تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیات 7 - 8

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ ۖ وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ ۗ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
اگر تم کفر کرو تو یقینا اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لئے کفر پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لئے پسند کرتا ہے يَرْضَهُ لَكُمْ اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، پھر تمہیں اپنے رب کی بارگاہ کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں بتادے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو، یقینا وہ دلوں کا حال خوب جاننے والا ہے ۔عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
إِنْ تَكْفُرُوا کفر و ایمان عبادت اور اطاعت اس سے اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی مفاد اس میں وابستہ نہیں ہوتا ہے اللہ بے نیاز ہے کسی چیز کا محتاج نہیں ہے ،لوگوں کی عبادت کا محتاج نہیں ہے، ایمان کا محتاج نہیں ہے، اطاعت کا محتاج نہیں ہے۔ اگر تم کفر اختیار کرو تو اس سے اللہ کا کچھ بگڑتا نہیں ہے کوئی فرق نہیں کرتا صرف ایک بات ہے اللہ کے نفع و نقصان میں، اللہ بے نیاز ہے نہ اللہ کو کسی بندے سے نفع ملتا ہے نہ نقصان ہوتا ہے پھر اللہ کی بندگی کرتے ہیں اللہ کے اوپر ایمان لے آتے ہیں یا کفر کرتے ہیں تو اس کا کیا فرق پڑتا ہے اللہ تعالیٰ کو؟فرمایا اللہ تعالی کو جو فرق پڑتا ہے وہ یہ ہے وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے کفر کو پسند نہیں کرتا اس سے اللہ راضی نہیں ہوتا کفر سے اللہ ناراض ہوتا ہے اللہ کے غیض و غضب سے بچنا ہوتا ہے، اللہ اس کو پسند نہیں کرتا ۔ اللہ کو پسند کرنا نہ کرنا جو ہے وہ اللہ کے مفاد کی وجہ سے نہیں ہے کفر کیا تو اللہ کو کوئی خسارہ ہوگیا اس وجہ سے اللہ جو ہے وہ نا پسند کرتا ہے ایسا نہیں ہے اللہ بے نیاز ہے۔ ناراض ہوتا ہے استادشاگرد کے اوپر ناراض ہوتا ہےشاگرد نہیں پڑھتا ہے کلاس میں دس بیس لڑکے ہیں تو اس سے میں سے دو لڑکے نہیں ہڑھتے تو اس سے استاد کا کچھ نہیں بگڑتا دو لڑکے نہیں پڑھتے لیکن وہ اس نالائقی کو پسند نہیں کرتا استاد، استاد کا کوئی نقصان ہوا ہے ؟ نہیں نقصان ہوا، لیکن اس نالائقی کو استاد اپنے نقصان کی بنیاد پر نا پسند نہیں کرتا ان دونوں شاگردوں کی بنیاد پر نا پسند کرتا ہے یہ اپنے آپ کو تباہ کررہا ہے اس میں بھی استاد کی ہمدردی جو ہے وہ مضمر ہے۔ اللہ کفر کو بندوں کے لئے پسند نہیں کرتا ہے وہ اس بنیاد پر ہے کہ اللہ ان بندوں پر مہربان ہے بندوں کے کافر ہونے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے یہ اپنے آپ کو برباد کیوں کر رہے ہیں؟ ابدی عذاب میں کیوں ڈال رہے ہیں؟ ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس بات کو۔
وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ اور یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اللہ کی رضا وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ اللہ راضی نہیں ہوتا کفر سے وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ اور اگر شکر کرو تو اللہ راضی ہوتا ہے۔ کفر اور شکر، کفر انکار شکر قدردانی، کفر ناقدرشناسی اور شکر قدرشناسی، اللہ تعالیٰ کی قدر شناسی کرتا ہے میرا رب ہے مہربان ہے رازق ہے اور میرا سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے اللہ سے محبت کرتا ہے یہ ہے شکر گزاری یرضہ اس کو اللہ تعالی جو ہے پسند کرتا ہے لکم تمہارے لئے اس میں فائدہ تمہارا ہے،اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے بارے میں انسان کو متوجہ رہنا چاہئے کہ ایک آیت ہے وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ أَكْبَرُ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشنودی اللہ کی خوشنودیاکبر ہے ۔ آپ کو بتایا کرتا ہے ہوں ہم جو کہتے ہیں اللہ اکبر اس کا ترجمہ کیا کرتے ہیں؟ اللہ سب سے بڑا ہے، سب سے یعنی ساری دنیا سے اللہ بڑا ہے یہ ترجمہ غلط ہے، سار ی دنیا سے اللہ بڑا ہے سب سے اللہ بڑا ہے سب کی کیا حیثیت ہے کہ اس کو اللہ کے ساتھ مقابلہ کرے؟ اللہ کے ایک کن سے وجود میں آیا ہے یہ سب اللہ کے ایک ارادے سے ایک کن سے اس کن کے اوپر وقت بھی نہیں لگا وقت نہیں لگا آج کل سے سائنسدان بھی کہتے ہیں وقت نہیں لگا اس ہر ،اس کن کے اوپر، اس کن کو دھماکہ کہتے ہیں ایک دھماکہ ہوا اس سے یہ کائنات وجود میں آگئی۔ اس دھماکہ پر کہتے ہیں کہ وقت نہیں لگا اس سکینڈ کے ارب ویں حصہ میں یہ دھماکہ ہوا، ایک سکینڈ کے ارب ویں یعنی وہ زمانہ نہیں ۔ تو اللہ تعالیٰ کو اس کائنات کے خلق کرنے کے او پر وقت نہیں لگا اس کی کیا حیثیت کہ اس سے اللہ بڑا کہ دیا؟ یہ ہم طالب علم تھے اس وقت ہمارا ایک مولانا صاحب تقریر کرتے تھے اسی قسم کی گفتگو کے اوپر یہ اس سے بہتر ہے دونوں میں موازنہ کے لئے کچھ ہونا چاہئےوہ یہ کہنا پنجابی الفاظ بول رہے ہیں یہ بھی کوئی موازنہ ہے کھوتہ اور شاہ صاحب کے درمیان اور آیۃ اللہ وہ بلی سے بہترہے۔ ہر چیز سے اللہ بڑا ہے یہ موازنہ نہ ہوا اللہ اکبر نہ کہو سب سے اللہ بڑا ہے یہ ترجمہ نہیں ہے سب سے بڑا ہے کیا ہے ترجمہ آپ کو اپنے ائمہ نے بتایا ہے اللہ اکبر من ان یوصف وصف و بیان کی حد بندی سے بڑا ہے ، کسی وصف و حد بندی میں نہیں آسکتا اللہ تعالیٰ اتنا بڑا ہے اکبر من ان یوصف ، وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ أَكْبَرُ اللہ کی خوشنودی بڑآ ہے سب چیزوں سے بڑا ہے کیا مقائسہ ہے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی میں اور باقی سب چیزوں میں کوئی مقایسہ نہیں کوئی موازنہ نہیں پھر کیا ہے یہاں بھی ہم یہ کہتے ہیں و رضوان من اللہ اکبر من ان یو صف وصف و بیان کی حد سے بڑا ہے اللہ کا خوش ہونا، کیا بات ہے۔
قیامت کے دن جنت والون کے لئے اتنی نعمتیں ہیں ان تمام نعمتوں سے زیادہ جو نعمت ہوگی وہ یہ احساس ان کے لے بہت بڑی نعمت ہوگی کہ اللہ تعالی ہم سے راضی ہے یہ اہل جنت کو یہ احساس ہوگا اللہ راضی ہے۔ اس میں وہ کریں گے ناز کریں گے،وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ شکر کرو اور کفران نعمت نہ کرو شکر کرو تو یہاں کفر اور شکر کا مقابلہ ہو رہا ہے وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ اور ادھر جو ہے وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ، وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ اور جرم کوئی کرے مواخذہ کسی او رسے لیں لے یہ دنیا میں کوئی عاقل جو ہے یہ کام نہیں کرتا کہ جرم اس نے کیا ہے اور باپ نے کیا ہے اور سزا بیٹے کو دے دے، جرم بیٹے نے کیا ہے سزا بیٹے کو دے دے ، جرم محلے والے نے کیا ہے ایک آدمی نے سزا پورے محلے کو دے دے، جرم ملک کے ایک آدمی نے کیا ہے اور سزا پورے ملک کو دے دے، جس طرح یہ جو طاغوتی طاقت وہ یہی کرتی ہے کسی ملک میں ایک آدمی نے اگر جرم کیا ہے تو پورے ملک کو سزا دیتا ہے یہ طاغوتی استعماری طاقتیں، اسلامی قدروں اسلامی قانون میں اسلامی عدل و انصاف میں کسی کے جرم میں کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی اس کی پہلے بھی تفسیر گزر چلی ہے سورہ فاطر میں۔
یہاں پر پھر ایک کلامی بحث ہے وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَاللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے کفر کو پسند نہیں کرتا ہے اور شکر کو پسند کرتا ہے۔ ہمارا نظریہ یہ ہے،ہم شیعہ، اثنا عشری، جعفری ، امامیہ کا نظریہ ہے کلام میں۔ ایک ہوتا ہے فقہ اور ایک ہے کلام عقائد کے سلسلے میں جو مباحث ہوتے ہیں اس کو علم کلا م کہتے ہیں۔ اس میں بھی مکاتب ہیں مختلف اور نظریات مختلف ہیں عقائد کے سلسلے میں بھی ، اور عقائد کے سلسلے میں ہمارے ہاں نظریہ یہ ہے کہ کفر بذات خود عقلا بری چیز ہے اور شکر بذات خود عقلا اچھی چیز ہے۔ ایک مسئلہ ہے حسن قبح عقلی، حسن قبح ذاتی ایک حسن و قبح ہوتا ہے جعلی قراردادی تشریعی،شریعت نے کہا قبیح ہے تو قبیح ہوگیا ورنہ اس کے بارے میں کوئی موقف نہیں ہوتا تھا ہمارے درمیان میں۔اور شریعت نے کہا کہ یہ قبیح ہے تو قبیح ہوگیا حسن کہا تو حسن ہوگیا شریعت کے کہنے پر ہمارے معاشرے میں اس کا کوئی موقف نہیں ہوتا تھا شریعت نے موقف بنایا اس کو حسن قبح عقلی نہیں کہتے ہیں اس کو حسن قبح تشریعی کہتے ہیں ، جعلی ہے قرادادی ہے بذات خود نہ حسن نہ قبیح۔
بعض چیزیں ہیں ہمارا نظریہ ،بعض چیزیں ہیں جن کا حسن و قبح ذاتی ہے جعلی اور قرارداری نہیں ہے یہ ہمارا نظریہ ہے مثلا عدل، عدل انصاف بذات خود حسن رکھتا ہے خوبی ہے عدل بذات خود خوبی ہے کوئی خوب کہے نہ کہے ہر صورت میں یہ خوبی ہےکسی نے خوب بنایا نہیں ہے یہ بذات خود خوب ہے۔ ظلم برا ہے بذات خود بر ا ہے کسی نے اس کو برا نہیں بنایا کسی بندے کے ساتھ زیادتی کہنا بذات خود برا ہے کسی کے بنانے سے برا نہیں ہوا یہ اس کو ہم کہتے ہیں حسن قبح عقلی یا حسن و قبح ذاتی اس کے مقابلے میں ایک کلامی نظریہ ہے اس کلامی نظریہ کا یہ کہنا ہے ما حسنہ الشارع فھو حسن و ما قبحہ الشرع فھو قبیح جس کو شارع نے اچھا کہا اچھا ہے جس کو شارع نے برا کہا وہ برا ہے بذات خود کچھ نہیں ہوتا شارع کے کرنے پر ہوتا ہے یہ ہے ایک مکتب کا نظریہ وہ حسن قبح عقلی کے قائل نہیں ہے حسن قبح ذاتی کے قائل نہیں ہے کفر برا ہے یا عدل جو ہے وہ اچھا ہے عدل و انصاف اچھا ہے شارع نے کہا ہے تو اچھا ہے ظلم برا ہے شارع نے برا کہا ہے تو برا ہوا ورنہ بذات خود نہ ظلم برا ہے اچھا ہے کچھ نہیں نہ عدل اچھا برا کچھ نہیں یہ موقف ہے۔
