تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیات 23 - 26

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ
سورہ زمر آیت 23، اللہ نے ایسی کتاب کی شکل میں بہترین کلام نازل فرمایا ہے جس کی آیات باہم مشابہ اور مکرر ہیں جس سے اپنے رب سے ڈرنے والوں کے رونگھٹے کھڑ ے ہوجاتے ہیں، پھر ان کی جلدیں اور دل نرم ہو کر ذکر خدا کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ یہی اللہ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے اسے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی شکل میں بہترین کلام نازل کیا ہے۔قرآن بہترین کلام ہے، ادب کے اعتبار سے، انسان کی ذوق سماعت کو بھی تسکین دیتا ہے یہ کلام، اور نہایت شیریں بھی ہے، نہایت موثر بھی ہے۔ اسے سن کے لوگوں میں ایک تاثر قائم ہوتا ہے جو کسی اور کلام سے نہیں ہوتا۔ اپنے حسن خوبی کی وجہ سے اپنے پر تاثیر ہونے کی وجہ سے یہ احسن الحدیث ہے۔ پھر فرمایا کہ كِتَابًا مُتَشَابِهًا یہ کلام باہم متشابہ، باہم مربوط ہے قرآن مجید میں ایک متشابہات محکمات کے مقابلے میں آتا ہے یہاں پر متشابہات سے مراد وہ محکمات کے مقابلےوالا نہیں ہے مشابہ یعنی ایک جیسے، قرآن کے اول سے آخر تک تمام کلام ایک ہی مطلب کی طرف رہنمائی کرتا ہے، سب ایک جیسے ہے مقصد میں ایک جیسے اور ہدایت دینے کے طریقے میں ایک جیسے اس میں کوئی تضاد نہیں ہے اور کوئی کمی بیشی نہیں ہے۔ كِتَابًا مُتَشَابِهًا یہ سالہا سال کے اندر نازل ہونے والا کلام جو ہے کسی ایک کلام کا دوسرے کے ساتھ ٹکڑاو نہیں ہے۔ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا اگر یہ اللہ کا کلام نہ ہوتا دوسروں کا کلام شام کا کلام صبح کے ساتھ متصادم ہوتا اور سالہا سال میں ایک دوسرے کے متصادم متضاد ہے۔ آپ یہاں سیاسی لوگوں کے بیانات دیکھیں گے کل اس نے کیا کچھ کہا آج کیا کہہ رہے ہیں باہم سو فیصد متصادم ہے قرآن میں ایسا نہیں ہے،متشابہ ہے متصادم نہیں ہے۔ مثانی قرآن ایک مطلب کو ایک مرتبہ بیان کر کے نہیں چھوڑتا، دہراتا ہے دہرائی میں تکرار کرنے میں بہت اثر ہے کہ انسان کے ذہن میں مطلب کو منقش کرنے کے لئے دہرائی کا کوئی متبادل ذریعہ نہیں ہے۔ ایک مطلب کو آپ ایک مرتبہ سن لیتے ہیں پھر وہ ذہن مین راسخ نہیں ہوتا اور بھول جاتے ہیں، آپ پھر اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور اگر اس کو بار بار دہرایا گیا ہے آپ کے لئے تو پھر آپ مثلا ایک مثال دیتا ہوں زبان دانی کے سلسلے میں آپ ایک زبان سیکھتے ہیں؛ عربی زبان مثلا وہ عربی کوئی بولتا ہے تو آپ کو سب سمجھ میں آجاتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام الفاظ کے معانی آپ کو آتے ہیں ، آپ جانتے ہیں کہ اس کلام کا مطلب ہے اس کا یہ مطلب ہے اس کا یہ مطلب ہے جانتے ہیں ۔ آپ خود جب بولنے لگتے ہیں تو اسی کلام کو حاضر نہیں کر سکتے، نہیں بو سکتے دوسرا بولتا ہے تو معنی سمجھ لیتا ہے معنی آتا ہے اس کلام کا لیکن وہی کلام آپ خود نہیں بول سکتے حاضر نہیں کر سکتے اور اگر تکرار ہوجائے کسی معاشرے میں جا کر کے بیٹھ جائے دن رات وہی پھر آپ کےذہن مین راسخ ہوجائے گا پھر بولنا شروع کریں گے آپ الفاظ کو آپ پیش کر سکیں گے ۔ آپ کے کنٹرول میں آتے ہیں الفاظ تکرار کی وجہ سے۔ مثانی ۔
