تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیات 21 - 22

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ
سورہ زمر آیت 21، کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمان سے پانی نازل کرتا ہے پھر چشمے بنا کر اسے زمین میں جاری کرتا ہے پھراس سے رنگ برنگی فصلیں اگاتا ہے پھر وہ خشک ہوجاتی ہے تو تم دیکھتے ہو وہ زرد پڑ گئی ہے پھر وہ اسے بھوسا بنا دیتا ہے ، عقل والوں کے لئے یقینا اس میں نصیحت ہے۔
يَنَابِيعَ،ینبوع کی جمع ہے چشمے کو کہتے ہیںيَهِيجُ سبز کا خشک ہوجانا، ہر خشک کو نہیں کہتے کسی سبز چیز کا خشک ہوجاناحطام بھوساہوجانا، ریزہ ریزہ ہونے کے معنوں میں۔ یہ آیت تدبیر سے مربوط ہے کہ اس کائنات کی تدبیر اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس تدبیر کے سلسلے میں یہ جو مطالب اس آیت میں بیان ہو رہے ہیں وہ ہم روز دیکھتے ہیں ۔ ہم کو معلوم ہے لیکن اس کو ہم معمولات میں لیتے ہیں، یہ ہمارا روز کا معلوم ہے ا س میں کونسی بات ہے؟ اس میں غور نہیں کرتے فکر نہیں کرتے اس میں کونسی بات ہے؟ اس میں بہت بڑی باتیں ہیں، اس میں بہت بڑارز ہے ، اس میں بہت بڑی حکمتیں ہیں، اس میں تدبیر ی نکات ہیں اور نہایت قابل توجہ تدبیری نکات ہیں۔
آسمان سے اللہ تعالیٰ نے پانی نازل کیافَسَلَكَهُ پھر پانی کو چلا دیا، اول تو آسمان سے اللہ پانی جو ہے وہ سمندر سے بخار اٹھتا ہے اور اس بخار کو خشک علاقوں کی طرف چلاتا ہے یعنی سمندر سے پانی اٹھتا ہے بخار کی شکل میں پانی، پانی بخار میں تبدیل ہوتا ہے یہ بھی قدرت الہی ہے ہمارے لئے معمول ہے، قدرت الہی ہے پانی بخار میں تبدیل ہوتا ہے چھوٹے چھوٹے ذرات میں تبدیل ہوتا ہے ہوا میں اڑتا ہے وہ ذرات پھر روانہ ہوجاتا ہے بادل کی شکل میں خشک علاقوں میں اور پھر خشک علاقوں میں پانی برستا ہے۔ ہمارے لئے یہ بھی معمول ہے، کوئی نئی بات ہے، بادل سے پانی برستا ہے، جی برستا ہے پھر فرمایا: فَسَلَكَهُ پھر ہم نے اس پانی کو چلادیاپانی کو ایسا اللہ تعالیٰ نے بنادیا کہ وہ خود چلتا ہے چلانا نہیں پڑتا اٹھا کے لے جانا نہیں پڑتا جہاں اٹھا کے لے جانا پڑتا ہے وہاں بادلوں کے ذریعے اٹھا کے لے آئے وہ بھی آسمان سے اوپر سے۔ اگر اٹھا کر لے جانا ہے تو بھی اللہ تعالیٰ اٹھا کر کے لےجاتا ہے خشک علاقوں میں، دور دراز علاقوں میں اور پھر اس کے بعد وہ زمین پر آتا ہے زمین پر خود چل پڑتا ہے فسلکہ پہاڑوں پہ برف پڑتی ہے۔
