تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیت 60

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ
سورہ انفال آیت ۶۰
اور ان (کفار)کے مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو اور پلے ہوئے گھوڑوں کو (مستعد) رکھو تاکہ تم اس سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں نیز دوسرے دشمنوں کو خوفزدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے اور راہ خدا میں جو کچھ تم خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا دیا جائے گا اور تم پر زیادتی نہ ہو گی۔
جنگ کے بارے میں کچھ عسکری قوانین اس آیت میں بیان ہوئے ہیں سب سے پہلے ہر قوم اور ملت کو اپنے ممکنہ طاقت کے ساتھ ہونا چائیے کیوں اس لئے کہ دفاع اور اپنی وجود کا حفاظت کرنا یہ ایک فطری حق ہے، کہ ذی روح اپنا دفاع کرنا جانتا ہے اور دفاع کے طریقے ہر ذی روح کو آتا ہے حتی پودوں میں جہاں تک زندگی ہے حیات کے بھی مراحل ہوتے ہیں پودے بھی حیات نباتی رکھتے ہیں وہ بھی اپنے وجود کو مضر اثرات سے حفظ کرنے کیلئے دفاع کا طریقہ جانتا ہے پودا بھی جانتا ہے حیات کے آثار اور حیات کے علامات میں سے خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے لئے اپنی زندگی برقرار رکھنے کی چیزوں کو اپنی زندگی کے خلاف چیزوں کو وہ پہنچاتا ہے پودا بھی پہچانتا ہے جس پودے کو دھوپ کی ضرورت ہوتی ہے وہ دھوپ کی طرف جھکتا ہے اور جس چیز سے اس کو ضرر ہونے کا احتمال ہوتا ہے وہاں مثلاً سایہ ہے سایے میں اس کو فائدہ نہیں ہے اس سے بھاگتا ہے مثلاً، یہ ہر ذی روح کا ایک فطری حق ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے اپنے وجود کو حفظ کرے قدرت نے جس نے وجود دیا ہے اس نے اس انسان کے اندر اس بات کی سمجھ بھی ودیعت فرمائی اس کو اپنا وجود کو کس طرح برقرار رکھنا ہے، یہاں پر خطاب وَأَعِدُّوا لَهُمْ، أَعِدُّوا اپنے طاقت کو مہیا أَعِدُّوا مہیا رکھو مستعد رکھو، مستعد رکھو کا حکم پوری امت سے ہیں پورے معاشرے سے ہیں پوری قوم سے ہیں جبکہ معاہدے کا حکم جو ہے وہ اسلامی ریاست کے سربراہ اس کا مخاطب ہے، معاہدہ کرنے والے معاہدہ توڑنے والے اسلامی ریاست کے سربراہ ہوتے ہیں، وہی معاہدہ کرتے ہیں وہی معاہدہ توڑنے کا اعلان کرتے ہیں جبکہ مد مقابل معاملہ توڑنے دے تو پھر جواباً معاملہ توڑنے کا اعلان اسلامی ریاست کا سربراہ کرتا ہے، لہذا معاہدوں کے سلسلے میں جب حکم آیا تو اس کا مخاطب اسلامی ریاست کا سربراہ قرار پاتا ہے عسکری جو تیاری ہے اور عسکری طاقت کا اجتماع اس میں پوری قوم مخاطب ہے أَعِدُّوا اس میں صرف سربراہ واجب نہیں ہے کہ وہ مستعد رہے البتہ ایک موقع ایسا آیا تھا رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے حکم ہوا تھا کہ کوئی لڑائی کے لئے نہیں نکلتا ہے تو آپ تو نکلے جی یہ حکم آیا تھا کوئی بھی نہیں ہے حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوپر واجب ہوگیا تو آپ خود نکلے، لیکن جہاں تک عسکری ساز و