تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 5 - 6

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

کَمَاۤ اَخۡرَجَکَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَیۡتِکَ بِالۡحَقِّ ۪ وَ اِنَّ فَرِیۡقًا مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ لَکٰرِہُوۡنَ
یہ آیت جنگ بدر کے بارے میں نازل ہوئی، ارشاد فرمایا انفال کے بارے میں لوگوں کی کراہت یا لوگوں کا ناراض ہونا، جب انفال کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں سے لے کر کے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ میں دے دیا تو کچھ لوگ خوش ہوئے کچھ لوگ نا خوش ہوئے، جن کے ہاتھ سے واپس لے لیا وہ لوگ قدرتی بات ہے۔
نا خوش ہوگئے بالکل اسی طرح جنگ بدر کے لئے جب آپ نکلے تو صورت حال بالکل اسی طرح تھی کچھ لوگ نا خوش تھے کَمَاۤ اَخۡرَجَکَ کما اس طرح ہے جس طرح انفال میں کچھ لوگ ناخوش تھے اسی طرح جب آپ کے رب نے آپ کو گھر سے نکالا جنگ کے لئے تو اس وقت بھی کچھ لوگ نا خوش تھے وَ اِنَّ فَرِیۡقًا مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ لَکٰرِہُوۡنَ کما سمجھا رہا ہوں آپ کو کَمَاۤ اَخۡرَجَکَ جنگ بدر، سن 2 ہجری میں واقع ہوئی۔
جنگ بدر کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب ہجرت فرمائی مکہ سے مدینہ کی طرف وہ کفار مکہ مدینہ کے مسلمانوں کو مکہ نہیں آنے دیتے تھے جواب میں مسلمان کفار قریش کا راستہ روکتے تھے جب یہ تجارت کے لئے شام کی طرف جاتے تھے۔ شامی تجارت ان کے لئے مکہ والوں کے اقتصادی زندگی کے لئے اہم ترین چیز تھی اس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتے تھے شامی تجارت کے بغیر۔ شامی تجارت کے آنے جانے کا راستہ مدینہ سے گزرتا تھا اور کوئی راستہ نہ تھا مسلمانوں کے زد میں ان کا قافلہ ہمیشہ ہوتا تھا۔ کبھی کبھار چھوٹا موٹا واقعہ بھی پیش آتا آتے ہوئے جاتے ہوئے۔ وہ لوگ جب کسی مسلمانوں کو دھمکی دیتے مکہ جانے کے بعد تو مسلمان جواب میں یہ دھمکی دیتے کہ تم کیسے جاو گے شام؟ اس قسم کا ایک سلسلہ چل رہا تھا دونوں میں۔
سن 2 ہجری میں شام سے ایک بہت بڑا قافلہ واپس آ رہا تھا ابو سفیان کی سر براہی میں اس قافلہ کو جاتے ہوئے کوئی واقعہ پیش آیا تھا ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کے، وہ علاقہ مسلمانوں کے زد میں آتا تھا ان میں چھوٹا موٹا واقعہ پیش آیا تھا ابو سفیان کو شام جاتے ہوئے۔ واپسی پر ابو سفیان کو بڑا خطرہ تھا قافلہ بھی بہت بڑا تھا مال بھی بہت بڑا تھا۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ وہ پچاس ہزار اشرفی کا مال تھا اشرفی قیمتی چیز ہے اس زمانے میں۔ پچاس ہزار اشرفی ایک چھوٹے سے شہر مکہ کے لوگوں کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا ہے بہت بڑا اہم واقعہ ہے اس قافلہ کا صحیح سلامت مکہ واپس پہنچنا ان کے لئے۔ ابو سفیان کو خطرہ تھا کہ یہ علاقہ مکہ مدینہ کے زد سے، مسلمانوں کے زد سے گزرنا ہی ہے یہاں ہم پر حملہ ہوجائے اس علاقہ میں پہنچتے ہی ابو سفیان نے ایک آدمی بھیجا مکہ۔ اور اس آدمی نے مکہ پہنچ کر کے چیخنا اور فریاد کرنا شروع کر دیا ان کے اپنے رسم و راج ہے وہ ادا کیا پھر چیخا اللطیمۃ اللطیمۃ کی آواز دی اور ہمارا قافلہ جو ہے وہ شام سے واپس آ رہا ہے کہ محمد کا لشکر اس کے اوپر حملہ آور ہونا چاہتا ہے یہ بات اس نے اڑا دی۔ اس پر قریش کا لشکر تیار ہو جاتا ہے لشکر اسلام سے جنگ کرنے کے لے۔ ادھر خبر ملتی مدینے میں کہ وہ نکلے ہیں مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے ادھر مسلمانوں کے لئے دو راستے ہیں یا تو شام سے آنے والا جو قافلہ ہے اس کے اوپر حملہ کرے اور مال لوٹ لیں اس قافلہ کے محافظ صرف چالیس افراد تھے یا تو لشکر قریش کا مقابلہ کرے لشکر قریش کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہ تھی۔ بہر حال ادھر یہ بات واضح نہیں کی کہ مسلمانوں نے کس کا مقابلہ کرنا ہے قافلہ کا مقابلہ کرنا ہے مال لوٹنا ہے پر کشش بات ہے بہت پر کشش ہے بڑا مال ہے، لشکر قریش کا مقابلہ کرنا ہے پر خطر بات ہے ایک گروہ پر خطر ہے اور دوسرا پر کشش۔ ان دونوں میں ڈال دیا اور معین نہیں کیا کہ کیا کرنا ہے کس طرف جانا ہے پر خطر میں جانا ہے یا پر کشش میں جانا ہے۔ درمیان میں رکھا اس لئے آگے بھی آیات کا اشارہ آتا ہے اس بات کی طرف کہ کیوں ان کو صورت حال نہیں بتائی تھی پہلے سے؟ واضح کیوں نہیں کیا؟ واضح کرنا مصلحت میں نہیں تھا کہ اگر واضح کرتے کہ لشکر قریش کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے تو اختلاف ہو جاتا ہے بد دلی پھیل جاتی اور شکست کھا جانا تھا وہ پر کشش چیز کا امکان بر قرار رکھا اور چلا آیا۔
بالآخرہ جب آخری مرحلہ میں پہنچتا ہے تو اس وقت رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فیصلہ آخری سنایا کہ ہم نے، پہلے مشورہ لیا لوگوں سے، اصحاب سے مشورہ لیا۔ اس میں اصحاب بھی ہیں یعنی انصار بھی ہیں مہاجرین دونوں سے مشورہ لیا تو کچھ لوگوں نے تو رائے دی کہ لشکر قریش سے تو ہمارا مقابلہ نہیں ہو سکتا ہم کو قافلہ کے اوپر حملہ کر کے مال لوٹنا چاہیے جواب مل گیا۔ اس کے باوجود پوچھا اور کوئی کیا فرماتا ہے؟ کسی کی طرف سے کوئی اور مشورہ؟ انصار کی طرف رخ کیا انصار میں سے ایک نے اٹھ کر کے کہا کہ مراد آپ کی انصار ہے کہ انصار اپنی رائے دے؟ ہاں فرمایا انصار اپنی رائے دے۔
