تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیات 10 - 15

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ
سورہ زمر آیت 10 کہہ دیجیئے اے میرے مومن بندو، اپنے رب سے ڈرواتَّقُوا رَبَّكُمْ جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے بھلائی ہےاور اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔ یقینا بے شمار ثواب تو صرف صبر کرنے والوں ہی کو ملے گا۔ اے ایمان والو، يَا عِبَادِ اے میرے مومن بندو، اتَّقُوا رَبَّكُمْ اپنے رب سے اتَّقُوا تقوی وقایہ سے ہے، بچنے کو کہتے ہیں پرہیزگاری تقوی پرہیز، بچنا۔اتقو اللہ اللہ سے بچو کا ترجمہ صحیح نہیں بنتا ادبی نہیں بنتا، اللہ کے غیض و غضب سے بچو، اللہ کی ناراضگی سے بچو اپنا بچاو کرو ۔
ا پنے رب کی نارضگی سے بچو، سارا سلسلہ بچنے میں ہے۔ آپ نہج البلاغہ پڑھیں مولا کس قدر تاکید کرتے ہیں تقوی پر، تقوی تقوی اور دنیا میں صرف دین اور مذہب ہی نہیں تمام کاروبار تقوی پر مبنی ہے سارا کام۔ یہ ایک ایک مذھبی اصطلاح ہوا ہے تقوی لیکن بچ بچاو کہہ دے تو پھر ہر ایک کام میں بچ بچاچاہیئے۔ کاروبار والوں کے لئے بھی خسارے سے بچ بچاو چاہیے، زمینداروں کے لئے بھی کھیتی باڑی کرنے والوں کے لئے جڑی بوٹیوں سے بچ بچاو چاہیئے، حتی کہ یہ جو سیاستدان ہوتے ہیں ان کو بھی بچ بچاو کرنا ہوتا ہے کہ اپنے ووٹرز میں کمی نہ آئے، بچ کے چلو، کونسا کام ہے جس میں بچاو نہیں ہوتا بچاو ضروری نہیں ہے اس کی کامیابی کے لئے ۔ یہ جو زندگی کا عمل ہے اور آخرت کو ہم نے جانا ہے اس میں بچاو نہیں چاہئے؟ اس میں سب سے بڑا بچاو چاہیے، ایمان والوں سے کہاکہ اتَّقُوا رَبَّكُمْ اپنے رب کے غیض و غضب سے بچولِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے آخرت میں بھی اس کا بدلہ ملے گا یہ جو آپ دنیا میں عمل کرتے ہیں آپ کا عمل محفوظ رہتا ہے لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ اس دنیا میں جو آپ کام کرتے ہیں یا آپ کا عمل آپ کو معلوم ہے آپ کا عمل جو ہے وہ آپ کے جسم کے حرکات و سکنا سے نکلنے والی انرجی ہے، عمل انرجی انسان کا وجود مادی ہے، انسان سر تاپیر سو فیصد مادی ہے۔ انسان جو کھانا کھاتا ہے وہ بھی مادی ہے، سانس لیتا ہے ہوا بھی مادی ہے روشنی بھی مادی ہے سب مادی ہے لیکن انسان سے جو عمل صادر ہوتا ہے وہ مادی نہیں ہے۔ مصدر منبع سرچشمہ مادہ ہے لیکن نکلنے والی چیز غیر مادی ہے انرجی ہے۔ آپ کے بود و باش آپ کے حرکات و سکنا ت عمل ہے یہ عمل ختم نہیں ہوتا محفوظ رہتا ہے آپ دنیا میں عمل کرتے ہیں۔
لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ اس دنیا میں جو لوگ عمل کرتے ہیں وہ اپنے آخرت کے لئے خزانہ تیار کرتے ہیں سٹور، عمل آپ سے صادر ہوتا ہے وہ باقی رہتا ہے من وعن باقی رہتا ہے آپ کا عمل آپ کی تقدیر سازی کر رہا ہوتا ہے اچھا عمل ہے تو بھی وہ اپنے پلے میں اور برا عمل ہے تو وہ بھی اپنے پلے میں جمع رہتا ہے قیامت کے دن وہ آپ کے سامنے آپ کا عمل آپ کے سامنے آئے گالِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ اس دنیا میں جو لوگ نیکی کرتے ہیں وہ نیکی خود حسنہ بن کے آپ کے سامنے آئے گا آپ کے ساتھ جو ہے نیک رفتار کرے گا نیک رویہ اختیار کرے گا۔ نماز کی پابندی کرو نماز تمہارا ساتھی ہے قبر میں تمہارا ساتھی ہے، یہ برزخ میں تمہارا ساتھی ہے حشر میں بھی، آپ جو حرکات و سکنات بجا لاتے ہیں وہ محفوظ رہتا ہے آپ کی نماز محفوظ ہے وہ محفوظ نماز آپ کا ساتھ دے گی ہر جگہ وہ ختم نہیں ہوتا وہ سامنے آتا ہے قیامت کے دن بھی یہ نماز سامنے آجائے گی ۔آپ کا ساتھ دے گی اور اگر خدا نخواستہ اگر آپ نے برائی کی ہے کسی پر ظلم کیا ہے وہ ظلم پر اٹھنے والا ہاتھ بھی سامنے آئے گا۔ وہ ضربت جو ہے آخرت کو آپ کا اپنا عمل آپ کو عذاب دے گا۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ اس دنیا مین جو بھی آپ کام کریں گے عینا وہی قیامت کے دن آپ کے سامنے آئے گا، اچھے کاموں کو دیکھ کر آپ کو بہت مزہ آئے گا خوش ہوگا اور اگر اچھا کام نہیں ہے کہے گايَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي کاش آج کے دن کے لئے کچھ اچھا کام کر چکا ہوتا آج میرا یہ حشر نہ ہوتا۔
لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ اور اللہ کی سرزمین جو ہے وہ وسیع و عریض ہے آپ جہاں جا کر کے اپنا دین بچاو، اگر اسی کسی علاقے میں آپ کو اپنا دین جو ہے وہ نہیں بچا سکتے تو پھر ہجرت کرو اور اپنا دین بچاو، ہجرت کرنا ہوتا ہے کفرستان سے کفر کے علاقوں کے کفر کے ملکوں سے اسلامی ممالک کی طرف جہاں دینداری ہو سکتی ہے وہاں ہجرت کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے اس وقت زمانہ ایک آگیا ہے کہ وہ دار الاسلام سے ہجرت کر کے دار الکفر کی طرف جاتے ہیں، بڑے شوق سے جاتے ہیں قیمت ادا کر کے جاتے ہیں اور جا کر کے کچھ دیر تو وہاں پر کچھ لوگوں کے لئے ہے وہاں اسلامی سنٹر کی طرف جاتے ہیں دین مذہب محفوظ رکھتے ہیں ، لیکن ان کی نسلیں چلی جاتی ہیں ان کی نہیں ہوتی۔ ان کی بیٹی، صاحب زادی کسی کرتی ہے والد صاحب کے اوپر کہ والد صاحب میری نجی زندگی میں مداخلت کرتا ہے کیس ہوتا ہے والد صاحب پر بیٹی کی طرف سے، بیٹی کی آزادی میں والد صاحب کو دخل دینے کا حق حاصل نہیں ہے اس معاشرے میں وہاں جاتے ہیں۔
وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ اللہ ارشاد فرماتا ہے کہ دین بچانے کے لے اپنا وطن چھوڑو اب زمانہ آگیا ہے کہ دین بیچنے کے لئے وطن چھوڑتے ہیں، إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ صبر کرنے والوں ہی کو اجر ملے گا بے شمار اجر ملے گا، ترک وطن مشکل ہوتا ہے، ہوتا تھا ترک وطن آج کل تو ترک وطن میں مزہ آتا ہے وطن میں صبر کرنا ہوتا ہے إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ جو ہجرت کر کے ترک وطن کر کے مشقت اٹھاتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ جو ہے وہ بے شمار اجر عنایت فرمائے گا، نہج البلاغہ میں ارشاد ہوا ہے فان التقوی فی الیوم الحرز و الجنہ و فی غد الطریق الی الجنہ تقوی آج بچاو اور سپر ہے مولا فرماتے ہیں آج یعنی دنیا میں الحرز بچاو ہے، والجنہ سپر ہے وفی غد الطریق الی جنہ قیامت کے دن جنت کی طرف جانے کا راستہ ہے۔ تقوی میں خیر دنیا و الآخرہ ہے۔ تقوی اختیا رکرنے والا دنیا میں آسودہ رہتا ہے، سکون کی زندگی گزارتاہے، ذکر خدا سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے انسان کو اطمینان کی زندگی مل جائے اور کیا چاہئے۔ عیش و آرام سکون میں ہے ، سکون تقوی اور دینداری میں ہے۔ آرام سے سوتا ہے اور مزے سے کھانا کھاتا ہے اور زندگی جو ہے وہ آرام کی زندگی ہے۔ دوسروں کی زندگی نہیں دیکھی اس لئے انسان کو خیال آتا ہے کہ زرق و برق کی زندگی بظاہر کہتے ہیں کہ یہ لوگ بڑے جناب عیش و نوش میں رہتے ہیں یہ لوگ عذاب میں رہتے ہیں اس کا علم نہیں ادھر کے لوگوں کو۔
قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَهُ دِينِي کہہ دیجئے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں دین کو اس کے لئے خالص کر کے اللہ کی بندگی کروں، اور مجھے یہ حکم بھی ملا ہے کہ میں سب سے پہلا مسلم بنوں۔ کہہ دیجئے کہ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں کہہ دیجئے میں اللہ ہی کی بندگی کرتا ہوں اپنے دین کو اس کے لئے خالص رکھتے ہوئے اللہ کے دین کی ، اللہ ہی کی بندگی کرتا ہوں۔ اب حکم ہے رسالت مآب کے لے، رسالت مآب کو براہ راست خطاب فرماتا ہے تاکہ حکم کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے، بنسبت اس کے کہ لوگوں سے براہ راست خطاب کرے وہ بھی ہے بہتیا ایھا الناس، یا ایھا الذین آمنو خطاب ہے براہ راست، کبھی زیادہ اہمیت دینے کے لئے اپنے رسول کی طرف خطاب کرتا ہے رسول کو حکم دیتا ہے لَئِنْ أَشْرَكْتَ اے رسول لَئِنْ أَشْرَكْتَ اگر آپ نے شرک کیا لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَآپ کا عمل حبط ناکارہ ہوجائے گا رسالت مآب سے۔ لَئِنْ أَشْرَكْتَ شرک وہ عمل ہے جس سے تمام اعمال جو ہیں وہ ناکارہ ہوجاتے ہیں۔
قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ مجھے حکم ہے کہہ دیجئے مجھے حکم ہے سب سے پہلے میں اللہ کی بندگی کروں اس کو خالص رکھوں اس میں غیر اللہ کا شائبہ نہ رکھوں یہ میرے لئے حکم ہے اپنے رسول کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے، دین کو خالص رکھنے کے سلسلے میں کوئی مراعات نہیں ہیں۔ وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ مجھے تو یہ حکم ملا ہے کہ میں سب سے پہلا مسلم بنوں سب سے پہلے، اللہ کے اوپر ایمان لانے اور اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، مسلم سر تسلیم خم کرنا اس میں سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مکلف ہوں کہ میں سر تسلیم خم کروں سب سے پہلے پھر اس کے بعد دوسروں کی نوبت آتی ہے سب سے پہلے احکام میرے اوپر نافذ ہوتے ہیں پھر اس کے بعد دسروں کے اوپر۔ سب سے پہلے رسول اللہ کو تعمیل کرنا ہوتا ہے احکام الہی اور اس کے بعد دوسروں کے لئے، بلکہ بعض احکام عبادات ایسے جس کی دوسروں کو مراعات ہیں رسول کو مراعات نہیں ہے، نماز شب دوسروں کے لئے مستحب ہے رسول اللہ کے لئے واجب ہے مراعات نہیں دوسروں کو مراعات ہے اپنے رسول کو مراعات نہیں ہے۔ اپنے رسول کے اوپر جو ہے وہ سختی زیادہ ہے تکلیف زیادہ عائد ہوتی ہے۔
لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ ، قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ کہہ دیجئے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بڑے دن یعنی قیامت کے دن سے میں ڈرتا ہوں خائف ہوں قُلْ إِنِّي أَخَافُ کہہ دو رسول میں خائف ہوں ، مجھے ڈر لگتا ہے رسول کو ڈر لگتا ہے تم کو ڈر نہیں لگتا؟ تم سے پوچھا جائے تو تو کہتا ہے میرے لئے کیا فکر ہے کوئی ڈر نہیں ہے میں یہ ہوں میں وہ ہوں۔ یہ ہے تمہارا دین اور یہ ہے تمہارا رسول، قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں یوم عظیم بڑے دن کے بارے میں خوف رکھتا ہوں، بڑا دن کونسادن ہے ؟ قیامت کا دن ہے یوم حساب ہے یوم فزع الاکبر ہے۔ اس دن سے قیامت کا جو دن ہوگا یوم الفزع الاکبر، انبیاء ڈرتے ہیں اولوالعزم پیغمبران ڈرتے ہیں ائمہ علیھم السلام خوف کا اظہار کرتے ہیں گریہ کرتے ہیں پریشانی کا اظہار کرتے ہیں ولا تفضحنی بین یدی اولیائک میں بتایا کرتاہوں حضرت ابراہیم عليه‌السلام نے کہا وَلَاتُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ اے میرے مالک جب لوگ اٹھائے جائیں گے تو مجھے رسوا نہ کر،ابراہیم بت شکن کہتے ہیں مجھے رسوا نہ کریوم یبعثون اور امام زین العابدین جو سید الساجدین ہے وہ فرماتے ہیں: ولا تفضحنی بین یدی ولیائک اے اللہ اپنے اولیاء کے درمیان میں مجھے رسوا نہ کر، اولیاء یعنی پیغمبران کے درمیان میں ائمہ کے درمیان میں بین یدی اولیائک اولیاء کے صفوں میں میرا درجہ کم ہوجائے تو یہ میری رسوائی ہے میری عبادت کم ہوئے تو یہ میری رسوائی ہے ولا تفضحنی بین یدی اولئائک اے رسول، کہہ دو انی اخاف میں ڈرتا ہوں رسول ڈرتے ہیں ائمہ ڈرتے ہیں۔
قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَهُ دِينِي اور یہ بھی کہہ دو میں اللہ کی بندگی کرتا ہوں اس بندگی کی صورت یہ ہے اس کے لئے اپنے دین کو خالص کر کے اپنے دین کو صرف اور صرف اللہ کے لئے اس میں کسی اور کا شائبہ نہیں ہے۔ کوئی میری تعریف کرے گا یا کوئی مجھے اچھا سمجھے گا، اچھا سمجھے نہ سمجھے تعریف کرے نہ کرے کیا رکھا ہے لوگوں کے پاس؟ دین کی سمجھداری دین کواللہ کے لئے مخلص بنانا غیر اللہ کے شائبہ سے پاک کرنا اور عقل کی ضرورت ہے اس کے لئے، عقل سے کام لے تھوڑا، ہوش و حواس ٹھیک کرے اس کو راضی کر نے کے لئے؟ اس کے پاس کیا ہے؟ تیری دنیا بھی اس کے پاس نہیں تیری آخرت بھی نہیں ہے لوگوں کے پاس لوگوں کو راضی کرنے کے لے، چلو لوگ راضی ہوگئے کیا ملے گا تم کو اگر اللہ راضی نہیں ہے؟ لوگ ناراض ہوگئے کیا بگڑے کا تمہارا؟ سمجھداری یہ ہے کہ اس ذات کو سامنے رکھوبِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ جس کے ہاتھ میں تمام کائنات کی بادشاہت ہے اور اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اس کو خیال رکھتے ہو اور اس کو خیال میں نہیں رکھتے ہو،اس کے پاس کچھ نہیں ہے اس کو سامنے رکھتے ہو جس کے پاس سب کچھ ہے دنیا آخرت اس کو بھول جاتے ہو اس سے زیادہ نادانی کیا ہوسکتی ہے؟
فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ مِنْ دُونِهِ ۗ قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ پس تم اللہ کے علاوہ جس جس کی بندگی کرنا چاہو کرتے جاو، کہہ دیجئے گاٹے میں ہے گاٹے میں وہ لوگ ہیں جو قیامت کے دن کو اور اپنے عیال کو گاٹے میں ڈال دے، قیامت کے دن خود کو اور اپنے عیال کو گاٹے میں ڈال دے خبر دار یہی کھلا گاٹا ہے۔ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ، فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ جس کی چاہو پوجا کرو، جس کی عبادت کرنا چاہو جاو اس کی عبادت کرو، جس کو راضی کرنا چاہتا ہو جاو اس کو راضی کرو ، جس کے سامنے جھکنا چاہتا ہو جاو اس کے سامنے جھکو جب تم حقیقی معبود کی بندگی نہیں کرتے ہو تو پھر تم جس کی چاہو بندگی کرو سب کی کرو، جہاں خزانہ ہے وہاں تلاش و جستجو کے لئے آمادہ نہیں ہے تو پھر جہاں چاہو اپنا سر مارو۔ سرمایہ حیات کو منافع بخش تجارت میں لگانے کے لے آمادہ نہیں ہے تو جس خسارے میں اپنے آپ کو تباہ کرنا چاہتے ہیں کر ڈالو، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضائے رب کی پاکیزہ فضا میں جانا پسند نہیں ہے تو جس گنڈ میں الٹ پلٹ ہونا چاہتے ہو، ہو جاو دیکھو فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ جس کی پوجا کرنا ہو کرو، معبود حقیقی کی اگر عبادت نہیں کرنا ہے۔ قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ یہ اپنے آپ کو ، زندگی ایک نہایت قیمتی ہے انسان کی زندگی بہت قیمتی ہے آپ کو بتایا کرتاہوں یہاں کی زندگی کتنی قیمتی ہے، یہاں کی زندگی آپ کا ساٹھ ستر سال کی جو زندگی ہے تکلیف کی زندگی اس کو اگر آپ قیامت کے یا جنت کے ابدی زندگی پر تقسیم کرو تو یہاں کی زندگی کے ایک سکنڈ کے اربویں حصہ کے مقابلے میں جنت کے کروڑوں سال کی ناز و نعمت ملے گی ، ایک سکنڈ کے آپ تقسیم کرو نا ابدی زندگی کے اوپر دنیاوی تھوڑی سی زندگی کو، کہہ دیجئے جو لوگ خسارہ اٹھاتے ہیں اپنا خسارہ اپنے گھروالوں کا خسارہ وہ جو ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ وہ کھلا خسارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اس عظیم خسارہ سے بچائے۔