تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیات 54 - 61

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

وَأَنِيبُوا إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ
سورہ زمر آیت 54، اور اپنے رب کی طرف پلٹ آو، اور اس کے فرمانبردار بن جاو وَأَسْلِمُوا لَهُ قبل اس کے کہ تم پر عذاب آجائے پھر تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔
انیبو ، انوب، الانابہ،ا لانابۃ الی اللہ اللہ کی طرف لوٹنا، توبہ و انابت کہتے ہیں۔ اس میں ارشاد فرمایاوَأَنِيبُوا إِلَىٰ رَبِّكُمْ اپنے رب کی طرف پلٹ آو، إِلَىٰ رَبِّكُمْ ، وانیبو الی اللہ نہیں فرمایا، اپنے رب کی طرف پتہ ہے نا آپ کو رب مالک کو کہتے ہیں مالک، خدا رب ہے مالک حقیقی ہے اپنے مالک کی طرف لوٹ آو۔ ادھر ادھر کیا دیکھتے ہو؟ سب کچھ ادھر رکھا ہوا ہے اللہ کے پاس رکھا ہوا ہے ۔جب آپ کو پہلے بتا دیا لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہواللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہونا ہے تو کیا کرنا ہے؟ انیبو الی ربکم اللہ کی طرف پلٹ آو، سب کچھ یہاں رکھا ہوا ہے اگر سمجھنے والے سمجھے تو سب کچھ ادھر ہے رب کے پاس ہے تمہارے مالک حقیقی کے پاس ہے۔ مولا فرماتے ہیںیا من بیدہ ناصیتی اے وہ ذات جس کے ہاتھ میں میرا ماتھا ہے۔ اس کی طرف پلٹ آو، اس کی رحمت بہت وسیع ہے وَأَسْلِمُوا لَهُ اور اس کے آگے سر تسلیم خم کرو، اس کے فرامین کے اوپر احکام کے اوپر عمل کرو۔مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ تمہارے پاس عذاب آنے سے پہلے۔ ابھی دنیا میں بہت آپ کے پاس گنجائش چارہ کاہ موجود ہے اپنے آپ کو چھڑا سکتے ہیں عذاب سے چھڑالو، مت جاو عذاب کی طرف۔
وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ اور تمہارے رب کی طرف سے تم پر جو بہترین کتاب نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو قبل اس کے کہ تم پر ناگہاں عذاب آجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔
پہلے فرمایاواسلموا سر تسلیم خم کرو مان لو ہاں کردو، پھر صرف اسلموا کافی نہیں ہے اس میں فرمایا وَاتَّبِعُوا پیروری کرو فرمانبردار بن جانے کے بعد عمل کی نوبت آتی ہے۔ پہلے اسلم اسلام لانا ہے پھر اتباع پیروی کرنا ہے عمل کرنا ہے۔ سارا دار ومدار عمل کے ساتھ ہے جب تک عمل نہیں ہے صرف ذھنی طور پر قبول کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ اسلام قبول کرنا اسلام صحیح ہے بنیادضروری ہے لیکن بنیاد کے اوپر عمارت بھی ہونا چاہیے اور عمارت جو ہے وہ عمل ہے اوپر عمارت ہے تو اس کے لئے بنیاد ہوتی ہے اوپر عمل نہیں ہے تو بنیاد نہیں ہے بنیاد عمارت کی بنیاد ہوتی ہے اصول دین۔
وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ جو بہترین تمہاری طرف جو کتاب نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو پھر اس کا ترجمہ نہ کرو سب سے بہتر ۔ قرآن کا کسی اور چیز سے موازنہ نہ کرواحسن من ان یوصف کہہ دو جیسا کہ آپ کہتے ہیں نا اللہ اکبر کے بارے میں ہم ہمیشہ کہتے ہیں ائمہ علیھم السلام کی روایات کی روشنی میں اکبر من کل شئی نہ کہو ۔اشیاء سے اللہ کا تقابل؟ دیوانہ ہے، اکبر من ان یوصف کہو ۔ یہاں پر احسن من کل شئی نہ کہو شئی سے کتاب کا موازنہ ہے ؟ احسن من ان یوصف قابل وصف و بیان سے مافوق کتاب تمہارے پاس آئی ہے۔ قرآن آیا ہے تمہارے پاس یہ معمولی چیز نہیں آئی ۔ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً قبل اس کے کہ اچانک عذاب جو ہے وہ تمہارے پس آجائے، نا گہاںبَغْتَةً اچانک نا گہاں، عذاب آتا ہے نا گہاں، موت آتی ہے ناگہاں وہ پوچھ کر اجازت لے کر پہلے سے پروگرام طے کر کے نہیں آتی کچھ کے لئے جوانی میں موت آتی ہے کچھ کے لئے بچپنے میں موت آتی ہے کچھ کے لئے بڑھاپے میں بھی موت آتی ہے بڑھاپے میں بھی موت بہت آتی ہے تو پھر اس کے بعد پتہ چلتا ہےالناس نیاماذا ماتو فانتبھوا لوگ سو رہے ہوتے ہیں جب مر جاتے ہیں تو بیدار ہوتے ہیں مرجاتے ہیں تو بیدار ہوتے ہیں؟ سمجھیں گے نہیں اس چیز کو؟ مرنے والے بیدار؟ اسی کی طرح میں ایک تعبیر استعمال کرتا ہوں جب آنکھیں بند ہوجاتی ہے تو آنکھیں کھل جاتی ہیں یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْ: کا ش زندگی میں کچھ آگے بھیج چکا ہوتا۔ بَغْتَةً ناگہاں، وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ تم کو پتہ بھی نہیں ہوگا کس عذاب کا مقابلہ کرنا ہے، کس ہولناکی کا سامنا کرنا ہے نہیں پتہ۔ پتہ چلتا ہے جب آنکھیں بند ہو جاتی ہیں مرنے کے بعد پتہ چلتا ہے۔
أَنْ تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَا عَلَىٰ مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ وَإِنْ كُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِينَ کہیں ایسا نہ ہو کیا فرمایا وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ، أَنْ تَقُولَ نَفْسٌ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص یہ کہے کہ افسوس ہے اس کوتاہی پر جو میں نے اللہ کے حق میں کی اور میں تو مذاق اڑانے والوں میں سے تھا مذاق اڑاتا تھا ، پیغمبران کا مذاق اڑاتے رہے لوگ، اور آج کل بھی ہے دین کی طرف دعوت دینے والوں کو عذاب سے بچانے کے لئے نصیحت اور معجزہ کرنے والوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے یہاں پر چونکہ دینی تعلیم رکھنے والوں کی قیمت نہیں ہے معاشرے میں اس لئے دینی تعلیم رکھنے والوں کی باتوں کو بھی قیمت نہیں دیتے ہیں خواہ قرآن ہی کیوں نہ ہو، مولوی نے بتایا ہے اس نے دو ٹکے کے مولوی نے بتایا ہے اس کی کیا حیثیت ہے؟ قرآن نہیں قرآن نہیں اس مولوی نے مولوی کی قیمت نہیں ہے تو اس کا جو بتایا ہوا قرآن ہے اس کا مذاق اڑاتے ہیں قیمت نہیں دیتے۔ یہ آج بھی ہے انبیاء کے ساتھ جو ہوتا ہے وہ انیباء کے پیغام کا جو تسلسل ہے ان کے ساتھ بھی یہی مذاق ہوتا ہے آج کل بھی عینا وہی چیز ہے، انبیاء کا مذاق اڑاتے تھے اہمیت نہیں دیتے تھے قیمت نہیں دیتے تھے آج البتہ تھوڑا سا معاشرہ کا دباو ہے جبر معاشرہ ہے انکا رنہیں کر سکتے انکار نہیں کر سکتے جیسےمشرکین انکار کرتے تھے ابھی جبر معاشرہ ہے انکار نہیں کر سکتے لیکن مزاح اڑادیتے ہیں اہمیت ایک پیسے کی نہیں دیتے ہیں حالانکہ قرآن ہے۔
أَنْ تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَا عَلَىٰ مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ افسوس میں نے اللہ کی شان میں کوتاہی کی جَنْبِ اللَّهِ اللہ کی شان سے اس کی تفسیر کی ہے فِي جَنْبِ اللَّهِ اللہ کی شان میں جنب پہلو کو کہتے ہیں اللہ کے پاس اللہ کی قربت میں کوتاہی ۔ اللہ کے ساتھ نزدیک ہونے تقرب حاصل کرنے کی چیزوں میں کوتاہی کی اللہ کی پیروی کرنے قرآن کی اتباع کرنے میں قربت الہی ہے عذاب سے نجات ہے اور پھر اللہ کا قرب حاصل کرنے کی جگہ مزاح اڑانے والوں میں سے ہوگیا۔ أَنْ تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَا اے افسوس اس سے پہلے اتباع کرو پیروی کرو عمل کرو۔ أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدَانِي لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ یا وہ کہے کہ اگر اللہ میری ہدایت کرتا تو میں متقین میں سے ہوجاتا ہے لیکن اللہ نے میری ہدایت نہیں کی اور ان لوگوں کی ہدایت کی جن کو ہم پیسے کی قیمت نہیں دیتے ان کو اللہ نے ہدایت دے دی مجھے نہیں دے دی، ذمہ داری اللہ پر ڈال دیتے ہیں لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدَانِي جبکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لئے کوئی کوتاہی نہیں کی اللہ تعالیٰ نے حجت مکمل کر دیا انبیاء مبعوث کئےاور اپنا پیغام پہنچا دیا اور حجت تما م کیا۔ اور اگر کسی تک اللہ کا پیغام نہیں پہنچا ہے اس میں اس آدمی کی کوئی کوتاہی نہیں ہے، اس تک پیغام پہنچا ہی نہیں ہے ایک بوڑھی عورت ہے چین با چین کے دور و دراز علاقے میں اس تک کوئی پیغام نہیں پہنچا نہ اس کے بس میں تھا اس پیغام کا لینا اس کو مستضعف کہتے ہیں۔ قیامت کے دن ان کے اوپر عذاب نہیں ہوگا حجت پوری نہیں ہوئی ان تک پیغام نہیں پہنچا ان کو عذاب نہیں ہوگا مستضعفین کے اوپر عذاب نہیں ہوگا۔ یہ عدل الہی کے خلاف ہے وہ ارحم الراحمین ہے کسی وجہ سے آدمی کا کوئی قصور نہیں ہے اور اس تک کوئی پیغام نہیں پہنچا بعض علماء فرماتے ہیں ہمارے معاشرے میں اکثر و بیشتر جو ہیں وہ مستضعف ہے ان کا کوئی بس نہیں چلتا یہاں بھی دیہاتوں میں دور دراز علاقوں میں جو لوگ بیٹھے ہیں یا جو خواتین ہیں ان کو کہیں رسائی ہو نہیں سکتی تھی نہ اینکہ رسائی حاصل نہیں کی، ہو نہیں سکتی تھی ان کو عذاب نہیں ہوگا۔
أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ یا عذاب دیکھ کر یہ کہے اگر مجھے واپس دنیا میں جانے کا موقع ملتا تو میں نیکی کرنے والوں میں ہو جاتا۔ وہاں پہنچنے کے بعد راز کھل جاتا ہے بات واضح ہوجاتی ہے۔ جب گناہ لے کر کے توبہ کے بغیر وہاں پہنچ جاتا ہے اور دنیا میں مزاح اڑاتا رہا ان کو عذاب سے بچانے والوں کا ، وہاں جا کے راز کھتا ہے کہ آہ آہ یہاں تو عمل لے کے آنا چاہئے تھا اب پتہ چلا۔ پہلے ہم نے سمجھنے کی نہ صرف کوشش نہیں کی اصلا نظر انداز کیا وہ سچ کہتے تھے وہ بیچارے وہ معاشرے کے پٹے ہوئے لوگ جن کو ہم کوئی قیمت نہیں دیتے تھے وہ سچ کہتے تھے عمل، عمل عمل ہم ان کا مزاح اڑاتے تھے ان کی تضحیک کرتے تھے ان پر آوازیں کستے تھے ملا، ملا کر کے اب پتہ چلا عمل کی ضرورت ہے یہاں کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ کا ش کہ مجھے واپس جانے کا موقع مل جاتا ، واحد حل یہ سمجھ میں آتا ہے عمل چاہئے تھا اب یہاں کوئی حل نہیں ہے حل وہاں ہے کاش کہ مجھے پھر ایک مرتبہ وہاں جانے کا موقع مل جاتا میں مسئلہ کا حل کے لے آتا کیا؟ عمل کر کے میں نیکی کرنے والوں میں سے ہوجاتا فرمایا بَلَىٰ قَدْ جَاءَتْكَ آيَاتِي فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنَ الْكَافِرِينَ جواب ملے گا کیوں نہیں میری آیات تجھ تک پہنچی مگر تو نے اسے جھٹلایا اور تکبر کیا اور تو کافروں میں سے تھا۔ یحسرتا، یلیتنی یہ حسرت و ندامت فائدہ نہیں دے گی۔ دنیا میں تمہارے جو ہے پاس یہ ساری باتیں آگئی تھی تم نے ان کا مذاق اڑایاكُنْتَ مِنَ الْكَافِرِينَ، بَلَىٰ قَدْ جَاءَتْكَ آيَاتِي میر ی آیات جو ہیں تجھ تک پہنچ چکی تھی بتایا تھا لوگوں نے انبیاء نے بتایا تھا اوصیاء نے بتایا تھا اور ان کے جانشینوں نے بتایا تھا اور دین کے پیغام رساں لوگوں نے، دین کی ذمہ داری جن لوگوں نے اٹھایا ہے ان سب نے تم کو بتایا تھا لیکن كُنْتَ مِنَ الْكَافِرِينَ تو منکر تھا مانتا نہیں تھا انکار کرتا تھا۔
وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُمْ مُسْوَدَّةٌ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكَبِّرِينَ اور جنہوں نے اللہ کی نسبت جھوٹ بولا قیامت کے دن آپ ان کے چہرے سیاہ دیکھ لیں گے، کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہے؟
قیامت کے دن رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خطاب ہے تَرَى آپ ان کے چہرے دیکھیں گے سیاہ ہوئے ہوئے یوم تَسۡوَدُّ وُجُوۡہٌ چہر سیاہ والوں کو آپ دیکھ لیں گے۔ جو لوگ اس دنیا میں دل کے سیادہ تھے دل سیادہ کالا دل انکا قیامت کے دل چہرے سیادہ ہوں گے ۔ دنیا میں جن کا باطن سیاہ تھا قیامت کے دن ان کا ظاہر سیاہ ہو جائے گا۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكَبِّرِينَ یہ تکبر ہے نا آج کل کے معاشرے میں بھی آپ دیکھیں گے دیندار والوں کے مقابلے میں یہ لوگ تکبر سے نہیں بات کرتے ہیں او ملا، آیات وحادیث بتانے والوں کو کفر و شرک کرنے والوں کو اور حق بتانے والے جو ہیں وہ حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں متکبر ہوتے ہیں تکبر نے ان کو، ابو جہل نے کہا تھا ابو جہل نے بھی ہم کو پتہ ہے کہ محمدجھوٹ نہیں بولتا وہ کسی انسان پر بہتان نہیں باندھا وہ اللہ پر بہتان باندھے گا؟ بات ہے بندہ تو ہے سچا لیکن ہم بنی ہاشم کی بالا دستی کو قبول نہیں کریں گے تکبر، بنی ہاشم کی بالا دستی کو قبول نہیں کریں گے۔ أ لَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكَبِّرِينَ تکبر کرنے والوں کو جہنم میں ٹھکانہ ملے گا یہ سب کچھ کرنے والا جو ہے وہ خضوع و خشوع نہ کرنا سر تسلیم خم نہ کرناتکبر کرنے کی وجہ سے ہے۔
وَيُنَجِّي اللَّهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ اور اہل تقوی کو ان کی کامیابی کے سبب بِمَفَازَتِهِمْ، فَاَفُوۡزَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا اہل تقوی کو ان کے کامیابی کے سبب اللہ نجات دے گا انہیں نہ کوئی تکلف پہنچے گی نہ ہی وہ غمگین ہوں گے تکلیف ظاہری جسم میں درد مرد وغیرہ وہ بھی نہیں ہوگا اور ذھن بھی آسودہ ہوگا غمگین بھی نہیں ہوگا وَيُنَجِّي اللَّهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ ،مفازتھم ان کی کامیابی کی وجہ ہےفوز کامیابی کو کہتے ہیں فَاَفُوۡزَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا کہتے ہیں نا آپ بھی یّٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ مَعَہُمۡ فَاَفُوۡزَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا آپ کے ساتھ ہوتا تو میں بڑی کامیابی حاصل کر سکتا تھا وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ بڑی کامیابی حاصل کرتا ہے۔ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ کوئی برائی ان کو تکلیف نہیں پہنچائے گی کوئی تکلیف نہیں ہوگی اور وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ حزن نہیں ہوگا اخ ، کاش کاش، کام کیا ہوتا تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا، حزن نہیں ہوگا، کام کر کے آیا ہے، جی الحمد للہ کام کر کے آیا ہے جس کی وجہ سے آج میں بے فکر ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ان بے فکروں میں شامل کرے۔