آیات 52 - 53
 

وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ رُوۡحًا مِّنۡ اَمۡرِنَا ؕ مَا کُنۡتَ تَدۡرِیۡ مَا الۡکِتٰبُ وَ لَا الۡاِیۡمَانُ وَ لٰکِنۡ جَعَلۡنٰہُ نُوۡرًا نَّہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ نَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِنَا ؕ وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿ۙ۵۲﴾

۵۲۔ اور اسی طرح ہم نے اپنے امر میں سے ایک روح آپ کی طرف وحی کی ہے، آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ہی ایمان کو (جانتے تھے) لیکن ہم نے اسے روشنی بنا دیا جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں اور آپ تو یقینا سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں،

صِرَاطِ اللّٰہِ الَّذِیۡ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ اَلَاۤ اِلَی اللّٰہِ تَصِیۡرُ الۡاُمُوۡرُ﴿٪۵۳﴾

۵۳۔ اس اللہ کے راستے کی طرف جو آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کا مالک ہے، آگاہ رہو! تمام معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ رُوۡحًا: جس طرح دیگر انبیاء علیہم السلام پر وحی نازل کی گئی اسی طرح ہم نے آپؐ پر ایک روح کی وحی کی ہے یا جس طرح سابقہ آیت میں ذکر ہوا اسی طرح تینوں قسموں کے ساتھ آپؐ پر ایک روح کی وحی ہوئی ہے۔ اس آیت میں رُوۡحًا سے مراد اکثر کے نزدیک قرآن ہے۔ بعض کے نزدیک روح سے مراد وحی ہے۔ دونوں اقوال کا نتیجہ ایک ہے یعنی قرآن بھی وحی ہے۔ روح سے مراد وحی ہونے پر یہ آیت دلیل ہے:

یُنَزِّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوۡحِ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ اَنۡ اَنۡذِرُوۡۤا اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوۡنِ﴿﴾ (۱۶ نحل: ۲)

وہ اپنے حکم سے فرشتوں کو روح کے ساتھ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے (اس حکم کے ساتھ) کہ تنبیہ کرو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں لہٰذا تم میری مخالفت سے بچو۔

اس آیت میں روح کی تفسیر اَنۡ اَنۡذِرُوۡۤا ہے لہٰذا روح وہی انذار ہے۔ البتہ اس انذار کی بنیاد کلمۂ توحید ہے۔

۲۔ مِّنۡ اَمۡرِنَا: اس وحی کا تعلق عالم امری سے ہے اور وحی کا نزول اسی عالم سے ہوتا ہے۔ امر خدا، ارادۂ خدا ہے۔ کل کائنات کی ایجاد و بقاء ارادۂ الٰہی سے مربوط ہے جس کے نفاذ میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی:

اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ (۳۶ یٰس: ۸۲)

جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لیتا ہے تو بس اس کا امر یہ ہوتا ہے: ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے۔

پس وحی اللہ تعالیٰ کے فیصلے سے نازل ہوتی ہے۔

۳۔ مَا کُنۡتَ تَدۡرِیۡ مَا الۡکِتٰبُ: اس کتاب کے مندرجات اور ایمان کی تفصیل آپؐ اللہ تعالیٰ سے قطع نظر بذات خود نہیں جانتے تھے۔ جو کچھ آپ جانتے ہیں وہ اللہ کی طرف سے وحی ہے۔

واضح رہے چالیس سال کے بعد اعلان رسالت سے بہت پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت پر فائز تھے اور وحی کا تعلق نبوت سے ہے: کنت نبیّاً و آدم بین الماء و الطین ( المقنعۃ: للشیخ مفید علیہ الرحمۃ باب الالھتیم و احکامہ ) کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی ابتدا بشر کو معلوم نہیں ہے۔

اعلان رسالت اور نبوت میں فرق بیان کیے بغیر یہ کہنا: حضورؐ نبوت سے پہلے کچھ نہیں جانتے تھے اور نبوت سے مراد اعلان رسالت و بعثت لینا، نہایت غیر ذمہ دارانہ بات ہے۔

۴۔ وَ لٰکِنۡ جَعَلۡنٰہُ نُوۡرًا: اس روح کو نور سے تعبیر فرمایا: یہ وحی جہاں حیات آفرین ہے وہاں منزل تک پہنچنے کے لیے نور بھی ہے۔

۵۔ وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ: اس جملے میں اس بات کی بھی وضاحت فرمائی کہ اے نبی! آپ لوگوں کو منزل تک پہنچانے کے لیے رہنمائی فرماتے ہیں۔ اس سے نصاب پورا ہو جاتا ہے کہ وحی حیات آفرینی کے ساتھ منزل کی طرف جانے کے لیے روشنی فراہم کرتی ہے اور منزل کا تعین کرنے کے لیے ہدایت کا کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انجام دیتے ہیں۔

۶۔ صِرَاطِ اللّٰہِ الَّذِیۡ: اس صراط مستقیم کی وضاحت ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رہنمائی فرماتے ہیں۔ وہ اس کا صراط ہے جس کے قبضۂ قدرت میں کل کائنات ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جس کے علاوہ نجات کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

۷۔ اَلَاۤ اِلَی اللّٰہِ تَصِیۡرُ الۡاُمُوۡرُ: یہ اللہ کے کل کائنات کا مالک ہونے کا لازمی نتیجہ ہے۔ جب کائنات کا مالک صرف اللہ ہے تو تمام مملوک کا انجام اس کے مالک کے ہاتھ میں ہے۔


آیات 52 - 53