تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 42 - 44

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

اِذۡ اَنۡتُمۡ بِالۡعُدۡوَۃِ الدُّنۡیَا وَ ہُمۡ بِالۡعُدۡوَۃِ الۡقُصۡوٰی وَ الرَّکۡبُ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ ؕ وَ لَوۡ تَوَاعَدۡتُّمۡ لَاخۡتَلَفۡتُمۡ فِی الۡمِیۡعٰدِ ۙ وَ لٰکِنۡ لِّیَقۡضِیَ اللّٰہُ اَمۡرًا کَانَ مَفۡعُوۡلًا ۬ۙ
جنگ بدر کے بارے میں ہے یہ آیت ……سورۃ انفال آیت 42
اِذۡ وہ وقت یاد کرو جب اَنۡتُمۡ بِالۡعُدۡوَۃِ الدُّنۡیَا تم قریبی جانب تھے الۡعُدۡوَۃِ ناکے کو، جانب کو کہتے ہے نزدیک ترین ناکے پر تھے وَ ہُمۡ اور دشمن بِالۡعُدۡوَۃِ الۡقُصۡوٰی دور ترین ناکے پر تھے نزدیک اور دوری سے مراد مدینے سے مدینے سے دور اور مدینے سے قریب جانب تھے وَ الرَّکۡبُ اور تجارتی قافلہ الرَّکۡبُ قافلے کو کہتے ہے تجارتی ہو یا کوئی اور الرَّکۡبُ قافلہ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ تم سے نیچے کی جانب تھا۔
جنگ بدر کا نقشہ بیان فرمایا جا رہا ہے، یہ بدر کا نقشہ کچھ اس طرح تھا کہ دشمن نشیبی علاقے میں اور مسلمان جو ہے وہ اونچی جگہ پر تھے۔ دیگر روایات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی جگہ رتیلی تھی پاؤں دھنس جاتا تھا نیچے قدم صحیح طریقے سے نہیں اٹھتا تھا اور نیچے جو کافر لوگوں کا لشکر تھا وہاں زمین سخت تھی اور آرام سے آنا جانا ممکن ہوتا تھا
یہاں پر پہلے بھی ذکر ہوا کہ بارش ہوتی ہے بارش کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے جو نرم زمین تھی وہ سخت ہو جاتی ہے پانی نہیں تھا پانی مل جاتا ہے اور نچلا علاقہ جو ہے وہ نشیبی میں ہونے کی وجہ سے وہاں کیچڑ ہو جاتا ہے اور کافروں کے لئے آنا جانا جو ہے وہ مشکل ہو جاتی ہے بارش کی وجہ سے معاملہ جو ہے وہ الٹ ہو گیا مسلمانوں کے لئے آسانی پیدا ہو گئی اور کفار کے لئے مشکل پیش آئی۔
وَ الرَّکۡبُ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ اور کافروں کے لئے ایک مساعد حالت یہ تھی کہ تجارتی قافلہ مسلمانوں کے زد سے نکل چکا تھا اب تجارتی قافلے پر حملے کا کافروں کو خوف نہیں ایک دوسری بات یہ کہ تجارتی قافلہ جو ہے وہ کافروں کو کمک پہنچانے کی پوزیشن میں ہو گیا تھا۔ لہذا یہ بھی ایک بات تھی کہ یہ قافلہ تجارتی قافلہ مسلمانوں کی زد سے نکل جانا یہ بھی مسلمانوں کے حق میں نہ تھا اب اللہ تعالیٰ اس جنگ کے لئے مسلمانوں کو کامیاب بنانے کے لئے براہ راست قدرت قاہرہ سے کام نہیں لیتا کہ خدا خود مسلمانوں سے اسلامی لشکر سے اور بدریوں سے ہٹ کر اپنی قہاریت جو ہے وہ استعمال میں لے آئے اور فتح مل جائے تو یہ کوئی فضیلت نہیں ہوئی اس میں مسلمانوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوا اصحاب بدر کو مقام نہیں ملا جو حاصل ہو گیا اس جنگ کے بعد اصحاب بدر کو خاص مقام حاصل وہ بھی نہ ہوتا اور آنے والی اس تاریخ ساز جنگ میں آئندہ کے لئے بھی کوئی تاریخ ساز جنگ نہ ہوتی لوگ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے قہاریت کے انتظار میں بیٹھ جاتے یہ اللہ تعالیٰ کا طرقہ کار بھی نہیں ہے سنت الہیہ بھی نہیں ہے کی وہ اپنی قہاریت جو ہے استعمال میں لے آئے جیسا یہودیوں نے حضرت موسی عليه‌السلام سے کہا تھا کہ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ ایسا نہیں ہوتا کہ وہ اللہ اور موسی جائیں اور وہاں لڑائی کرے اور مفت میں داخل ہو جائے اس شہر میں ایسا کبھی نہیں ہوا اور نہ ہی یہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ کار ہے اللہ تعالیٰ جو راستہ اختیار فرماتا ہے وہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کو بلاتے ہیں جب بھی کوئی دعا یا کسی مسئلہ یا مشکل کے درپیش ہونے کی صورت میں ہم کہتے ہیں ہم یہ نہیں کہتے ہے نا کہ یَا مُسَبِّبَ الاَسبَاب ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے بغیر کسی سبب اور علت کے براہ راست میرا مشکل اپنی قہاریت سے حل کرو نہیں ہم بھی کہتے ہیں یَا مُسَبِّبَ الاَسبَاب سبب پیدا کرنے والی ذات میری کام کے مشکل کے حل کی کوئی سبب پیدا کر اللہ سبب پیدا کرتا ہے اور اس جنگ میں اس اسباب کا ذکر ہے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح دلائی تھی براہ راست نہیں۔ ان اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ وَ لَوۡ تَوَاعَدۡتُّمۡ لَاخۡتَلَفۡتُمۡ فِی الۡمِیۡعٰدِ اگر لڑائی کا فیصلہ ہو چکتا ہے پہلے تو حالات بھی یہ ہیں ان کے مسلمان جو ہے وہ ابھی ابھی تازہ ایک معاشرہ وجود میں آیا ہیں ہجرت کے بعد بے سرو سامانی میں ہے313 کا چھوٹا سا لشکر ہے اور اس کے پاس سامان حرب نہ ہونے کے برابر ہے اور پھر نکلے بھی جنگ کے لیے نہیں اول تو سامان حرب ہے ہی نہیں ثانیاً نکلے بھی جنگ کے لئے نہیں لشکر کو کوئی پتہ نہیں کہ ہم جو نکلے ہے کیا کرنا ہے اور قافلے تجارت کا قافلہ جو ہے اس پر حملہ کرنا ہے سب میں یہ بات پھیلی ہوئی تھی کہ ابو سفیان کا قافلہ جو ہے وہ واپس آ رہا ہے شام سے مکہ جانے کے لئے اور ہم راستے میں ان کو پکڑ سکتے ہیں اور بہت مال ہیں اس کے ساتھ بڑا مال ہے، ذہنوں کے اوپر یہ سوار تھی لڑائی کے لیے نکلے بھی نہیں تھے۔ ان حالات میں اگر پہلے بتا دیا جاتا ہے تین سو تیرہ نے ایک ہزار کے مقابلے میں جنگ لڑنا ہے تو پھر لَاخۡتَلَفۡتُمۡ لوگ کہتے ہیں کہ یہ حماقت ہے جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا کہ ان کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈالا ہے بیوقوف بنایا ہے کیسے لڑائی کریں گے اس قسم کی جنگیں ہوتی نہیں ہیں یہاں اسلحہ بھی ساز و سامان بھی نہیں ہے بے سروسامان جنگ نہیں ہوا کرتی اس لیے وَ لَوۡ تَوَاعَدۡتُّمۡ اگر باہمی مقابلے کا فیصلہ کر چکتے تَوَاعَدۡتُّمۡ یعنی لَاخۡتَلَفۡتُمۡ فِی الۡمِیۡعٰدِ ابھی نہیں لڑنا چاہیے ہم نہیں لڑ سکتے یہ بیوقوفی ہیں یہ ہماقت ہے ایسی جنگی نہیں ہوا کرتی اختلاف آ جاتا۔ اختلاف آنے کی صورت میں ناکامی ضروری ہے ہمیشہ سے ہر جگہ ہر معاشرے میں اگر اختلاف آ جاتا ہے تو معاشرہ کمزور پڑتا ہے حربی صورت میں جنگی حکمت عملی میں اختلاف کے لئے سرے سے گنجائش نہیں ہوتی دنیا میں بھی۔ آج بھی ہمارے افواج میں اگر کسی مسئلے میں اختلاف آگیا وہ جنگ نہیں لڑ سکتی اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ افواج میں اطاعت رات اپنے افسر بالا کی اطاعت کی تربیت دی جاتی ہے سوچنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس کو بہت اہمیت دی جاتی ہے آج بھی حربی قوانین میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں سوچنے کی اجازت نہیں ہیں، بس ہاں کر دو حکم آیا آرڈر آیا ہاں کرنا ہوتا ہے اختلاف کے لئے گنجائش نہیں ہے۔ یہاں بے سروسامان لشکر ان کے لیے تربیت بھی نہیں ہیں اس قسم کی کوئی بات بھی نہیں کی ہے کے اختلاف کی گنجائش نہیں ہاں اختلاف نہ کرو اس سے بات نہیں بنتی لہٰذا اللہ تعالی نے اس کے لئے یہ انتظام فرمایا کہ ان کو گومگو میں رکھا فیصلہ نہیں کیا جنگ کرنے کا اور عین وقت میں جنگ کرو۔ اب سوچنے اختلاف کرنے کے لئے گنجائش نہیں چھوڑی وَ لَوۡ تَوَاعَدۡتُّمۡ اور اگر پہلے سے فیصلہ ہو چکتا تو لَاخۡتَلَفۡتُمۡ اختلاف کے نظر ہوتا جنگ لڑی نہیں جاتی اصلاً وَ لٰکِنۡ لِّیَقۡضِیَ اللّٰہُ اَمۡرًا کَانَ مَفۡعُوۡلًا لیکن اللہ تعالیٰ نے وہ پہلے سے فیصلہ نہیں ہونے دیا لِّیَقۡضِیَ اللّٰہُ کیوں فیصلہ نہیں ہونے دیا لِّیَقۡضِیَ اللّٰہُ تاکہ اللہ فیصلہ کرے اس امر کا کہ جس امر نے ہو کر کے رہنا ہے لِّیَقۡضِیَ فیصلہ ہو جانے کو کہتے ہیں لِّیَقۡضِیَ اللّٰہُ اَمۡرًا کَانَ مَفۡعُوۡلًا اس امر کا فیصلہ ہو جائیں جس نے ہو کے رہنا ہے۔ یعنی اس جنگ کا ہونا اللہ تعالیٰ کے نزدیک فیصلہ شدہ تھا لوگوں کو نہیں بتایا رسالت مآب کو بھی پتہ تھا کہ جنگ لڑنا ہے قافلے کے اوپر حملہ نہیں کرنا ہے تجارتی قافلے کے اوپر لیکن اس کو لوگوں کے درمیان نہیں بیان کیا گیا لِّیَقۡضِیَ اللّٰہُ اَمۡرًا کَانَ مَفۡعُوۡلًا اس امر کے فیصلے کے لیے یعنی فیصلہ کن جنگ کا جیتنا یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا اور اس کے علل و اسباب کے ذریعے اس کام کو آگے چلایا گیا لِّیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحۡیٰی مَنۡ حَیَّ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ دلیل کے واضح ہونے کے بعد جس نے ہلاک ہونا ہے ہلاک ہو جائے اور جس نے زندہ رہنا ہے زندہ رہ جائے زندہ رہنے والوں کے لئے ہلاک ہونے والوں کے لیے بھی دلیل کا واضح ہو جانا ضروری ہے اور جنگ بدر میں وہ دلیل وہ برہان وہ تائید خداوندی سامنے آ گئی بات واضح ہوگئی ورنہ اللہ تعالیٰ کی تائید سے ہٹ کر ظاہری علل و اسباب کے ذریعے اس جنگ نے جیتنا نہیں تھا تصور نہیں تھا تلوار بھی نہیں گھوڑے بھی نہیں افراد بھی تھوڑے ہیں اور وہ جنگ کے لئے تیار نہیں کیسے جیتے ہیں یہ لوگ جو لوگ ہلاکت میں گمراہی میں چلے جاتے ہیں مشرکین ان کے اوپر اس دلیل کے واضح ہو جانے کے بعد یہ ہلاکت میں چلے جائیں۔ نہ کہ قبل از بينه جو لوگ زندگی حاصل کرتے ہیں زندگی سے مراد اسلام اور دین ایمان ہے ایمان کی زندگی جو لوگ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ تقلیدی نہیں وہ اپنے آنکھوں سے دلیل اور برہان کو دیکھ کر کے وہ اس ایمانی زندگی کو اختیار کرے۔ یہاں پر ایک مسئلہ ہوتا ہے ہمیشہ کہ کسی موقف کے قبول کرنے یا کسی موقف کے رد کرنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہیں دلیل سے پہلے برہان سے پہلے نہ آپ کسی موقف کو اختیار کر سکتے ہیں میں کسی موقف کو رد کر سکتے ہیں کسی مسئلے کو رد بھی نہیں کر سکتے اور قبول بھی نہیں کر سکتے اگر دلیل نہیں ہیں اور بغیر دلیل کے آپ کسی چیز کو قبول کرتے ہیں تو وہ درست نہیں ہے ہیں تو آپ کا وہ ایمان قابل قبول نہیں رد کرتے ہیں تو بھی تعصب ہیں تنگ نظری ہیں کوئی دلیل نہیں لہذا بغیر دلیل کے تم نے کیسے رد کردیا کسی مسئلے کا رد کرنا بھی دلیل کے محتاج ہے یہاں پر رد کرنے والوں کا ذکر بھی ہیں اور قبول