سامان کی تیاری ہے وہ ایک قومی اور ملی فریضہ ہے اس وقت بھی قومی ملی فریضہ ہے مثلاً ہمارا وطن ہے پاکستان ہے اس کو غیر مسلم ممالک سے خطرہ ہے خوف ہے دشمنوں سے تو اس کیلئے مستعد رہنا مَا اسْتَطَعْتُمْ مستعد رہنا واجب ہے اور پوری قوم پر بھی واجب ہے کہ وہ اس کو ہم نہ سمجھے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے ایسا نہیں ہے ریاست کی ذمہ داری اصول و جنگ کا اعلان ہے لیکن سامان حرب کی تیاری میں سب لوگ ماخوذ اور ذمہ دار تمام پوری امت، پوری قوم اور ہر فرد، ہر فرد کو حسب استطاعت اس میں حصہ لینا ہے اسلامی ریاست میں یہ چیز ہے، لہذا اگر کوئی وقت آتا ہے ہمارے وطن کے اوپر اسلامی ریاست ہے پاکستان تو اس میں ہر ایک کو حصہ لینا ہوتا ہے، اپنا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک فطری حق ہے وہ اسلامی ریاست ہو غیر اسلامی ریاست ہو ہر ریاست جو ہے وہ اس کام کو وہ سمجھتی ہے، ہر قوم اس بات کو سمجھتی ہے کہ وہ اپنا دفاع کا ساز و سامان لیکن اسلامی تعلیمات میں چند باتیں ہے خاص طور پر اس میں ایک تو فرمایا وَأَعِدُّوا لَهُمْ یہ مخاطب ساری امت دوسری بات مَا اسْتَطَعْتُمْ یعنی اس میں سامان حرب تیار کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی کی اجازت نہیں ہے مَا اسْتَطَعْتُمْ جتنا ہو سکتا ہے سامان حرب کی تیاری کرو اس میں سامان حرب کی تیاری کرنا اس اسلامی ریاست کیلئے قومی اعتبار سے قومی ناموس کا تحفظ ہے عزت و وقار کا تحفظ ہے اور امن و امان کا تحفظ ہے اس کی وجہ سے اس میں کوئی اپنی عزت کے تحفظ کیلئے کوتاہی کی گنجائش نہیں ہوتی،اپنے ناموس کی تحفظ کیلئے کسی کوتاہی کی گنجائش نہیں ہوتی اسی طرح اپنے قومی استقلال کیلئے بھی کسی قسم کی کوتاہی کی گنجائش نہیں ہوتی مَا اسْتَطَعْتُمْ جی، گنجائش نہیں چھوڑنی۔ جتنا انسان سے ہوسکتا ہے ہر فرد سے ہاں ہر فرد سے جتنا ہوسکتا ہے۔ آگے فرمایا مَا اسْتَطَعْتُمْ جتنا ہوسکے مِنْ قُوَّةٍ من بیانیہ کہتا ہے نا مَا سے مراد کیا ہے مَا سے مراد قوت ہے، طاقت ہے آپ کے پاس کونسی طاقت ہے ہر قسم کی طاقت جس کے اوپر طاقت کا اطلاق ہو سکتا ہے جو عسکری ساز و سامان دشمن کے مقابلے کیلئے یا دفاع کیلئے وطن کے تحفظ کیلئے آپ سے کیا ہو سکتا ہے جی وہ کچھ فراہم کرنا خواہ زبانی اور کلامی ہدایت ہی کیوں نہ ہو خواہ ایک مظاہرہ ہی کیوں نہ ہو مثلاً، خواہ ایک نعرہ ہی کیوں نہ ہو اس میں اگر طاقت ہے اس میں اگر حوصلہ ہے جس سے ہمارے لڑنے والوں میں حوصلہ آتا ہے مِنْ قُوَّةٍ یہ بھی قوت ہے ایک طاقت ہے یہ بھی کر دو سب شامل ہے اس میں وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ اور پلے ہوئے گھوڑوں کا خصوصی طور پر قوت یہ بھی قوت میں شامل ہے لیکن پلے ہوئے گھوڑوں کا خصوصی طور ہر ذکر فرمایا کہ اس زمانے میں جس زمانے میں لوگ اس آیت کو سن رہے تھے آیت کے جو مخاطبین اول ہے ان کو مخاطبین اول کہتے ہیں نا عصر قرآن کے لوگوں کو قیامت تک آنے والے سب لوگ مخاطب ہے لیکن قرآن نزول