اس آیت مجیدہ میں وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ اپنے بندوں سے جو کفرہے اس کو اللہ پسند نہیں کرتا ،ہمارے عقیدہ کے مطابق کیا ہے ؟کفر قبیح ہے بذات خود قبیح ہے اس کو اللہ پسند نہیں کرتا شکر بذات خود حسن ہے اللہ اس کو پسند کرتا ہے،یہ ہمارا موقف ہے۔ یہ لوگ کیا کہتے ہیں وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ اور جو بندوں میں سے جو لوگ کفر اختیار کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ جو ہے اس کو پسند نہیں کرتا چونکہ وہ کفر جو ہے اللہ نے اس کو قبیح کہا ہے، کفر کافر سے وقوع پذیر نہیں ہوتا کفر جو ہے وہ ہوتا ہے شارع کے ہاتھ میں ہے سارا شارع کے کرنے سے ہوتا ہے لوگوں کے کرنے سے کفر نہیں ہوتا ہے تو جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کو اللہ پسند نہیں کرتا۔ اللہ نے پسند نہیں کیا ہے تو اس مطلب یہ ہےتو کفر لوگوں نے کیا ہے اللہ کا اس میں دخل نہیں ہے کہتے ہیں نہیں اللہ تعالیٰ نے ان بندوں کو کفر کے لئے خلق کیا ہے اس لئے اللہ پسند بھی نہیں کرتا خلق بھی خود کیا ہے کفر کے لئے خلق کیا ہے اور جن بندوں کو شکر کے لئے خلق کیا ہے تو وہ شکر کریں گے۔ یہاں بعبادہ عموم ہے مطلق ہے آپ کہتےہیں صرف جو کفر کرنے والے بندے ہیں ان کو اللہ پسند نہیں کرتاکہتے ہیں وہ اس کی تخصیص ہوگئی ہے مخصص کیا ہے؟ مخصص ان کا پنا نظریہ ہے۔ یہ یاد رکھیں آپ حسن قبح ہمارے ہاں عقلی ہے دیگر مذاہب ہے کچھ مکتب ہے وہ حسن قبح ان کا شرعی ہے اور اس کے اوپر بہت سے احکام مترتب ہوتے ہیں شرعی ہے یا عقلی ہے۔
وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَنْدَادًا لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِهِ ۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا ۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اسے پکار تا ہے پھر جب وہ اسے اپنے طرف سے وہ نعمت دیتا ہے تو جسے پہلے پکارتا تھا وہ اسے بھول جاتا ہے اور اللہ کے لئے شریک بنانے لگتا ہے تاکہ اس کی راہ سے گمراہ کر دے کہہ دیجئے اپنے کفر سے تھوڑا سا لطف اندو ہوجاتَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا اپنے کفر سے تھوڑا سا لطف اندوز ہوجا و یقینا تو جہنمیوں میں سے ہے۔ جب ہم اس کو نعمتیں جو ہیں وہ عنایت کرتے ہیں تخویر کہتے ہیں کسی کو خدمت اور نعمت فراہم کرنا۔وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ انسان فطری طور پر خدا پرست اور مومن ہوتا ہے انسان کی فطرت میں اور جبلت کے اندر موجود ہے خدا پرستی، یہ ایک فطری امر ہے اور لوگ جو ہے اللہ کی پرستش نہیں کرتے اللہ کے اوپر ایمان نہیں لاتے وہ ان کے لئے فطری نہیں ہے؟ فطرت تو سب میں ہوتی ہے کسی میں ہو کسی میں نہ ہو تو وہ فطری نہیں ہے فطری کہتے اسے ہیں جو تمام کی خلقت کے اندر وویعت ہے اس کی تخلیق کے اندر ودیعت ہے، کچھ ترجیحات اس کے وجود کے اندر کچھ ترجیحات ہیں وہ فطرت کے میں ودیعت ہے وہ سب کے اندر موجود ہوتا ہے۔لیکن ہوتا یہ ہے چند چیزیں فطری ہیں سب کے نزدیک کسی کے اوپر احسان کرنا فطری ہے کوئی کھائی میں گر رہا ہوتا ہے آپ پاس بیٹھے ہیں تو آپ لپک کر اس کو پکڑتے ہیں فطرت آ پ کو مجبور کرتی ہے کہ اس کو بچاو۔
