وَ لَمَنِ انۡتَصَرَ بَعۡدَ ظُلۡمِہٖ فَاُولٰٓئِکَ مَا عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ سَبِیۡلٍ ﴿ؕ۴۱﴾

۴۱۔ اور جو شخص مظلوم ہونے کے بعد بدلہ لے پس ایسے لوگوں پر ملامت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

اِنَّمَا السَّبِیۡلُ عَلَی الَّذِیۡنَ یَظۡلِمُوۡنَ النَّاسَ وَ یَبۡغُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۴۲﴾

۴۲۔ ملامت تو بس ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق زیادتی کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

وَ لَمَنۡ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ﴿٪۴۳﴾

۴۳۔ البتہ جس نے صبر کیا اور درگزر کیا تو یہ معاملات میں عزم راسخ (کی علامت) ہے۔

43۔ گزشتہ آیات میں ایمان والوں کے چند ایک اوصاف کا ذکر ہوا: توکل بر خدا۔ گناہان کبیرہ سے پرہیز۔ غصہ کی صورت میں معافی دینا۔ نماز قائم کرنا۔ اپنے معاملات میں مشاورت کرنا۔ انفاق کرنا۔ ظلم کا بدلہ لینا۔ مظلوم واقع ہونے کے بعد درگزر کرنا۔ ان میں سے بعض اوصاف واجبات میں سے ہیں، بعض مستحبات، بعض صرف جائز ہونے کی حدت تک ہیں، جیسے بدلہ لینا۔

وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ وَّلِیٍّ مِّنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ وَ تَرَی الظّٰلِمِیۡنَ لَمَّا رَاَوُا الۡعَذَابَ یَقُوۡلُوۡنَ ہَلۡ اِلٰی مَرَدٍّ مِّنۡ سَبِیۡلٍ ﴿ۚ۴۴﴾

۴۴۔ اور جسے اللہ گمراہ کر دے تو اس کے بعد اس کے لیے کوئی کارساز نہیں ہے اور آپ ظالموں کو دیکھیں گے کہ جب وہ عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو کہیں گے:کیا واپس جانے کا کوئی راستہ ہے ؟

وَ تَرٰىہُمۡ یُعۡرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا خٰشِعِیۡنَ مِنَ الذُّلِّ یَنۡظُرُوۡنَ مِنۡ طَرۡفٍ خَفِیٍّ ؕ وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ الۡخٰسِرِیۡنَ الَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَہۡلِیۡہِمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ فِیۡ عَذَابٍ مُّقِیۡمٍ﴿۴۵﴾

۴۵۔ اور آپ دیکھیں گے کہ جب وہ جہنم کے سامنے لائے جائیں گے تو ذلت کی وجہ سے جھکے ہوئے نظریں چرا کر دیکھ رہے ہوں گے اور (اس وقت) ایمان لانے والے کہیں گے: خسارہ اٹھانے والے یقینا وہ ہیں جنہوں نے آج قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو خسارے میں ڈالا، آگاہ رہو! ظالم لوگ یقینا دائمی عذاب میں رہیں گے۔

45۔ عذاب اس قدر ہولناک ہو گا کہ وہ اس پر پوری نگاہ بھی نہیں ڈال سکیں گے۔ اس حال میں مومنین کا یہ احساس نہایت لذت بخش ہو گا جس کا وہ ان لفظوں میں اظہار کریں گے: جن لوگوں نے آج کے دن کا خسارہ اٹھایا، وہ بہت بڑا خسارہ ہے۔ ہم اس سے محفوظ رہے۔

وَ مَا کَانَ لَہُمۡ مِّنۡ اَوۡلِیَآءَ یَنۡصُرُوۡنَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ سَبِیۡلٍ ﴿ؕ۴۶﴾

۴۶۔ اور اللہ کے سوا ان کے ایسے سرپرست نہ ہوں گے جو ان کی مدد کریں اور جسے اللہ گمراہ کر دے پس اس کے لیے کوئی راہ نہیں ہے۔