پانی ذخیرہ کرتے ہیں ہم لوگ ڈیم شیم کے ذریعے بڑا سرمایہ خرچ کر کے ۔ اللہ تعالیٰ پانی ذخیرہ کرتا ہے پہاڑوں کی چوٹیوں کے اوپر برف کی شکل میں پانی کو جما کر پھر اس کے بعد آہستہ آہستہ وہ برف پگلتی ہے پانی بنتا ہے فَسَلَكَهُ ا س پانی کو چلاتا ہے اللہ تعالیٰ، پانی چل پڑ تاہےخود ، بہت تیزی سے چل پڑتا ہے نہ ادھر دیکھتا ہے نہ ادھر دیکھتا ہے اور دریا کے کنارے بیٹھ کے تماشا کرے اور نظام قدرت میں فکر کرے، یہ دیکھو یہ پانی کیسے چل رہا ہے؟ یہ کہاں جا رہا ہے ؟ کون اس کو چلا رہا ہے؟ یہ عاشقانہ جا رہا ہے کس مقصد کے لئے جا رہاہے یہ پانی؟ پھر سبحان اللہ اللہ تعالیٰ آسمان میں بھی پانی چلاتا ہے اور زمین پر بھی پانی چلاتا ہے دونوں چلانا جو ہے وہ ایک جیسا نہیں ہے آسمان پر چلانا اور طریقے سے زمین پر چلانا اور طریقے سے انتہائی عجائبات ہیں نظام قدرت، تدبیر کائنات کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا نظام۔
کیا اللہ تعالیٰ کے مخلوقات میں فکر نہیں کرتے ؟ نہیں فکر کرتے ہم معمول پر لیتے ہیں روز کا معمول ہے کوئی نئی بات ہے کوئی تعجب کی بات ہے پانی چلتا ہے اور کیا کرتا ہے؟ پانی چلتا ہے۔ آسمان کے اوپر بھی پانی چلتا ہے زمین پر بھی پانی چلتا ہے یہ دونوں پانی جو اللہ تعالیٰ چلاتا ہے نہایت قابل توجہ ہے، فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ اس کو زمین میں چشمے بنا کر دریا نہر بنا کر کے چلاتا ہے۔ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا پھر اس کو چلا کر کے مٹی اور خاک کے اوپر اس پانی کو ڈالتا ہے، خاک کے اوپر جب پانی ڈلتا ہے پانی پڑتاہے تو نظا م قدرت میں اگر قصد و ارادہ نہیں ہے دونوں میں تصادم ہونا چاہئے پانی جب خاک، خشک خاک کے اوپر جب پانی پڑتا ہے تو خاک سے بد بو اٹھتی ہے کیچڑ ہوتا ہے اذیت ہوتی ہے اور کیا ہوتا ہے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تو آپ کہتے ہیں کہ اس پانی میں کونسی تدبیر ہے؟ اس پانی سے تو اذیت ہوتی ہے۔ پانی اور خاک میں کوئی رشتہ نہیں ہے ہم آہنگی نہیں ہے کہہ سکتے ہیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جب خاک کے اوپر پانی پڑتا ہے فَإِذَا أَنْزَلْنَا دوسری آیت میں ہےعَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنْبَتَتْ خاک جنبش میں آتی ہے خاک اس پانی کا استقبال کرتی ہے خاک اپنے آغوش میں بڑے خوشی سے اس پانی کو لے لیتی ہے ۔ بہت ہم آہنگی ہے نہ صرف تصادم نہیں ہے بڑی ہم آہنگی ہے خاک اور پانی میں، چنانچہ پانی آنے سے خاک فعال ہوجاتی ہے اور وہاں سے پھر سبزی سے وہ خاک اگاتی ہے پانی پڑنے سے خشک خاک سرسبز ہو جاتی ہے یہ بھی ہمارے لئے معمول ہے کوئی نہیں بات ہے اس میں تعجب کی کونسی بات لیکن اس پر غور نہیں کرتا ہے غافل انسان کہ اس خاک کے اوپر جب پانی پڑتا ہے خاک اس کا استقبال کرتی ہے اور خاک میں عجیب وغریب قسم کی فعالیت آجاتی ہے پھر اس سے سبزی اگتی ہے فصلیں اگتی ہے پھر اس پانی سے مختلف رنگوں کی فصلیں اگتی ہے زرعا جو ہے وہ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بونے کے لئے زراعت، زارع بونے والا اور نشو ونما کے معنوں میں اور یہاں نشو ونما کے معنوں میں ہےيُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا ، مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ اس زرع کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اس پر بھی ہم غور نہیں کرتے ہیں سب معمول پر لیتے ہیں ۔
