تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیات 16 - 20

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ ۚ ذَٰلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ ۚ يَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ
سورہ زمر آیت 16 ان کے لئے ان کے اوپر آگ کا سائباں اور ان کے نیچے بھی آگ کے شعلے ہوں گے، یہ وہ بات ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے پس اے بندو، مجھ سے ڈرو میرے غضب سے بچو فَاتَّقُونِ
غیر اللہ کی بندگی کرنے والوں کے لئےلھم، فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ اللہ کی اگر بندگی نہیں کرنا ہے تو جس کی چاہے بندگی کروان کے لئے ان کے سروں کے اوپر آتش کا سائباں ہوگا اور ان کے نیچے بھی شعلوں کا فرش ہوگا۔ قرآن مجید میں دونوں جگہ سائباں کہا ہے ان کے اوپر بھی آتش کا سائباں ہوگا اور ان کے نیچے بھی آتش کا سائباں ہوگا۔ جو نیچے سائباں ہے ان کے لئے فرش اور اس کے نچلے جہنمیوں کے لئے سائباںذَٰلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ یہ وہ بات ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے یخوف عموما انذر ینذر کا لفظ کا لفظ استعمال ہوتا ہے انذار لوگ انذار کا ترجمہ بھی ڈرانے سے کرتے ہیں جو یخوف کا ترجمہ ہے وہ ینذر کا ترجمہ کرتے ہیں یخوف، ینذر ایک ہوگیا ایسا نہیں ہے یخوف اور ہے ینذر اور ہے۔ ینذر تنبیہ کرنے کو کہتے ہیں انذار بھی وہ تخویف ہے جس میں نصیحت ہے جس کے اندر نصیحت والے تخویف کو انذار کہتے ہیں، اور اگر نصیحت کے بغیر سزا والا ہے تو پھر اس کو یخوف خود خوف کا لفظ استعمال ہوا۔
ذَٰلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ وہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے عبادہ اپنے بندوں کو، اللہ تعالی کو اپنے بندوں کو جہنم میں عذاب دے کر اللہ کو کوئی فائدہ نہیں ملتا، اور اللہ کا جذبہ انتقام سرد ہونا ہو ایسا نہیں ہے جیسے ہم لوگوں کا ہوتا ہے دشمن کو سزادینے سے جذبہ انتقام سرد ہوجاتا ہے کیف کرتا ہے انسان کو مزہ آتا ہے۔ اللہ کی ذات ان چیزوں سے پاک و منزہ ہے اللہ فرماتا ہے ایک آیت ہے قرآن مجید میںمَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ اگر تم شکرو کرو اور ایمان لے آومَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ تم کو عذاب دے کے اللہ کو کیا کرنا ہوتا ہے؟ تمہارا عذاب سے اللہ کے لئے کیا چیز ملتی ہے، اللہ کو کس چیز کی ضرورت ہے ؟ جس کو تم کو عذاب دے کے اللہ پوری کرنا چاہتا ہو۔ ذَٰلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُُ اپنے بندوں کو، اللہ تعالی اپنے بندوں کو بہت چاہتا ہے اور اپنے بندوں کو آتش میں ڈالتے ہوئے اللہ کو یہ پسند بھی نہیں ہے يَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ اے میرے بندو، میرے اس عذاب سے بچوفَاتَّقُونِ بچو، اس جہنم کے عذاب سے بچو اور غیر اللہ کی پرشتش نہ کرو ایک حدیث نبوی ہے اس میں ارشاد فرمایاالخساسر من غفل عن اصلاح المعاد خسارہ اٹھانے والا شخص وہ ہے جو اپنے آخرت کو درست کرنے سے غافل رہے، دنیا کی چند دنوں کے لئے بہت سوچتا ہے انسان، آخرت کی ابدی زندگی کے لئے نہیں سوچتا۔ یہ انسان کی نادانی ہے انسان کی نادانی، اور عقل سے کام نہ لینے کی علامت ہے یا ایمان با آخرت نہ ہونے کی علامت ہے یار، چند دنوں کے لئے بہت سوچتے ہو ہمیشہ ہمیشہ دائمی زندگی کے لئے نہیں سوچتے ہو؟ وہ دائمی زندگی کے اوپر جن کا ایمان پختہ ہے دیکھو وہ کس طرح سوچتے ہے، گریہ کرتے ہیں عبادت کرتے ہیں تھکتے نہیں ہے عبادت سے حدیث ہے المومن کیس مومن ہوشیار سمجھدار ہوتا ہے بے وقوف نہیں ہوتا پھر فرمایا: الکیس کیس الاآخرہ ہوشیاری آخرت کی ہوشیاری ہے۔ اگر ایک شخص اپنی آخرت کی زندگی کو درست کرتا ہے تو پھر وہ سمجھدار ہے وہ شخص ، وہ نہایت سمجھدار انسا ن ہے جو اپنی آخرت کو درست کرتا ہے عقل سے کام لیتا ہے۔
وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِاور جن لوگوں نے طاغوت کی بندگی سے اجتناب کیا اور اللہ کی بندگی کی طرف رجوع کیا یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے اور یہی صاحبان عقل ہے۔وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ جو لوگ طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرتے ہیں، اللہ کی بندگی سے سرکش ہونے سے اجْتَنَبُوا اجتناب کرتے ہیں أَنْ يَعْبُدُوهَا ، وَأَنَابُوا إِلَى اللَّ اور وہ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ غیر اللہ کی پرستش سے اجتناب کر کے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں لَهُمُ الْبُشْرَىٰان لوگوں کے لئے بشارت ہے فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُپھر میرے ان بندوں کے لئے بشارت دو جو بات کو سنتے ہیں اور سن لینے کے بعد بہتر کی پیروی کرتے ہیں۔
یہاں پہلَهُمُ الْبُشْرَىٰجو طاغوت کو چھوڑ کے اللہ کی بندگی کرتے ہیں ان کے لئے بشارت ہے جن کو یہ بشارت ملتی ہے ان کی ایک علامت کا ذکر ہے، اس کی ایک روش کا ذکر ہے ، ان کی سیرت کا ایک نمونہ ہے وہ یہ ہے؛ فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ میرے ان بندوں کو وہ بشارت دے دو جو بات ہر ایک کی سنتے ہیں يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ کسی کی بات سننے سے انکاری نہیں ہے بات ہر ایک کی سنتے ہیں۔ عقل و دانش رکھنے والے ہر ایک کی بات سنتے ہیں اس لئے ان میں سے بہتر کے انتخاب کرنے کی صلاحیت موجود ہے جب بہتر انتخاب کرنے کی صلاحیت موجود ہے، اسلام کی وجہ سے اسلام ایک آفاقی ذہن رکھنے کی تلقین دیتا ہے تنگ نظری نہیں ہے اس کی بات نہ سنو خبردار، ادھر جاو ادھر نہ جاو نہیں اسلام کہتا ہے جدھر چاہو جاو جس کی چاہو بات سنويَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ بات سب کی سنتے ہیں۔ کسی کی بات سننے سے اسلام روکتا نہیں ہے، سب کی سنو پھر اس کے بعد عقل سے کام لے لو اور ان جو باتیں تم نے لوگوں سے سنی ہے ان میں سے احسن کی پیروی کرو یعنی احسن کا انتخاب کرو، یہ لوگ حسن اور احسن اور خوب سے خوب تر کا امتیاز کر سکتے ہیں ان میں انتخاب کی فکری اور عقلی صلاحیت موجود ہے ۔ یہ ان میں حق کی جستجو کا عزم ہونے کی وجہ سے یہ صلاحیت آگئی ہے ورنہ وہ اگر اپنی نظریہ پر بضد ہے تنگ نظر ہے تو وہ یہ صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ ان لوگوں کے لئے ہےاجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّ وہ طاغوت سے اجتناب کر کے اللہ کی طرف کیوں آتے ہیں؟ عقل فکر صحیح ہونے کی وجہ سے آتے ہیں اور پھر وہ بات ہر ایک کی سنتے ہیں فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ۔
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّ یہ وہ لوگ ہیں جن کی اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے ، ہے نا قرآن مجید میں اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے۔ یہ جبر نہیں ہے اللہ تعالیٰ صلاحیت رکھنے والوں کی ہدایت کرتا ہے اور صلاحیت نہ رکھنے والے اور حق کی بات سننے کے بعد گمراہی پر ڈٹ جانے والوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور اپنے حال پر چھوڑ دینے کو یضل کہتا ہےاللہ تعالیٰ، ورنہ اللہ تعالیٰ جو ہے براہ راست گمراہ نہیں کرتا ۔ اللہ تعالیٰ براہ راست نہ کسی کو گمراہ کرتا ہے نہ براہ راست کسی کو ہدایت دیتا ہے نہ جبرا ہدایت نہ جبرا گمراہ دونوں جبر نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ جو ہے وہإِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا دونوں راستے اس کے سامنے ہوتے ہیں؛ عقل والے ہدایت کی طرف آتے ہیں اللہ ان کو ہدایت دیتا ہے اور دوسرا جو ہیں وہ گمراہی پر ڈٹ جاتے ہیں اللہ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے حال پر چھوڑ دیتا ہے ہدایت نہیں دیتا ہے جب اللہ نے ہدایت نہیں دیا پھر گمراہی ہے۔ وَأُولَٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ یہی لوگ صاحبان عقل ہیں عقل تو سب کے اندر موجود ہے لیکن یہ لوگ عقل کا صحیح استعمال کرتے ہیں اس لئے ان کو عاقل کہلاتے ہیں۔ حضرت امام موسی ابن جعفر علیھما السلام سے روایت ہےان اللہ تعالی بشر اھل العقل و الفہم فی کتابہ اللہ نے اہل عقل کو اہل فہم کو بشارت دی ہے قرآن مجید میں عاقل لوگوں کو یعنی عقل کو صحیح استعمال کرنے والے اور عقل کو نظر انداز نہیں کرتے سطحی سطحی طور پر ا لعلم اکثر من ان تحصی حدیث نبوی ہےالعلم اکثر من ان تحصی علم جو ہے شمار کے حد سے بہت زیاد ہے بے شمار ہے علم فخذو ہ من کل شئی احسنہ ان میں سے بہترین علم کو حاصل کرو جو تمہارے دین اور دنیا کے فائدے کا علم ہے اس کو حاصل کرو تمام علم سے تمہارا کیا سرو کار ہے انتخاب احسن۔ ان تمام میں سے انتخاب احسن کا اپنے اندر مائع پیدا کرو۔
أَفَمَنْ حَقَّ عَلَيْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ أَفَأَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِي النَّارِ بھلا جس شخص پر عذاب کا فیصلہ حتمی ہوگیا ہو بھلا اس شخص کو آپ بچا سکتے ہیں جو آگ میں گر چکا ہے؟ أَفَمَنْ حَقَّ عَلَيْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ جس کے اوپر کلمہ عذاب ثابت ہوا ہو۔ یہ قرآن مجید میں یہ لفظحق القول آتا ہے حق کلمہ بھی آتا ہےحقت کلمہ بھی آتا ہے كَلِمَةُ الْعَذَابِ حتمی فیصلہ اٹل فیصلہ کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے یعنی حتمی اور آخری فیصلہ یہاں پر لفظ حق آیا ہے حَقَّ عَلَيْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ کلمہ مونث ہے حقت ہونا ہوتا ہےحقت کلمۃ العذاب اس کی توجیہ یہ کرتے ہیں حق کیوں ہے پھر ادھر توجیہ یہ کرتے ہیں دو باتیں ہیں؛ ایک تو کلمہ مونث مجازی ہے حقیقی نہیں ہے مجازی کے لئے تذکیر و تانیث دونوں کی گنجائش ہے ایک۔ دوسری بات حق اور کلمہ کے درمیان میں فاصلہ ہے علیہ، حق علیہ کلمۃ ،حقت کلمۃ العذاب تو علیہ اگر نہ ہوتا ہے تو حقت ہونا تھا علیہ فاصلہ ہے لہذا حق ہو سکتا ہے ادبی بنیاد پر یہاں قرآن پر نحوی اعتراض نہیں آسکتا۔
أَفَأَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِي النَّارِ رسو اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ارشاد ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت مہربان تھے چونکہ وہ رحمت للعالمین ہے بالمؤمنين رءوف رحيم مومنین کے اوپر بہت رحم اور باقی انسانوں کے اوپر بھی رحم کھانے والا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: أَفَأَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِي النَّارِ جن کے اوپر حَقَّ عَلَيْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عذاب کا فیصلہ حتمی ہوچکا ہو کیا آپ ان کو آگ سے بچا سکتے ہیں؟ نہیں بچا سکتے ہیں ان کی کوئی شفاعت نہیں کر سکتے ۔ أَفَأَنْتَ تُنْقِذُ کیا آپ بچا، مَنْ فِي النَّارِ جن کے اوپر فیصلہ جو ہے حتمی ہوگیا ہے ان کو نہیں بچا سکتے ہیں اس کا ایک مفہوم یہ نکل سکتا ہے کہ اگر فیصلہ حتمی نہیں ہے تو شفاعت کے ذریعے بچا سکتے ہیں، اور فیصلہ حتمی نہیں ہوگا جن کاگناہ جو ہے وہ کفر وشرک کی حد تک نہ ہو، کفر پر نہیں مرا شرک پر نہیں مرا، اگر وہ شرک اور کفر پر مرا ہے تو اس کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے حَقَّ عَلَيْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ اور اگر کفر اور شرک سے کم گناہ ہے اس کے پاس تو پھر اس کے لئے معافی ہوسکتی ہے۔
لَٰكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِهَا غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَعْدَ اللَّهِ ۖ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ الْمِيعَادَ لیکن جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے لئے بالاخانے ہیں جن کے اوپر مزید بالا خانے بنے ہوئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ لَٰكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں۔ اتَّقَوْا کا معنی یہاں اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں، اس کے عذاب سے بچتے ہیں ان کے لئے غرف ،غرفہ بالاخانے کو کہتے ہیں غرف ایک نہیں کئی غرفہ ہیں، متعدد غرفے ہیں اور ان کے اوپر اور غرفے ہیں یعنی کئی منزلہ عمارت ہے۔ یہ قرآنی آیات اور جنت کے اوصاف جو بیان ہوتا ہے اس سے ہم دنیاوی ذہن رکھنے والے دنیاوی غرفوں کا تصور کرتے ہیں کہتے ہیں کہمن بنی مسجدا بنی اللہ لہ بیتا فی جنہ جو ایک مسجد بنائے گا اور اس کے لئے جنت میں اس کے لئے اللہ تعالیٰ گھر بنائے گا۔ کہتے ہیں ہر بالشت کے مقابلے میں ایک گھر بنے گا جنت میں تو ہمارے ذہن میں آتا ہے ایک گھر بنے گا تو ایک قصر سہی چند پانچ چھے نو دس کمروں پر مشتمل اور لان پر مشتمل ، نہیں جنت کا گھر ایک سلطنت ہے۔ بعض احادیث سن کر انسان کی عقل حیران رہ جاتا ہے ایک گھر کتنا بڑا ہےغرف غرفے ہیں اور ان غرفوں کی حالت جنت کا غرفہ جنت کا گھر ایک سلطنت ہے ریاست، ریاست سلطنت سے آپ سمجھیں گے مثلا ایک شخص کے لئے ایشیا کے برابر اور امریکہ کے برابر جو ہے وہ گھر ملے نہیں اس کی حیثیت نہیں ہے۔ جنت میں انسان کو جنتی کو جو گھر ملے گا وہ کل کرہ ارض سے بہت بڑا ہوگا۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ سارا جو ہے کیا کریں گے، کس طرح رہیں گے؟ اپنی پھر دنیاوی سوچ ہے ادھر سے ادھر منتقل ہونے کے ہے،یار جنت کی زندگی میں نہ زمانہ ہے زمانہ نہیں ہے زمانہ ساکن ہوجاتا ہے۔ یہاں ہم زمانہ کی زد میں ہے اور زمانہ کے زد میں آکر کے ہم بوڑھے ہوجاتے ہیں پرانے ہوجاتے ہیں وہاں زمانہ نہیں ہے وہاں زمان و مکان کا تصور اپنی دنیا کی طرح نہیں ہے زمان و مکان کا تصور مکان کا مطلب ادھر سے ادھر جانے کے اوپر وقت لگتا ہے نہیں لگتا، اول تو وقت ہوتا نہیں ہے نقل و انتقال کے لئے صرف ارادہ کافی ہوتا ہے، آپ کو پہلے بتایا جنت میں جنتیوں کا ارادہ نافذ ہوتا ہے یہاں دنیا میں ہمارا ارادہ نافذ ہوتا ہے اپنی ذات کے اوپر ، آپ ارادہ کرتے ہیں ہاتھ ہلانے کا ہاتھ ہل جاتا ہے آپ کا رادہ نافذ ہوتا ہے چلنے کا ارادہ کرتے ہیں آپ چل پڑتے ہیں آپ کا ارادہ نافذ ہوتاہے۔ اپنی ذات سے ہٹ سے باقی کائنات مین جو علل واسباب ہیں اس پر آپ کا رادہ نہیں چلتا اس میں آپ کو کام کرنا پڑتا ہے ارادہ نافذ، جنت مین ارادہ نافذ ہے اپ نے ارادہ کیالَهُم مَّا يَشَاءُونَ چاہنے کی دیر ہے آپ نے خواہش کی چیز سامنے ہے لہذا جنت کا غرفہ ، غرفہ کا مطلبغرف کمرے ہیں ، بالا خانے ہیں، وہ ایک سلطنت ہے، ایک حکومت ہے، ایک علاقہ ہے وہ بھی بہت بڑا علاقہ ۔ اللہ تعالیٰ ہم کو جنت نصیب کرے اور اللہ کی ناراضگی سے ہم کو بچائے۔