ہماری رائے یہ ہے کہ آپ جو حکم کریں ہم اس پہ راضی ہے۔ اس پر مہاجرین میں سے مقداد کھڑے ہوجاتے ہیں مقداد وہ بھی انصار کی طرح بات کرتے ہیں آپ جو حکم دے دیں ہم اس کے اوپر عمل کرنے کیلئے حاضر ہیں۔ خطبہ حضرت زہراء علیہا السلام میں آپ نے مطالعہ کیا ہوگا نہیں تو ضرور مطالعہ کریں کہ انصار سے ایک خطاب کر کے ارشاد فرمایا تھا کہ انصار تمہاری بہت ساری قربانیاں ہیں تمہاری وجہ سے لشکر اسلام کو دشمن کا مقابلہ کرنا ممکن ہوا و غیر وغیرہ۔ انصار کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے ہمیشہ ہر جنگ میں۔ بالآخرہ رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فیصلہ دے دیا اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہم نے لشکر قریش کا مقابلہ کرنا ہے جب فیصلہ دے دیا تو مسلمانوں کی حالت غیر ہوگئی، مسلمانوں میں سے کچھ کی حالت غیر ہوگئی اس لئے کہ وہ کفار قریش کا لشکر جو ہے وہ ایک ہزار افراد پر مشتمل ہے ایک ہزار جنگجو ہیں ان کے ساتھ سات سو زرہ پوش ہیں اور ایک سو گھوڑوں کا ایک رسالہ ساتھ ہیں، تلوار سب کے پاس یہاں اسلامی لشکر 313 پر مشتمل ہیں صرف ساٹھ زرہ پوش ہے دو گھوڑے ہیں صرف۔ سو گھوڑوں کے مقابلے میں صرف دو گھوڑے ہیں۔ آمنا سامنا ہوتا ہے جنگ کا پورا واقعہ نہیں سنانا چاہتا یہاں پر صرف منظر سامنے لانا چاہتا ہوں کہ کن حالات میں یہ جنگ لڑی گئی اور مسلمانوں کو ان دونوں میں سے کسی ایک کے غیر یقینی صورت حال میں رکھا گیا بالآخرہ جنگ ہوجاتی ہے فتح مسلمانوں کی ہوجاتی ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید غیبی ہو جاتی ہے مسلمان جو ہے وہ ریت کے علاقوں میں تھے اور کافر سخت زمیں کی طرف تھے ان کے لئے چلنے پھرنے میں آسانی تھی مسلمانوں کے لئے ریت میں دھنس جاتے تھے پھنس جاتے ہیں رات کو ہوجاتی ہے بارش، بارش سے وہ ریتلی زمین جو ہے وہ سخت ہوگئی اور اس طرف زمین وہ کیچڑ میں ان کے لئے مشکل ہو گیا، صورت حال بدل گئی۔ صبح اٹھتے ہیں تو مسلمان جو ہیں وہ بہت زبردست، نوید فتح بھی سنائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا کہ ایک آیت ہے آگے وَ اِذۡ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحۡدَی الطَّآئِفَتَیۡنِ اَنَّہَا لَکُمۡ خدا کی طرف سے وعدہ ہے پہلے یہ وعدہ دے دیا تھا پہلے وعدہ دیا تھا اِحۡدَی الطَّآئِفَتَیۡنِ دو گروہ میں سے ایک گروہ تمہارا ہاتھ لگے گا یا تجارتی قافلہ تمہارا ہاتھ لگے گا یا یہ جنگجو قافلہ جو لشکر ہے یہ تمہارے ہاتھ لگے گا فتح کی نصرت ہے نوید نصرت سنائی گئی۔ نوید نصرت سنائی گئی اور اس پر تو یقین آنا چاہیے تھا نا اطمینان آنا چاہیے تھا لیکن اطمینان نہیں آیا۔