قرآن کے معاصر لوگوں کو مخاطبین اول کہتے ہیں بات تو وہی چلنا ہے مخاطبین اول سے چلنا ہے قیامت تک کے لوگوں کیلئے لہذا کوئی ایسی بات تو نہیں ہوسکتی کہ مخاطبین اول کیلئے بالکل نامفہوم سی بات رہے، ان کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آئے آگے بات بڑھ نہیں سکتی اس لئے مخاطبین اول کے زمانے کی باتیں ہوتی ہے اور پھر بعد میں آنے والے مخاطبین اسی سے بات کو سمجھ لیتے ہیں مثلاً ہم لوگ ہے ہم سمجھتے ہیں رِبَاطِ الْخَيْلِ جی سے مراد ایک مواصلاتی طاقت ہے مِنْ قُوَّةٍ مواصلاتی طاقت کہ گھوڑوں کا کام جو ہے وہ سامان حرب میں گھوڑے کا کام کیا ہوتا ہے مواصلات اور کہ پہنچنے کیلئے جانے کیلئے، لشکر کو فراہم کرنے کیلئے اور پھر گھوڑے کے اوپر بیٹھ کرکے جب لڑتے ہیں تو دشمن کی طرف لپکنے کیلئے وہ آج کل ٹینکوں میں بیٹھ کر لپکتے ہیں گھوڑوں کے اوپر بیٹھ کرکے تو نہیں ہوسکتا جی یہاں ہم یہ مراد لینے میں ہم حق بجانب ہونگے رِبَاطِ الْخَيْلِ سے مراد مواصلات، حربی مواصلات، حربی مواصلات مراد ہے جسے آپ سامان حرب یا لڑنے والے لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرسکتے ہیں یا لڑائی میں دشمن پر لپک کرکے حملہ کرسکتے ہیں وہ سب رِبَاطِ الْخَيْلِ میں شامل ہے، تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ یہ جو أَعِدُّوا ہے سامان حرب تیار رکھو، سامان حرب تیار رکھنے کا مقصد فلسفہ بتا دیا کہ اس کے لئے سامان حرب کے تیار کرنے کیلئے ضروری نہیں ہے کہ جنگ ہورہی ہو جی لڑائی ہو تو آپ سامان حرب تیار کرے اور لڑائی نہ ہو تو پھر سامان حرب تیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے ایسا نہیں ہوتا، عسکری قوانین میں عسکری قانون میں عسکری دنیا میں سامان حرب کا وجود بھی ایک دفاع ہے، استعمال صرف دفاع نہیں ہے سامان حرب کا استعمال دفاع نہیں ہے قرآن کی اس آیت کی رو سے بھی اور عملاً ہم اس دنیا میں دیکھ بھی رہے ہیں کہ سامان حرب کا وجود بھی ایک دفاعی طاقت ہے استعمال کی نوبت آنا ضروری نہیں ہے یہ نقطہ ہم کہا سے سمجھیں گے تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ کہ تم اس سامان سے خوفزدہ کرو گے اللہ اور اپنے دشمن کو، خوفزدہ کریں گے کہ وہ تم پر حملہ کرنے کی جسارت نہ کرے دیکھیں نا یہ دشمن جو ہے آپ کے اوپر حملہ کرنے کی جسارت کرنے سے پہلے ہی دشمن کو خوفزدہ کیا جا سکتا ہے سامان حرب کی بھر پور تیاری سے یہ دفاع ہوگیا لہذا یہاں یہ نہیں فرمایا تَقْتَلُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ، تُقَاتِلُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ، تُھَلِکُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ نہیں کہا، بلکہ تُرْهِبُونَ کہا خوفزدہ کرنا جی یہ خوفزدہ کرنے سے آپ کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے لڑائی کی نوبت نہیں آئے گی لہذا سامان حرب کی افادیت جو ہے صرف جنگ مسلط ہونے کی صورت میں نہیں ہے حالت امن میں بھی آپ کے پاس سامان