وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۚۖ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور تم زمین میں (اللہ کو) عاجز تو نہیں کر سکتے، اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ مددگار۔

وَ مِنۡ اٰیٰتِہِ الۡجَوَارِ فِی الۡبَحۡرِ کَالۡاَعۡلَامِ ﴿ؕ۳۲﴾

۳۲۔ اور سمندر میں پہاڑوں جیسے جہاز اس کی نشانیوں میں سے ہے ۔

اِنۡ یَّشَاۡ یُسۡکِنِ الرِّیۡحَ فَیَظۡلَلۡنَ رَوَاکِدَ عَلٰی ظَہۡرِہٖ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔ اگر اللہ چاہے تو ہوا کو ساکن کر دے تو یہ سطح سمندر پر کھڑے رہ جائیں، ہر صبر کرنے والے شکرگزار کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔

اَوۡ یُوۡبِقۡہُنَّ بِمَا کَسَبُوۡا وَ یَعۡفُ عَنۡ کَثِیۡرٍ ﴿۫۳۴﴾

۳۴۔ یا انہیں ان کے اعمال کے سبب تباہ کر دے اور وہ بہت سے لوگوں سے درگزر کرتا ہے،

وَّ یَعۡلَمَ الَّذِیۡنَ یُجَادِلُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا ؕ مَا لَہُمۡ مِّنۡ مَّحِیۡصٍ﴿۳۵﴾

۳۵۔ تاکہ ہماری آیات میں جھگڑنے والوں کو علم ہو جائے کہ ان کے لیے جائے پناہ نہیں ہے۔

فَمَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَمَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ﴿ۚ۳۶﴾

۳۶۔ پس جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے وہ دنیاوی زندگی کا سامان ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہترین اور زیادہ پائیدار ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں،

وَ الَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ وَ اِذَا مَا غَضِبُوۡا ہُمۡ یَغۡفِرُوۡنَ ﴿ۚ۳۷﴾

۳۷۔ اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب انہیں غصہ آئے تو معاف کر دیتے ہیں۔

37۔ کبائر کی وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو: کَبَآئِرَ مَا تُنۡہَوۡنَ عَنۡہُ ۔ (نساء:31) حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے: مَنْ مَلَکَ نَفْسَہُ اِذَا رَغِبَ وَ اِذَا رَھِبَ وَ اِذَا اشْتَھَی وَ اِذَا غَضِبَ حَرَّمَ اللہ جَسَدَہُ عَلَی النَّار۔ (الفقیہ 4: 400۔ نور الثقلین) جو شخص اپنے آپ کو رغبت، خواہشات، خوف اور غصے کے وقت قابو میں رکھتا ہے، اس کے جسم کو اللہ جہنم کی آگ پر حرام کر دیتا ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّہِمۡ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ۪ وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ۪ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿ۚ۳۸﴾

۳۸۔ اور جو اپنے رب کو لبیک کہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور اپنے معاملات باہمی مشاورت سے انجام دیتے ہیں اور ہم نے جو رزق انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

38۔ اجتماعی امور میں دوسروں کے تجربات اور بہت سی عقلوں سے فائدہ اٹھانے کا نام مشورہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے: لَا ظَھِیْرَ کَالْمُشَاوَرَۃِ ۔ (وسائل الشیعۃ 12: 40) باہمی مشاورت جیسا کوئی پشت پناہ نہیں ہے۔ مشورہ ان امور میں لیا جاتا ہے جو بقول مولانا شبیر احمد عثمانی قرآن و سنت میں منصوص نہ ہوں۔ جو چیز منصوص ہو، اس میں رائے و مشورہ کی گنجائش نہیں اور یہ غیر معقول ہو گا کہ خدا و رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوئی حکم دیں اور لوگ مشورہ کر کے اس کے خلاف فیصلہ دیں۔ وَاَمْرُہُمْ اپنے معاملات، سے معلوم ہوا کہ مشاورت ان اجتماعی امور سے متعلق ہے جو حکم شریعت سے متصادم نہیں ہیں اور جو قرآن و سنت میں منصوص ہے، وہ وَ اَمۡرُہُمۡ نہیں ہو گا، بلکہ امر من اللہ ہو گا۔ چنانچہ سورہ احزاب آیت 36 میں اللہ کے فیصلے کے بعد کسی اختیار کی نفی فرمائی: اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ ۔

وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَہُمُ الۡبَغۡیُ ہُمۡ یَنۡتَصِرُوۡنَ﴿۳۹﴾

۳۹۔ اور جب ان پر زیادتی سے ظلم کیا جاتا ہے تو وہ اس کا بدلہ لیتے ہیں۔

39۔ ظالم اور جابر کے مقابلے میں مومن چٹان کی طرح مضبوط ہوتا ہے۔ وہ کسی ظالم سے دبتا ہے اور نہ کسی جابر کے سامنے ہتھیار ڈالتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ غالب آنے پر مغلوب اور کمزور آدمی کی غلطیوں سے درگزر کرتا ہے اور ندامت کا اظہار کرنے والے کی معذرت قبول کرتا ہے۔

وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۴۰﴾

۴۰۔ اور برائی کا بدلہ اسی طرح کی برائی سے لینا (جائز) ہے، پھر کوئی درگزر کرے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ پر ہے، اللہ یقینا ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔

40۔ اس آیت اور بعد کی چند آیتوں میں بدلہ لینے کے ضوابط کا ذکر ہے۔ پہلا یہ کہ جتنی برائی ہوئی ہے اس کے بدلے میں اتنی ہی برائی کی جائے (زیادہ کا حق نہیں)۔ دوسرا یہ کہ اگرچہ بدلہ لینا جائز ہے، تاہم بعض مواقع پر معاف کر دینا زیادہ بہتر ہے۔ تیسرا یہ کہ جائز بدلہ لینے کے سلسلے میں جو عمل انجام دیا جاتا ہے اس پر کوئی گرفت نہیں ہے اور دیت ہے نہ قصاص۔