آپ دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں کتنے تکرار ہے ایک مطلب کو اور یہ جو مثانی میں تکرار میں ایک اور حکمت پوشیدہ ہے وہ حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اگر غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو اس میں اختلاف آتا وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا اللہ نے کہا اگر یہ کلام اللہ نہیں ہے تو اس جیسا کوئی کلام بنا کےآو۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس کتاب میں اپنے اس کلام جیسا ایک اور کلام لے کے آتا ہے۔ ایک واقعہ کو اللہ تعالی بیان کرتا ہے فرعون کا واقعہ حضرت موسی عليه‌السلام کے ساتھ بیان کرتا ہےقرآن مجید میں متعدد جگہوں پر۔ ادھر بیان کرتا ہے اسلوب بیان اور ہے ادھر بیان کرتا ہے اسلوب بیان اور ہے مطلب وہی ہے اس جیسا کلام بنا کے لے آو تو یہ اس جیسا کلام خدا تعالیٰ اپنی اس کتاب کے اندر جو ہے وہ پیش کرتا ہے بہت جگہوں پر اسی مطلب کو دوسری جگہ بیان کرتا ہے اللہ تعالیٰ وہ اسلوب الفاظ اور ہیں مطلب وہی ہے۔ اس معجزہ کا اظہار بھی ہے مثانی تکرار میں۔
تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ کلام اللہ کو سننے کے بعد جو خشیت الہی رکھتے ہیں خوف خدا دل میں رکھتے ہیں جو بیدار ضمیر لوگ ہیں يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ان کا ضمیر اور وجدان بیدار ہیں تو ان کی رونگھٹیں کھڑے ہوجاتے ہیں کلام اللہ سن کے اور ہم جیسے غافل لوگ جو ہیں دن رات سنتے ہیں رونگھٹیں تو کیا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہے جن کا ضمیر اور وجدان بیدار ہے وہ کلام الہی سن کر کے ان کے رونگھٹیں کھڑے ہوجاتے ہیں تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ پھر اس کے بعد جب خوف طاری ہوتا ہے پریشانی لاحق ہوتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جھکتا ہے اور ذکر الہی بجا لاتا ہےأَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ پھر ایک اطمینان کی دنیا میں چلاجاتا ہے۔ ثُمَّ تَلِينُ پھر نرم پڑ جاتے ہیں ان کے دل اور ذکر خدا کی وجہ سے۔
ذَٰلِكَ هُدَى اللَّ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی ہدایت ہے اور ہدایت کی یہ علامت ہے کلام اللہ کا اگر کسی کے اوپر اثر ہوتا ہے اور یہ کلام اللہ کسی کی ضمیر اور وجدان کو جھنجوڑتا ہے تو پھر سمجھ لے اللہ کی ہدایت اس کو مل رہی ہے۔ ذَٰلِكَ هُدَى اللَّ یہ اللہ کی ہدایت ہے یہ۔ یہ جو کلام سن کر کے جو رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں پھر ذکر الہی سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے یہ ہدایت کی علامت ہے ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ اس ہدایت کے ساتھ کسی کو سرفراز کرتا ہے مَنْ يَشَاءُجس کو اللہ چاہتا ہے۔ آپ کو بتاتا رہتاہوں اللہ کی چاہت اندھی بانٹ نہیں ہوتی، اللہ ایسے ویسے نہیں چاہتا اہل کے لئے ہدایت دیتا ہے جو ہدایت کے لئے اہلیت رکھتے ہیں قابلیت رکھتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ ہدایت دیتے ہیں۔
وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ اور اگر کسی کو اللہ ہدایت نہ دے، منبع ہدایت سرچشمہ ہدایت اللہ تعالیٰ ہے اللہ ہدایت دیتا ہے اہل کو ہدایت دیتا ہے جو ہدایت چاہتا ہے اس کو ہدایت دیتا ہے اور جو ہدایت نہیں چاہتا ہے اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے، جب اللہ اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے تو پھر فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ اور کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے اور اس کو اضلال من اللہ کہتے ہیں وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ جس کو اللہ گمراہی میں ڈال دے قابل ہدایت نہ ہونے کی وجہ سے ۔ جس سے اللہ تعالیٰ ہاتھ اٹھا دے جس کو اللہ تعالی ہدایت نہ دے کیوں نہیں دیتا ہے ؟ اہل نہ ہونے کی وجہ سے، قبول نہ کرنے کی وجہ سے اس کو ہدایت نہیں دیتا ہے تو پھر اس کے لئے ہدایت کا کوئی اور ذریعہ نہیں حدیث نبوی ہے اذا اقشعرجلد العبد من خشیۃ اللہ تحاتت منہ ذنوبہ کما تتحاتت عن الشجرۃ الیابسۃورقھا جب مومن خوف خدا سے لرزنے لگتا ہے تو اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جسے خشک درخت سے پتے۔
أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ وَقِيلَ لِلظَّالِمِينَ ذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ کیا وہ شخص جو قیامت کے دن برے عذاب سے بچنے کے لئے اپنے منہ کو سپر بنادیتا ہے، وہ امن پانے والوں کی طرح ہو سکتا ہے ؟ اور ظالموں سے کہا جائے گا چکھو اس کا عذاب جو تم کماتے تھے۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذَابِ عذاب جب آتا ہے تو اس عذاب سے بچنے کے لئے ہاتھ کو آگے کیا جاتا ہے عموما ، چہرہ انسان کے اپنے وجود کا سب سے اہم ترین حصہ ہے، اس چہر ہ کو سب سے پہلے بچاتا ہے انسان اپنے سینے سے، اپنے ہاتھ سے، اپنے پیروں سے پشت سے وغیرہ ۔ تمام اعضا کو جو ہیں اتنے اہمیت حاصل نہیں جتنی اہمیت چہرے کو حاصل ہے چہرے کو بچانے کے لئے باقی تمام اعضا کو سپر بناتا ہے انسان ۔ چہرہ اہم ہے سب سےا ہم چہرہ لیکن قیامت کے دن جب عذاب آئے گا بچائے کے لئے نہ ہاتھ ساتھ دے گا نہ پیر ساتھ دے گا نہ کوئی اور ذریعہ ہوگا عذاب کو بچانے کے لئے سب سے اہم عضو جو ہے انسان کا چہرہ ہے اس سے بچنے کی کوشش کر یں گے چہرے سے۔ بِوَجْهِهِ چہرے کو سپر بنائے گے یعنی اتنی بےچارگی اور اتنا بے بس ہوگا کہ عذاب سے بچنے کے لئے چہرے کو سپر بنائیں گے پھر کس چیز کو بچائیں گے؟ وہی تو ہے سب سے اہم جگہ چہرہ، سارا عذاب چہرے پر آجائے گا چہر مسخ ہوجائے گا يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔ یہ شخص اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو امن پانے والا ہے سکون حاصل کرنے والا ہے؟
وَقِيلَ لِلظَّالِمِينَ ذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ اور ظالموں سے کہا جائے گا کہ جس جس کو تم کرتے رہے ہیں دنیا میں اسی کو چکھوذُوقُوا چکھو، ما اس چیز کو كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ تم کماتے تھے تم کرتے تھے۔ دنیا میں جو جو کام تم کرتے تھے اسی کام کو چکھو۔ یہاں پہ تفسیر کرنے کے لئے قدماء کو یہ کہنا پڑتا تھاذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ وہ عذاب چکھو جو تمہارے اعمال کے عوض میں ہے عذاب مقدر رکھنا پڑتا تھا لیکن اب آپ کے لئے اس جملہ کو حذف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم جو کچھ کرتے رہے ہو دنیا میں اسی کام کو چکھو، چلو جی یہاں پر ظلم کیا میں ظلم کو چکھوں گا ہاں وہی ظلم کو چکھو، قیامت کے دن وہی ظلم تمہارے سامنے آئے گاچھکو اس کو وہ ظلم کس تمہارا عمل جو ہے خود جو ہے عذاب بن کے سامنے آئے گا ۔ ایک موقف یہ ہے آج کل علماء اس کو اختیار کرتے ہیں قیامت کے دن جو عذاب اللہ دیتا ہے وہ قراردادی نہیں ہے وہ قدرتی ہے ۔ انسان دنیا میں جو کچھ اس نے کیا ہے وہی عذاب بنے گا ، دنیا میں جو کچھ نیکی کیا ہے وہی نیکی اس کے لئے ثواب بنے گی اس آیت کا ظاہر یہی ہے ذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ آپ کو بتاتا رہتا ہوں انسان جو ہے ہمیشہ اپنا وجود اپنا وجود خرج کر رہا ہوتا ہے آپ اپنے آپ کو خرچ کر رہے ہیں اور خرچ کر کے اس کو ذخیرہ کر رہے ہیں وہ اس کو سٹور کرتے ہیں اپنا وجود کو،اور پھر جو آپ کے وجود سے نکل گیا ہے اس کو اس کے تدارک کے لئے کھانا کھاتے ہیں تو پھر اس کا تدارک ہوتا ہے، کیا مطلب؟ مطلب یہ ہے کہ آپ کام کرتے ہیں جنبش کرتے ہیں عمل کرتے ہیں جو بھی عمل آپ کرتے ہیں وہ آپ کے عمل جو ہیں انرجی ہیں وہ آپ سے جدا ہوکر کے سٹور ہوتا ہے وہاں ذخیرہ ہوتا ہے۔ آپ کا عمل آپ کا مستقبل بنا رہا ہوتا ہے وہ جمع ہو رہا ہوتا ہے ادھر ، آپ خرچ ہو رہے ہوتے ہیں ، اس کا تدارک کرتے ہیں اور باہر سے مادہ آتا ہے انرجی نکلتا ہے مادہ آپ کے وجود میں داخل ہوتا ہے انرجی آپ کے وجود سے نکلتا ہے یہ خارج داخل یہ امپورٹ اکسپورٹ اس کے اوپر آپ کی زندگی قائم ہے، مادہ آپ کے اندر جاتا ہے انرجی آپ سے نکلتا ہے انرجی کیا ہے؟ آپ کا عمل ہے، آپ کا عمل آپ کے مستقبل کی بنیاد ہے مستقبل سازی ہے آپ کا عمل آپ کے مستقبل سازی ہے۔ آپ اپنے عمل کے ذریعے اپنے آپ کو اپنے وجود کو خرچ کر رہے ہوتے ہیں آپ کا وجود جا رہا ہوتا ہے اور آپ تدارک کرتے ہیں کھانا پینا سے ، اگر تدارک نہ ہو تو پھر ختم ہوجاتا ہے کھانا پینا نہ ملے ختم ہوجاتے ہیں۔ ایک شخص جو ہے مریض ہوتا ہے کھانہیں سکتا پی نہیں سکتا پانچ دس کلو اس کا وزن کم ہوتا ہے وہ کہا ں گیا ؟ دس کلو بہت وزن ہوتا ہے دس کلو، دس کلو چلا گیا کہاں چلا گیا؟ انرجی بن کے چلا گیا اسکا تدارک نہ ہواوزن کم ہوگیا۔
مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ آپ کا مستقبل ہے آپ کا آئندہ ہے آپ کا ذخیرہ ہے آپ اپنے آپ کو خرچ کر رہے ہیں اپنے آپ کو خرچ کر رہے ہیں قیامت کے دن اپنا آپ جو ہے سامنے آجائے گا آپ خود سامنے آئےگا اپنے آپ کو آپ نے خرچ کر ڈالا ہے یہاں پر ذخیرہ ہے اور قیامت کے دن خود سامنے آئے گا۔ قرآن مجید میں بہت سی آیات ہیں اس میں آپ کا عمل حاضر کیا جائے گا کا لفظ ہے آپ کا عمل حاضر کیا جائے گا بعض آیات میں ہے کہ آپ اپنے عمل کو دیکھیں گے عمل کو دیکھیں گے یہاں بھی فرمایاذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ جو تم کماتے رہے اسی کو چکھو۔ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ فَأَذَاقَهُمُ اللَّهُ الْخِزْيَ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ان سے پہلوں نے تکذیب کی تو ان پر ایسی جگہ سے عذاب آیا جہاں سے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے پھر اللہ نے دنیاوی زندگی میں رسوائی کا ذائقہ چکھا دیا اور آخرت کا عذاب تو بہت بڑا ہے اے کاش وہ جان لیتے۔
كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ اے رسول، آپ کی تکذیب پہلی بار نہیں ہوئی آپ سے پہلے جتنے انبیاء آئے ہیں سب کی تکذیب ہوئی ہوگئی ہے؛ ساحر کہا ہے، کذاب کہا ہے اور جادوگر کہا ہے وغیرہ، فَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ پھر وہ جو تکذیبی عناصر ہیں ان کے اوپر عذاب آیا ایسی جگہ سے جہاں سے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے امید نہیں رکھتے تھے کہ ہمارا عذاب ادھر سے آئے گا کبھی اندھی آئی کبھی سیلاب آیا، کبھی زلزلہ آیا مختلف عذاب اچانک آکر کے ان کو لے لیا۔ فَأَذَاقَهُمُ اللَّهُ الْخِزْيَ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا دنیا میں بھی ان کو اللہ تعالیٰ نے رسوائی سے دوچار کر دیا رسوا ہوگیا دنیا میں اور آخرت کا عذاب تو ہے اکبر وہ قابل وصف و بیان نہیں ہے قیامت کا عذاب کیا ہے کتناہے؟ وہ اکبر من ان یوصف ہے اکبر کے بارے میں آپ کو بتایا کرتا ہوں آپ کو۔ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ کاش کہ ان کو پتہ چلتا قیامت کا عذاب کیا ہے کتنا دردناک ہے کتنا طویل ہے اور کتنی بے بسی ہے؟ اس وقت انسان چیخ اٹھے گا يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِ کاش، آج کے لئے کچھ آگے میں بیج چکا ہوتا کوئی اپنے جسم سے خرچ کر چکا ہوتا اچھے کاموں کے لئے وہ ندامت ہوگئی حسرت ہوگی۔ اللہ تعالی آپ کو قیامت کے دن حسرت و ندامت سے محفوظ رکھے۔