تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیات 51 - 53

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

فَأَصَابَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا ۚ وَالَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ هَٰؤُلَاءِ سَيُصِيبُهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَمَا هُمْ بِمُعْجِزِينَ
سورہ زمر آیت ، 51 پس ان پر ان کے برے اعمال کے و بال پڑ گئے اور ان میں سے جنہوں نے ظلم کیا ہےعنقریب ان پر ان کے برے اعمال کے و بال پڑنے والے ہیں اور وہ اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے۔
فَأَصَابَهُمْ اصحاب، یصیب کسی چیز کے اوپر پڑنے کو کہتے ہیں اذا اَصَابَتۡکُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ مصیبت تم پر آپڑے۔ اس آیت میں فرمایا: تمہاری اپنی کیا دھرا ہے اس کا گناہ جو ہے وہ قیامت کے دن تم پر آپڑے گا۔ سَيُصِيبُهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَمَا هُمْ بِمُعْجِزِينَ ان کا جو کیا دھرا ہے وہ ان کے اوپر پڑنے والا ہے۔ دیکھو نا ان تمام آیات کی تعبیر جو ہے ، وہ احادیث میں ہے القرآن یفسرہ الزمن زمانہ بھی قرآن کی تفسیر کرے گا۔ اس زمانے میں بہت سے آیات کی تفسیر ہوتی ہے۔ ان کو جو کیا دھرا ہے ان کا اعمال جو ہے وہ اعمال جو ہے ان کے سامنے آئے گا عذاب ہو جائے گا۔ وَمَا هُمْ بِمُعْجِزِينَ وہ اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے ، اللہ کا وضح کر قانون ہے انسان دنیا میں جو کچھ کرتا ہے اس کے اعمال جو ہے وہ محفوظ ہے اللہ کی کتاب میں، قرآن کی تعبیرات ہیں اور کرام کاتبین لکھتے ہیں اور کتاب میں محفوظ ہیں ، رقیب و عتید ہے۔ یہاں پر ہے سَيُصِيبُهُمْ سَيِّئَاتُ مَا ا كَسَبُوا جو ان لوگوں نے گناہ کیا ہے وہ ان کے اوپر پڑ جائیں گے۔
اَوَ لَمۡ یَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ
کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالی جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے، ایمان لانے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔
رزق کی کشادگی اور تنگی یہ ہے اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ ایک شخص کے لیے رزق میں کشادگی آتی ہے بڑا پیسہ والا بنتا ہے کیسے وہ پیسہ والا بنتا ہے؟ وہ جو علل اسباب ہے پیسہ ملنے ک ےجو راستے ہیں زرائع ہیں ان کو وہ استعمال میں لے آتا ہے اور اپنے دولت میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ عللو اسباب جو اللہ تعالی نے اس کائنات میں فراہم کر کے رکھا ہوا ہے ہر ایک کے دسترسی میں ہے لیکن کچھ لوگ ان تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ان کے ذریعے وہ اپنی دولت میں اضافہ کرتا ہے۔ علل و اسباب بنانے والا کون ہے؟ اللہ تعالی کی ذات ہے اور یہ شخص جو ہے ان علل اسباب کو قابو کر لیتا ہے وَ یَقۡدِرُ ؕ اور دوسرے کے اوپر جو ہے وہی علل و اسباب ،ا سی میدا ن میں یہی زمین یہی آسمان اور یہی آب و ہوا اس میں بھی اس کو بھی وہی ہاتھ، پیر، آنکھ، عقل، دماغ لیکن رزق میں تنگی آجاتی ہے وَ یَقۡدِرُ ؕ اللہ جس کو چاہتا ہے رزق میں وسعت کر دیتا ہے کس کو چاہتا ہے تنگ، کس کو چاہتا ہے اللہ؟ اللہ تعالی کے علم میں ہے کہ اس بندے کی آزمائش رزق دے کر کی جائے ۔ جی، تو اس کے لیے اور اسباب جو ہے ہاتھ میں آنا جو ہے وہ اتفاق ہوتا ہے آسان ہوتا ہے دولت بناتا ہے اور دولت بنانے کے بعد جو ہے وہ باغی ہوتا ہے آزمائش میں وہ کامیاب نہیں ہوتا ۔ دوسرے کو رزق نہیں دیتا محتاج الفقیر رکھ کر کے آزماتا ہے دیکھتے ہیں یہ صبر کرتا ہے یا نہیں صبر کرتا ہے یا چوری کرتا ہے ادھر جاتا ہے ادھر حرام مال کھاتا ہے ، یہ دو طریقے امتحان ہے؛ ایک امتحان رزق دے کر اور ایک امتحان رزق روک کر۔ دونوں میں سے رزق دے کر امتحان جو لینا ہے وہ زیادہ مشکل ہے اس لئے کہ انسان زیادہ باغی ہوجاتا ہے جب وہ پیسے والا ہوجاتا ہے دولت والا ہوتا ہے تو وہ پھر وہ بڑا بے پروا ہوتا ہے۔ مال اور دولت جو ہیں وہ انسان کے ذہن و فکر کو خراب کرتا ہے جبکہ یہ غریب آدمی کبھی صبر کرتا ہے کبھی بے صبری بھی ہوتی ہے لیکن صبر کرنے کا موقع زیادہ آتا ہے اس لئے غریب لوگ زیادہ دیندار ہوتے ہیں وہ اپنی غربت اور فقر پر صبر کرتے ہیں جبکہ مال و دولت والے ۔
قرآن مجید میں متعدد آیا ت ہیں جس میں ارشاد فرمایا ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر ان کے وہاں کے مترفین یوہاں کے عیش و عیاش والے لوگ مخالف ہوگئے۔ قرآن میں ہے متعدد آیات میں مترف کہتا ہے قرآن۔
عیاش اور دولت مند لوگوں کو جب بھی ہم نے کوئی نبی بھیجا تو مترفین آڑھے آجاتے ہیں اس لئے کہ عدل و انصاف جو ہے وہ فقیروں کے حق میں ہوتا ہے اور جو امیر لوگ ہوتے ہیں دولت مند لوگ ہوتے ہیں ان کے مصلحت کے خلاف ہوتا ہے تو عدل و انصاف کو قبول نہیں کرتے ہیں دولت والے۔
اس کے بعد ارشاد فرمایا قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ کہدیجئے:اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے، وہ بڑا معاف کرنے والا ، مہربان ہے۔
قل کہہ دیجئے، بتادیں ان لوگوں کو کیا بتادیں؟ يَا عِبَادِيَ اے میرے بندو يَا عِبَادِيَ میرے بندو۔ اسی میں يَا عِبَادِيَ میں بہت پیار ہے، محبت ہے اور بہت مہربانی ہے مہر و محبت کے ساتھ پکارتا ہے۔ یا ایھا الناس نہیں کہا، قل یا ایھا الناس ، قُلْ يَا عِبَادِيَ اے میرے بندو، اپنی طرف نسبت دینا لوگوں کو کہ تم میرے بندے ہو، کیا بات ہے۔ حضرت علی عليه‌السلام فرماتے ہیں نا کہ میرے فخر کے لئے یہی کافی ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ میرے بندو، الَّذِينَ أَسْرَفُوا کونسے بندے؟ آپ کے متقی بندے ان کو پیار دے رہے ہیں ؟ جی آپ کے احکام کی پابندی کرنے والے؟ ان کو یا عبادی کہہ رہے ہیں؟ نہیں۔ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ جنہوں نے اپنے آپ کے ساتھ زیادتی کی ہے ان سے خطاب ہے ۔ ان کو یا عبادی کر کے پکار رہے ہیں یا عبادی میں سب شامل ہے وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ جو شکر گزار نہیں ہیں ان کو بھی عبادی کہا ہے۔ اِنۡ تُعَذِّبۡہُمۡ فَاِنَّہُمۡ عِبَادُکَ اگر آپ ان کو عذاب دیتے ہیں تو پھر بھی تیرے بندے ہیں۔ جو مستحق عذاب ہوتا ہے ان کو بھی عباد اللہ کہا ہے ۔ یہاں یا عبادی میں سب شریک ہے۔
یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِم اپنے نفس کے ساتھ زیادتی کرنے والے یہ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوا بتاتا ہے سب شریک ہے اس میں ، مومن ، کافر، مشرک کوئی بھی ہو سب کو پیار سے بلایا ہے یا عبادی اے میرے بندو، تم نے اگرچہ اپنے اوپر ظلم کیا ہے اپنے ساتھ زیادتی کی ہے اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ تم نے اللہ کا کچھ نہیں بگاڑا، اللہ کا کچھ بگڑ ہی نہیں سکتا۔ اللہ کو تمہاری عبادت کی ضرورت نہیں ہے ، تم جب اپنے نفس کے اوپر اسراف کریں گے تو اللہ کو اس سے ضرر نہیں پہنچتا، تم نے خود اپنے آپ کے اوپر ضرر پہنچایا ہے ۔
لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ اے میرے بند، و اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔اگرچہ تم نے بہت زیادتی ہے ، بہت جرم کیا ہے بہت گناہ کیا ہے۔ سب سے بڑا گناہ شرک ہے ، شرک سے بڑا گناہ نہیں ہے خود قرآن کہتا ہے شرک ظلم عظیم ہے پھر بھی لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ کی رحمت سے نا امید نہ ہونا۔ یہاں البتہ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ میں وہ لوگ شامل ہیں جو اللہ کی رحمت کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ان سے ہیں یہ لَا تَقۡنَطُوۡا پہلے سب کے لئے یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا اگر تم اللہ کی رحمت کی طرف آجاو اللہ کی طرف پلٹ کے آجاو توبہ کرو تو اللہ مہربان ہے اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ۔
یہاں پر لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اس مایوس نہ ہونے کے لئے بھی تو قاعدہ ظابطہ موجود ہے وہ قاعدہ ظابطہ ہے یہ کہ یہ شخص زندگی میں اللہ کی رحمت کی طرف پلٹ آئے تو یہ شرط ہے تو مایوس نہ ہونا۔ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ۔ ایک شخص ہے جو سرے سے رحمت الہی کی طرف آتا ہی نہیں ہے قبول ہی نہیں ہے متوجہ ہی نہیں ہے اس سے یہ خطاب کیا اللہ تعالیٰ نے رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ وہ رحمت کے ساتھ اس کا کوئی سروکار ہیں نہیں ہے۔ ان لوگوں کا بھی ذکر ہے وَ لَیۡسَتِ التَّوۡبَۃُ لِلَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ السَّیِّاٰتِ ۚ حَتّٰۤی اِذَا حَضَرَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ اِنِّیۡ تُبۡتُ الۡـٰٔنَ جب موت سامنے آجاتی ہے میں نے توبہ کی ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی ہے وقت گزر گیا موقع ہاتھ سے نکل گیا اب انابت کی جگہ ختم ہوگئی۔ انابۃ، تاب اللہ کی طرف رجوع کرنا۔ کیا رجوع کرنا مر رہا ہے تو موت سامنے آگئی ہے زندگی تمہاری ختم ہوگئی ہے۔ وہ فرعون نے بھی جب غرق ہو رہا تھا اس وقت کہا تھا میں ایمان لے آتا ہوں موسی عليه‌السلام کے اللہ پر ۔ اب تو غرق ہو رہا ہے مر رہا ہے اس وقت توبہ کے لئے کوئی وہ نہیں ہے۔ وَ لَا الَّذِیۡنَ یَمُوۡتُوۡنَ وَ ہُمۡ کُفَّارٌ کفر کی حالت میں مرجاتا ہے ، وہ رحمت کی طرف تو آیا ہی نہیں ۔ رحمت خدا سے مایوس ہونے نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا جو لوگ کفر کی حالت سے مر جاتے ہیں رحمت خدا کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے ہیں۔
