تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیات 71 - 75

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ
سورہ زمر آیت 71، اور کفار گروہ در گروہ جہنم کی طر ف ہانکے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے یعنی جہنم کے پاس تو اس کے دروازے کھول دئیے جائیں گے اور جہنم کے کارندے ان سے کہیں گے کیا تمہارے پاس تم میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے؟ جو تمہارے رب کی آیات تمہیں سناتے اور اس دن کے پیش آنے کے بارے میں تمہیں متنبہ کرتے؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں، لیکن اب کفار کے حق میں عذاب کا فیصلہ حتمی ہو چکا ہے، کہا جائے گا جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاو جس میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے پس تکبر کرنے والوں کا کتنا برا ٹھکانہ ہے ۔
زُمَرًا زمر کے معنی چھوٹی جماعت ۔گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے یہاں آکر ہانکنے کا ذکر ہے سوق سیاقت چلانے کو کہتے ہیں آج کل عربی میں ڈرائیور کو سائق کہتے ہیں چلانے والا وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا کافروں کو چلایا جائے گا ہانکا جائے گا إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًا گروہ در گروہ جہنم کی طرف جو ہے ان کو چلایا جائے گااور اس میں دھکیلنے والے فرشتے ہوں گے ، اور ان کے لئے مجال نہیں ہے کہ وہ ہم نہیں جائیں گے وغیرہ کہے ۔ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا جب وہ جہنم کے دھانے پر پہنچ گئے تو وہاں جہنم کے داروغے جو ہیں وہ بیٹھے ہوں گے وہ ان سے پوچھیں گے جہنم جانے کی نوبت کیوں آئی؟ کیا تمہارے پاس پیغمبران نہیں آئے تھے؟ اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیت پڑھ کر نہیں سنایا تھا تم کو ؟ اور آج کے اس دن کے آنے کے بارے میں تنبنیہ نہیں کی تھی؟ قالو بلی وہ کہتے ہیں کہ تنبیہ بھی کی تھی سب کچھ کیا تھا لیکن وَلَٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ اللہ کا فیصلہ حتمی ہوگیا، وہ ضروری ہوگیا وہ اللہ کا فیصلہ حتمی ہے ضروری ہے دوسری بات نہیں ہو سکتی۔ قرآن مجید میں متعدد بار یہ بات سمجھا دی گئی ہے لوگوں کو کہ اللہ کا ایک اٹل قانون ہے اور اس قانون میں تبدیلی ممکن نہیں ہے مثلا فرمایا اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَ یَسْتَوٗنَ: مومن اور فاسق برابر ہو سکتے ہیں ؟ کہ مومن کو بھی اور جنت بیجھے اور فاسق کو بھی بیجھے یا مومن کو بھی جہنم بیجھے اور فاسق کو بھی جہنم میں بیجھے ایک جیسا سلوک دونوں کے ساتھ کیا یہ ممکن ہے ؟ ممکن نہیں۔
وَ تَمَّتۡ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ اور اللہ یعنی تیرے رب کا وہ فیصلہ پورا ہوگیا کہ جہنم ضرور بہ ضرور جنات اور انسانوں سب سے بھر دوں گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا لاملئن بھر دوں گا جہنم یہ حتمی فیصلہ ہے اور دوسری صورت نہیں ہوسکتی کہ مومن اور کافر دونوں جہنم میں بھیج دیں نہیں ہوسکتا مومنین کو بھی کافر کے ساتھ جہنم میں بھیج دے، یہ کیسے نہیں ہو سکتا؟ نہیں ہو سکتا۔ پھر نہیں ہو سکتا ہے تو مومن اور کافر دونو ں کو جنت میں بھیج دیں یہ بھی نہیں ہو سکتا پھر مومن ایمان لانے کا کوئی نتیجہ نہیں پیغمبران کے آنے کا کوئی فائدہ نہیں کوئی اللہ کا کوئی نظام نہیں کوئی سسٹم نہیں یہ بھی نہیں ہو سکتا ؟ یہ بھی نہیں ہو سکتا ۔ پھر کیا کرے؟ عدل و انصاف کیا ہے ؟ ضروری فیصلہ کن بات ہے کہ مومن اور کافر میں تفریق ہو لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ جہنم کو جن و انس سے پر کرنا ضروری ہے دوسری صورت ممکن نہیں ہے دوسری صورت معقول نہیں ہے کہ جہنم میں کوئی نہ بیجھے۔
قِيلَ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ ان سے کہا جائے گا کہ جہنم کے دروازوں پر داخل ہوجاو۔ کتنی بری خبر ہوگی کتنا ہولناک خبر، یعنی جو لوگوں کو زندان بھیجتے ہیں کچھ سالوں کے لئے زندان میں بھی زندگی کے وسائل ہوتے ہیں لیکن وہاں کچھ سالوں کے لئے نہیں ہمیشہ کے لئے جہنم جاو آتش میں، آگ کے درمیان میں ہمیشہ کے لئے جاؤ، کتنا ہولناک خبر ہے، کتنی بری خبر ہے، ہمیشہ کے لئے فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ تکبر کرنے والوں کا ٹھکانہ کتنا برا ہے ، متکبرین تکبر بتایا آپ کو لوگ آج بھی آپ دیکھتے ہیں لوگ تکبر کرتے ہیں دینداری کو اپنی بڑائی کے خلاف سمجھتے ہیں دیندار لوگوں کی بات سننے کو عار و ننگ سمجھتے ہیں۔ آج بھی ہے اسی کی طرح لیکن کفر کی حد تک نہیں ہے فسق انحراف کی حد تک ہے یہ سارا کچھ تکبر ہے۔ ہمیشہ سے دینداروں کے مقابلے میں لوگوں نے تکبر سے کام لیا ہے۔
وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ اور جو لوگ اپنے رب سے ڑرتے رہے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف چلایا جائے گایہا ں تک کہ جب وہ اس کے پاس یعنی جنت کے پاس پہنچ جائیں گے اور اس کے دروازے کھول دئے جائیں گے جنت کے دروازے اور جنت کے منتظمین ان سے کہیں گے تم پر سلام ہو بہت خوب رہے اب ہمیشہ کے لئے اس میں داخل ہو جاو، جنت میں داخل ہوجاو۔ یہ کتنی بڑی خبر ہوگی فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا اہل تقوی کو، پرہیزگاروں کو، اللہ کی ناراضگی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے والوں کو اہل تقوی کو وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اللہ کے غضب سے بچنے والوں کو بھی چلایا جائے گاوہاں ہم نے ترجمہ کیا ہانکھا جائے گا یہاں ہم نے ترجمہ کیا چلایا جائےگا۔
قرآن کی تعبیر جہنم جانے والوں اور جنت جانے والوں دونوں کے لئے ایک جیسی تعبیر ہے اور آپ ترجمہ کرنے والے طرفداری کرتے ہیں جنت جانے والوں کو چلایا جائے گا جہنم جانے والوں کو ہانکا جائے گاقرآن کی تعبیر تو ایک ہے تمہار ی تعبیر کیوں ایک نہیں ؟ ابھی بتائیں گے۔ اہل تقوی کو گروہ در گروہ روانہ کیا جائے گا دیکھو یہاں روانہ کیا جائے گا لفظ آیا ہے وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل جہنم اور تقوی دونوں کے لے قرآنی تعبیر ایک ہے۔ یہاں صاحب الکشاف نے ایک اچھی تاویل و توجیہ پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ جہنم جانے والے تو پیدل ہوں گے تو ان کو چلانا جو ہے وہ ہانکنا ہوتا ہے خود اہل جہنم کو چلانا ہوتا ہے اور جنت جانے والے پیدل نہیں ہوں گے وہ سوار ہوں گے وہ سواری کو ہانکا جائے گا اہل جنت والے تو سواری کے اوپر ہیں اچھی تعبیر ہے ایک۔ یعنی وہ جس چیز کے اوپر سوار ہے اس کو ہانکا جائے گا اہل جنت کے لئے ہانکا جائے گا نہیں کہا ہے وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا مجمع البیان نے اس کا جوا ب دیا ہے کہ مقابلتا ایسا کہنا درست ہے جیسے اہل جہنم کے لئے فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ کہا ہے اہل جنت کے لے بھی فبشر کہا ہےاور اہل جنہم کے لئے فبشر طنزا کہا ہے جہنم کی بشارت ہو تمہیں ۔ اس کی طرح دنوں کے لئے ایک قسم کی تعبیر قرآن میں ہے یہ جواب دیا ہے۔
حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا جب وہ اہل تقوی یہ بات ذھن میں رہے ادھر اہل ایمان نہیں کہا ادھر کافر کہا ہے اس کے مقابلے میں اہل تقوی کہا ہے۔ جنت جانے کے لئے تقوی چاہے ایمان کے بعد تقوی ضروری ہے جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا جب جنت کے نزدیک پہنچ جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں تو اس وقت وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا خزانہ دار جو ہے وہ جنت والوں سے کہیں گے وہاں کے منتظمین، خزنہ کہیں گے سَلَامٌ عَلَيْكُمْ سلامتی ہو تم پر۔ بڑی بات ہوگئی طبتم اچھے رہے تم لوگ، پاکیزہ رہے تم لوگ تمام نجاستیں کدورتیں تم سے دور ہوگئیں طبتم اچھے رہے تم خوب رہے طاب پاکیزہ رہے گناہوں سے اپنے آپ کو چھٹکارا حاصل کر کے تقوی ، بچ بچاو کر کے اپنے آپ کو پاکیزہ کر کے آئے ہو جنت جا رہے ہو طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ جنت میں داخل ہوجاؤ ہمیشہ کے لئے وہ جہنم سے بھی تو کہا تھا نا فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ ہمیشہ کے لئے جہنم میں داخل ہوجاو اس کے مقابلے میں اہل جنت کے لے ہمیشہ جنت مین داخل ہوجاو۔ کتنی اچھی خبر ہے ایک روایت ہے العہدہ علی الراوی کہ ملا کاشی نے جب ہفتہ بند کاشی مشہور ہے مولا کے فضائل میں بہت بہترین اشعار کہے ہیں اس میں شک نہیں وہ اپنے اشعار میں یہاں تک آگیا : زایران حضرتت را دایم از خُلد برین ۔خلد بریں جنت کے دوازے پر آپ کے زائروں کے لئے پھر دوسرا مصرعہ نہیں بنتا تھا ان سے آغاملا کاشی سے دوسرا مصرعہ نہیں بنتا تھا تو کہتے ہیں کہ خواب میں مولا نے فریا کہو :می رسد آواز طبتم فادخلواھا خالدین ۔
وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ ۖ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ وہ جنت میں داخل ہوں گے تو کہیں گے جنتی کہیں گے حمدہے اللہ کے لئے ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لئے جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہمیں اس سرزمین کا وارث بنایا کہ جنت میں ہم جہاں چاہے جگہ بنا سکے پس عمل کرنے والوں کا اجر کتنا اچھا ہے عاملین دیگر آیات کہ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا تقوی والوں کے لئے حکم ہوگا کہ جنت جاو اور ادھر جنت میں جانے کے بعد کہا عاملین عمل کرنے والوں کے لئے۔ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا کہ تقوی اختیار کرنے والوں کو جنت میں جگہ ملے گی صَدَقَنَا وَعْدَهُ وہ اپنا ودہ سچ کر کے دکھایا وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ اور اس سرزمین کے ہم کو وارث بنایا۔ الارض سے مراد جنت کی سرزمین ہے اس کا ہم کو وارث بنایا، وارث، ورواثت میں کوئی چیز ملتی ہے آپ کو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ ماں باپ کی طرف سے آپ کو جائیداد وراثت میں ملتی ہے ویسے مفت میں باپ کا انتقال ہوگیا سارا مال جائیداد آپ کو مل گیا مفت محنت کیا والد نے کام کیا انہوں نے جائیداد بنائی انہوں نے اور آپ کو مفت کی چیز مل گئی اور ادھر جنت آپ کو مل جاتی ہے ۔ اچھا جی تقوی جو کیا ہے اس کے عوض میں نہیں ہے نِعۡمَ اَجۡرُ الۡعٰمِلِیۡنَ ہمارے عمل کے اجر میں نہیں ہے۔
حضرت علی عليه‌السلام فرماتے ہیں پچھلی درس میں بھی ذکر کیا تھا اگر ایک شخص جو ہے قیام قیامت تک زندہ رہے اور ہمیشہ وہ عبادت کرتا رہے پھر بھی اللہ کا جو حق اس کے اوپر عائد ہوا ہے دنیا میں وہ حق ادا نہیں ہوگا۔ یہ عبادت جو کرتے ہیں کیا اس کی حیثیت ہے جو نمازیں پڑھتے ہیں یہ ہے اس کی حیثیت ہے جہنم سے ہم بچ جاتے ہیں جنت کے ہم مستحق حقدار نہیں ہوتے لیکن یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے تفضلا ہے دیگر روایات میں ہے کہ کوئی شخص اپنے عمل کی وجہ سے جنت نہیں جاتا ہے وہ اتنا عمل کیا ہے آپ جہنم نہیں جاتا جب جہنم نہیں جاتا جنت بھیج دیا جائے گا اور جنت میں جتنی نعمتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی گے وہ تفضلا ہے اس آیت میں ایک تعبیر قابل توجہ ہے وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ وارث اس لئے کہا ہے کہ آپ کو وہ اللہ تعالیٰ نے تفضلا عنایت فرمایا ہے جنت میں آپ جس جگہ جائے وہ کوئی محدود جگہ نہیں ہوگی بہت بڑی سلطنت، بہت بڑا علاقہ اپ کو مل جایا کرے گا۔ بعض احادیث میں ہیں کہ ایک شخص کو جو جنت میں جو جگہ ملے گی وہ پتہ نہیں کتنے ہزار سال کی مسافت وہ اس جنت کا طول و عرض ہوگا جو آپ کے حصے میں ہے۔ جنت میں ایک گھر ملے گا وہ گھر کیا اس گھرسے مرا د ایک سلطنت کو گھر کہتے ہیں نتبوا جہاں چاہے اپنی جگہ بنا لیں۔
وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ۖ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اور آپ فرشتوں کا عرش کے گرد حلقہ باندھے ہوئے اپنے رب کی ثنا کے ساتھ تسبیح کرتے ہوئے دیکھیں گے، رسول اللہ سے خطاب ہے، اور لوگوں کے درمیان برحق فیصلہ ہو چکا ہوگا اور کہا جائے گا ثنا ئے کامل اللہ تعالیٰ کے لئے وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ۔
جب آسمان کو لپیٹ لیاجائے گا یہ کائنات تبدیل ہوجائے گی اور فرشتے جو ہیں وہ عرش کے گرد اللہ کی تسبیح کر رہے ہوں گے ۔ او رروایات میں ہے کہ ارواح مومنین بھی فضا میں ہوں گے اس وقت جب کائنات لپیٹ لیا جائے گا اور جو ہے فرشتے جو ہے حَوْلِ الْعَرْشِ عرش کے گرد حاملین عرش اور ا ن کے درمیان میں فیصلہ بر حق ہو چکا ہوگا ، یعنی تمام کائنات کے ختم کرنے کے بعد کی بات ہے وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہ یہ کون ہے کہنے والا؟ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اہل تقوی ہے یا اہل جنت ہے؟ ان کے آخری کلمہ ہوگا یہ اہل تقوی اور اہل جنت کا آخری الْحَمْدُ لِلَّهِ ہوگا اس سے زیادہ کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ کا مقام ہے جنت میں داخل ہونے کے وقت سے زیادہ۔