تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیات 3 - 4

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ
سورہ زمر آیت 3، آگاہ رہو خالص دین صرف اللہ کے لئے ہے اور جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اوروں کو سرپرست بنایا ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم انہیں صرف اس لئے پوجھتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کا مقرب بنادے اللہ ان کے درمیان یقینا ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں اللہ جھوٹے منکر کو ہدایت نہیں دیتا۔
أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ یہ بات ذہنوں میں رہےأَلَا آگارہ رہو ،متوجہ ہو جاو،بات سنو ،ادھر دیکھو،أَلَا آگے آنے والا مضمون چونکہ اہمیت کا حامل ہے اس لئےاس مضمون کی طرف متوجہ کرنے کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے أَلَا وہ اہم ترین بات یہ ہے کہ لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُخالص دین اللہ کے لئے ہے، اللہ کے ساتھ اگر آپ نے معاملہ کرنا ہے اور دینداری کرنا ہے تو پھر خالص رکھنا ہوگا۔ اگر اپ اللہ کی عبادت کرتے ہیں تو وہ عبادت صرف اور صرف اللہ کی ہو تو عبادت ہے اگر اس میں لوگوں کا دکھاوا بھی شریک ہو تو وہ اللہ کی عبادت نہیں ہے ۔ کچھ لوگوں کو دکھاوے کے لئے کرتے ہیں دینداری وہ دین نہیں ہے وہ اللہ کا اس کا کوئی ربط نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی حیثیت ہے ان لوگوں کی مثال جو ہے ، ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے کہ ایک شخص تہجد کی نماز پڑھتا تھا رات کی تاریکی میں مسجد جاتا ہے وہ،اور پھر ایک دن اس نے دیکھا کہ مسجد کے ایک کونے میں ایک آدمی بیٹھا ہوا نماز پڑھ رہا ہے، رات کی تاریکی ہے آدمی نظر نہیں آتا ادھر کسی کی حرکت کی آواز آتی ہے اس نے سمجھا کہ کوئی اور بندہ بیٹھاہوا ہے ۔ اس بندے کی خاطر کہ وہ سمجھے کہ یہ بہت اچھی نماز پڑھتا ہے بہت بہتر کر کے اس نے نماز پڑھی، روشنی ہوئی تو وہ کتا تھا۔جو غیر اللہ کے لئے جو عبادت کرتے ہیں ان کا اسی طرح کا انجام ہوتا ہے وہ جو بیٹھا ہوا وہ انسان ہو،اگر کتا نہ ہوتا انسان ہوتا تو کیا اس کو ملنا تھا اس انسان سے۔
أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ اللہ کے لئے خالص دین چاہئے شائبہ والا دین نہیں چاہئے ۔ اللہ کے ساتھ کسی کو آپ شریک کرتے ہیں تو وہ دین نہیں ہے وہ عبادت نہیں ہے وہ اللہ کی پرستش نہیں ہے یہ خود انسان بھی اس بات کو گوارا نہیں کرتا۔بحر حال اس کی مثالیں بہت ہیں کہ خود انسان بھی اس بات کو کسی اور کی شرکت کو گوارا نہیں کرتا بہت سی باتوں میں کہ وہ میرے لئے تو نہیں کر رہا تھا وہ تو دکھاوے کے لئے کر رہا تھا آپ بھی نہیں مانتے ہیں اس بات کو۔
وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ جو لو گ اللہ کے علااوہ دوسروں کو اولیاء مانتے ہیں وہ ان کا موقف یہ ہے کہ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰہم ان بتوں کی پوجا اس لئے کرتے ہیں کہ یہ بت ہم کو اللہ کے ساتھ قربت حاصل کرنے کا موقع فراہم کرے شفیع بن جائے ہماری سفارش کرے اللہ کے ساتھ قربت حاصل کرنے کے لئے ہم ان بتوں کی پوجا کرتے ہیں ۔ یہ ہے ان کا موقف، آج آپ کو مشرکین کا موقف قرآنی آیات کی روشنی میں واضح کر دیتے ہیں اس کو ذہن نشیں کر لیں آپ کے معاشرے میں بھی اس قسم کی باتیں بہت ہیں جو آپ کو پتہ چل جائے گا قرآن کا مطالعہ کرنے سے اور مشرکین کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے کہ ان کا عقیدہ کیا تھا؟ مشرکین کا کیا عقیدہ تھا؟ اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ ہم اپنے شریکوں کی پوجا کرتے ہیں تاکہ اللہ کی قربت حاصل ہوجائے۔