اِسۡتَجِیۡبُوۡا لِرَبِّکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا مَرَدَّ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ ؕ مَا لَکُمۡ مِّنۡ مَّلۡجَاٍ یَّوۡمَئِذٍ وَّ مَا لَکُمۡ مِّنۡ نَّکِیۡرٍ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اپنے رب کو لبیک کہو اس سے پہلے کہ اللہ کی جانب سے وہ دن آ جائے جس کے ٹلنے کا کوئی امکان نہیں، اس دن تمہارے لیے نہ کوئی پناہ گاہ ہو گی اور نہ ہی انکار کی کوئی گنجائش ہو گی۔

47۔ اس آیت کا دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے: اپنے پروردگار کو لبیک کہو قبل اس کے کہ وہ دن آ جائے جس کے اللہ کی طرف سے ٹلنے کا کوئی امکان نہیں۔ اگر ہم مِنَ اللّٰہِ کو یَّوۡمَئِذٍ سے مربوط قرار دیں تو پہلا ترجمہ درست ہے۔ اگر مِنَ اللّٰہِ کو مَرَدَّ سے مربوط قرار دیں تو دوسرا ترجمہ درست ہے۔ کافروں کے بارے میں اللہ کا فیصلہ حتمی اور اٹل ہوتا ہے، اس لیے اس کے ٹلنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔

فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا ؕ اِنۡ عَلَیۡکَ اِلَّا الۡبَلٰغُ ؕ وَ اِنَّاۤ اِذَاۤ اَذَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنَّا رَحۡمَۃً فَرِحَ بِہَا ۚ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ فَاِنَّ الۡاِنۡسَانَ کَفُوۡرٌ﴿۴۸﴾

۴۸۔ پھر اگر یہ منہ پھیر لیں تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر تو نہیں بھیجا، آپ کے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہے اور جب ہم انسان کو اپنی رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو اس سے خوش ہو جاتا ہے اور اگر ان کے اپنے بھیجے ہوئے اعمال کی وجہ سے انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس وقت یہ انسان یقینا ناشکرا ہو جاتا ہے۔

48۔ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذمے صرف حکم خدا کی تبلیغ ہے اور اس حکم کو قبول کروانا رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذمہ داری نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات طاقت اور جبر کے ذریعے مسلط نہی کی جاتی۔ اگر ایسا ہوتا تو انبیاء کی ضرورت نہ رہتی، اس کے لیے اللہ کی طرف سے ایک تکوینی اشارہ کُن کافی تھا۔

انبیاء کو دل اور ضمیر سے کام ہے۔ جس کا دل صحت مند اور ضمیر زندہ ہو، وہ اس خدائی آواز کو پہچان لیتا ہے اور مریض دل اور مردہ ضمیر والوں پر حجت پوری ہونے کے بعد ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔اس صورت میں وہ محسوس پرست ہوتا ہے، اس کی خوشی و غم کا مدار سامنے کی حالت پر ہوتا ہے، نہ گزشتہ کی قدر، نہ آئندہ کی فکر۔

لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕیَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ الذُّکُوۡرَ ﴿ۙ۴۹﴾

۴۹۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی صرف اللہ کے لیے ہے، وہ جو چاہتا ہے خلق فرماتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نرینہ اولاد عطا کرتا ہے۔

49۔ اولاد نرینہ ہو یا لڑکی، اس کا عطا کنندہ اللہ ہے۔ اگر انسان کو یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ پدر کے Y کو ماں کے X کے ساتھ جفت کر کے لڑکا اور پدر کے X کو ماں کے X کے ساتھ جفت کر کے لڑکی کے پیدا ہونے کے لیے فضا سازگار بنا لیتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اولاد دینے والا ہے۔ اس انسان کو نطفہ پدر، تخم مادر میں سے کسی ایک کے بنانے پر قدرت نہیں ہے۔ صرف راز قدرت کے سمجھنے کی صورت میں اس سے استفادہ کی بات ہے۔ جیسے قدیم سے لوگوں نے تجربہ کیا ہے کہ بعض غذاؤں اور دواؤں کے استعمال کی وجہ سے لڑکی یا لڑکا کے پیدا ہونے میں مدد ملتی ہے۔