قابل مطالعہ بات یہ ہے کہ اصحاب بدر، بدریوں کا ایک مقام ہے اس کے باوجود آخر انسان ہے بشر ہے حالات بھی نہایت نا مساعد اور قریب العہد بالاسلام، ابھی تازہ تازہ مسلمان ہوئے ہیں تو کچھ لوگوں کا کمزور ایمان ہونا قدرتی بات ہے اور کچھ لوگوں نے کمزوری دکھائی چنانچہ اس آیت میں صراحت موجود ہے کَمَاۤ اَخۡرَجَکَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَیۡتِکَ بِالۡحَقِّ ۪ وَ اِنَّ فَرِیۡقًا مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ لَکٰرِہُوۡنَ مومنین میں سے مومن کہا ہے ان کو غیر مومن نہیں، مومنین میں سے اہل ایمان میں سے ایک گروہ جو ہے وہ کراہت کر رہے تھے سخت نالاں تھے گراں گزر رہا تھا کہ کیوں ہم جنگ کی طرف لے جا رہے ہیں، صرف کراہت نہیں بلکہ آگے ایک اور تعبیر ہے وہ واقعاً عجیب تعبیر ہے خصوصاً اہل بدر کے ہوتے ہوئے اہل بدر بہت بڑا مقام رکھتے ہیں اس کے باوجود بیُجَادِلُوۡنَکَ فِی الۡحَقِّ بَعۡدَ مَا تَبَیَّنَ حق واضح ہونے کے بعد، حق سے مراد فتح نصرت ہے، کامیابی ہے۔
فتح و نصرت کے بارے میں اس جنگ کے بارے میں اس لڑائی کے بارے میں یہ لوگ آپ سے الجھتے ہیں بَعۡدَ مَا تَبَیَّنَ واضح ہو جانے کے بعد، فتح و نصرت کی نوید سنائے جانے کے بعد بھی آپ سے الجھ رہے ہیں یہ بہت بڑی بات ہے کَاَنَّمَا یُسَاقُوۡنَ اِلَی الۡمَوۡتِ وَ ہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ یہ ایسے لگ رہے ہیں کہ یہ لوگ موت کی طرف چلائے جا رہے ہیں۔ یہ لہجہ کہ آپ سے یہ لوگ حق کے بارے میں مجادلہ کرتے ہیں یہ لفظ یُجَادِلُوۡنَکَ فِی الۡحَقِّ یہ لفظ یُجَادِلُ استعمال ہوا کرتے ہیں ہمیشہ مشرکین کے ساتھ یا اہل کتاب کے ساتھ، یہ آپ کے ساتھ الجھتے ہیں یہ لب و لہجہ مسلمانوں کے آپس کا لب و لہجہ لگتا نہیں ہے۔ صاحب المنار نے بھی یہاں پر لکھا ہے کہ یہ لب و لہجہ ایسا لگتا ہے کہ جیسا مشرکین کے ساتھ بات ہو رہی ہے مسلمانوں کے ساتھ بات نہیں ہو رہی ہے وہ کہتے ہیں: وھی بھم الیق لیکن اس کے با وجود بعد میں کہتے ہیں اور حقیقت بھی ایسا ہے کہ یہ مشرکین کے ساتھ نہیں ہے خود مومنین کے ساتھ کچھ ضعیف الایمان کمزور دل لوگوں کی طرف اشارہ ہے البتہ سب لوگ ایسے نہیں تھے جیسا کہ جواب اور سوال میں پہلے پتہ چلا تھا کَاَنَّمَا یُسَاقُوۡنَ اِلَی الۡمَوۡتِ گویا کہ وہ موت کی طرف چلائے جا رہے ہیں وَ ہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ کہ وہ موت کو دیکھ رہے ہیں یہ سامنے موجود موت ہے اور اس کی طرف لے جا رہے ہیں ایسا لگتا تھا۔
