تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 15 - 18

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا زَحۡفًا فَلَا تُوَلُّوۡہُمُ الۡاَدۡبَارَ ﴿ۚ۱۵﴾وَ مَنۡ یُّوَلِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ دُبُرَہٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوۡ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدۡ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ مَاۡوٰىہُ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿۱۶﴾
فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡہُمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمۡ ۪ وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ۚ وَ لِیُبۡلِیَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡہُ بَلَآءً حَسَنًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۱۷﴾

یہ آیت جنگ سے فرار اختیار کرنے کے سلسلے میں نازل ہوئی اور فرار من الزحف جنگ سے فرار کو بدترین جرم اور گناہ کبیر قرار دے دیا۔ اگلی آیت میں اس بات کی وضاحت ہے کہ جنگ سے فرار کرنے والے لوگ جہنمی ہے، فرمایا وَ مَنۡ یُّوَلِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ جس دن تمہارا آمنا سامنا کفار کے ساتھ ہو اس دن اگر کوئی جنگ سے فرار اختیار کرتا ہے پیٹھ پھیر دیتا ہے تو فَقَدۡ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ مَاۡوٰىہُ جَہَنَّمُ تو وہ عذاب الہی میں گرفتار ہوا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے جنگ سے بھاگنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے السبق الموبقات میں شامل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جنگ سے فرار ان گناہوں میں شامل ہے جس کا نتیجہ جہنم ہے۔ اس آیت میں دو حالت کی استثناء ہے اس کو فرار نہیں قرار دیتے،
پہلی حالت ہے اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ فرار کی دو حالتیں جو ہے وہ جائز ہے متحرف ایک طرف ہو جانا اور دشمن کے حملہ کے زد سے ہٹ کر اپنے آپ کو بچا لینا اس کیلئے اجازت ہے ۔ تحرف حرف ایک طرف ہو جانا کو کہتے ہیں ایک سمت کی طرف، ایک مورچہ چھوڑ کر کرکے یا محاذ چھوڑ کرکے ایک طرف جانا پھر لقتال وہ ایک طرف ہونا جان بچانے کیلئے نہیں ہے، میدان کارزار کو چھوڑنے کیلئے نہیں ہے بلکہ لقتال تحرف جائز ہے، لڑائی کیلئے یا جنگی مہارت کا ایک طریق انداز حرب ہے کہ دشمن کو موقع نہ دینا اور ایک طرف ہٹ جانا اور پھر دوبارہ حملہ آور ہونا دشمن کے اوپر۔ یہ ایک جنگی چال ہے جو جائز ہے درست ہے اَوۡ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ لشکر کا ایک ٹکڑا کافر کے ساتھ لڑائی میں کمزور ہو جاتا ہے اور اس وقت لڑائی جاری رکھنا اس گروپ کیلئے یا اس پلاٹون کیلئے ممکن نہیں ہوتا، دشمن کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہوتا اس وقت یہ گروہ کیا کرتا ہے تحیز اختیار کرے گا جگہ بنائے گا تحیز جگہ ملنا، ملحق ہونا اور