنِ انۡتَہَوۡا اگر یہ باز آ جاتے ہیں اور شرک کرتے رہتے ہیں مشرک رہتے ہیں تو ان کی اس عملِ مشرکانہ کو اللہ بہتر جانتا ہے پھر اللہ جو ہے قیامت کے دن ان کے ساتھ معاملہ کرے گا۔ یہاں معاملہ چونکہ یہ لوگ فتنہ نہیں کر رہے ہیں، انۡتَہَوۡا باز آ گئے ہیں، باز آنے کے بعد پھر اللہ کے ساتھ معاملہ ہے، معاملہ پھر کیا رہتا ہے؟ ان کا اللہ کے ساتھ معاملہ رہتا ہے، اہل کتاب سے بھی کہا کہ ان کے ساتھ لڑائی کرو جزیہ دینے تک، کہ امن و سلامتی کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ ہم زیستی کرے۔ ٹھیک ہے بعد میں پھر اہل کتاب رہتے ہیں اسلام قبول نہیں کرتے ہیں تو فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ وہ جو اپنے اہل کتاب ہونے کی صورت میں، یہود یا نصاریٰ ہونے کے صورت جو وہ عمل کرتے ہیں اس کا تعلق پھر اللہ تعالیٰ سے ہوگا، اس کا حساب کتاب ان کو اللہ سے دینا ہے، تم ان کے ساتھ واسطہ نہ رکھنا، کیوں واسطہ نہ رکھوں، اس لیے کہ یہ فسادی تو نہیں ہیں، فتنہ تو نہیں کر رہے ہیں، تم پر جبر چلانا نہیں چاہتے، تمہارے اسلام کے خلاف آئے دن سازشیں نہیں کرتے، جب یہ سازشیں نہیں کرتے، مسلمانوں کے اوپر ظلم چلاتے یہی یہود والے جو مدینے میں تھے یہود، ان لوگوں نے گٹھ جوڑ کیا تھا مشرکین کے لیے، مشرکین نے یہودیوں سے پوچھا کہ یہ جو محمد تازہ مذہب لے کر کے آیا ہے یہ مذہب صحیح ہے یا ہمارا مذہب صحیح ہے، یعنی مشرکین، مشرکوں کا مذہب، تو ان یہودیوں نے کہا تھا نہیں، اس محمد کے دین سے تو تمہارا مذہب صحیح ہے، تمہارا مذہب جو ہے وہ اس سے بہتر ہے یہ محمد جو دین پیش کر رہا، حالانکہ اہل کتاب اور مسلمانوں کے درمیان مشترکات بہت زیادہ ہیں؛ یہ شرک کا وہ قیامت کو تسلیم نہیں کرتے، وہ رسالت کو تسلیم نہیں کرتے، وہ وحی کو تسلیم نہیں کرتے، اور یہ اہل کتاب وحی کو تسلیم کرتے ہیں، رسالت کو تسلیم کرتے ہیں، آخرت کو تسلیم کرتے ہیں ان تمام مشترکات کے با وجود یہ فتنہ پرور اہل کتاب ہیں ان لوگوں نے حمایت شروع کر دی مشرکین کی، اتنے مشترکات کے باوجود، مشرکین کے اور اہل کتاب کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ جیسے اسلام کے ساتھ کوئی قدر مشترک نہیں ہے اسی طرح یہودیت اور نصرانیت کا بھی مشرکین کا کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ قدر مشترک نہ ہونے کے باوجود وہ ان لوگوں کے ساتھ ہم دست ہو گئے تھے مشرکین کے ساتھ، یہ ایک فتنہ ہے، اس فتنے کی اجازت نہیں ہے لوگوں کو مسلمان ہونے دیا جائے، یہ فرمایا فَاِنِ انۡتَہَوۡا اگر یہ لوگ باز آتے ہیں تو ان کی انفرادی عمل تو مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے، ان کا اپنا عمل ہے وہ شرک کرتا ہے اور وہ رسالتمآب کو تسلیم نہیں کرتے وغیرہ، یہ ان کا انفرادی عمل ہے، وہ انکا اور اللہ کے ساتھ معاملہ ہے، تمہارے ساتھ ہم زیستی کا معاملہ ختم ہو گیا فتنہ ختم کرنے کی وجہ سے۔ اب تم ان کے متعرض نہ ہو، یہ نہ کہو کہ تم اسلام کیوں نہیں قبول کرتے، یہ نہ کہو کہ تم ہمارے مسجدوں میں کیوں نہیں آتے، تم نماز کیوں نہیں پڑھتے، کلمہ توحید کیوں نہیں پڑھتے، یہ اللہ کے ساتھ معاملہ ہے ان کا تمہارے ساتھ نہیں ہے۔ تمہارے ساتھ معاملہ تھا امن کے ساتھ رہنا، اب یہ لوگ امن کے ساتھ رہ رہے ہیں فتنے سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔
وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا اور اگر یہ منہ پھیر لے، فتنہ سے ہاتھ اٹھانے یا فتنہ سے باز رہنے کے لیے حاضر نہیں ہے، اگر یہ فتنے سے باز رہنے کے لیے حاضر نہیں ہے وہ اپنا فتنہ برقرار جاری رکھتے ہیں تو اس وقت کیا ہوگا؟ اس وقت قَاتِلُوا کا حکم جاری رہے گا، اس فتنے کے خلاف جنگ کرو، اس فتنے کی آگ کو بجھا دو، اس فتنے کی آگ کو بجھانے کے لیے حکم خدا کے دائرے میں رہ کر کے جنگ کرتے ہو تو وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَوۡلٰىکُمۡ ؕ نِعۡمَ الۡمَوۡلٰی وَ نِعۡمَ النَّصِیۡرُ﴿۴۰﴾
پھر تمہارا سرپرست، تمہارے اوپر حاکمیت رکھنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بالا دستی ہے اس کائنات کے اوپر، وہ تمہارے لیے بہترین بھروسے کی جگہ اور بہترین مددگار ہے، خدا تمہاری مدد کرے گا، اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے ساتھ رہے گی، اس فتنے کے خلاف جنگ جاری رکھو، اگر وہ اس فتنے کو ختم کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے، اس فتنے کو جاری رکھتے ہیں تو تم بھی ان کے خلاف، اس فتنے کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھو۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