آگے فرمایا وَ اِذۡ اور وہ وقت بھی یاد کرو یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اللہ نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا ہے اِحۡدَی الطَّآئِفَتَیۡنِ دوگروہوں میں سے ایک کا، کہ دو گروہ میں سے ایک تمہارے ہاتھ لگے گا اَنَّہَا لَکُمۡ تمہارا ہاتھ لگے گا وَ تَوَدُّوۡنَ اَنَّ غَیۡرَ ذَاتِ الشَّوۡکَۃِ تَکُوۡنُ لَکُمۡ تمہاری یہ خواہش تھی کہ وہ غیر مسلح،شوکت اسلحہ اور لاو و لشکر کو کہتے ہیں، غیر مسلح گروہ کی طرف جانے کی خواہش تھی تمہاری اس طرف تو مال و دولت ہے اور یہاں جان کا خطرہ ہے۔ مال و دولت اور جان کا خطرہ بڑا فرق ہے۔ کون چاہتا ہے کہ مال و دولت کو چھوڑ کر جان کے خطرے کی خطرے کی طرف جائے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان کے اعلی درجے پر فائز ہیں یا رسول کی نوید کے اوپر قطعی یقین آتا ہے ان کو تو خطرہ نہیں ہونا چاہیے نا لیکن کچھ ضعیف الایمان لوگ تھے جن کو قطعی یقین نہیں آتا ہے بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کس طرح فتح حاصل کریں گے یہ ہماری حالت ہے یہ ان کی پاحالت ہے وَ تَوَدُّوۡنَ اور تم چاہتے تھے ان غیر ذات الشوکہ جو غیر مسلح قافلہ ہے تَکُوۡنُ لَکُمۡ وہ تمہارے ہاتھ لگے وَ یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّحِقَّ الۡحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ اور اللہ جو ہے اپنے فیصلہ سے حق کا ثبات چاہتا تھا وَ یَقۡطَعَ دَابِرَ الۡکٰفِرِیۡنَ کافروں کی جڑ کاٹ دینا چاہتا تھا۔ اب اسلام کی یہاں پر حکمت جو اللہ تعالیٰ نے اختیار کیا اپنے رسول کو حکم دیا وہ یہ ہے کہ قافلہ کے اوپر حملہ کرنا چالیس افراد ہے بہت آسان کام تھا اور مال و دولت بھی کافی ہاتھ آ جاتا اور یہاں غربت بھی تھوڑی سی کم ہوجاتی اسلحہ خریدتے کافر سے آئندہ لڑنے کے لئے اور اس بے سرو سامانی میں جب آپ کے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور اس طرح لوگ کہہ بھی رہے تھے کہ ان کو اپنے دین نے دھوکہ دیا ہے اور یہ موت کی طرف جا رہے ہیں بے وقوف لوگ۔ یہ کوئی لڑائی ہے یہ کوئی مقابلہ ہے وہ کہاں اور ہم کہاں۔ ان حالات میں ایک حکمت عملی یہ اختیار کی گئی کہ پہلے فیصلہ نہیں کیا، فیصلہ بہت بعد میں کیا آخری مرحلہ میں گیا دوسری بات جو ہے وہ لڑائی کا فیصلہ کیا قافلہ میں مال لوٹنے کا فیصلہ نہیں کیا مال لوٹ جاتا وہ لو گ چلے جاتے مال چھوڑ چھاڑ کر وہ چلے جاتے اور پھر مکمل تیاری کے ساتھ مسلمانوں کا مقابلہ کرتے جنگ لڑتے اور مسلمان جو ہے وہ اچھی حالت میں نہیں تھے؛ ایک طرف تو یہی مشرکین مکہ نہایت ہی طاقت میں ہے اور دوسری طرف مشرکین جو آس پاس مدینہ کے گرد و نواح میں جو قبائل ہیں سب کے سب مشرک ہیں ابھی مسلمان نہیں ہوئے وہ لوگ صرف مدینہ میں مسلمان ہیں مدینہ سے ہٹ کے آس پاس کے قبائل میں کوئی مسلمان نہیں۔