دانہ جب خاک میں جاتا ہے خاک اس دانہ کا اسقتبال کرتی ہے پانی آنے سے، پانی آنا شرط ہے پانی آنے سے خاک اس دانے کا استقبال کرتی ہے اور وہ دانہ کس چیز کا دانہ ہے؟ خاک اس کو پہچان لیتی ہے یہ گندم کا دانہ ہے جڑیں نکلتی ہے خاک کے اندر جڑیں نکلتی ہیں اس دانہ سے وہ گندم بھی بڑا سائنسدان ہے بڑا پڑھا لکھا دانا، انتہائی تعلیم یافتہ ، تربیت یافتہ اور انتہائی سمجھدار عجیب و غریب تربیت یافتہ ہے یہ دانہ ، گندم کا دانہ وہ اپنے سے جڑیں جو ہیں وہ نکالتا ہے دانہ ان جڑوں کو پتہ ہے کہ ہم نے زمین کے اندر موجود مختلف عناصر میں سے کس کس عنصر کو جذب اور ترکیب کرنا ہے تاکہ گندم اگ جائے، گندم کے لئے کارآمدعناصر کونسے ہیں؟ ماہرین کہتے ہیں کہ زمین میں بیس زیادہ عناصر ہیں ان میں سے کوئی دس عناصر جمع ہوتے ہیں تو ایک دانہ پھولنا شروع کرتا ہے پھر دینا شروع کرتا ہےتو کس دس عنصر کو جذب کرنا ہے اور ترتیب دینا ہے ان جڑوں کو پتہ ہے،شناخت ہے ان عناصر کی شناخت ہے ان کو جذب کرتا ہے گندم اگتا ہے۔
ہم جب گندم کا دانہ زمین میں ڈالتے ہیں اور پھر گندم اگتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ ابھی کوئی تعجب کی بات ہے گندم کا دانہ جب خاک میں ڈالتا ہے تو پھر گندم اگتی ہے اور کیا اگتی ہے اور کچھ نہیں اگتی،اور یہاں کوئی اور دانہ جو کا دانہ یا مکئی کا دانہ آپ ڈالتے ہیں تو مکئی اگتا ہے اس دانہ سے جو جڑیں نکلتی ہیں ان کو پتہ ہے کہ مکئی اگانے کے لئے کونسے عناصر ان کو ترتیب دینا ہے پھر مکئی بن جائے گی اس کو ہم معلوم لیتے ہیں۔ یہ عجیب معجزہ ہے، عجیب شعورہے، عجیب شناخت ہے ان جڑوں کو جو اس دانے سے نکل کر زمین کے اندر پھیل جاتی ہے ان جڑوں کو عجیب و غیرب قسم کا علم ہے، مہارت ہے، شناخت ہے ان عناصر کا۔ آپ ایک زبردست لبارٹری قائم کر کے ان کو شناخت کر نے کی کوشش کریں نہیں کر سکتے جو یہ جڑیں شناخت کر لیتی ہیں آپ نہیں کر سکتے ہیں۔
مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ رنگ، مزہ، طبیعت اور مزاج مختلف ہے، زمین ایک ہے پانی ایک ہے ہوا ایک ہے سب ایک ہے لیکن یہ اختلاف کہاں سے آیا؟ یہ اختلاف جو ہے وہ عناصر کی ترکیب کے مختلف ہونے سے اختلاف آیا عناصر کی ترکیب مختلف ہو نے سے یہ دس جڑتے ہیں تو کچھ ہوتا ہے یہ والا دس وہ والا دس۔ آپ کے پاس زبان میں بیس تیس حروف ہے تیس حروف ہیں عربی زبان میں تیس حروف ہیں مثلا، ان تیس حروف کو جوڑ جوڑ کر الفاظ بنتے ہیں کتنے الفاظ بنتے ہیں؟ لاکھوں الفاظ بنتے ہیں۔ لاکھوں الفاظ میں یہی تیس حروف ہیں لیکن کوئی لفظ کوئی ادھر کوئی حرف کس کے ساتھ مختلف حروف ترکیب پا کر مختلف مفردات بن جاتے ہیں بے شمار۔ یہاں زمین کے اندر جو مختلف عناصر ہیں ان کو آپس میں جوڑتے ہیں اور پھر مختلف رنگوں کی چیزیں نکلتی ہے۔سبحان الخلاق العظیم یہ ہے تدبیر کائنات میں اللہ تعالیٰ کا تدبیری معجزہ ۔ ہم روز دیکھتے ہیں یہ تدبیری معجزہ کبھی ہم نے نہیں کہا کہ یہ جو دانہ ہے کتنا سمجھدار ہے اس کی جڑیں ہیں کتناماہر ہے نہیں ہم نے سوچا۔ ثُمَّ يَهِيجُپھر اس کے بعد یہ سرسبز جو ہے خشک ہوجاتا ہے۔ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا پھر آپ اس کو زرد رنگ میں دیکھیں گےفَتَرَاهُ مُصْفَرًّا زردی، زرد رنگ میں آنا زوال پذیری کی علامت ہے خزاں کی علامت ہے، وہ خزاں کے موسم میں جب درخت جو ہے اس وقت زرد رنگ جو ہے وہ چھا جاتا ہے تو وہ منظر بھی خوبصورت ہوتا ہے۔
ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا پھر وہ پتے گرتے ہیں نیچے زمین پر گھاس پھوس خس و خاشاک ہوجاتا ہے یہ چڑھاو دیکھو، ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا پھر حطام بن جاتا ہے ہے خس و خاشاک بن جاتا ہے۔ پھر یہ سرسبز یہ جس کے اندر روح نباتی ہے یہ جب نبات کی شکل میں جب زندہ تھا یہ بہت خوبصورت لگتا تھا یہ پودہ بہت خوبصورت لگتا تھا،اور ابھی خش و خاشاک ہے پاوں کے نیچے ہے ،لاش وہ زمین میں دب جاتی ہے۔ یہ عروج و زوال دیکھو یہ اتار و چڑھاو دیکھو اس کائنات میں إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ اس بات میں صاحبان عقل کے لئے بہت بڑی نصیحت ہے، جی نصیحت لینے والوں کے لئے توجہ کرنے والوں کے لئے نظام قدرت میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے عجیب وغریب نصیحت ہے کس بات کی نصیحت ہے؟ کہ میری تدبیر حیات اس ذات کے ہاتھ میں جو اس دانہ سے پھل اگاتا ہے اس بات کا اللہ تعالیٰ قرآن میں بہت زیادہ ذکر کرتا ہے؛ زمین سے سبزہ اگنا اور پھر اس سے پھل ملنا جو ہے اللہ تعالی کی آیات تدبیری میں اہم ترین آیات ہیں اور واضح آیات ہیں قابل مطالعہ قابل مشاہدہ آیات میں سے ہیں لیکن ہم اس کے اوپر سطحی گزرتے ہیں اور معمول پر لیتے ہیں ہمارے روز کا معمول ہے۔
أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِنْ رَبِّهِ ۚ فَوَيْلٌ لِلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہو اور جسے اپنے رب کی طرف سے روشنی ملی ہو سخت دل والوں کی طرح ہو سکتا ہے؟ پس تباہی ہے ان لوگوں کے لئے جن کے دل ذکر خدا سے سخت ہوجاتے ہیں اور یہ لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔
أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ شرح صدر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کا سینہ جو ہے وہ حق کی بات سمجھنے کے لئے اس میں گنجائش موجود ہے آمادگی ہے باتیں جو ہیں وہ درک کر سکتا ہے اس کا دل، اس کے اندر آمادگی ہے، وہ پہلے جیسے کہا تھايَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ وہ اس کی صلاحیت رکھتا ہے یہ بات سب کی سنتا ہے ان میں سے بہترین کا انتخاب کر سکتا ہے ، اس لئے شرح صدر ہے اس کا سینہ کشادہ ہے اس کے سینے میں گنجائش ہے اس کا نظر تنگ نہیں ہے وہ تنگ نظر متعصب کسی ایک موقف اختیا ر کر کے پھر نہ ادھر دیکھتا ہے نہ ادھر دیکھتا ہے نہ کسی کی بات سنتا ہے اور اسی موقف پر ڈٹ جاتا ہے اس کے لئے قصیر قلب کہا ہے اس کا دل جو ہے وہ سخت ہے اس میں باتوں کا اثر نہیں ہوتا وہ احسن کا انتخاب نہیں کر سکتا ہے۔
أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ کیا وہ شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کا دل سخت ہے۔ شرح صدر کے مقابلے میں ضیق صدر میں آتا ہے چنانچہ سورہ انعام آیت 125 میں بھی شرح صدر کے مقابلے میں ضیق صدر کا ذکر ہے اس آیت میں۔ یہاں پر شرح صدر کے مقابلے میں فوَيْلٌ لِلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ قسی القلب ہے یعنی شرح صدر کے مقابلے میں ضیق صدر کہہ دے یا قساوت کہہ دے جامد ہے، متعصب ہے، تنگ نظر ہے، کسی کی بات نہیں سنتا صرف جو اپنا جو موقف اس نے بنایا ہے جہاں سے بھی بنایا ہے اس پر ڈٹ جاتا ہے کسی کی بات نہیں سنتا یہ بہت بری صفت ہے۔
ہم لوگ ایک مذہب اختیار کر کے بیٹھے ہیں ہم ایک مذہب رکھتے ہیں نظریہ رکھتے ہیں لیکن ہم جو نظریہ رکھتے ہیں نظریہ رکھتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے مخالف بات سننے کی ہم میں صلاحیت نہیں ہے حوصلہ نہیں ہے اصلا نہیں سن سکتے ہیں اور بات کرتے ہیں تو اکڑ جاتے ہیں اور الجھ جاتے ہے، بات سننے کا حوصلہ ہونا چاہئے،شرح صدر ہونا چاہئے، قساوت کے ساتھ پیش نہیں آنا چاہئے البتہ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُکا مائع آپ کے اندر ہونا چاہئے قابلیت ہونا چاہئے اتباع احسن کی۔ بات سنو دیکھو آپ کا کیا موقف ہے؟ آپ کیا کہتے ہیں ؟ آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟ اس کی دلیل سننا چاہئے یہ ہے شرح صدر اس کو ہم بھی کہتے ہیں یہ وسیع النظر ہے یہ آدمی جو ہے تنگ نظر نہیں ہے، ہم لوگ نظر کی طرف اس کی نسبت دیتے ہیں نظر کی طرف اور قرآن دل کی طرف یہ نسبت دیتے ہیں یہ تنگ دل ہے ہم کہتے ہیں یہ تنگ نظر ہے۔ یا وسیع النظر بھی ہم کہتے ہیں آدمی بڑا وسیع النظر ہے باتیں سن لیتے ہیں حوصلہ سے سنتے ہیں توجہ سے سنتے ہیں پھر اس کے بعد اپنا صحیح موقف جو ہے وہ اختیار کرنے کی بھی اہلیت رکھتے ہیں۔