تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیت 9

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ
سورہ زمر آیت 9، مشرک بہتر ہے یا وہ جو رات کی گھڑیوں میں سجدے اور قیام کی حالت میں عبادت کرتا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت سے امید رکھتا ہے۔ کہہ دیجئے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے یکساں ہو سکتے ہیں؟ بے شک نصیحت تو صرف عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔
اس سے پہلے مشرکین کے سلسلے میں اور ان کے موقف کے سلسلے میں بات ہوتی رہی اور اس کے بعد فرمایا: کیا مشرکین بہتر ہے یا وہ جو رات کی گھڑیوں میں کھڑے ہو کر کے عبادت کرتے ہیں قیام کی حالت میں عبادت کرتے ہیں۔ قَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ ادھر عبادت بھی کرتے ہیں اور عبادت کے ساتھ يَحْذَرُ خوف بھی رکھتے ہیں وَيَرْجُو اور امید بھی رکھتے ہیں۔ تین باتیں ہیں؛ ایک تو عبادت گزار ہوتے ہیں عبادت گزار ہونے کے بعد اپنی عبادت پر اتراتے نہیں ہے مجھے جیسا کون ہو سکتا ہے؟ یا اپنے موقف پر اتراتے نہیں ہے، بلکہ يَحْذَرُ عبادت بھی کرتے ہیں اور خوف بھی دل میں رکھتے ہیں اپنی عبادت کو ہیچ سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اللہ کی عظمت اللہ کی نعمتوں کے مقابلے میں انسان کی عبادتوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ اور ادھر سے ڈر ہے اور ادھر سے رجا ہے خوف و رجاء کے درمیان میں ہوتا ہے یہ بندگی کے آداب ہے ۔ اللہ کی بندگی کرنے والے کیا ہوتے ہیں؟ وہ عبادت بھی کرتے ہیں اور پھر خوف و رجاء کے درمیان میں ہوتے ہیں عبادت میں ذکر فرمایا: أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا حالت سجدےمیں حالت قیام میں عبادت کے دو رکن کا ذکر ہے سجدہ اور قیام۔ اس قسم کی عبادت کو قیمت حاصل ہے ۔ اور دوسرا ہے رات کی تاریکیوں میں آنَاءَاللَّيْلِ رات کی تاریکیوں میں عبادت کرنے کو زیادہ فضیلت حاصل ہے رات کی تاریکی میں کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا وہ عبادت صرف اور صرف اللہ کے لئے ہوتی ہے اپنے حجرے میں وہ رات کو عبادت کرتے ہیں ۔
مستحب ہے کہ تہجد اور نوافل جو ہیں وہ گھر میں پڑھی جائے، واجب نمازوں کے لئےمسجد میں پڑھنا فضیلت ہےمستحب نمازوں کے لئے گھر میں، ایک بندہ خدا عبادت کرتا ہے گھر کے اپنے حجرے میں تاریکی میں کسی کو کوئی پتہ نہیں چل رہا ہوتا ہے کہ یہ کیا کرتا ہے کیا نہیں کرتا ہے، اس قسم کے کے جو ہے آنَاءَاللَّيْلِ رات کی تاریکیوں میں کسی کی نظر نہیں پڑھتی ، کسی کو علم نہیں ہوتا کہ یہ عبادت کرتا ہے کہ نہیں کرتا ہے صرف اپنے خالق کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اس عبادت کو قیمت حاصل ہے ایک تو عبادت جو ہے وہ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا دوسرا یہ عمل ہو گیا، دوسرا مؤقف موقف کیا ہے بندے کا ؟ بندے کا شعور موقف اور اس کی جو بینش ہے اس کے تحت وہ خائف بھی رہتا ہے امیدوار بھی ہوتا ہے دونوں چیزیں ہیں ۔ خوف و امید کے درمیان مین ہوتا ہے یہ ہے بندگی کے آداب۔ بندگی کے اہم ترین آداب میں سے ہے خوف و امید کے درمیان میں ہونا اس لئے کہ اگر ایک شخص جو ہے وہ صرف خوف رکھتا ہے میں نے تو جہنم ہی جانا ہے میں تو یہ ہوں وہ ہوں سو ہوں، یہ شخص جو اللہ کی رحمت سے مایوس ہے یہ بھی گمراہ ہے وہ عمل نہیں کرتا ہے اور اس سے زیادہ جو بد عملی ہے وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا ہے۔ قرآن مجید میں ایک دو جگہ آیات ہیں جو اللہ کی رحمت سے مایوس ہوتا ہے اور وہ گمراہ لوگ ہوتے ہیں اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا، خواہ کتنا ہی گناہ کیوں نہ ہوں پھر بھی مایوس نہیں ہونا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت جو ہے اس بندے کی نافرمانی سےبہت زیادہ وسیع ہے اس کی نافرمانی کتنی ہوئی اللہ کی رحمت جو ہے وہ کسی حد و حدود میں نہیں آتی۔یامن سبقت رحمتہ غضبہ اللہ کی رحمت وہ ہر چیز کے لئے، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت جو ہے وہ ہر چیز کے لئے اللہ کی رحمت سے مایوس یاس جو ہے وہ کفر ہے اور دوسری طرف سےوَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ، يَحْذَرُ الْآخِرَةَ آخرت کا خوف ہے۔
ہم لوگوں کے دل میں آخرت کا تصور مشکل سے آتا ہے ہمارے معاشرے میں آخرت کا تصور نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں پر ایک بات قابل توجہ ہے، نہایت قابل توجہ ہے۔ مشرکین کی جو رائے ہے مشرکین کا مذہب مشرکین کو کوئی مذھب کے طور پر شرک کوئی مذھب نہیں ہوتا بہر حال مشرکین کا جو موقف ہے وہ یہ تھا کہ یہ جو ارباب ہیں کئی رب ہے وہ ہماری دنیاوی زندگی کے لئے یہ روزی کے لئے، فتح نصرت کے لئے اولاد کے لئے وغیرہ کے لئےیہ رب ہوتے ہیں آخرت تو ہوتا ہی نہیں ہے یہی دنیا ہے کوئی آخرت نہیں ہوتا۔ مشرکین کے لئے آخرت کا خوف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا وہ منکر آخرت ہے لہذا آخرت کا خوف نہیں ہوتا تھا ہمارے معاشروں میں بھی آخرت کا خوف نہیں ہے آخرت کا منکر بھی نہیں لیکن آخرت کا خوف نہ ہونے میں منکرین کے برابر ہے۔ آ پ اگر پوچھیں ان سے آپ کوآخرت کے بارے میں فکر ہے؟ آخرت کے بارے میں مجھے کیا فکر ہے ہم کو تو نجات ملنا ہے جنت تو ہماری ملکیت ہے اور کوئی فکر نہیں ہے وہ بے فکر ہوتے ہیں، کوئی خوف ان کے دل میں نہیں ہوتا آخرت کا۔ مشرکین کے تقریبا نزدیک نزدیک ہےمشرکین منکر آخرت بھی اور آخرت کا خوف بھی منکر بھی تھا اور بے خوف بھی یہ منکر نہیں ہے اور بے خوفی میں مشرکین کی طرح ہے ہمیں کوئی خوف نہیں آخرت کاکوئی خوف نہیں ہے۔
ائمہ معصومین علیھم السلام انبیاء خوف رکھتے ہیں اور یہ صاحب بے خوف ہے وجہ معلوم ہے نا وجہ ؟ وہ آخرت کے اوپر ایمان ہے یوم الالفزع الاکبر کا خوف کرتے ہیں۔ امام زین العابدین عليه‌السلام کے بارے میں روایت ہے کہ وہ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ پر آتے تو رنگ تغییر ہوتا۔ یہ زین العابدین سید الساجدین قیامت کے دن این سید الساجدین تو انبیاء اپنے صفوں میں دیکھیں گے فرشتے اپنے صفوں میں دیکھیں گے لیکن ان میں سےعلی ابن الحسین سید ساجدین کے عنوان سے اٹھیں گے۔ ان کو خوف ہے یوم الدین سے اور اس صاحب کو کوئی خوف نہیں ۔ یہ نہایت قابل توجہ ہے ہمارے معاشرے میں تصور آخرت نہ ہونے کے برابر ہے آخرت کا خوف حساب کتاب کا خوف اللہ تعالیٰ کے سامنے حساب کے لئے کھڑا ہونا ہے پھر اس کے بعد میزان ہے اعمال کا میزان حسنات اور سئیات کا میزان ہوگا دیکھیں گے کس کو زیادہ وزن حاصل ہےتو اس سے اس کو نجات ملے گی، کوئی خوف نہیں ہے۔