اَوۡ یُزَوِّجُہُمۡ ذُکۡرَانًا وَّ اِنَاثًا ۚ وَ یَجۡعَلُ مَنۡ یَّشَآءُ عَقِیۡمًا ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌ قَدِیۡرٌ﴿۵۰﴾

۵۰۔ یا (جسے چاہے) بیٹے اور بیٹیاں دونوں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے وہ یقینا بڑا جاننے والا ، قدرت والا ہے۔

وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحۡیًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوۡ یُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَیُوۡحِیَ بِاِذۡنِہٖ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیۡمٌ﴿۵۱﴾

۵۱۔ اور کسی بشر میں یہ صلاحیت نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے ماسوائے وحی کے یا پردے کے پیچھے سے یا یہ کہ کوئی پیام رساں بھیجے پس وہ اس کے حکم سے جو چاہے وحی کرے، بے شک وہ بلند مرتبہ ، حکمت والا ہے۔

51۔ وحی کے تین طریقوں کا ذکر ہے۔ وحی یا تو براہ راست رسول کے قلب پر نازل ہوتی ہے یا یہ کہ پردے کے پیچھے سے وحی ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر درخت کے پردے میں وحی ہوئی یا یہ کہ فرشتے کے ذریعے ہوتی ہے۔ ان ذرائع کے علاوہ روبرو ہو کر بات نہیں ہوتی، کیونکہ اللہ کسی محسوس شکل میں نہیں آ سکتا۔ حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر غشی اس وقت طاری ہوتی تھی جب براہ راست آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قلب پر وحی نازل ہوتی تھی، ورنہ جبرئیل ایک خادم کی طرح آپ کے سامنے بیٹھ جاتے۔

وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ رُوۡحًا مِّنۡ اَمۡرِنَا ؕ مَا کُنۡتَ تَدۡرِیۡ مَا الۡکِتٰبُ وَ لَا الۡاِیۡمَانُ وَ لٰکِنۡ جَعَلۡنٰہُ نُوۡرًا نَّہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ نَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِنَا ؕ وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿ۙ۵۲﴾

۵۲۔ اور اسی طرح ہم نے اپنے امر میں سے ایک روح آپ کی طرف وحی کی ہے، آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ہی ایمان کو (جانتے تھے) لیکن ہم نے اسے روشنی بنا دیا جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں اور آپ تو یقینا سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں،

52۔ مِّنۡ اَمۡرِنَا عالم امری اور کن فکانی کے حتمی اور اٹل فیصلے کی طرف سے روحاً ایک حیات بخش قرآن کو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف وحی کیا۔ اس کتاب کے مندرجات اور ایمان کی تفصیل آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ تعالیٰ سے قطع نظر بذات خود نہیں جانتے تھے۔ جو کچھ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جانتے ہیں، وہ اللہ کی طرف سے وحی ہے۔ واضح رہے چالیس سال کے بعد اعلان رسالت سے بہت پہلے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نبوت پر فائز تھے اور وحی کا تعلق نبوت سے ہے۔ اعلان رسالت اور نبوت میں فرق بیان کیے بغیر یہ کہنا کہ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نبوت سے پہلے کچھ جانتے ہی نہ تھے اور نبوت سے مراد وہ اعلان رسالت لیتے ہیں، غیر ذمہ دارانہ بات ہے۔

صِرَاطِ اللّٰہِ الَّذِیۡ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ اَلَاۤ اِلَی اللّٰہِ تَصِیۡرُ الۡاُمُوۡرُ﴿٪۵۳﴾

۵۳۔ اس اللہ کے راستے کی طرف جو آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کا مالک ہے، آگاہ رہو! تمام معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