تیسری بات خود مدینہ کے اندر یہود وہ مشرکین کے ساتھ ہیں اندر سے تو مسلمانوں کے پاس جنگ لڑنے کی کوئی حالت نہیں تھی کہ وہ قریش والوں کا مقابلہ کریں اور پوری تیاری کے ساتھ وہ آئے اور مسلمانوں سے لڑے۔ بہتر ہے ابھی اسی وقت ان کی جڑ کاٹ دی جائے ان کی جڑ جو ہے وہ ابو جہل وہاں پر لشکر کا سردار تھا اور جنگ لڑنے سے پہلے سبحان اللہ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا انتظام ہو گیا کہ جنگ لڑنے سے پہلے رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پیغام امن بھیجا، اتمام حجت کے لئے ابو جہل بضد ہوگئے اس سے پہلے عاتکہ بنت عبدالمطلب نے ایک خواب بھی دیکھا تھا مکہ میں اور خواب میں دیکھا کہ ایک پتھر آ رہا ہے اور وہ پتھر فضا میں پھٹ جاتا ہے اور پھر مکہ کے ہر گھر میں کوئی نہ کوئی پتھر گرتا ہے کوئی گھر نہیں بجتا۔ عاتکہ نے وہ خواب بیان کیا تو سب لو گ پریشان ہوگئے ابو جہل سے کہا مت جاو یہ لڑائی جو ہے اس خواب کی روشنی میں تمہاری فتح نہیں ہے تمہاری شکت ہوگی مت جاو۔ اس نے کہا یہ بنی ہاشم کا جھوٹ ہے یہ عاتکہ بنت عبدالمطلب کا خواب غلط۔ میں جاتا ہوں اور اگر ہماری فتح ہوگئی تو ہم یہ کریں گے وہ کریں گے اور لوگوں میں اعلان کریں گے بنی ہاشم والے وہ سب کے سب جھوٹے ہوتے ہیں دیکھو جیسے عاتکہ کے خواب جھوٹ ثابت ہوا۔ یہ کہہ کے ناز و نخرے میں ابو جہل نکلتا ہے اور عاتکہ کے خواب بھی سچا ثابت ہوتا ہے رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی فتح و نصرت کی جو نوید ہے وہ بھی صحیح ثابت ہوتی ہے اور ابو جہل مارا جاتا ہے۔ اس جنگ میں اور صنادید قریش، قریش کے جو بڑے بڑے لوگ ہیں وہ سب مارے جاتے ہیں ستر افراد مارے گئے۔ ستر افراد آگے واقعات بھی آتے ہیں ستر افراد ان کے مارے گئے اور ستر کے قریب جو ہے وہ ان کے اسیر ہوگئے اور باقی بھاگ گئے۔ چند ایک مٹھی بھر بے سر و سامان مسلمانوں کے مقابلے میں وہ لوگ بھاگ گئے۔ چنانچہ مسلمانوں کے لئے یہ جنگ انتہائی تقدیر ساز جنگ تھی۔ اس جنگ سے پہلے مسلمانوں کا وجود قابل اعتنا نہیں سمجھا جاتا تھا اور اس جنگ کے بعد مسلمانوں کا وجود جو ہے وہ ثابت ہوگیا، ان کا وجود جو ہے ماننے لگ گئے اور اسلام کی فتح و نصرت کی ابتدائی اینٹ ہے جنگ بدر۔ نہایت اہم جنگ ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو اسلام کو فتح و نصرت سے نوازا۔ آگے متعدد آیات ہیں ابھی سلسلہ آیتوں کا چل رہا ہے اس میں ہم آپ کو بتائیں گے کہ فتح و نصرت میں کن کن عوامل کا اس میں دخل تھا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید غیبی آئی۔ تائید غیبی جو ہے وہ کن حالات میں آتی ہے۔ فرشتے نازل ہوئے مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کے لئے اور فرشتوں میں سے کس نے کس کو قتل کیا؟ یہ نہیں معلوم فرشتوں کے نزول کا کیا مطلب ہے یہ ساری باتیں آئندہ مختلف آیات کی تشریح میں ان شاء اللہ ہم آپ کو بتائیں گے۔