آیت 48
 

فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا ؕ اِنۡ عَلَیۡکَ اِلَّا الۡبَلٰغُ ؕ وَ اِنَّاۤ اِذَاۤ اَذَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنَّا رَحۡمَۃً فَرِحَ بِہَا ۚ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ فَاِنَّ الۡاِنۡسَانَ کَفُوۡرٌ﴿۴۸﴾

۴۸۔ پھر اگر یہ منہ پھیر لیں تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر تو نہیں بھیجا، آپ کے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہے اور جب ہم انسان کو اپنی رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو اس سے خوش ہو جاتا ہے اور اگر ان کے اپنے بھیجے ہوئے اعمال کی وجہ سے انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس وقت یہ انسان یقینا ناشکرا ہو جاتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا: اگر یہ لوگ قبول حق کے لیے آمادہ نہیں ہیں تو آپ اس کے ذمے دار نہیں ہیں۔ آپ پر واجب یہ ہے کہ حق کا پیغام بغیر کسی ابہام کے ان تک پہنچا دیں۔ ان پر حجت پوری ہونے میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ اِنۡ عَلَیۡکَ اِلَّا الۡبَلٰغُ۔ بات پوری وضاحت کے ساتھ ان تک پہنچ گئی۔ آپ کی ذمہ داری ختم ہو گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات طاقت اور جبر کے ذریعے مسلط نہیں کی جاتی۔ اگر ایسا ہوتا تو انبیاء علیہم السلام کی ضرورت نہ رہتی۔ اس کے لیے اللہ کا ایک تکوینی اشارہ کُنۡ کافی تھا۔

انبیاء علیہم السلام کو دل اور ضمیر سے کام ہے۔ جس کا دل صحت مند اور ضمیر زندہ ہو وہ اس خدائی آواز کو پہچان لیتا ہے۔ مریض دل، مردہ ضمیر والوں پر حجت پوری ہونے کے بعد انہیں ان کے ے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ محسوس پرست ہوتا ہے۔ اس کی خوشی و غمی کا مدار سامنے کی حالت پر ہوتا ہے۔ گزشتہ کی قدر نہ آیندہ کی فکر۔

۲۔ وَ اِنَّاۤ اِذَاۤ اَذَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ: ان کا ایمان نہ لانا اس وجہ سے نہ ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کے حق ہونے میں کوئی شائبہ یا آپؐ کی تبلیغ میں کوئی ابہام ہے بلکہ اس کی وجہ ان کی سرکشی اور نعمتوں میں بدمستی ہے۔ چنانچہ جب ہم اس انسان کو اپنی رحمتوں سے نوازتے ہیں تو یہ اتراتا ہے اور خوشی سے مدہوش ہو جاتا ہے۔

۳۔ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌۢ: اگر کوئی حادثہ پیش آ جائے تو نعمتوں کو بھول جاتا ہے حالانکہ یہ حادثہ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ خود اس کی اپنی شامت اعمال ہے۔

قابل توجہ یہ ہے:

i۔ نعمت کو اللہ نے اَذَقۡنَا کہ کر اپنی طرف نسبت دی اور برائی سَیِّئَۃٌۢ کو خود لوگوں کے اعمال کا نتیجہ قرار دیا۔

ii۔ فَرِحَ مفرد لفظ انسان کے اعتبار سے اور تُصِبۡہُمۡ جمع معنی انسان کے اعتبار سے ہے۔

iii۔ اِذَاۤ اَذَقۡنَا میں نعمت کے لیے اِذَاۤ اور اِنۡ تُصِبۡہُمۡ میں برائی کے لیے اِنۡ کے استعمال میں یہ راز ہے کہ نعمت یقینی اور حتمی ہے جب کہ برائی کا وقوع ضروری اور حتمی نہیں ہے۔ لوگوں کے شامت اعمال کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ چونکہ اِذَاۤ (جب) یقینی کے لیے، اِنۡ (اگر) غیر حتمی کے لیے ہے۔


آیت 48