حرب کا ہونا ضروری ہے عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ یہاں عَدُوَّ اللَّهِ کہنا کافی ہوتا ہے چونکہ اللہ کا دشمن جو ہے وہ عَدُوَّكُمْ بھی ہوتا ہے، تمہارا بھی دشمن ہوتا ہے یہ صرف لوگوں کو ذہنوں میں بات واضح کرنے کیلئے کہ ہوسکتا ہے عَدُوَّ اللَّهِ کہنے میں تشخیص کرنا مشکل ہوجائے لوگوں کیلئے عَدُوَّكُمْ بھی آگیا تو کہا جی تمہارا دشمن اللہ کا دشمن ہے مسلمانوں کا دشمن اللہ کا دشمن ہے تمہارا قومی و ملی دشمن جو ہے وہ اللہ کا دشمن ہوتا ہے اس بات کی وضاحت کیلئے عَدُوَّكُمْ اضافہ کردیا وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ یہ جو تمہارے سامنے عَدُوَّ اللَّهِ اور عَدُوَّكُمْ ہے صرف تمہاری نگاہ جب عسکری ساز و سامان تیار کرنے لگتے ہو تو پھر تمہاری نگاہ دشمن کی موجودہ طاقت پر مرکوز نہیں رہنا چائیے صرف،یہ بہت اہم نقطہ ہے حربی اعتبار سے کہ دشمن کی موجودہ طاقت کا لحاظ کرکے اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش نہ کرو، جی وَآخَرِينَ اس دشمن کے پیچھے اور بھی دشمن آتے ہیں آئیں گے یہ ایک قوم تمہارا دشمن ہے آج کوئی دوسری قوم بھی تمہارا دشمن آگے آسکتی ہے تمہاری جو موجودہ دشمن ہے اس موجودہ دشمن کے ساتھ اور دشمن جو ہے وہ ان کا دست و بازو بن سکتے ہیں جی اس کیلئے کیا کرو گے تم نے صرف جو تمہارے سامنے ہیں اس وقت جو دشمن ہے اس کے ساتھ نبرد آزما ہو اسی کو نظر میں رکھا کل دوسری قومیں بھی اسی کے ساتھ تمہارے خلاف معاہدہ کیا تو کیا کرو گے مثلاً عصر ماب کی مثال دیتا ہے ہیں صرف مشرکین کو نظر میں نہ رکھو مشرکین کے ساتھ یہود بھی آ گئے تو کیا کرو گے جی یہ بھی نظر میں رکھو وَآخَرِينَ دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ ملحق ہو سکتے ہیں لہذا موجودہ عسکری طاقت کے ساتھ تمہارا پاس ریزیرو (reserve) فوج بھی ہونا چائیے جو آج کل عسکری اعتبار سے واضح سی بات ہوتی ہے کہ ریزیرو (reserve) طاقت بھی ہر قوم رکھتی ہے لیکن اس کا درس ہم کو قرآن سے بھی ملتا ہے وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ ان موجودہ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ کے علاوہ اور لوگ بھی تمہارے سامنے آ سکتے ہیں دشمن بن کر لَا تَعْلَمُونَهُمُ ان کو تم اس وقت نہیں جانتے، پوچھو نہیں وہ کون ہے ہمارا تو دشمن مشرکین ہے اور کون ہو سکتے ہیں لَا تَعْلَمُونَهُمُ تم نہیں ان کو جانتے، پھر کہ سکتے ہیں ہاں ہاں ہوسکتا ہے دشمن سے مراد یہود ہو وہ بھی سمجھ سکے، پھر بھی لَا تَعْلَمُونَهُمُ جی اگر تم مشرکین کے ساتھ یہود کو ملاتے ہو تو آخَرِينَ وہ تمہارا فیفتھ کالم جو ہے وہ اپنے ہی صفوں کے اندر سے تمہارے لئے دشمن جو ہے وجود میں آ سکتا ہے منافقین کی صورت میں یا دوسرے لوگ رومی وغیرہ جو اسلام کے خلاف جو ہے وہ اٹھ کھڑے ہوگئے تھے وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ان کو ان دشمنوں کو اللہ جانتا ہے ان کے لئے بھی تیاری کرو جو تمہارے سامنے نہیں ہے