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡ اَحَدِہِمۡ مِّلۡءُ الۡاَرۡضِ ذَہَبًا وہ جنہوں نے کفر اختیار کیا اور کفر کی حالت میں مر گئے ان میں سے کسی سے اس قدر سونا بھی جس سے روئے زمین بھر جائے قبول نہیں کیا جائے گا، اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ثُمَّ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ فَلَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور راہ خدا سے روک اور پھر کفر کی حالت میں مر گئے فَلَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ ان کے لئے مغرفت کی گنجائش ختم ہوگئی، دنیا دار امتحان میں، آزمائش میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے لئے بہت بڑی گنجائش ہے۔،بہت بری گنجائش ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف آنے والوں کے لئے اللہ کی رحمت کی طرف مڑ کے نہ دیکھنے والے جو ہیں اس میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا وہ رحمت کی طرف آیا ہی نہیں۔
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ جو شرک کی حالت میں مرتا ہے یعنی ایک شخص مشرک ہے ساری زندگی مشرک رہا اور مرنے سے ایک دن پہلے موت سامنے آنے سے ایک دن پہلے وہ ایمان لے آتا ہے، مومن ہے اور ایک دن بعد مرگیا ایک دن مومن رہا صرف جنت جائے گا۔ ایک دن کا مومن جنت جائے گا؟ جی، وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَت یہ ہے رحمت الہی میں آنے کا نتیجہ وہ ایک دن مومن رہا ہے ۔ صدق دل سے اس نے شرک کو چھوڑ دیا اور آج چھوڑ دیا اور کل کو مر گیا۔ لیکن اگر وہ شرک کی حالت میں مرا ہے تو یہاں فرمایا اللہ ہرگز اس کے لئے معاف نہیں کرےگا۔ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اللہ کی رحمت سمجھو اللہ کی رحمت کیا ہے؟ وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ اللہ کی رحمت ہر چیز کو شامل ہے۔ کوئی چیز اللہ کی رحمت سے خا لی اور باہر نہیں، ہر چیز کے اوپر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے ۔ یہ دنیا میں باغی، سرکش، فرعون ، سفاک، قاتل اس کو بھی مہلت دیتا ہے اس کو بھی روزی دیتا ہے۔ وہ اس کو زندگی کا حق دیتا ہے ، رحمت رحمت،۔ یہ ظلم کرتا ہے یہ سفا ک ہے یہ خونریزی کرتا ہے لیکن اس کو مہلت دیتا ہے۔ وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ اس میں مومن ،مشرک ، کافر سب شامل ہیں سب کو اللہ تعالی کی رحمت جو ہے وہ شامل ہے۔ قَالَ وَ مَنۡ یَّقۡنَطُ مِنۡ رَّحۡمَۃِ رَبِّہٖۤ اِلَّا الضَّآلُّوۡنَ اللہ کی رحمت سے وہ مایوس ہوں گے جو گمراہ ہیں جو راستے کے اوپر ہے اگر وہ راستے پر بھی نہیں ہے جب وہ راستے کے اوپر آئے گا ، اللہ کی رحمت کی طرف آئے گا اللہ کی رحمت اس کو خوش آمدید کہے گا اس کا استقبال کرے گا، یہ ظالم یہ مسرف سے یہ فاسق یہ فاجر؟ آپ کے پاس آرہا ہے ہم کیا کرتے ہیں ؟ ہم تو منہ موڑدیں گے دھتکار دیں گے بد بخت نکل جاو ہمارے پاس مت آو۔ تم نے یہ کیا ہے تم نے وہ کیا ہے اللہ تعالیٰ ایسا نہیں ہے۔ اللہ کی رحمت کی طرف ہر وقت آسکتا ہے۔ اس میں ہے اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا اللہ تمام گناہ معاف کرتا ہے؟ تمام گناہ؟ جی، کفر؟ جی۔ توبہ کیا تو کفر، شرک؟ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ توبہ کیا۔ دعاوں میں ہیں وَ رَحْمَتُکَ اَوْسّعُ مِنْ ذُنُوبِی خواہ میرا گناہ کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو، شرک، شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔ جو گناہ بڑا ہوکتا ہے وہ شرک ہے اس سے بڑا نہیں ہوتا اس شرک کو بھی اللہ معاف کرتا ہے اس سے بھی اللہ تعالیٰ، لہذا ایک ضابطہ قاعدہ کے تحت گناہ معاف ہو سکتے یہ قاعدہ ضابطہ قرآن نے بتادیا جو اللہ کی رحمت کی طرف آنے والے ہیں متعدد قرآنی آیات ہیں ؛ انابو، توبہ، انابہ پشیمانی وغیرہ وغیرہ۔ سئۃ تسوک گناہ سرزد ہوجاتا ہے اور پھر آپ کو خود برا لگتا ہے وہ میں نے کتنا برا کیا وہ خیر من حسنۃ تعجبک یہ گناہ بہتر ہے اس نیکی سے جو آپ کو خود پسندی میں مبتلا کرتا ہے۔ کہتے ہیں نا ہمارے جاھل لوگ؛ ہماری بڑی خدمات ہیں ، جاو بھاڑ میں تمہاری خدمات۔ یہ رائیگاں جاتا ہے اس کے خدمات وغیرہ اس نے بڑا سمجھا ہے یہ کام۔ اپنے کام کو اگر بڑ اسمجھتا ہے تو وہ پھر خود پسندی میں مبتلا ہوتا ہے اور وہ رائیگاں جاتا ہے اور اپنے اعمال کو حقیر سمجھتا ہے وہ مومن ہے۔ آہ من قلۃ الزاد و بعد السفر
حضرت سلمان کو دفن کیا اور فرمایا وفدتک علی الکریم بغیر زاد من الحسنات و القلب السلیم مولا فرماتے ہیں: میں نے سلمان کو آپ کی طرف بھیجا ہے بغیر زاد راہ کے ، اس کے پاس کچھ نہیں ہے ؛ نہ نیکیاں ہیں نہ قلب سلیم ہے۔ سلمان من اھل البیت کے پاس کچھ نہیں ہے فان حمل الزاد اقبح من کل شئی اذا الوفود علی الکریم ۔ یہاں پر ایک یہ حدیث میں نقل کرتا ہوں ؛رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے اسْتَغْفِرُوا بَعْدَ الذَّنْبِ اَسْرَعَ مِنْ طَرْفَۃِ عَیْنٍ گناہ کرنے کے بعد فورا ، چشم زدن سے پہلے اس گناہ سے مغفرت طلب کرو فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَبِالْاِنْفَاقِ اگر نہ کر سکو تو مال خرچ کرکے گناہ کو معاف کراو۔ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَبِکَظْمِ الْغَیْظِ اگر یہ پیسہ نہیں ہے خرچ کرنے کے لئے اور غصہ پی کر اپنے گناہ کو معاف کراو فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَبِالْعَفْوِ عَنِ النَّاسِ یہ بھی نہیں ہو سکتا ہے تو لوگوں کو معاف کر کے اپنے گناہ کو معاف کرو فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَبِالْاِحْسَانِ اِلَیْھِمْ یہ بھی نہیں ہو سکتا لوگوں پہ نیکی کر کے اپنے گناہ معاف کرو فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَبِتَرْکِ لْاِصْرَارِ اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا ہے تو تکرار نہ کرو۔ کسی سے مانگو ایک مرتبہ پھر دوبارہ تکرار نہ کرو۔ وقت ختم ہو گیا ورنہ میں ا س پر کچھ عرض کرتا فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَبِالرَّجَائِ یہ بھی نہیں ہو سکتا یہ تمام نہیں ہو سکتا؛ غصہ بھی نہیں پی سکتا معاف بھی نہیں کر سکتا کچھ بھی نہیں ہو سکتا امید رکھو، اللہ سے امید رکھ کر کے اپنے گناہوں کو بخشوا دو۔