تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیات 5 - 6

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى ۗ أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ
اسی نے آسمانوں او رزمین کو برحق پید اکیا وہی رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہےاور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے یہ سب ایک مقررہ وقت تک چلتے رہیں گے ۔ آگاہ رہو وہی بڑا غالب آنے والا معاف کرنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے تخلیق و تدبیر کے سلسلے میں ان تمام آیات کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ خالق ہے وہاں اللہ تعالی مدبر ہے چونکہ مشرکین ان دونوں میں تفریق کے قائل تھے،وہ کہتے تھے کہ خالق تو اللہ ہے لیکن تدبیر اللہ کے پاس نہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاخَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو یعنی کل کائنات کو برحق پیدا کیا ہے عبث نہیں ایک حکیمانہ مقصد کے لئے خلق کیا ہے اس کی تشریح بہت سی آیات میں پہلے گزر گئی کہ یہ کائنات جو ہے اللہ تعالیٰ نے برحق کسی مقصد کے لئے پیدا کیا ہے عبث پیدا نہیں کیا بے مقصد پیدا نہیں کیا۔مقصد انسان ہے اور انسان کی تخلیق کا مقصد جو ہے وہ ارتقاء ہے، انسان کو عزت اور تکریم سے نوازنا ہے اب یہ انسان کے پاس ہے کہ وہ اسے قبول کرتا ہے یا رد کرتا ہے يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ اب تخلیق کے بعد تدبیر کی بات آتی ہے خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ آسمانوں اور زمین کو اللہ نے برحق پیدا کیا عبث پیدا نہیں کیا پھر فرمایايُكَوِّرُ لپیٹتا ہے رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے يُكَوِّرُ تکویر سے ہے یعنی کرہ ، کرہ یعنی گول۔ اس میں ایک لطیف اشارہ ہے کہ زمین گول ہے تبھی تو لفظ يُكَوِّرُصادق آتا ہے ورنہ آنا جانا کہتے آتا ہے رات جاتی ہے دن جاتا ہے رات آتی ہے آنا جانا، اگر زمین مسطح ہوتی تو آنا جانا رفت وآمد یہاں پر رفت وآمد نہیں کہا لپیٹنے کا ذکر کیا ہے کہ رات کو دن کے اوپر زمین کرہ ہے گول ہے اور زمین کے گردش ہوتی ہے۔
زمین جو ہے وہ اس کے تین چار قسم کی حرکت ہے ایک حرکت انتقالی اور ایک حرکت وضعی ہے۔ حرکت وضعی یعنی زمین جو ہے اپنی جگہ جو ہے وہ اس طرح گول دائرے میں گھومتی ہے اس زمین کے گول دائرے میں جو حرکت ہے اسی کے نتیجے میں دن اور رات وجود میں آتے ہیں کس طرح وجود میں آتے ہیں؟ جیسے رات جو ہے ختم ہوتی ہے رات کیسے ختم ہوتی ہے؟ نہار کے آنے سے نہار اس کا پیچھا کرتا ہے رات جو ہے وہ آگے آگے نکل جاتی ہے اس کے پیچھے پیچھے نہار پھر دوسری طرف سے رات آگے آگے نکل رہی ہوتی ہے اور پیچھے پیچھے نہار۔ ایک طرف سے دن جو ہے وہ رات کے پیچھے ہے اور دوسری طرف جو ہے رات دن کے پیچھے ہے ان کو لپیٹنے سے تعبیر کیا جیسے سر کے اوپر جو ہے ہم عمامہ لپیٹتے ہیں، دن اور رات جو ہے وہ زمین کے اوپر لپیٹتے ہیں اللہ تعالیٰيُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ اس تکویر میں اس لپیٹنے میں دن اور رات کے آنے جانے میں تدبیر حیات ہے زمین کے اوپر زندگی ۔ اگر یہاں صرف دن ہی دن ہوتا ہمیشہ دھوپ تو بھی یہاں پر زندگی ممکن نہ تھی ہمیشہ دھوپ ہونے کی صورت میں جو ہے ساری دنیا کی چیزیں جل جاتیں کیا ہوتا اور اگر ساری رات ہوتی تو پھر سردی سردی سے سب لوگ مر جاتے حیات یہاں پر ممکن نہ ہوتی زندگی کے لئے امکان ، زمین پر زندگی کو ممکن بنانے کے لئے یہ روز اور شب کا تکویر لپیٹنا آناجانا، شب وروز جو ہے وہ یہاں کی زندگی کے لئے ضروری ہے۔