لشکر کے ساتھ اسلام کا جو مین لشکر ہے اس کے ساتھ ملحق ہونے کیلئے تھوڑی سی پسپائی اختیار کرنا پڑتا ہے، اس لئے یہ گروپ اکیلے لڑ نہیں سکتا دشمن کے زد میں آگیا اور اس صورت میں یہ بھی جنگی چال ہے اور درست ہے اور حکمت عملی ہے کہ مفت میں جان دینا کوئی کمال کی بات نہیں ہے تَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ اپنے لشکر کی طرف جا ملنے کیلئے پسپائی اختیار کرنا، یہاں بھی بھاگنا ہوتا ہے باقاعدہ پسپائی اختیار کرو بھاگو پیچھے آ جاؤ لیکن جنگ چھوڑنا نہیں ہے اس پیچھے آنے میں مقصد جو ہے جنگ چھوڑنا نہیں ہوتا بلکہ دیگر لشکر کے ساتھ ملنا ہوتا ہے، ان دو حالتوں میں فرار جائز ہے جو فی الواقع فرار نہیں ہے،شکل و صورت میں بظاہر ایسا فرار سا لگتا ہے لیکن فی الواقع فرار نہیں ہے جان بچانا نہیں ہے جنگی مہارت کا ایک طریقہ حرب ہے اس کے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر ایک شخص جان بچانا چاہتا ہے میدان کارزار چھوڑ دیتا ہے تو یہ کام جو ہے جائز نہیں ہے فَقَدۡ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وہ باع یبوع گرفتار ہونا، جگہ بنا لی اس نے اللہ تعالٰی کے غضب کیلئے اور وَ مَاۡوٰىہُ جَہَنَّمُ ؕ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ اور وہ جہنم بہت بری جگہ ہے ۔
یہاں پہ کچھ حضرات نے کوشش کی ہے کہ اس آیت کو صرف جنگ بدر تک محدود رکھنے کی اور کہا کہ یہ صرف جنگ بدر کیلئے ہیں فَقَدۡ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ مَاۡوٰىہُ جَہَنَّمُ جنگ سے فرار کرنے والے جہنمی ہوتے ہیں یہ صرف اور صرف جنگ بدر سے مربوط ہے باقی جنگوں میں فرار ہونے والوں کیلئے یہ حکم نہیں ہے۔ یہ ناانصافی کی ہے بہت زیادہ ناانصافی ہے کہنا یہ اس کی کئی صورتیں ہے پہلی صورت یہ کہ جنگ بدر میں کسی نے فرار نہیں کی کہ ان کیلئے کہنا پڑے کہ بھائی جن لوگوں نے تم میں سے فرار اختیار کیا فَقَدۡ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ مَاۡوٰىہُ جَہَنَّمُ ؕ جس جس نے فرار اختیار کیا ہے وہ جہنمی ہوگیا کہنے کی ضرورت پیش آئی کوئی فرار نہیں، جنگ بدر میں کسی نے فرار اختیار نہیں کیا جس کو آپ اس پر تطبیق کرے اور پھر اسی کے اوپر بند کر دے آیت کو جنگ بدر کے اوپر،دوسرا جواب یہ ہے کہ آیت اور یہ سورہ جنگ بدر کے بعد نازل ہوا ہے، جنگ بدر کے بعد یہ آیات نازل ہوئی ہے اور فرار کی نوبت اگر آئی ہے نہیں آئی ہے تو بعد کی بات ہے اس وقت کی بات نہیں ہے، تیسری بات یہ ہے کہ تفسیری اصول میں ایک اصول ہے جو ہر جگہ قرآن کے ساتھ یہ اصول جو ہے وہ نافذ ہے اور مسلمہ ہے تمام مفسرین میں تمام اہل اسلام میں جو قرآن فہمی کا تھوڑا سا سلیقہ رکھتا ہے اس سب کیلئے یہ بات واضح ہے کہ الاعتبار بعموم اللفظ لا بخصوص السبب قرآن کی تعبیر کی عمومیت دیکھی جاتی ہے سبب نزول نہیں دیکھا جاتا، اگر سبب نزول دیکھا جاتا ہے صرف قرآن اس واقعہ کے ساتھ مخصوص ہے تو پھر قرآن ہمارے لئے نہیں اس زمانے کے لوگوں کے ساتھ ہے قرآن قیام قیامت تک کیلئے دستور حیات نہیں رہتا اس بات کا کوئی قائل نہیں کہ کوئی بھی آیہ کسی معاملے میں کسی واقعے کے ساتھ اگر مخصوص کیا جائے تو قرآن ختم ہو جاتا ہے۔ لہذا یہ ہر اس شخص کیلئے ہیں جو کافر کے ساتھ لڑائی میں بھاگتا ہے اس شخص کیلئے ہیں، لہذا یہاں پر کسی کو بحث ہے تو صغریٰ میں بحث کرنی چائیے کبریٰ میں بحث نہیں کرنی چائیے۔ صغریٰ میں کون کون بھاگا تھا کون نہیں بھاگا تھا بات کرو لیکن جو بھاگتا ہے اس کیلئے قرآن کا یہ حکم ہے اس کی کوئی بحث نہیں ہونی چائیے۔
اگلی آیت ہے سورہ انفال آیت 17 فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡہُمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمۡ ۪ وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی جنگ بدر کے بعد آپ کو پہلے بتایا واقعہ کہ لوگوں نے غنیمت کے سلسلے میں جھگڑا کیا تھا نزاع ہوگیا۔ جاہلی جو رسوم ہے اس کے مطابق لوگ قابض ہوگئے تھے اور کچھ لوگ محروم رہ گئے تھے جھگڑا ہونا قدرتی بات تھی اور جھگڑا ہوگیا اس پر اللہ تعالٰی نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ غنیمت یہ مال تمہارا سرے سے ہے ہی نہیں جھگڑا نہ کرو یہ اللہ اور رسول کا مال ہے اللہ اور رسول کے حوالہ ہوگئے اللہ اور رسول کے حوالہ جب ہوگیا تو ایک تصور میں ذہن میں آنا بھی قدرتی بات تھی کہ لڑائی تو لڑے ہم جی مال غنیمت لے جائے اللہ رسول، سوال ہوسکتا ہے اٹھائے نہ اٹھائے ہو کسی نے ذہنوں میں ایک بات آئی تھی کچھ لوگ رنجیدہ ہوگئے ہونگے لڑائی ہم نے کی تھی جان پہ ہم نے کھیلا تھا اور پھر کہتے ہیں اللہ اور رسول کا ہے ، انفال ہے یہ زائد مال ہے دفاع کشی ہم کرتے ہیں اس کو زائد مال کہ کر اللہ اور رسول کے حوالہ کیا جاتا اس آیت میں اس تصور کی یا اس غلط فہمی کی نفی کی اس کا ازالہ کردیا تم نے نہیں لڑائی لڑی فلم تقتلوھم تم نے لڑائی نہیں لڑی تم تو پہلے لڑائی لڑنے کیلئے آمادہ نہ تھے اور لڑائی جب لڑی گئی تو تمہارے اندر وہ طاقت اور وہ قوت نہ تھی کہ تم اللہ کی فتح و نصرت اور اللہ کی تائید غیبی سے ہٹ کر اپنی قوت بازو یہ لڑائی جیتے، نہیں تھا تمہارے امکان میں یہ بات لم تقتلوھم پھر مان جاؤ کہ تم نے قتل نہیں کیا ان لوگوں کی جن کی غنیمت یا جن کا مال غنیمت تم لوگوں نے لوٹا ہے ان لوگوں کو لوٹو نا جن کو تم نے خود اپنے قوت بازو سے قتل کیا ہو بالفرض۔ ایسا نہیں ہے لم تقتلوھم تم نے قتل نہیں کیا ولکن اللہ قتلھم ان کو اللہ نے قتل کیا لہذا جو مال آتا ہے قتل اور مقاتلے کے نتیجے میں وہ اللہ اور اس کے رسول کا ہونا چائیے لہذا رنجیدہ مت ہو یہ مال اللہ کیوں لیتا ہے رسول کیوں لیتا ہے۔
