تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 1 - 2

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ ؕ قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَصۡلِحُوۡا ذَاتَ بَیۡنِکُمۡ ۪ وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ
سورہ انفال آیت 1: لوگ آپ سے انفال کے بارے میں سوال کرے ہیں کہہ دیجئیے انفال اللہ اور اس کے رسول کا مال ہے۔
یہ آیت نازل ہوئی جنگ بدر کے موقع پر، اسلام کی سب سے پہلی جنگ اور تقدیر ساز جنگ۔ اس سے پہلے اسلامی نظام کے تحت کوئی جنگ لڑی نہیں گئی تھی۔ پہلا تجربہ تھا مسلمانوں کے لئے اس وجہ سے جنگ ختم ہونے کے بعد جو غنیمت ہاتھ لگی اس کے بارے میں بدریین میں اختلاف ہو گیا، اصحاب بدر، بدر میں جن لوگوں نے شرکت کی ان کا ایک خاص مقام ہوتا ہے، خاص فضیلت کے مالک ہوتے ہیں بدریوں۔ تاہم تجربہ پہلا تھا اس وجہ سے جو غنیمت ہاتھ لگی اس کے سلسلے میں اختلاف ہوگیا؛ اختلاف اس شکل میں ہو گیا کہ جاہلی زمانے میں یہ رواج تھا کہ جو جس کو قتل کرتا اس کی تلوار اس کا زرہ اس کے ساتھ جو سامان ہے اس کے جسم پر جسے وہ صلیب کہتے ہیں وہ اسی قتل کرنے والے کا مال ہوتا ہے تو بدر کے مجاہدین کا ایک گروپ قتل میں مصروف، ایک گروہ دشمن کو بھگانے میں مصروف، ایک گروہ رسالت مآب کی حفاظت میں مصروف، لیکن جنگی غنائم ان لوگوں کے ہاتھ میں آگیا جنہوں نے براہ راست دشمن کو قتل کیا ان کے ہاتھ میں آگیا اور جاہلی زمانے کے مطابق جو جس کے ہاتھ میں آگیا وہی اس کا مالک ہوتا ہے دوسرے لوگوں نے کہا کہ ہم لوگوں نے بھی کام کیا ہے ہم نے دشمن کو نہ بھگایا ہوتا تو یہ فتح جو ہے وہ شکست میں بدل سکتی تھی ہم کو بھی حصہ ملنا چاہیے، دیگر لوگوں نے کہا کہ ہم نے رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی ہم کو بھی برابر حصہ ملنا چاہیے۔ قابض لوگوں نے کہا کہ قتل ہم نے کیا ہے اور دستور یہ ہے کہ جس نے قتل کیا ہے اور جس نے چھینا ہے صلیب اسلحہ یا باقی مال وغیرہ جس نے حاصل کیا ہے مال اسی کا ہوتا ہے ان کے قبضے میں آگیا وہ دوسروں کو دینے کے لئے حاضر نہیں۔
لہذا رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس مسئلہ آگیا اور کہا کہ جنگی غنائم کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ادھر تو اختلاف ہے اس پر یہ آیت نازل ہوتی ہے یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ لوگ آپ سے اس زائد مال کے بارے میں پوچھتے ہیں عجب! ہم تو صلیب کہتے تھے چھینا ہوا مال کہتے تھے یا غنیمت کہتے تھے اور بھی اصطلاح ہے عربوں میں۔ کہ یہ لفظ آگیا تازہ کہ زائد مال کے بارے میں، نفل کہتے ہیں زائد کو جو واجب سے زائد نمازیں ہیں اس کو بھی نفل کہتے ہیں۔ جو زائد مال ہے اس کے بارے میں لوگ آپ سے پوچھتے ہیں اس تعبیر میں جواب آگیا تقریباً سمجھنے والوں کے لئے کہ اس کو تو صلیب نہیں کہہ رہے، اس کو چھینا ہوا مال نہیں کہہ رہے اس کو غنیمت بھی نہیں کہہ رہے اس کو زائد مال، فالتو مال کہہ رہے ہیں کہ اصل میں اسلامی جنگوں کا غرض و غایت وہ مال و کشور کشائی تو نہیں ہوتی وہ اعلاء کلمہ حق ہوتا ہے اور کلمہ توحید کے سامنے آنے والے رکاوٹ کو دور کرنے کا نام جہاد ہے نہ مال غنیمت لوٹنے کا نام جہاد ہے نہ کشور کشائی کا نام جہاد ہے، راہ توحید میں آنے والے رکاوٹ کو دور کرنے کا نام جہاد ہے۔ اگر اس میں آپ کو ضمناً کوئی مال بھی مل گیا ہے تو اصل غرض و اصل غایت جو ہے اس سے زائد چیز ہے۔ انسان کے اصل غرض سے حصول اور عدم حصول میں نزاع ہو سکتا ہے کسی زائد چیز میں نزاع نہیں ہو سکتا تاہم یہ زائد چیز ہے تو بھی یہ للہ تمہارا مال نہیں ہے یہ اللہ کا مال ہے قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ یہ اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مال ہے تمہارا نہیں ہے جمع کرو ادھر، رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس دے دو۔ نہ لوگوں نے سلب کیا ہے جس کو سلیب کہتے ہیں نہ ان لوگوں کو ملے گا نہ دوسروں کو کسی کو بھی نہیں ملتا یہ اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مال ہے تمہارا مال سرے سے ہی نہیں اس سے حق ملکیت سلب کر لی۔