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم یہ سوچو کہ اگر یہاں دن ہی دن ہوتا تو کوئی ہے جو رات لے آئے اگر رات رات ہوتی تو کوئی ہے جو دن لے آئے ؟ ایک آیت کا مضمون یہ ہے ہمیشہ رات ہوتی تو کون ہے جو دن لے آئے اللہ کے علاوہ، ہمیشہ دن ہوتا تو کون ہے جو رات لے آئے اللہ کے علاوہ۔ دن اور رات کا آنا جو ہے جانا تدبیر کائنات ہے۔
وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ سورج اور چاند کی تسخیر، سورج اور چاند کی گردش جو ہے وہ اس سے روز و شب بنتے ہیں،سورج اور چاند کے ان کے چار موسم بن جاتے ہیں اس میں بھی یہاں زمین میں حیات کے لئے یہ سامان فراہم کرتا ہے شمس و قمر کی تسخیر یعنی شمس وقمر تمہارے مفاد کے لئے رکھ دیا گیا ہے ، زمین میں بسنے والوں کے مفاد کے لئے شمش وقمر رکھ دیا گیا ہے ۔ یہ ہے تدبیر کے تحت شمس و قمر کا خلق کرنا یہ خلق کے تحت ہے اور اس کو مسخر کرنا تدبیر کے تحت ہے ۔ خالق ہی اس کو مسخر کرتا ہے زمین کو جس نے خلق کیا ہے اس نے زمین کو ساکن خلق نہیں کیا اور سورج کو ساکن خلق نہیں کیا دونوں کو گردش میں ڈالا ہے اور مسخر کیا ہے زمین والوں کے لئے۔
كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّىان دونوں میں سے ہر ایک ایک مقررہ مدت کے لے جاری رہے گی۔ کائنات کی ایک عمر ہے، کائنات کی ایک ابتداء بھی ہے ایک انتہا بھی ہے۔ اس بات کو آج کل کی دنیا بھی مانتی ہے صحیح ہے کائنات کی ایک عمر ہے، مثلا سورج کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ایک سکینڈ میں پتہ نہیں کتنا انرجی خرچ کرتا ہے ایک سکینڈ میں بہت بڑی تعداد ہے انرجی ایک سکینڈ میں اتنا۔ اور اگر یہ اسی طرح کا وہ ہوتا رہے تو ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ سورج کے پاس انرجی ختم ہوجاتے گی یہ سب کے لئے معلوم ہے لِأَجَلٍ مُسَمًّىلیکن وہ کب ؟ وہ صر ف اللہ تعالیٰ جانتا ہے، اس کائنات کی عمر کب ختم ہوگی اور اس آسمان اور زمین کو لپیٹ لیا جائے گا کب؟ اس کو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ آگارہ رہو کہ اللہ ہی بالادست ہے اور بالادستی کے ساتھ ساتھ غفار بھی ہے، یہ بڑی بات ہوتی ہے کہ ایک ذات جو بالادست ہو تو وہ عام طور پر رعونت میں ہوتی ہے اور معاف نہیں کرتا اللہ کی ذات وہ قہایت کے ساتھ غفاریت بھی ہے یہ اللہ تعالیٰ تعالیٰ کی خاص صفات میں سے ہے۔ قہار یت کے ساتھ غفاریت۔
خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۚ يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ اسی نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا اور اسی نے تمہارے لئے چوپاوں میں سے آٹھ جوڑے بنائے وہی تمہیں تمہاری ماوں کے شکموں میں تین تاریکیوں میں ایک خلقت کے بعد دوسری خلقت دیتا ہے، یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے تمہارا رب ہے اسی کی بادشاہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر تم کہاں پھیرے جاتے ہو؟ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ اس اللہ کو چھوڑ کر۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے اس آیت کا بھی مقصد جو ہے وہ تخلیق اور تدبیر ناقابل افتراق ہونا ہے تخلیق اور تدبیر قابل تفریق نہیں ہے اس آیت کا بھی مقصد وہی ہے۔ ان کا مخاطب جو ہے وہ مشرکین ہے جن ان میں تفریق کے قائل تھے وہ کہتے تھے کہ خالق اللہ ہے مدبر اللہ نہیں ہے ہمارے ارباب مدبر ہے ان کے لئے فرمایا کہ خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ حضرت آدم عليه‌السلام ایک نفس سے حضرت آدم عليه‌السلام سے تم کو خلق کیا ہے ایک نفس سے اتنے نفوس اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں ۔ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا پھر اسی ایک ہی نفس سے اس کا جوڑا پیدا کیا زوجھا کو بھی نفس واحدہ سے خلق فرمایا،یہاں پر ایک نفس واحدہ سے آدم اور اسی نفس سے حوا خلق ہوا ہے یہ مقصود نہیں ہے تم کو یعنی مردوں کو آدم عليه‌السلام کو نفس واحدہ سے پیدا کیا اولاد آدم عليه‌السلام، اور ان میں مردوں کو ان میں سے ان کی ازواج کو بھی نفس واحدہ سے دونوں نفس واحدہ سے یہ نفس واحدہ سے دوسرے نفس واحدہ سے پیدا کیا ہے۔اور اس آیت کی تفسیر میں ہم روایات کی طرف جاتے ہیں تو روایات کی روشنی میں یہ بات ہم کو پتہ چلی ہے کہ ہر ایک نفس واحدہ جو ہے ہر ایک نفس واحدہ سے خلق ہوا ہے یعنی ایک نفس واحد ہے آدم ؑ اور دوسرے نفس واحدہ سے حوا چنانچہ روایت میں ہے احادیث میں روشنی میں ہم یہ بات کر رہے ہیں اس میں یہ فرمایاإِنَّ اَللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ حَوَّاءَ مِنْ فَضْلِ طِينَةِ آدَمَ اللہ تعالی نے حوا کو آدم عليه‌السلام کی تخلیق کی جو بچی ہوئی طینت سے،طیبت دو ہوگئی ایک طینت سے حضرت آدم عليه‌السلام کو پید اکیا اس کی بچی ہوئی طینت سے حضرت حوا کو پیدا کیا اس طینت سے آدم عليه‌السلام اس طینت سے حوا،یہ دونوں ایک نہیں ہے دونوں دو ہے طینت ایک ہے زمین ہے دونوں مخلوق ارضی ہے اور زمین سے خلق کیا ہے ۔
وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ یہ بھی تدبیر سے مربوط ہے توجہ رہے ہمیشہ آیات کا رخ کلام کس طرح ہے اس کو سامنے رکھنا ہوتا ہے قرآن فہمی کے لئے مخاطبین کو ن ہے؟ کس سے اللہ تعالیٰ یہ بات کر رہا ہے کس کو کیا سمجھانا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ؟ وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ تدبیر معیشت کے بارے میں ایک اہم معاشی مسئلہ کا ذکر ہے وہ ہے مویشی، مویشی انسان کی زندگی کی ضرورتوں کے فراہم کرنے کے لئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں نہایت بنیادی،وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ آٹھ جوڑے ، مویشیوں کے آٹھ جوڑے سے مراد اونٹ، گائے ، بیھڑ اور بکری ہے چارنر اور چار مادہ آٹھ ہوگئے اور ان کے اوپر جو ہے انسانی معیشت کا دار ومدار ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہاں پر أَنْزَلَ لَكُمْ سے مراد یہ ہے کہ تمہاری دست ترسی میں رکھا ہے ان کو مسخر کیا ہے یہ جو انعام ہے مویشی ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے مسخر کیا ہے۔ یہ تدبیر سے مربوط ہے یہ مویشی کا خلق کرنا اور پھر ان کو ہمارے تسخیر میں، ہمارے اختیار میں رکھنا یہ تدبیر ہے یہ اللہ نے کیا ہے خالق اللہ نے یعنی مویشیوں کا خالق اللہ ہے تو پھر تدبیر بھی اللہ کے ہاتھ میں ہوا نا چونکہ مویشی کے خلق میں تدبیر ہے خلق کے اندر تدبیر ہے قابل تفریق نہیں ہے۔
يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ تدبیر سے پھر تخلیق کی طرف آتا ہے دوبارہ تم کو اللہ تعالی پیدا کرتا ہے خلق کرتا ہےفِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ تمہاری ماوں کے شکموں میں ماوں کے شکم میں تخلیق ہوتی ہے ہماری۔ انسان اگر مطالعہ کرے دقیق مطالعہ کرے انسان کی تخلیق میں شکم مادر میں انسان کی تخلیق کس طرح ہوتی ہے؟سبحان اللہ اس میں عجیب و غریب درس توحید ہے اور اس کو پڑھنے کے بعد انسان کے یقین میں اضافہ ہوتا ہے مومن بنتا ہے انسان مومن کہ انسان کی تخلیق ہوتی ہے ماں اور باپ دونوں کے اشتراک سے۔ ماں اور باپ کے اشتراک سے ایک خلیہ بنتا ہے، خلیہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اس کو دو لاکھ بڑا کرو تو نظر آتا ہے ایک خلیہ بنتا ہے اس خلیہ کی تشکیل میں ماں اور باپ دونوں کی شراکت ہے اس میں بات لمبی نہ ہوجائے کہ ایک خلیہ کے اندر جو ہے وہ کروموسومز کہتے ہیں اس میں خاص تعداد ہے وہ اس تعداد کا آدھا ماں کی طرف سے ہے کروموسومز کا آدھا باپ کی طرف سے ہے دونوں سے مل کر کے وہ چھالیس کروموسومز ہونا ہوتا ہے وہ پورا ہوتا ہے تو پھر ایک خلیہ وجود میں آتا ہے ایک زندہ خلیہ زندہ سیل وجود میں آتا ہے سیل۔ پھر وہ سیل جو ہے وہ چل پڑتا ہے رحم مادر کی طرف، رحم مادر کے پرے یہ کام ہوتا ہے ان دونوں کا جفت ہونا ، پہلے مادر کی طرف چل پڑتا ہے رحم مادر میں ان کا استقبال ہوتا ہے یہ جو خلیہ چل پڑا ہے استقبال ہوتا ہے کیسے استقبال ہوتا ہے؟ قالین بچاتے ہیں ان کے لئے قالین؟ جی، قالین بچھاتے ہیں رحم مادر میں ؟ رحم مادر میں اور یہ خلیہ وہاں سے چل کر اس قالین کے اوپر تشریف رکھتےہیں اور پھر اس قالین میں بیٹھنے کے بعد یہ ایک خلیہ ایک دو تین چار آٹھ سولہ بتیس بڑھتا جاتا ہے تقسیم کے ذریعے بڑھتا جاتا ہے ایک کام۔ دوسرا وہ جو قالین بچھائی گئی ہے اس قالین کو تھوڑا سا سوراخ کرتے ہیں سوراخ کرنے کے بعد وہ خلیہ کے ساتھ ملاپ کرتے ہیں تاکہ رحم مادر میں اس قالین میں خون ماد رہے خون مادر اس سے رزق حاصل کرے کون؟ یہ سیل، یہ سیل خون مادر سے رزق حاصل کرے وہ جو قالین بچھی ہوئی تھی اس میں اس کی روزی ہے خون مادر اس میں ہے وہ چھیتے ہیں اس کے بعد وہ ہوتا ہے کنکشن، خون مادر اس سے یہ سیل بڑھنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ یہ ایک سو پچیس تک بڑھتا ہے۔ ایک سو پچیس تک ہر سیل اس سے ایک انسان بننے کا قابل سیل ہوتا ہے جسے اسٹئیم سیل کہتے ہیں۔ ایک سو پچیس کے بعد پھر تقسیم کار ہوتا ہے یہ سمجھنے والی بات ہے۔ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ماوں کے شکموں میں کس طرح تخلیق ہوتی ہے کہ اس کی تقسیم ہوتی ہے ایک سو پچیس سیل وجود میں آگیا پھر تقسیم ہوتا ہے۔ ایک گروپ کے ذمے کہ تم دے دماغ بنانا ہے تم نے دل بنانا ہے تم نے جگر بنانا ہے تم نے ہڈیاں بنانا ہے تم نے وہ حرام مغز وغیرہ بہر حال جتنے انسانی زندگی کے شعبے ہیں وہ اس میں ہر شعبے کے لئے ایک گروپ کا تعین ہوتا ہے اور اس کے ذمے لگتا ہے، ہر گروپ کے ذمے جو کام لیتا ہے اس کو پتہ ہے اس سیل کو، وہ سیل اتنا ماہر ہے اتنا سمجھدار ہے اور اتنا فرمانبردار ہے وہ اپنے مولا کے حکم کے مطابق مولا نے حکم دیا ہے کہ اس بچے کو ماموں کی شکل میں بنانا ہے تو یہ جو ناک بنانے والے سیل ہیں اس کو پتہ ہے کہ ماموں کی ناک کتنی اونچی ہے اور اسی طرح بناتا ہے اور جس نے آنکھیں بنانا ہے ان کو پتہ ہے کہ ماموں کی آنکھیں کتنی بڑی ہے اتنی ہی اس کی بھی آنکھیں بنانی ہے، درس پڑھ کر کے آیا ہے ماہر ہے معلومات کا ذخیرہ رکھتے ہیں یہ سیل، ہر سیل میں ایک عجیب قسم کا وہ ہے شعور ہے علم ہے مہارت ہے بہت بڑی مہارت کے ساتھ یہ سیل کام کرتے ہیں انسان کی تخلیق کرتا ہے۔ جب سیل کہانا سمجھدار ہوتے ہیں سیل بڑھتے ہیں بڑھتے ہیں پھر اس کے بعد مثلا جنہوں نے انگلی بنانا ہے پھر وہاں سے الگ الگ بنانا شروع کرے گا یہاں پہچنے کےبعد بس کرے گا اوپر نہیں جائے گا کتنا بنانا ہے پتہ ہے سیل کو کتنا انگلیاں جو ہے وہ لمبی بنانا ہے معلوم ہے پھر بس کرتا ہے ٹھیک ہے شعور ہے ۔
