آیت 51
 

وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحۡیًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوۡ یُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَیُوۡحِیَ بِاِذۡنِہٖ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیۡمٌ﴿۵۱﴾

۵۱۔ اور کسی بشر میں یہ صلاحیت نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے ماسوائے وحی کے یا پردے کے پیچھے سے یا یہ کہ کوئی پیام رساں بھیجے پس وہ اس کے حکم سے جو چاہے وحی کرے، بے شک وہ بلند مرتبہ ، حکمت والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ کسی انسان سے اللہ تعالیٰ کے ہم کلام ہونے کی تین صورتوں کا بیان ہے۔ پہلی صورت وَحْيًا ہے۔ اس پہلی صورت کو مطلق وحی کے ساتھ تعبیر فرمایا جب کہ باقی دو صورتیں بھی وحی کی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وحی کی پہلی صورت ایک کامل اور اعلیٰ درجے کی وحی ہے چونکہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے قلب پر اپنا کلام براہ راست نازل فرماتا ہے۔

زرارۃ کہتے ہیں: میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے نزول کے وقت طاری ہونے والی غشی کے بارے میں پوچھا تو فرمایا:

ذلک اذا لم یکن بینہ و بین اللہ احد ذاک اذا تجلی اللہ لہ قال: ثم قال: تلک النبوۃ یا ذرارۃ و اقبل یتخشع۔ ( التوحید۔ بحار ۱۸: ۲۵۶)

یہ غشی اس وقت طاری ہوتی تھی جب آپ کے اور اللہ کے درمیان کوئی نہیں ہوتا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ رسولؐ کے لیے تجلی فرماتا تھا۔ پھر فرمایا: اے زرارہ! یہی نبوت ہے۔ پھر امام ؑخشوع کی حالت میں آ گئے۔

دوسری صورت پس پردہ کلام کرنا ہے۔ یہاں پردے کا وحی میں کوئی دخل نہیں ہے۔ پس پردہ کلام کرنا بھی وحی ہے مگر وہ وحی بالحجاب ہے۔ مثلاً درخت کے ذریعے کلام کرنایا خواب میں حکم الٰہی کا ملنا وحی بالحجاب میں شامل ہے۔

تیسری صورت میں اللہ تعالیٰ اپنے قاصد فرشتے کے ذریعے اپنے بندے سے ہم کلام ہوتا ہے۔ یہ بھی وحی ہے مگر اس میں قاصد کا وحی پہنچانے میں دخل ہے فَیُوۡحِیَ بِاِذۡنِہٖ یہ فرشہ از خود نہیں اذن خدا سے وحی نازل کرتا ہے۔

وحی کے بارے میں تفصیل کے لیے مقدمہ تفسیر کی طرف رجوع فرمائیں۔


آیت 51