صاحب تفسیر المیزان لکھتے ہیں: قرآنی آیات کی روشنی میں مشرکین کا یہ عقیدہ تھا کہ ہم اللہ کی پوجا براہ راست نہیں کر سکتے چونکہ اللہ تعالیٰ تو سامنے نہیں ہے اور اس کا ادراک بھی نہیں ہوتا تو سامنے جو ہے ان ذوات اور ان اشیاء کو رکھنا چاہئے جو ہمارے مشاہدے میں آتا ہے اس لئے انہوں نے اپنے ارباب کی شبیہ بناناشروع کیا اپنے ارباب کی یعنی ارباب کون ہے؟ ارباب وہ ہے ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو چلانے کے لئے تدبیر کائنات کے لئے کچھ لوگوں کے حوالے کیا تفویض کیا سپرد کیا ہے،بعض ان کو وہ رب کہتے تھے وہ ہمارا رب ہے ہمارا مالک ہے اور ہم پر انہیں لوگوں کی حکومت ہے اور انہیں لوگوں کا احسان ہے اور اللہ تعالیٰ براہ راست نہیں کرتا انہیں لوگوں کے ذریعے کرتا ہے پھر وہ ان کو شبیہ بناتے ہیں یہ جو ارباب ہیں ،وہ زندگی کے ہر شعبہ کے لئے ایک رب جو ہے وہ بنا بیٹھتے تھے ان کی پوجا کرتے تھے دولت کے لئے فتح و نصرت کے لئے اولاد کے لئے وغیرہ کے لئے ایک رب جدا، زندگی کے ہر شعبہ کے لئے ایک رب، انہوں نے بنایا تھا اور ان کی وہ پوجا کرتے تھے وہ ر ب کون ہے؟ وہ فرشتے ہیں اور جنات ہیں یا کچھ انسان بھی تو بناتے تھے نا حضرت عیسی کو بھی بنایا لوگوں نے اللہ کا بیٹا بنالیا پھر ا ن شبیہوں کو پوجھتے تھے رفتہ رفتہ جو مشرکوں میں سے جو آنے والی نسلیں ہیں ان لوگوں کے ذہن میں یہ بات روسخ ہوگئی کہ یہی شبیہ ہی معبود ہے شروع میں وہ اپنے معبود کی شبییہ تھا بعد میں یہ شبیہ ہی معبود قرار پائے اب ہوگئی بت پرستی، بتوں کی پوجا کرتے ہیں اسی کا احترام کرتے ہیں اور اسی کو سب کچھ سمجھتے ہیں بتوں کو۔ شروع میں شبیہ کے طور پر لیا تھا بعد میں یہ خود شبیہ نہ ہوا خود معبود قرار پایا، شروع میں معبود نہیں تھے معبود کی شبیہ بعد میں یہ خود معبود قرار پایا اور وہ اپنی زندگی کی تدبیر جو ہے سمجھتے تھے وہ ان بتوں کے ہاتھ میں ہے۔
ایک بات بہت پہلے آپ سے بیان کیا ہے کئی بار کہ مشرکین اللہ کو خالق سمجھتے تھے وہ خالق میں کسی کو شریک نہیں کرتے تھے مشرکین جو مشرکین انبیاء کے مقابلے میں آئے تھے ان کا عقیدہ یہ تھا کہ خالق اللہ ہے تدبیر اللہ کے پاس نہیں ہے خلق اللہ کے پاس ہے۔ قرآن مجید میں متعدد آیات ہے اگر ان مشرکین سے پوچھو کہ ان آسمان اور زمین کو کس نے خلق کیالَیَقُوْلُنَ ّاللّٰهُ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے خلق کیا قل أَفَلَاتَعْقِلُونَ پھر بھی سوچتے نہیں ہو کہ جب اللہ نے خلق کیا تو اللہ ہی تدبیر کرتا ہے خلق اور تدبیر قابل تفکیک نہیں ہے اس کو اچھی طرح سمجھیں آپ، پہلے بھی کئی بار اس کی وضاحت کی ہے خالق ہی مدبر ہوتا ہے ۔ خلق کوئی کرے تدبیر کوئی اور کرے معقول نہیں ممکن نہیں ہے۔ آسمان اور زمین کو خلق کیا خالق نے اس میں سورج کو خلق کیا پانی خلق کیا،ز مین خلق کی مٹی خلق کی جس وقت اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو خلق کیا ان کی تخلیق کے اندر تدبیر ہے یعنی پانی کو خلق کیا اللہ نے اور اس مین طراوت کسی اور نے دیا ؟