فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا ؕ اِنۡ عَلَیۡکَ اِلَّا الۡبَلٰغُ ؕ وَ اِنَّاۤ اِذَاۤ اَذَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنَّا رَحۡمَۃً فَرِحَ بِہَا ۚ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ فَاِنَّ الۡاِنۡسَانَ کَفُوۡرٌ﴿۴۸﴾

۴۸۔ پھر اگر یہ منہ پھیر لیں تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر تو نہیں بھیجا، آپ کے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہے اور جب ہم انسان کو اپنی رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو اس سے خوش ہو جاتا ہے اور اگر ان کے اپنے بھیجے ہوئے اعمال کی وجہ سے انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس وقت یہ انسان یقینا ناشکرا ہو جاتا ہے۔

48۔ رسول ﷺ کے ذمے صرف حکم خدا کی تبلیغ ہے اور اس حکم کو قبول کروانا رسول ﷺ کی ذمہ داری نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات طاقت اور جبر کے ذریعے مسلط نہی کی جاتی۔ اگر ایسا ہوتا تو انبیاء کی ضرورت نہ رہتی، اس کے لیے اللہ کی طرف سے ایک تکوینی اشارہ کُن کافی تھا۔

انبیاء کو دل اور ضمیر سے کام ہے۔ جس کا دل صحت مند اور ضمیر زندہ ہو، وہ اس خدائی آواز کو پہچان لیتا ہے اور مریض دل اور مردہ ضمیر والوں پر حجت پوری ہونے کے بعد ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔اس صورت میں وہ محسوس پرست ہوتا ہے، اس کی خوشی و غم کا مدار سامنے کی حالت پر ہوتا ہے، نہ گزشتہ کی قدر، نہ آئندہ کی فکر۔