ایک خطاب ہے یہاں لشکر اسلام سے ایک خطاب ہے خود رسالت مآب سے ایک ہی آیت میں ہے ساتھ ساتھ فرق ہے دونوں خطابوں میں فرق ہے، ایک نمایاں فرق ہے، لشکر اسلام سے فرمایا فلم تقتلوھم تم نے قتل نہیں کیا اصلاً قتل نہیں کیا، تمہارا اس میں اتنا ہاتھ نہیں ہے جتنا اللہ تعالٰی کا ہے بعد میں رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خطاب فرماتا ہے وما رمیت اذ رمیت آپ نے نہیں پھینکا جب آپ نے پھینکا رمی کیا جی ہے نا کہ لڑائی شروع ہونے والی تھی تو حملہ ہونے سے پہلے لشکر اسلام کی طرف حملہ کا اعلان کرنے سے پہلے رسالت مآب نے علی ابن ابی طالب ؑ سے فرمایا ناولنی حسی مجھے کنکریاں ذرا دو حضرت علی نے اٹھا کر ہاتھ میں پکڑا دی، اور اس کو شاہۃ الوجوہ کرکے لشکر کفر کی طرف رسالت مآب نے پھینک دیا اور پھر لوگوں سے کہا حملہ کرو، جی کہتے ہیں کہ وہ کنکری جو ہے وہ لوگوں کی آنکھوں میں چلی گئی یا لوگوں کو ایسا لگا کہ ادھر سے کوئی آندھی آگئی ہے کیا ہوگیا اس سے وہ لوگ مرعوب ہوگئے اسی رمی سے، تو یہاں پر دو عمل ہے ایک قتل اور دوسرا رمی۔ قتل کا تعلق لشکر اسلام سے تھا، رمی کا تعلق رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے۔ لشکر اسلام سے جب خطاب ہوا تھا تو فرمایا فلم تقتلوھم تم نے نہیں قتل کیا اذ قتلتم نہیں کہا جب تم نے قتل کیا تو تم نے قتل نہیں کیا اذ قتلتم کرکے اس قتل میں لشکر اسلام کو حصہ نہیں دیا کہ دیا لم تقتلوھم تم نے قتل نہیں کیا کچھ حصہ تو دیتے ان کو نہیں دیا جی لیکن جب رسالت مآب سے خطاب فرمایا وما رمیت اذ رمیت کہ دیا اذ قتلتم نہیں کہا فلم تقتلوھم اذ قتلتم نہیں کہا یہاں فرمایا وما رمیت اذ رمیت جب آپ نے پھیکا رسالت مآب کے عمل کو اللہ تعالٰی نے قبول فرمایا اس کا ذکر فرمایا اس کو ایک واقعیت دی کہ آپ کے اس پھینکنے کے عمل میں رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ کو، بازو کو، ارادے کو، عزم کو، نیت کو دخل تھا ٹھیک ہے د خل تھا اذ رمیت کہ دیا اور پھر اس کے بعد فرمایا لیکن ایسا بھی نہیں ہے اے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہ آپ جب پھینک رہے تھے درست ہے آپ کا اس میں دخل ہے آپ کی نیت اور عزم و ارادہ کو اور آپ کے دست و مبارک کو اس میں دخل ہے اذ رمیت ولکن اللہ رمی لیکن یہ بھی نہیں کہ آپ بھی مستقل ہو اللہ سے ہٹ کے آپ نے کام کیا ہو ایسا بھی نہیں ہے ولکن اللہ رمی پیچھے اللہ تعالٰی کا بھی ارادہ کارفرما تھا جی اور اللہ تعالٰی کا عزم اور اللہ تعالٰی کی تائید اللہ تعالٰی کی نصرت جو ہے وہ اس کنکروں کے پیچھے پیچھے کارفرما تھا جی ولکن اللہ رمی اس میں باتیں بہت ہوتی رہتی ہے وما رمیت اذ رمیت الکن اللہ رمی یہ امر رسول کو اللہ نے اپنا عمل قرار دے دیا لشکر اسلام کے عمل کو اللہ نے اپنا عمل قرار نہیں دیا رسالت ماب کا سار ا اپنا عمل قرار دے دیا تو اس میں بہت سی جگہوں پر ہے کہ رسالت مآب کے اس عمل کو اللہ تعالٰی نے اپنا عمل قرار دیا ہے ہاتھ کو اللہ تعالٰی کا ہاتھ قرار دیا ہے ید اللہ فوق ایدیھم اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر ہے بہت سے مواقع ہے بہت سے مقامات ہے قرآن مجید میں کہ عمل رسول کو اللہ تعالٰی نے اپنا عمل قرار دے دیا ہے کہ صرف یہاں کیلئے نہیں، آگے ارشاد فرمایا وَ لِیُبۡلِیَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡہُ بَلَآءً حَسَنًا ؕ اور یہ اس لئے بھی ہوا کہ تاکہ مومنین کی آزمائش