یحْذَرُ الْآخِرَةَ یہ مشرکین بہتر ہے یا وہ بہتر ہے جو آخرت کا خوف رکھتے ہیں ۔ آخرت کا خوف رکھنے والے مشرک نہیں ہوتے ہیں اس کو ذھن میں رکھیں غلط فہمی میں نہ رہے ورنہ آنکھیں بند ہونے کے بعد تمہاری آنکھیں کھل جائے گی، اس وقت بات سمجھ میں آجائے گی فائدہ نہیں ہے وہاں پھر افسوس کریں گے يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي کاش اپنی اس ابدی زندگی کے لئے آگے کچھ بیج چکا ہوتا خالی آگیا ادھر۔ ندامت او رحسرت کی ایک عجیب دنیا میں گم ہوجائے گا۔ يَحْذَرُالْآخِرَةَ سجدہ کرتے ہیں عبادت میں کھڑے رہتے ہیں اور پھر يَحْذَرُالْآخِرَةَ آخرت کا خوف بھی رکھتے ہیں، اپنی عبادت پر اتراتے نہیں وَيَرْجُورَحْمَةَرَبِّهِ اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے امید بھی رکھتے ہیں یہ عابد یہ مومن یہ غیر مشرک یہ صاحب جو مشرک نہیں ہے وہ عبادت گزار بھی ہوتا ہےا ور اس کا موقف کیا ہے ؟ موقف جو ہے خوف اور امید کے درمیان میں کھڑا ہوتا ہے۔ خوف کی وجہ سے وہ گناہوں سے بچتا ہے اور امید کی وجہ سےوہ عبادت کرتا ہے یہ دیکھو نا یہ دونوں کی ضرورت ہے بندگی کے لئے خوف ہے خوف کی وجہ سے گناہ سے بچتا ہے جس کو کوئی خوف نہیں ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے جنت میں جانا ہی جانا ہے یہ کرے وہ کرے کیا حرج ہے معاف ہوجائےگا کیا ہوگا؟ جہالت کی انتہا ہے۔ اور امید کی وجہ سے عبادت کرتا ہے جس کے پاس خوف نہیں ہے وہ گناہ سے نہیں بچتا اور عبادت بھی نہیں کرتا چنانچہ اس سلسلے میں احادیث بہت زیاد ہ ہے، اور مومن کو خوف اور امید کے درمیان میں ہونا چاہئے اس موضوع کے اوپر بے شمار احادیث موجود ہیں ہمارے ائمہ علیھم السلام کی طرف سے۔ میں نہ قرآن پڑھتا ہوں نہ احادیث کو دیکھتا ہوں دونوں چیزوں سے میں بے خبر ہوں اس لئے میں نہ عبادت کرتا ہوں نہ خوف نہ خوف و امید رکھتا ہوں صرف۔ امام جعفر صادق عليه‌السلام فرماتے ہیں میرے پدر بزرگوار فرماتے تھے یعنی امام محمد باقر عليه‌السلام فرماتے تھےانہ لیس من عبد مومن الا وفی قلبہ نوران کوئی مومن بندہ ایسا نہیں ہوگا جس کے دل میں دو روشنی نہ ہو دو نور نہ ہو نور خیفۃ و نور رجاء خوف کی روشنی اور امید کی روشنی لو وزن ھذا لم یزد علی علی ھذا اگر یہ خوف کا وزن کیا جائے تو یہ امید سے زیادہ نہ ہوگا اگر امید کا وزن کیا جائے تو وہ خوف سے زیادہ نہ ہوگا دونوں برابر۔اس کے پاس برابر ہے خوف بھی اتنا ہے جنتا امید ہے امید اتنی ہے جتنا خوف ہے۔ فرمایا کہ لیس من عبد مومن الا وفی قلبہ ہر عبد مومن کے دل میں دو نور ہوا کرتے ہیں۔ دوسری روایت میں فرمایایھلک متکل علی عملہ و لا ینجو المشتری علی الذنوب الواثق برحمۃ اللہ فرمایا کہ نجات نہیں ملے گی اس شخص کو جو اپنے عمل پر بھروسہ کرتا ہے میں بہت نمازیں پڑھتا ہوں میری بہت خدمات ہیں میں بڑا عزدار ہوں، میں بڑا نمازی ہوں میں تہجد گزار ہوں میں یہ ہوں میں وہ ہوں میرے لئے کوئی فکر نہیں ہے، اس کو نجات نہیں ملے گی اس لئے اس نے اپنے اعمال کو زیادہ سمجھا جب اپنے اعمال زیادہ سمجھتا ہے تو وہ حبط ہوجاتا ہے نابود ہوتا ہے۔