مٹی کو اللہ نے خلق کیا اور اس میں ان چیزوں کا زمین سے نکلنا کسی اور نے مٹی کو اس قابل بنایا؟ ہوا کو اللہ نے خلق کیا اور پھر اس میں یہ جو تدبیر کی خاصیت ہے کسی اور نے ہوا میں ڈالا؟ دھوپ کو اللہ نے خلق کیا اس میں خاصیت اللہ کے علاوہ کسی اور نے ڈالی، ممکن نہیں ہے۔ دھوپ کو اللہ نے اس خاصیت کے ساتھ بنایا پانی کو اسی خاصیت کے ساتھ بنایا مٹی کو اسی خاصیت کے ساتھ بنایا، مٹی کا خالق اللہ ہے ان تمام چیزوں کا خالق اللہ ہے ان کی خلقت کے اندر تدبیر ہے، ان چیزوں کی خلقت اس طرح ہوئی ہے کہ اس سے ہماری زندگی چلے، نہ اینکہ اللہ نے خلق کیا ہے اللہ نے پانی خلق کیا ہے اور پانی خشک تھا اور شریک نے آکر کے اس کو تر کر دیا یہ ممکن بات نہیں ہے وہ خشک نہیں تھا تو وہ پانی نہیں تھا وہ کوئی اور چیز تھی۔ پھر اس پانی کا جس نے پانی کو تر کیا وہ پانی کا خالق وہ تر کرنے واالا ہے پھر اللہ نہیں ہے اللہ نے جو خلق کیا تھا وہ پاوڈر تھا اور پانی کی تری میں زندگی کی تدبیر ہے وہ اللہ نے پیدا کیا۔
مشرکین کا عقیدہ یہ ہے یہ ذھن میں رکھے خالق اللہ ہے ، مشرکین تعدد خالق کے قائل نہیں ہے مشرکین تعدد مدبر کے قائل ہے تعدد ارباب کے قائل ہے تعدد خالق کے قائل نہیں ہے خالق مشرکین کے نزدیک بھی ایک ہے وہ اپنے ارباب کا بت بناتے تھے اور خالق کا یعنی اللہ کا بت نہیں بناتے تھےوہ سمجھتے تھے،کہتے تھے کہ اللہ اس بات سے بالا و بر تر ہے کہ ہم اس کی شبیہ بنائی جائے، یہ سب قرآن کی بات ہے روایت نہیں کوئی حدیث نہیں ہے۔ قرآن میں بہت سی جگہوں پر ہے کہ ان مشرکین سے پوچھو کہ آسمان کو زمین کو کس نے خلق کیالَیَقُوْلُنَ ّاللّٰهُ وہ کہیں گےاللہ نے خلق کیا، خالق اللہ ہے مشرکین کے نزدیک، مشرکین کے نزدیک اللہ ایک ہے۔اگر ہمارے زمانے کا مشرک شرک کرتا ہے تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے زمانے کا مشرک جو ہیں وہ انبیاء کے مقابلے میں آنے والے مشرک سے کتنا آگے ہے یہاں تو خلق بھی اللہ کے علاوہ کسی اور کو بھی حق دیتے ہیں کبھی کبھار جاہل لوگ۔ حضرت علی عليه‌السلام کا ایک فرمایا ہے لَوْ سَكَتَ اَلْجَاهِلُ مَا اِخْتَلَفَ اَلنَّاسُ

اگر جاہل سکوت اخیار کرتا ہے خاموش رہتا تو لوگوں میں اختلاف نہ آتا یہ سارا اختلاف وہ جاہلوں کی پیداوار ہے جاہل بات کرتا ہے و ہ چونکہ علم نہیں رکھتا وہ ادھر ادھر کی باتیں کرتا ہے لوگوں میں اختلاف آجاتا ہے۔ اگر کسی مشرک کو یہ پتہ چلے کہ جن مشرکوں کا انبیاء علیھم السلام نے مقابلہ کیا ہے ان کے ساتھ قتال کیا ہے، اور وہ علی عليه‌السلام کو ہم قاتل مشرکین کہہ کر کے پکارتے ہیں علی عليه‌السلام قاتل المشرکین ہیں کبھی اذان میں بھی ہمارے لوگ کہتے تھے وہ قاتل مشرکین۔ وہ علی عليه‌السلام جن مشرکین کا قاتل ہیں ان مشرکین کا عقیدہ ہے کہ اللہ ایک ہے وہ تدبیر کائنات میں زندگی کی تدبیر میں متعدد ارباب کے قائل تھے رب بہت زیادہ تھے ان کے ہاں ۔ وہ سورہ یوسف میں ہے نا حضرت یوسف عليه‌السلام نے کہا أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُون َخَيْرٌأَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُالْقَهَّارُ کیا مختلف متعدد ارباب بہت زیادہ بہتر ہے یا صرف ایک اللہ کا رب ہونا بہتر ہے۔
إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ اللہ اور مشرکین اور موحدین کے درمیان میں یہ جو اختلا ف ہے اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ قیامت کے د ن سنائے گا اور اس وقت مشرک اور موحد کے درمیان میں جو اختلاف ہے اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سنائے گاإِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ اللہ اس کاذب کو اور کافر کو جو حقیقت کے خلاف باتیں کرتا ہے وہ جھوٹ ہے اور کفار ہیں حقیقی مدبر کہہ کے رب کے منکر ہے کفر، کافر چھپانے والے کو کہتے ہیں نا، وہ اس حقیقت کو چھپاتے ہیں انکار کرتے ہیں ان کی ہدایت نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے سب کی ہدایت کرنا پسند ہے کیوں نہیں ہدایت کرتا؟ ہدایت نہیں کرتا چونکہ یہ قابل ہدایت نہیں ہے اللہ کی ہدایت کو یہ لوگ قبول نہیں کرتیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو قبول نہیں کرتے اور اس کااہل نہیں ہے جب اہل نہیں ہے وہ ضد میں آتے ہیں انکار کرتے ہیں، ان کے اوپر حجت پوری کردیتا ہے اللہ تعالی ٰ اور ان کے پیغام پہنچا دیتا ہے اللہ تعالیٰ لیکن وہ ان کے خلاف ہوجاتا ہے ان کی بات نہیں سنتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کیا کرتا ہے؟ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے، اللہ کا ان کو اپنے حال پر چھوڑ دینالَايَهْدِي ہدایت نہیں دیتا اب چھوڑ دیتا ہے یہ بہت بڑی سزا ہے ان کے لئے۔ ایک باپ شفیق ہوتا ہے اپنی اولاد کے لئے وہ بد معاش بنتا ہے اور پھر وہ باپ جو ہے وہ کوشش کرتا ہے یہ بدمعاشی ترک کرے راہ راست پر آئے تعلیم حاصل کرے اچھا کام، بچہ بات نہیں مانتا ہے باپ تھک جاتا ہے آخر میں کہتا ہے جاو جہنم میں، اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے باپ،یہی اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس باپ سے زیاہ مہربان ہےزیادہ اس کو ہدایت کی طرف بلانے کے سامان فراہم کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بہت ہدایت کے بہت سامان فراہم کر رکھا ہے انسان کی فطرت کے اندر بھی رکھا ہےاو ررسول باطنی بھی رکھا ہے رسول خارجی بھی ہے، یہ اپنی جگہ ایک اور مضمون ہے۔
لَوْ أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا لَاصْطَفَىٰ مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ اگر اللہ کسی کو اپنا بیٹا بنانا چاہتا تو اپنے مخلوق میں سے جسے چاہتا منتخب کر لیتا، وہ پاکیزہ ہے وہ اللہ یکتا غالب آنے والا ہے۔ مشرکین کے ایک گروہ یہ ہے نا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے مسیح اللہ کا بیٹا ہے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو بیٹا بنانا چاہتا اللہ کا بیٹا ہوتا نہیں ہے۔ بیٹا ہونے کا مطلب کیا ہے کہ وہ اللہ کے وجود سے منفصل ہوجائے جیسا انسان کا بیٹا ہوتا ہے ان کے وجود سے منفصل ہوتا ہے اور پھر وہ اس کا بیٹا ہوتا ہے ان کے جسم کا حصہ ہوتا ہے ۔ اولادجو ہے وہ ماں باپ کے جسم کا حصہ ہوتا ہے ماں باپ کے جسم سے منفصل ہوکر کے بڑا ہوتا ہے وہ اولاد ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ کے اولاد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے منفصل ہو کے آیا ہے تو اللہ تعالیٰ مرکب ہے اللہ تعالیٰ جو ہے وہ بھی مخلوق ہو کر کے رہ جاتا ہے وہ ممکن نہیں اللہ کا بیٹا ہو، اللہ کی ذات سے کوئی اور ذات منفصل ہو کر کے بیٹا بن کے آجائے، یہ ممکن نہین ہے جب یہ ممکن نہیں ہے یہ ہو نہیں سکتا انسان نے اللہ تعالیٰ کو انسان جیسا کوئی مخلوق او رمحدود مرکب وجود فرض کیا پھر اس کی اولاد کا تصور قائم کیا اللہ تعالیٰ کو، اللہ تعالیٰ کے غیر میں تصور کیا پھر اس کا اولاد ہو سکتا ہے خود اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں ہو سکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو بیٹا بنالیتا ہوتا نہیں ہے بنانا انتخذ جس کو بیٹا بنانا جیسا منہ بولا بیٹا، اگر کسی کو بیٹا بنالینا ہوتا ہوتا نہیں ہے بیٹا تصور کرو چلو مسیح میرے بیٹے کی جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسیح کو بیٹے کی جگہ دے دی تو اس طرح اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہوتا تو کسی ذات کو کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کے بیٹے کی جگہ دیتا خود اللہ تعالیٰ سے منفصل ہونے والا بیٹاممکن نہیں ہے ایک بیٹا جو ہے وہ بنادیتا نہیں بنایا بیٹا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹے کا تصور جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے بہت گستاخ ہے یہ نہیں ہو سکتا ہے اور اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنا لیا ہے تو وہ جو بیٹا بنالیا ہے وہ بیٹا نہ ہوتا وہ مخلوق ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اور دیگر غیر اللہ میں خالق و مخلوق کا رشتہ ہوسکتا ہے اور بس اور دوسرا رشتہ نہیں ہو سکتا اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ہر چیز کا خالق اللہ تعالی ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی اور سے کوئی چیز خلق ہو کے مشرکین بھی اس چیز کا قائل ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے، موحدین بھی قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق ہے خالق ایک ہے تو اللہ تعالیٰ کسی اور کو بیٹا بنا لیتا تو کسی کو خلق کر کے اس کوکہتا میرا بیٹا ہے ایسا نہیں کیا اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنایا نہیں ہے۔ حقیقی بیٹا ہو نہیں سکتا اور منہ بولا بیٹا بنایا نہیں ہے لہذا اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا نہیں ہےسُبْحَانَهُ ۖ هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ، سُبْحَانَهُ یہ دیکھیں نا اس کے بعد سبحان آیا ہے پا ک و پاکیزہ ہے اللہ تعالیٰ اس بات سے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو، اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹے کا تصور اللہ کی شان میں بڑی گستاخی ہے ایک جگہ ہے ناتَكَادُالسَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَاللہ کو بیٹا کہنے سے آسمان اور زمین جو ہے قریب ہے پھٹ جائے یہ بہت بڑی گستاخی ہے اللہ کی شان میں، اللہ کے لئے بیٹے کا تصور اللہ کی شان میں بہت بڑی گستاخی ہے اس لئے فرمایاسبحانہ اللہ کی ذات پا ک و پاکیزہ ہے اس بات سے کہ اس کا کوئی بیٹا ہوسکتا ہے ، بیٹا ہونا اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور اللہ کے منزہ ہونے کے منافی ہے اس لئے فرمایاسُبْحَانَهُ ۖ هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ خدا واحد ہے ایک ہے اور قہار ہے غالب آنے والا ہے اور اسکی طاقت و قوت سب سے اوپر ہے، کسی کو بیٹے بنانے کی ضرورت ہے واحد واحد ہے خدا یک ہی ہے اور اگر کوئی بیٹا بنا لیتا تو پھر وہ بھی خدا کا بیٹا خدا ہوجاتا تو خدا دو ہوتا کیونکہ وہ خدا سے منفصل ہوکے آیا ہے خدا کا حصہ ہے تو یہ دونوں خدا ہوجاتا، نہیں یہ نہیں ہو سکتا ہے خدا ایک ہے متعدد خدا ہونا ممکن نہیں ہے۔