آگاہی حاصل کرنا فطری ہے کوئی حاثہ ہوتا ہے اور اسکی آواز آتی ہے دو گاڑیوں کے ٹکڑانے کی ،دوڑ کر کے جاتا ہے کیا کرنا ہے؟ آپ کے پاس کوئی سامان نہیں ہے ان کے فریاد، جاننا چاہتا ہے جاننا یہ فطری تقاضا ہے اور یہ جو زیبائی ہے اس کو فطری طور پر انسان پسند کرتا ہے جمالیات پرست ہے انسان فطری طور پر جمالیات پرست ہے۔ ہم اپنی چیزیں جو بناتے ہیں ا س میں جمالیات پر بہت خرچ کرتے ہیں لوگ اور جمالیات کا اگر نہ ہو تو گن بن ساری دنیا کثافت سے بھری ہوئی ہوتی جمالیت پسندی کی وجہ سے حسن ہے ہمارے اس ہال میں جمالیات پر زیادہ خرچ ہوا ہوا ہے، انسان جمالیت پرست ہوتا ہے ۔ آخر میں لوگوں کو ماہرین کو پتہ چلا کہ ایک چوتھی چیز بھی ہے فطری، وہ خدا پرستی بھی انسان کی فطرت میں ہے یہ تین چیزیں تو ہے ہی لیکن چوتھی چیز خدا پرستی بھی کسی مافوق فطرت، خدا پرستی سے مراد کسی مافوق فطرت کی طرف رجوع کرنا انسان کی جبلت کےاندر موجود ہے۔ لہذا دنیا میں سب لوگ متفق ہیں اس بات پر جو لوگ کسی عبادت گاہ کی طر آنا جانا ہوتا ہے خدا کو مانتے ہیں ان میں نفسیاتی بیماری کم آتی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ مریض ہماری طرف رجوع کرتا ہےجو نفسیات کے ماہر بھی ہے اور ڈاکٹر بھی، وہ مریض جو ہماری طرف رجوع کرتے ہیں بیانوے فیصد مریضوں کا نفسیاتی ہے اور خدا کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے خلا ہے انسان کے اندر، یہ چیز نہ ہونے کی وجہ سے ایک خلا ہوتی ہے وہ خلا کو اور کوئی چیز پر نہیں کر سکتی پھر وہ بیمار پڑجاتا ہے یہ خدا پرستی ہے۔ پھر یہ لوگ خدا پرست کیوں نہیں بن جاتے ہیں جب فطرت میں موجود ہے؟ کہتے ہیں کہ جب فطرت میں موجود ہونے سے جبر نہیں ہوتا فطرت میں موجود ہونا دعوت ہوتی ہے صرف۔ آپ کو بارہا بتایا کہیں جبر کا نا م ونشان نہیں ہے نہ شریعت میں نہ فطرت میں نہ عقل میں جبر نہیں ہے، دعوت ہوتی ہے رجحان ہوتا ہے۔ اس کو اس رجحان کو دبا دیا جاتا ہے خواہشات نفسانی بیرونی عوامل معاشرے کا اور دیگر لوگوں کا رجحان مذہبی نہیں ہے خدا پرستی نہیں ہے، یہ جبر معاشرے کے تحت جو ہے معاشرے کا اثر انسان پر ہوتا ہے بر ے معاشرے کا اثر برا ہوتا ہے اور اچھے معاشرے کا اثر اچھا ہوتا ہے اور نادر نابغہ روزگار لوگ ہوتے ہیں جو معاشرے کا زیر اثر نہیں ہوتا، بہت حال بہت سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنے فطری تقاضوں کےخلاف جاتا ہے خدا کا منکر ہوتا ہے۔
وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرٌّ اور جب انسان کو کوئی تکلیف ہوتی ہے وہ کشتی میں بیٹھا ہے وہ غرق ہونے والا ہے اس وقت وہ تمام عوامل جو ہیں جس نے اس کو خدا سے منحرف کیا تھا وہ تمام عوامل چلےجاتے ہیں ختم ہوجاتے ہیں اب یہ اپنی فطرت کے ساتھ اس کی خلوت ہوتی ہے فطرت کے ساتھ جو ہے سرگوشی ہوتی ہے اب فطری تقاضا سر اٹھاتی ہے پکارو اس کو، اس وقت وہ خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے، کیونکہ بیرونی عوامل سارے ہٹ گئے یہ اور اس کی فطرت جب اس کی فطرت کے ساتھ یہ خلوت ہوگئی تو پھر فطرت کے فطری تقاضا جو ہے سامنے آتا ہے اور اپنے رب کو پکارتا ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہےجب اس کو وہاں سے نجات ملتی ہے پھر وہ فطرت جو ہےوہ پھر دب جاتی ہے اور پھر بیرانی عوامل جو ہے آگے آتے ہیں پھر دوبارہ یہ شرک کرنے لگتا ہے کفر کرنے لگتا ہے جرم کرنے لگتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے۔