ابھی دشمن آگے آنے والے دشمنوں کو بھی مرعوب کر سکوں اتنی حربی طاقت تمہارے پاس ہونی چائیے کہ موجودہ دشمن بھی مرعوب ہوجائے آپ سے اور ان کے ساتھ کوئی اور قوم بھی آپ کے مقابلے کے لئے آنے کی جرت نہ کرے اتنی ساز و سامان اور طاقت آپ کے پاس ہونا چائیے، ظاہر ہے کہ سامان حرب کیلئے مال چائیے پیسہ چائیے اوپر وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ، مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ میں مالی طاقت مالی قوت افرادی طاقت سب شامل ہے تاہم رِبَاطِ الْخَيْلِ کا خصوصی ذکر کیا اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے جنگی، حربی دنیا میں اور مال اور دولت کو بھی بنیادی کردار حاصل ہے اس لئے خصوصی طور پر ذکر فرمایا وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِخاص طور پر جہاد کے لئے خرچ کرنے کو خصوصی طور پر اہمیت دیتے ہوئے فرمایا کہ جو کچھ تم راہ خدا میں خرچ کرو گے فی سبیل اللہ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وہ تم کو پورا پورا دیا جائے گا يُوَفّ پورا دینا وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا تم نے ایک روپیہ دے دیا تو اس کے عوض میں ہم ایک روپیہ واپس نہ کرے، اگر راہ خدا میں کسی نے ایک روپیہ دے دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس عوض میں ایک ہی روپیہ واپس کیا يُوَفّ ہوگیا، پورا ہوگیا جی ظلم نہیں ہوا جبکہ ایسا بھی نہیں ہے، آپ پڑھ چکے ہیں قرآن میں کہ اگر راہ خدا میں ایک روپیہ کوئی دیتا ہے تو اس کے عوض میں اللہ تعالیٰ عمومی طور پر تو ارشاد ہوتا ہے جو ایک نیکی کرتا ہے اس کیلئے اس جیسی دس نیکیوں کا ثواب لیکن مالی انفاق میں چونکہ مال انسان کی کمزوری ہے اس کیلئے بہت زیادہ ثواب اللہ تعالیٰ نے متعین کر رکھا ہے ایک کے بدلے میں سات سو يُوَفّ سے بھی اوپر جی سات سو اللہ تعالیٰ عنایت فرماتا ہے بلکہ فرمایا وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ خدا جس کی چاہتا ہے رزق کو بھی دگنا کرتا ہے چودہ سو ہوگئے،ایک کے عوض میں اللہ تعالیٰ چودہ سو عنایت فرماتا ہے انفاق میں تو ایک کے مقابلے میں ایک بھی دیا جائے يُوَفّ ہو جاتا ہے اور ظلم نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ اس جگہ چودہ سو تک جی ایک کے مقابلے میں عنایت فرما سکتا ہے ہوسکتا ہے وہ چودہ سو کی جگہ لِمَنْ يَشَاءُ خدا جس کیلئے چاہتا ہے اس کو دگنا کر دیتا ہے سات سو کو دگنا کر دیتا ہے کے مقامات میں سے ایک مقام راہ جہاد ہو سکتا ہے جی اگر راہ جہاد میں انسان ایک روپیہ خرچ کرتا ہے باقی جگہوں پر ایک روپیہ خرچ کرتا ہے سات سو لیکن راہ جہاد فی سبیل اللہ کے سلسلے میں اگر کوئی پیسہ خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو دگنا کر دے جس طرح ایک شخص زیادہ خلوص کے ساتھ خرچ کرتا ہے اللہ دگنا کرتا ہے اسی طرح مسرف زیادہ اہم ہونے کے اعتبار سے بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ثواب دگنا کرے۔