یہاں آیت کا شان نزول جنگ بدر ہے مسئلہ پیش آیا تھا جنگ بدر میں غنیمت کا مسئلہ پیش آیا تھا اس مناسبت سے صرف اس غنیمت کے بارے میں بات نہیں کی انفال کہہ کر غنیمت و غیر غنیمت بہت سی چیزوں کے بارے میں ابھی ہم آپ کو گن کے دیتے ہیں فقہ جعفریہ کے مسلک کے مطابق انفال کس کو کہتے ہیں، باقی مسلمانوں میں اختلاف ہے انفال کس کو کہتے ہیں۔
بعض لوگوں نے کہا کہ انفال غنیمت کو کہتے ہیں انفال کہہ دے غنیمت کہہ دے ایک ہی بات ہے۔
بعض لوگوں نے کہا کہ جو مشرکین سے کوئی کنیز کوئی غلام کوئی گھوڑا چھٹ کر کے آیا ہے اس کو انفال کہتے ہیں غنیمت کو نہیں کہتے غنیمت لڑنے والوں کا نام ہوتا ہے یہ چھٹ کر کے آگیا ہے کسی کافر کے جاتے ہوئے کوئی گھوڑا رہ گیا کوئی زرہ رہ گیا تھا کہیں اس قسم کے جو مال ہے اس کو زائد مال کہتے ہیں غنیمت سے زائد ہے اور یہ خدا و رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مال ہوتا ہے ورنہ یہ غنیمت نہیں ہے انفال، بعض لوگ کہتے ہیں۔ غنیمت نہیں ہے غنیمت تو اللہ و رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نہیں ہوتا ہے غنیمت تو لڑنے والوں کے لئے تقسیم کرنی ہوتی ہے اس میں تو کہا ہے کہ اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہے لڑنے والوں کا مال نہیں ہے تو لڑنے والوں کا مال جو ہے جو نہیں ہے وہ یہیں ہے جو مشرکین سے جو مال چھٹ کر کے رہ گیا ہے وہ اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہے انفال سے مراد یہ ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے۔
تیسرا نظریہ ہمارا نظریہ ہے ہمارا نظریہ ہمارے آئمہ عليهم‌السلام کی طرف سے جو روایت ہے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روایت ہے اس کی روشنی میں یہ ہے کہ انفال سے مراد جنگی غنیمت بھی ہے وہ بھی نفل میں ہے اس کا مالک خدا اور رسول ہے لوگ نہیں ہے لڑنے والے نہیں ہیں۔ خدا اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ملکیت میں آنے کے بعد پھر سہام کہتے ہیں یعنی شیئر، سہام کی تقسیم کا حکم آتا ہے کہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس مال کو اس طرح تقسیم کرو وہ بتایا ہے وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ خمس نکالو باقی چار جو ہے وہ حصے جو ہیں اس طرح غنیمت جو لڑنے والے ہوتے ہیں ان کو دے دو کون دے دے؟ رسول، رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بعنوان ولی امر مالک ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ انفال ریاست کی ملکیت کا ذکر ہے اسلامی ریاست کی ملکیت ہے قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ انفال اللہ اور رسول کی ملکیت ہے یعنی یہ اسلامی ریاست کی ملکیت ہے جس کو آج کل لوگ کہتے ہیں سٹیٹ پراپرٹی ہے لوگوں کا اس کے ساتھ حق نہیں ہے پھر اسلامی ریاست کی طرف سے لڑنے والوں کا اتنا ملے گا اور باقی لوگوں کو اتنا ملے گا وہ کس طرح تقسیم کرنا ہے وہ اس آیت میں بیان فرمایا وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ وہاں لفظ غنیمت استعمال کیا ہے چونکہ لوگوں میں تقسیم کرنا ہے ادھر انفال کہا ہے انفال کہہ دے غنیمت کہہ دے فئی کہہ دے، فئی تین تعبیر ہے یہاں پر؛ غنیمت، انفال، فئی۔ انفال کا ذکر یہاں آیا غنیمت کا ذکر وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ میں آیا ہے، فئی جو ہے وہ سورہ حشر میں تقریبا سورہ حشر میں ذکر آیا ہے وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡہُمۡ فَمَاۤ اَوۡجَفۡتُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ خَیۡلٍ وَّ لَا رِکَابٍ جس پر تم لوگوں نے گھوڑے نہیں دوڑائے اور اونٹ نہیں دوڑائے یعنی جنگ نہیں لڑی گئی بغیر جنگ کے کوئی چیز ہاتھ لگتی ہے وہ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی آمدنی بنائی دی ہے فاء یفی آمدنی کو کہتے ہیں واپس آنے کو کہتے ہیں۔ فئی کہتے ہیں۔ فئی ایک خاص خصوصی طور پر رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ملکیت ہے اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ بغیر جنگ کے جو مال ہاتھ آتا ہے وہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ملکیت ہے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بعنوان ولی امر ملکیت ہے۔ انفال بھی اسلامی ریاست کی ملکیت ہے البتہ بعض فئی ہیں جو رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعنوان شخص بھی مالک تھے بعنوان ولی امر نہیں بعنوان شخص بھی مالک تھے اس پر ہم کسی اور موقع کے اوپر آپ کو بتا دیں گے کہ ان دونوں میں فرق کیا ہے کہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شخصی ملکیت ہے یا بعنوان ولی امر ملکیت ہے۔ انفال بعنوان ولی امر رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مالک ہے اس کے انفال میں ہمارے نزدیک انفال میں غنیمت جنگی بھی شامل ہے فئی بھی شامل ہے اور معادن جو معدنیات نکالتے ہیں وہ بھی انفال میں شامل ہے اور غیر آباد زمینیں پہاڑ کی چوٹیاں جنگل جس مال کا کوئی وارث نہیں ہے بادشاہوں کے مال جو کسی بادشاہ کے شکت کھانے کی وجہ سے اس کے جو ذاتی جو املاک ہوتے ہیں بادشاہ کے وہ بھی اسلامی ریاست کا مال ہوتا ہے پھر اسلامی ریاست کے اختیار میں ہے کہ وہ طریقہ مال و دولت کے جو اسلامی طریقہ تقسیم جو وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ میں بتایا ہے اس طرح جو ہے اس میں سے پانچواں حصہ سادات اہل بیت عليهم‌السلام، ذوی القربی کا حق ہے البتہ اس میں بحث ہے ہم وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ میں تفصیلاً آپ کو بتائیں گے وہاں تقسیم کا ذکر ہے جہاں تقسیم کا ذکر ہے ہم بحث وہاں کے لئے چھوڑتے ہیں کونسا مال سٹیٹ کی ملکیت تھی کونسا مال رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذاتی ملکیت تھی۔ بہر حال یہاں پر انفال سے مراد ریاست کے املاک کا ذکر ہے یہ جنگی غنیمت بھی ریاستی املاک میں شامل ہے ریاستی املاک میں شامل ہوگیا رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے مالک بن گئے پھر اس کے بعد رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و کو حکم ہوا نہ یہ مالک ہے نہ وہ نہ لوٹنے والے مالک ہے نہ کافر کو بھگانے والے مالک نہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کرنے والے مالک ہے تم میں سے کوئی ایک بھی مالک نہیں ہے نزاع ختم ہو گیا جھگڑا ختم ہو گیا جب کوئی بھی مالک نہیں ہے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مالک ہوگئے۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قبضے میں آ گئے سارا مال پھر اس کے بعد تقسیم فرمایا سب میں۔ اسلامی ریاست کی ملکیت میں آنے کے بعد لوگوں میں تقسیم فرمایا اور اس سے مسئلہ حل ہوگیا۔
آگے فرمایا قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ اللہ سے ڈرو یعنی جھگڑا نہ کرو وَ اَصۡلِحُوۡا ذَاتَ بَیۡنِکُمۡ اپنے درمیان تعلقات مصالحانہ کرو اَصۡلِحُوۡا اصلاح کرو جھگڑا نہ کرو نزاع نہ کرو ذَاتَ بَیۡنِکُمۡ اپنے درمیان میں وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗۤ اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرو اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ اگر تم مومن ہو۔ بدری سے زیادہ مومن کون ہو سکتا ہے؟ سب سے بڑے ایمان کے اعلی درجے کے او پر فائز ہے وہ لوگ بدری لوگ ہیں۔
ایک مرتبہ رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بدری شہداء کے فضائل بیان کر رہے تھے کچھ اصحاب نے عرض کیا ہم بھی بدری ہیں، ہمارے بھی فضائل بیان فرمائے تو فرمایا: ما ادری ما تحدثوں بعدی وہ دوسری بات ہے لیکن بدریون کا ایک مقام ہے بدریون کی ایک فضیلت ہے تو اس میں فرمایا کہ اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرو یہ اطاعت کا مال مال دنیا کے مسئلہ میں اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرنا بہت دشوار ہوتا ہے لہذا خصوصی طور پر ارشاد فرمایا کہ اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرو اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ اگر تم مومن ہو۔ یہ بات بہت سنگین ہے اگر تم مومن ہو اگر تمہارے دلوں میں ایمان ہے تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اسی طرح مال فئی کے سلسلے میں ہے مال فئی کے سلسلے میں سورہ حشر میں جب یہ ارشاد ہوتا ہے وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡہُمۡ فَمَاۤ اَوۡجَفۡتُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ خَیۡلٍ وَّ لَا رِکَابٍ وہ اللہ تعالیٰ نے اس کو رسول کی آمدنی بنایا ہے پھر رسول اور آل رسول کا مال تھا تو وہاں پر ارشاد فرمایا اس جگہ پر فئی کے بارے میں ارشاد فرمایا وَمَاۤ اٰتٰکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ۚ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانۡتَہُوۡا وہاں بھی مال کے سلسلے میں فرمایا رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات پر عمل کرو جس سے روکے رک جاو، مال کی جگہ پر فرمایا یہاں بھی مال کی جگہ پر فرمایا : اطاعت کرو اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اگر تم مومن ہو۔ لہذا مال کے سلسلے میں انسان کی بہت کڑی آزمائش ہوتی ہے۔
آگے اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ اِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُہٗ زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ سوائے اس کے نہیں کلمہ حصر ہے انما مومن صرف وہی لوگ ہیں جن کے پاس اگر اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کا دل کانپ جاتے ہیں ذکر اللہ سے اس لئے ہمارے ائمہ عليهم‌السلام کے بارے میں آپ سنتے ہوں گے ان کی سیرت میں آپ پڑھتے ہیں کہ جب قبلہ رو ہوتے تھے تو کانپتے تھے رنگ بدل جاتے ہیں ذکر خدا اللہ تعالیٰ کو سامنے حاضر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی عظمت کے تصور کے بعد کانپنا ایک قدرتی بات ہے۔ ہم لوگ نہیں کانپتے اس لئے کہ ہم اللہ کی بارگاہ میں کبھی حاضری نہیں دیتے۔ اللہ کی عظمت کا تصور ہم اپنے ذہن میں اتار ہی نہیں سکتے کہ کانپ جائے ورنہ ہم میں وہ طاقت کہاں کہ نہ کانپے ہم اتنا قوی نہیں ہیں ہم لوگ اتنے مضبوط اعصاب کے مالک نہیں ہوتے کہ ہم نہ کانپے اور جو لوگ کانپتے تھے ان کے اعصاب مضبوط نہیں تھے ایسا نہیں۔ وہ کانپتے تھے اللہ کے دربار میں جاتے ہوئے وہ ہے ایمان کی علامت اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ اِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُہٗ اور جب اللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت ہوجائے تو زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا ان کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے وَّ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ اور اللہ کے اوپر توکل اور بھروسہ کرتے ہیں اپنا سارا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں اُفَوِّضُ اَمۡرِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ اسی کا سپرد کرتے ہیں اپنی سی کوشش کر کے نتیجہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں نہ اینکہ کچھ نہ کرے اور بیٹھے رہے اللہ کے سپرد کر کے۔
ایمان کے بارے میں ہم بعد میں بتائیں گے آپ کو ایمان کلی مشکک کی طرح ہے اس میں ضعف بھی آتا ہے، ہمارے پاس جو ایمان ہے ہم لوگ جس قسم کے مومن ہوتے ہیں یہ صرف عدم انکار والے لوگ ہیں ہم مسلمان ہیں۔ ایمان کے درجے میں پتہ نہیں ہم لوگ داخل بھی ہوتے ہیں یا نہیں ہے یہ درست ہے محبت اہل بیت عليهم‌السلام سے ہی ایمان کے درجے میں داخل ہو سکتا ہے لیکن کیا محبت اہل بیت عليهم‌السلام کے بعد بھی ہمارے دل میں ایمان آیا ہے؟ کہ کوئی آیت ہمارے سامنے تلاوت ہوجائے تو ہمارے ایمان میں اضافہ ہوجائے پتہ چلا ایمان میں اضافہ بھی ہوتا ہے پتہ چلا ایمان میں کمزوری بھی ہوتی ہے اسی آیت سے پتہ چلتا ہے ایمان میں کمزوری بھی ہوتی ہے ایمان میں اضافہ بھی ہوتا ہے ایمان میں اضافہ کی ایک صورت یہی اللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت ہے اور آفاق و انفس میں جو اللہ تعالیٰ کی یات ہیں ان کا مطالعہ ہے، غور و فکر ہے، اللہ تعالیٰ کی معرفت کا حصول ہے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والوں کی سیرت کا مطالعہ ہے اس کے بعد ہمارے ایمان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