وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ رُوۡحًا مِّنۡ اَمۡرِنَا ؕ مَا کُنۡتَ تَدۡرِیۡ مَا الۡکِتٰبُ وَ لَا الۡاِیۡمَانُ وَ لٰکِنۡ جَعَلۡنٰہُ نُوۡرًا نَّہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ نَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِنَا ؕ وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿ۙ۵۲﴾

۵۲۔ اور اسی طرح ہم نے اپنے امر میں سے ایک روح آپ کی طرف وحی کی ہے، آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ہی ایمان کو (جانتے تھے) لیکن ہم نے اسے روشنی بنا دیا جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں اور آپ تو یقینا سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں،

52۔ مِّنۡ اَمۡرِنَا عالم امری اور کن فکانی کے حتمی اور اٹل فیصلے کی طرف سے روحاً ایک حیات بخش قرآن کو آپ ﷺ کی طرف وحی کیا۔ اس کتاب کے مندرجات اور ایمان کی تفصیل آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے قطع نظر بذات خود نہیں جانتے تھے۔ جو کچھ آپ ﷺ جانتے ہیں، وہ اللہ کی طرف سے وحی ہے۔ واضح رہے چالیس سال کے بعد اعلان رسالت سے بہت پہلے آپ ﷺ نبوت پر فائز تھے اور وحی کا تعلق نبوت سے ہے۔ اعلان رسالت اور نبوت میں فرق بیان کیے بغیر یہ کہنا کہ حضور ﷺ نبوت سے پہلے کچھ جانتے ہی نہ تھے اور نبوت سے مراد وہ اعلان رسالت لیتے ہیں، غیر ذمہ دارانہ بات ہے۔