کرنے والوں کا بھی ذکر ہے دونوں کو دلیل چاہیے جو لوگ اس چیز کو رد کرتے ہیں دلیل آنے کے بعد رد کرنے کا مطلب یہ ہوا کی ان کا انکار دلیل نہ ہونے کی وجہ سے نہیں تھا عدم ایمان دلیل نہ ہونے کی وجہ سے نہیں تھا یہ لوگ آئے دن معجزے طلب کرتے تھے اور معجزہ دیا نہیں جاتا تھا لہذا یہ دلیل نہیں بنتا کہ وہ معجزہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایمان نہیں لے آیا ایمان کے لیے معجزہ نہیں ڈھونڈ رہے تھے دلیل یہ ہے کہ جب معجزہ آتا ہے تو وہ ایمان نہیں لے آتے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایمان کا نہ لانا دلیل کے نہ ہونے کی وجہ سے نہیں تھا یہ لوگ جو ہلاکت میں پڑ گئے ہے کہ یہ دلیل کے آنے کے بعد ہلاکت میں پڑ جائے حجت پوری ہونے کے بعد ہلاکت میں پڑ جائے تو اس وقت سوال نہیں آتا کہ اگر دلیل آ جاتی تو ایمان لے آتے لِّیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحۡیٰی اور جو لوگ زندہ رہتے ہیں ایمان قبول کرتے ہیں ان لوگوں کا ایمان تقلیدی نہ ہو ان لوگوں کا ایمان بھی دلیل اور برہان کی بنیاد پر ہو اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر میں اپنا برہان دلیل اور بینہ سامنے کیا۔
اگلی آیت ہیں اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ علل اور اسباب کو پیش فرما تا ہے کی علل اور اسباب کو پیش فرماتا ہے، علل اور اسباب کو پیش فرماتا ہے۔ آپ بھی کسی مسئلہ کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے اگر توقع رکھتے ہیں تو یہ توقع رکھ کہ وہ کوئی سبب پیدا کریں اسباب پیدا کرنے کے لئے توقع رکھو، دیکھو اسباب میں سے ایک سبب رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خواب میں دیکھتے ہے، یہ آیت ہے اِذۡ یُرِیۡکَہُمُ اللّٰہُ وہ وقت یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھایا ھُمْ ان کافروں کو فِیۡ مَنَامِکَ آپ کے خواب میں قَلِیۡلًا تھوڑا دکھایا رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے راستے میں خواب میں دیکھا کہ مشرکین مکہ مقابلے کے لئے آ رہے ہیں لڑنے کے لیے لیکن لشکر تھوڑا سا ہے تھوڑا سا لشکر ہے خواب میں آتا ہے لشکر تھوڑا سا ہے اور کفار و مشرکین کا لشکر بہت زیادہ نہیں ہے بہت زیادہ نہیں ہے اور پھر آپ نے مسلمانوں کو بتا بھی دیا کہ وہ زیادہ نہیں ہے تھوڑے لوگ ہیں پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے ابھی معلوم نہیں جنگ ہوگی کہ نہیں ہوگی بہرحال جو بھی ہیں وہ لوگ آ گئے ہیں وہاں سے چل پڑے ہیں لوگ تھوڑے ہیں۔ یہ تھوڑا دکھانا یہ بھی ایک سبب ہے مسلمانوں کو ہمت دلانے کے لئے لیے وَ لَوۡ اَرٰىکَہُمۡ پھر رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں کو بھی بتا دیا تھوڑے ہیں تھوڑے کا مفہوم مقصد کیا ہے یہ تشریح نہیں کی ہمت میں تھوڑے ہیں وہ جنگی جو لوازم ہے اس میں وہ لوگ تھوڑے ہیں تعداد میں نہیں تعداد جنگی استعداد میں وہ تھوڑے ہیں مراد یہ لیتے ہیں اور پھر لوگ یہ سمجھتے ہیں اس کو توریہ کہتے ہیں مثلاً آپ کے پاس کوئی آتا ہے مانگنے والا اور وہ مستحق نہیں ہیں اور آپ پیسہ دینا نہیں چاہتے جھوٹ بھی نہیں بولنا چاہتے تو اس وقت آپ کہیں گے کہ معاف کرو میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے میرا ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اس وقت آپ کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا ہے نا تو آپ بات کر رہے ہیں یہ مراد لے رہے ہیں کہ میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے وہ سمجھتا ہے میرے پاس کچھ نہیں ہاتھ سے مراد پاس ہیں وہ سمجھتا رہے لیکن آپ مراد نہیں لے نے اس کو توریہ کہتے ہیں ٹھیک ہے آپ کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہیں۔ وہ کسی مجتہد سے سوال کیا تھا کسی نے تو کہا کے میں بہت فقیر ہوں مسکین ہوں تنگی میں ہو زیق میں ہوں وغیرہ وغیرہ۔ جواب میں فرمایا اللہ کی قسم میں بھی آپ کی طرح ہوں ان کی طرح انسان ہیں نا اس میں قسم کھانے میں کوئی حرج نہیں میں بھی آپ کی طرح انسان ہوں عبد خدا ہوں بندہ ہوں مکلف ہو بہت سے چیزوں میں آپ کی طرح اس نے سمجھا کہ میں بھی آپ کی طرح فقیر ہوں مسکین ہوں محتاج ہوں وہ سمجھتا رہے اس کو توریہ کہتے ہیں جھوٹ نہیں ہوتا توریہ ٹھیک ہے ایسے واقعات تاریخ اسلام میں بہت خوبصورت واقعات بھی ہے توریہ کے اور احکام بھی ہیں یہاں بھی رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا تھوڑے ہیں لیکن استعداد میں تھوڑے ہیں تعداد میں نہیں آگے ارشاد فرمایا وَ لَوۡ اَرٰىکَہُمۡ کَثِیۡرًا اگر اللہ آپ کو وہ زیادہ کھاتا لَّفَشِلۡتُمۡ تم حوصلہ ہار جاتے اوہ 1000 وہ لوگ ایک ہزار ہیں سبحان اللہ پھر تو ہم لڑ ہی نہیں سکتے حوصلہ ہار جاتے۔ وَ لَتَنَازَعۡتُمۡ پھر جھگڑا بھی کرتے یار نہیں لڑنا چاہیے حماقت ہی بیوقوفی ہے یہ کوئی جنگ ہے کیا ہے وَ لَتَنَازَعۡتُمۡ فِی الۡاَمۡرِ امر جہاد میں جھگڑا کرتے آپس میں وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسلمانوں کو سالم رکھا نہ جھگڑا ہوا نہ نزع ہو ہوا نہ اختلاف ہوا اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ یہ کہ اللہ تعالیٰ دلوں کا حال جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جو لوگ موجود تھے ان کے دلوں کا حال جانتا تھا کہ اگر صحیح صورتحال بغیر کسی تور یہ کے ابھی توریہ سمجھ میں آ گیا نا رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو توریہ کا حکم دیا قلیل دکھا کر اور اس قسم کے اسباب اور ذرائع جو ہے وہ فراہم کر کے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نزاعہ سے بچا لیا کیوں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ اس چیز کے اوپر اللہ تعالیٰ علم رہتا ہے جو دلوں میں ہے دلوں کا حال کیا تھا انسان ہے بشر ہے ظاہری علل و اسباب دیکھتا ہے انسان اور بہت سے لوگوں کے عقل ان کے آنکھوں میں ہوا کرتی ہیں، جو چیز نظر آتی ہیں محسوسات کے اوپر ایمان ہوا کرتا ہے لوگوں کا محسوس میں کیا ہے وہ بہت لاؤ لشکر کے ساتھ سامان حرب بھی ان کے پاس موجود ہے اور ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہیں، سامان حرب بھی نہیں ہے افراد بھی نہیں ہے نہیں لڑنے کے لیے آمادگی بھی نہیں ہیں تیاری بھی نہیں ہے اس قسم کے لڑائی جو ہے وہ بے وقوفی ہوتی ہیں اس قسم کی جنگ نہیں لڑی جاتی آتی اور یہ خود کشی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن اس قسم کی باتوں کا ہونا قدرتی بات ہے انسان جو ہے وہ اپنے وہ محسوسات کا زیادہ اثر لیتا ہے اپنے اندر۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس محسوسات کے ذریعے متاثر ہونے کی اصل نوبت نہیں دی۔