یھلک متکل علی عملہ اپنے عمل پر بھروسہ کرنے والا ہلاکت میں ہے اور اس کو نجات نہیں ہے عمل کرتا ہے اور اپنے آپ کو بہت بڑا عبادت گزار سمجھتا ہے بہت خدمت گزار سمجھتا ہے جیسا کہ یہ اپنے عمل پر بھروسہ کرنے والا ہلاک ہوجائے گا جیسا کہ اللہ رحمت پر بھروسہ کر کے گناہ کا ارتکاب کرنے والا بھی ہلاک ہوگا۔ جی اللہ ارحم الراحمین ہے۔ لا ینجی المشتری علی ذنوب گناہ کرنے کے اوپر جرات کرتا ہے جسارت کرتا ہے اس سے کہا جائے یار کیوں گناہ کرتے ہو؟ وہ بہت مہربان ہے میرے سارے گناہ معاف کریں گے کوئی پرواہ نہیں کرتے جاو۔ اللہ کی رحمت کو گناہ کرنے کے جواز کے طور پر پیش کرتا ہے کہ اللہ بہت مہربان ہے۔ پھر اس روای نے پوچھا فمن ینجو کون نجات حاصل کر ے گا۔ یہ دونوں تو نجات حاصل نہیں کریں گے جس کے دل میں خوف بھی نہیں ہے امید بھی نہیں ہے الذین ھم بین الخوف و الرجاءکون نجات پائے گا؟ فرمایا وہ لوگ نجات پائیں گے جو لوگ خوف اور امید کے درمیان میں ہوتے ہیں کان قلوبھم فی مخلب طاہر وہ ایسا جیسا ان کے دل وہ کسی پرندے کے شاہین کے پنجوں میں ہے، اور اس میں زبردست خوف بھی ہے اور اس سے بچنے کی امید بھی ہے۔ اضطراب میں خوف و امید کے درمیان اضطراب میں ہے کان قلوبھم فی مخلب طائر شوقا الی الثواب و خوفا الی عذاب عذاب کا خوف بھی بڑا ہے اور ثواب کا شوق بھی بڑا ہے ان کے دلوں میں، اس قسم کے روایت بہت زیادہ ہے کہ مومن کو خوف اور امید کے درمیان میں ہونا ہوتا ہے اس کے بعد ارشاد فرمایاقُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ کہہ دیجئے کیا جاننے والے نہ جاننے والوں کے برا بر ہو سکتے ہیں ؟یعنی دوسرے لفظوں میں کیا عالم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ جاننے والے لَايَعْلَمُونَ نہ جاننے والے یہ دونوں برا بر نہیں ہو سکتے ہیں یعنی مومن اور مشرک کا برا بر نہ ہونا ایسا ہے جیسے عالم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے ہیں۔ چونکہ اللہ کی بندگی کرنا ہے جو ہے وہ مربوط ہے اللہ کی بندگی اس وقت ہوتی ہے جب بندہ راز بندگی سے واقف ہو، ایک جاہل راز بندگی سے واقف نہیں ہوتا اور اپنی زندگی کو وہ معقلولیت دیتا ہے عالم ۔ جو علم کے اوعلی درجے پر فائز ہے وہ رات اور دن میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے ہیں جہاد فی سبیل اللہ الگ،ایثار و قربانی الگ اور رات کی تاریکیوں میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے ہیں اور پھر گریہ کرتے ہیں چیخ چیخ کر روتے ہیں یہ ہوتے ہیں يَعْلَمُونَراز بندگی جانتے ہیں اپنی عبادت کو ہیچ سمجھتے ہین اور پھر خوف آخرت۔ وہ ذات جو قسیم النار و الجنہ ہے جنت اور جہنم کا پنے ہاتھ سے تقسیم کرنے والا دوسروں کو جنت اور جہنم دینے والا خود ڈرتا ہے۔ ہمارے اور آپ کے سمجھ میں بات نہیں آئے گی اس لئے راز بندگی سے ہم واقف نہیں ہے کیوں ڈرتے ہیں؟ ہم کہتے ہیں کیوں ڈرتے ہیں؟ وہ سوجھ بوجھ ہم میں نہیں ہے نہیں سمجھ سکتے ہم لوگ کہ اس مقام پر ہونے کے بعد کیوں ڈرتے ہیں؟ کس چیز سے ڈرتا ہے ؟ وہ اپنی عبادت کو ہیچ سمجھتا ہے اس لئے ڈرتا ہے وہ اپنی عبادت کو بڑی چیز نہیں سمجھتا کہیں کہ مجھے کیا خوف ہے ؟ پھر ساری عبادت ختم ہوجائے گی میں نے بہت کام کیا بہت خدمت ہے میری مجھے کیا ڈر ہے کیا خوف ہے؟وہ ساری عبادت اکارت ختم اس کو خود بینی کہتے ہیں اس کو بندگی نہیں کہتے ہیں۔ راز بندگی کا سمجھنے والا اپنی عبادت کو اپنی خدمت کو ہیچ سمجھ کر روتے ہیں گریہ کرتے ہیں زار زار روتے ہیں کہ میں نے کچھ نہیں کیا آہ من قلۃ الزاد و بعد السفر آہ، زاد راہ تھوڑا ہے اور سفر بہت لمبا ہے۔ علی علیہ آپ کے پاس زاد راہ تھوڑا ہے۔ہمارے اس سے پوچھیں نا تمہارے پاس کتنا زاد راہ ہے؟ کہا بہت ہے میرے پاس یہ جاہل ہے لَا يَعْلَمُونَ ان کو نہیں پتہ وہ يَعْلَمُونَ والا جو ہے وہ اس کی ایک ضربت کا ثواب ثقلین کی عبادت سے بہتر ہے اور پھر بھی وہ کہتے ہیں زاد راہ تھوڑا ہے ۔ مسنگ
آگےایک حدیث ہے اس سلسلے میں لا یکون الرجل مومنا حتی یکون حائفا راجیا ولا یکون خائفا راجیا حتی یکون عالم لما یخاف و یرجو امام موسی کاظم عليه‌السلام سے یہ روایت ہے کہ انسان جو ہے وہ مومن نہیں ہو سکتا ہے جب تک وہ خائف اور امید رکھنے والا خوف کرنے والا اور امید رکھنے والا نہ ہو اور وہ لا یکون الرجل خائفا راجیا حتی یکون عالما وہ خوف رکھنے والا امید رکھنے والا نہیں ہو سکتا جب تک وہ عالم نہ ہو۔ یہاں عالم سے مراد جو ہمارا عرفی عالم نہیں ہے جس کو ہم مولانا ،حجۃ الاسلام وغیرہ کہتے ہیں یہ سوجھ بوجھ مذھبی سوجھ بوجھ رکھنے والا انسان وہ کسان ہے وہ زمیندار ہے وہ مزدور ہے وہ عام آدمی ہے لیکن عالم ہے وہ ، عالم یعنی راز بندگی کو جانتا ہے اس لئے وہ خائف اور راجی ہوتا ہے اس کے پاس علم ہے حتی یکون عالما لما یخاف و یرجو جس سے خوف کرنا ہے اس کا بھی اس کو علم ہے اور جس کی امید رکھنا ہے اس کا بھی اس کو علم حاصل ہے۔ دوسری حدیث میں فرمایا لا خیر فی العیش عالم مطاع او مستمع واع دو آدمیوں کے لئے نجات ہے ایک وہ عالم جو اطاعت گزار ہے اور دوسرا وہ سامع ، سامعین جو سمجھ رکھنے والا ہے واعی ایک آدمی جو بولتا ہے وہ عالم ہے اور دوسرا وہ سنتا ہے وہ سمجھدار ہے وہ واع ہے یہ بولنے والا عالم ہے اور سننے والا واع ہے یہ بولنے والا او رسننے والا دونوں کو نجات حاصل ہے۔ بولنے والا اگر اللہ رسول کی بات کرے تو، اپنی رائے فکر کی اور بات نہ کرے۔ ان دونوں کے لئے نجات ہے ان دونوں کے علاوہ جو ان میں نہیں آتا یہاں ایک مطلب ہے کہ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ کیا جاننے والے نہ جاننے والے کے برابر ہوسکتے ہیں؟ نہیں ہو سکتے ہیں۔ کس چیز کا جاننے والے کس چیز کا نا جاننے والے کا ذکر نہیں ہے؟ لہذا تمام علم اس میں آتا ہے جو انسان کی دنیا اور آخرت کے لئے مفید ہے علم کی تقسیم یہ استعمار نے کیا دینی و دنیاوی علم کی تقسیم اسلام میں یہ تقسیم نہیں ہے تمام علوم اسلامی تمام علوم دینی ہے جو انسان کی دنیا کے لے اور آخرت کے لئے مفید ہےیہ آیت شاہد ہے یہ نہیں کہا ھل یستوی الذین یعلمون الفقہ نہیں کہا یہ ایک چیز کا ذکر نہیں کیا اس لئے عمومیت ہوتی ہے تمام علم ، جاننا خود جاننا یہ انسان کے کردار ساز ہوتا ہے علم کردار ساز ہوتا ہے اورعلم سے انسان کو نجات ملتی ہے