ہوجائے اور بلاء یعنی آزمائش امتحان بلاء حسنا بہتر آزمائش اس جنگ سے پہلے بھی آزمائش تھی جنگ کے بعد بھی آزمائش تھی جنگ سے پہلے تو یہ آزمائش تھی کہ ایک تجارتی قافلہ اور حربی لشکر کے مقابلے میں مومنین پڑ گئے اس میں بھی امتحان ہوگیا آزمائش ہوگئی لوگوں سے اقرار لیا رسالت مآب نے تاریخ میں ان کی باتیں ثبت بھی ہوگئی کہ کون کس حد تک اس امتحان میں کامیاب رہے کہ جب لشکر اسلام کو لشکر کفر کے ساتھ آمنا سامنا مقابلہ ہوا وہاں بھی زبردست آزمائش تھی امتحان تھا لشکر اسلام کا مومنین کا اور بہتر آزمائش کا سب سے بہتر اور بلاء حسنا کا موقع تھا جنگ بدر۔ جنگ کے بعد بھی کئی مراحل آ گئے جنگ کے بعد جو آزمائش تھی وہ زبردست زیادہ مشکل آزمائش تھی جیسا کہ رسالت مآب نے فرمایا کہ اب جہاد اصغر ختم ہوگیا، جہاد اکبر کہا ہے اس مال کو، مال کی آزمائش کو مال کی آزمائش سے جو مقابلہ ہوتا ہے نا نفسی خواہشات سے مربوط ہوتا ہے مال مال انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے بتاتا رہتا ہوں آپ کو مال اور دولت انسان کی انتہائی اہم جگہیں کے اوپر بیٹھا ہوتا ہے دماغ کے انسانی ذہن اور نفس انسان کی انتہائی اہم ترین جگہ کے اوپر مال کی خواہش بیٹھی ہوتی ہے حضرت علی عليه‌السلام نے فرمایا کہ انسان کا بیٹا مر جائے سو جاتا ہے مال تلف ہوجائے نہیں سوتا ایسا اہم ترین جگہ کے اوپر بیٹھا ہے اور اس لئے مال کا انفاق بہت وہ ہے ثواب ہے مال خرچ کرنا راہ خدا میں مال خرچ کرنا کا ثواب بہت زیادہ اس لئے ہے کہ یہ مال انسانی نفس اور خواہشات کی انتہائی جگہ پہ بیٹھا ہوتا ہے جی لہذا یہاں بدر ہو یا کوئی اور جنگ ہو، جنگوں میں غنیمت کا مرحلہ مال کی امتحان کا مرحلہ بہت سخت مرحلہ ہوتا ہے اور یہ مرحلہ بھی آیا اور جھگڑا بھی ہوا اور اس جھگڑے کے بعد اللہ تعالٰی کا فیصلہ آیا اور اس فیصلے میں مال اللہ تعالٰی کے حوالہ ہوگیا ان سے چھین لیا یہ بھی ایک آزمائش تھی ایک امتحان تھا ان کے ہاتھ میں لگا ہوا مال ان سے واپس لینا، چھین لینا اور سب کو دے دیا بعد میں دے دیا ایک مرتبہ سب سے چھین لیا گیا یہ بہت بلاء حسنا یہ دونوں جہاد میں جہاد اکبر اور جہاد اصغر دونوں میں اچھی آزمائش اور اچھا امتحان اور بہتر امتحان لیا اس لئے اصحاب بدر کی فضیلت بھی اسی امتحان کی وجہ سے بہت زیادہ ہے ان اللہ سمیع علیم ۔
ذٰلِکُمۡ وَ اَنَّ اللّٰہَ مُوۡہِنُ کَیۡدِ الۡکٰفِرِیۡنَ یہ بات رہی تمہاری کہ ہم نے لڑائی لڑی ہے ہم کمزور ہے ہم نہیں لڑ سکتے کافر جو ہے وہ بہت طاقتور ہے وہ جنگ کیلئے نکلے ہیں ہم جنگ کیلئے نہیں نکلے تھے لیکن اللہ تعالی جو ہے وہ کافروں کی مکاری کا زور توڑ دینے والا ہے۔ موھن کمزور کرنے والا ہے توڑ دینے والا ہے اللہ تعالٰی کی تدبیر کے مقابلے میں کافروں کی تدبیر جو ہے وہ نہایت ناتواں ہے۔
آگے آیت ہے اِنۡ تَسۡتَفۡتِحُوۡا فَقَدۡ جَآءَکُمُ الۡفَتۡحُ ۚ وَ اِنۡ تَنۡتَہُوۡا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اس آیت کی ذیل میں تفصیل ان شاءاللہ تعالٰی آئندہ بیان کریں گے۔