ماہرین کہتے ہیں کہ سیل کے اندر جو شعور ہے وہ شعور اگر چھین جائے باولا ہوجائے تو اس کو کینسر کہتے ہیں پھر وہ شعور جب ختم ہوتا ہے پھر ادھر سر مارتا ہے ادھر سر مارتا ہے ادھر جاتا ہے ادھر جاتا ہے اس کو کینسر کہتے ہیں بیماری کیا ہے؟ سیل کا بے شعور ہونا بعض سیل جسم میں ان سے شعور چھین جاتا ہے باولا ہو جاتے ہیں پھر ہو نظام مین نہیں رہتا نظام میں نہ رہنے سے جسم سے ساخت و باخت جو ہے متاثر ہوتا ہے، جسم کے ساخت و باخت متاثر ہونے سے انسان جو ہے وہ بیمار ہوتا ہے۔
خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ یکے بعد دیگرے حلق کرنا ، پہلے علقہ ہے پھر مضغہ ہے پھر ہڈی بنتی ہے پھر ہڈی کےاوپر جو ہے اس کو گوشت چڑھایا جاتا ہےفَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًااور ہڈی کے اوپر گوشت چڑہاتے ہیں ہمارے جسم میں گوشت کو لباس کہا ہے اصل میں حقیقت میں گوشت کے یہ جو پوست کے اندر ہے وہ جو ہڈی ہے اور اہم اعضاء ہے دل ہے جگر ہے گردے وغیرہ ہے وہ انسان کے تخلیق کا حصے ہیں، یہ جو گوشت ہے اوپر وہ لباس ہےلباس کی حیثیت ہے اس کو اور کچھ زیادہ نہیں۔ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ تین تاریکیوں میں یہ تخلیق کا کام چلتا ہے ۔ پہلی تاریکی ماں کا شکم ہے دوسری تاریکی جو ہے وہ بچہ دان ہے اور تیسری تاریکی جو ہے وہ مشامہ ہے مشامہ وہ تھیلی جس میں بچہ ہوتا ہے ماں کے رحم کے اندر ایک تھیلی ہے اس تھیلی میں وہ بچہ پلتا ہےفِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ تین تاریکیوں کے اندر یہ بچہ پلتا ہے پھر وہاں سے جب بچہ باہر آتا ہے تو بچہ رو پڑتا ہے۔
ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ یہ ہے تمہارا رب توجہ کرو، کیا فرماتا ہے قرآن؟ جس نے یہ کام کیا ہے یہ ہے تمہارا رب ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ادھر ادھر مت جاو رب صرف وہی ہے جس نے ہم کو خلق کیا ہے ہمارا خالق ہی رب ہے اس نکتہ کو ذہن میں رکھو قرآن مجید میں اس طرح کی آیا ت متعدد ہے ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ بہت ہے یہ ہے تمہارا رب یہ ہے تمہارا رب تکرارا قرآن مجید میں یہ ہے تمہارا رب اس طرح کے علامات ذکر کرنے کے بعدلَهُ الْمُلْكُ بادشاہت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے کسی کا بس نہیں چلتا یہاں پر بیدہ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ آسمان او رزمینوں کی کنجی اللہ کے ہاتھ میں ہےلَهُ الْمُلْكُ اس کی بادشاہی ہے لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے خالق معبود ہے آپ کو پہلے بتایا عبادت کی تعریف میں فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ کہاں جاتے ہو ان حقائق کو چھوڑ کر کے ؟ سوجھ بوجھ نہیں ہے سمجھ نہیں ہے؟ پتہ کچھ نہیں ہے جاہل ہوتے ہیں جاہل بات نہ کرے تو اختلاف نہ ہوتا امام کا فرمان ہے نااذا سکت الجاھل ما اختلف الناس