آیت 49
 

لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕیَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ الذُّکُوۡرَ ﴿ۙ۴۹﴾

۴۹۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی صرف اللہ کے لیے ہے، وہ جو چاہتا ہے خلق فرماتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نرینہ اولاد عطا کرتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: کائنات اللہ کے قبضۂ ملکیت میں ہے۔ اس کا وجود و عدم بھی اس کے قبضۂ قدرت میں ہے۔

۲۔ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ: وہ جب کسی چیز کو نیستی و عدم سے صفحہ وجود میں لانا چاہتا ہے تو اس کے لیے صرف اور صرف ایک ارادہ یَشَآءُ کافی ہوتا ہے۔

۳۔ یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ اِنَاثًا: جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نرینہ اولاد عطا کرتا ہے۔

اولاد، نرینہ ہو یا لڑکی، اس کا عطا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر انسان کو خدا داد قوت و تجربے سے اس بات کی شناخت ہو گئی کہ وہ پدر کے Yکو ماں کے X کے ساتھ جفت کر کے لڑکا اور پدر کے X کو ماں کے X کے ساتھ جفت کر کے لڑکی کے پیدا ہونے کے لیے فضا سازگار بنا لیتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اولاد ینے والا ہے۔ اس انسان کو نطفۂ پدر اور تخم مادر میں سے کسی ایک کو بنانے کی قدرت حاصل نہیں ہے۔ صرف رازقدرت کے سمجھنے کی صورت میں اس سے استفادہ کی بات ہے۔ جیسے قدیم سے لوگوں نے تجربہ کیا ہے کہ بعض غذاؤں اور دواؤں کے استعمال کی وجہ سے لڑکی یا لڑکا کے پیدا ہونے میں مدد ملتی ہے۔ اس آیت میں بیٹیوں کا ذکر بیٹوں سے پہلے آیا ہے۔ ممکن ہے من حیث الاولاد بیٹی کو فضیلت حاصل ہو۔ چنانچہ حدیث نبوی ہے:

خَیْرُ اَوْلاَدِکُمُ الْبَنَاتُ۔ ( مستدرک الوسائل ۱۵:۱۱۶)

تمہاری اولاد میں بہتر بیٹیاں ہیں۔


آیت 49