تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیات 45 - 50

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ۖ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
سورہ زمر آیت 45، جب صرف اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل متنفر ہوجاتے ہیں ۔ صرف اللہ کے ذکر سے ان کے دل متنفر ہوتے ہیں اور جب اللہ کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ خوش ہوجاتے ہیں۔
ایک نہایت اہم علامت کا ذکر ہے اس آیت میں ایمان بالآخرت اور خدا کے ساتھ ایما ن اور تعلق جب صرف اللہ کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل متنفر ہوتے ہیں اور اس کے مقابلے میں جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ان کے بارے میں فرمایاأَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ذکر خدا سے دلوں میں اطمینان او رسکون آتا ہے۔ جو ایمان نہیں رکھتے ان کے دلوں میں اللہ کے ذکر سے اضطراب آتا ہے متنفر ہوتے ہیں وہ اس سے، او رجب غیر خدا کا ذکر آتا ہے تو پھر خوش ہوجاتے ہیں یہ ایمان بالآخرۃ نہ رکھنے والوں کے بارے میں فرمایالا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کا یہ حال ہوتا ہے؛ ذکر خدا سے وہ متنفر ہوتے ہیں اور اللہ کا ذکر سننا نہیں چاہتے جو ایمان بالآخرت ہے مومن ہے وہ ذکر خدا سے مطمئن ہوتے ہیں۔
ایمان بالآخرۃ ہمارے اصول دین میں سے ہے او رقرآن مجید میں کئی ہزار آیا ت ہیں آخر ت کے بارے میں کئی ہزار، سب سے زیادہ قرآن مجید میں جس چیز کا ذکر ہے وہ آخرت ہے، اور ہر عاقل کے سامنے بھی یہ بات ہے کہ آخرت جو وہ ابدی زندگی کا نام ہے اور دنیا جو ہے وہ چند زندگی کا نام ہے ۔ یہ دنیا کی زندگی گزر جاتی ہے ختم ہوتی ہے ختم، جب زندگی گزر جاتی ہے قبر کے دھانے پر انسان آجاتا ہے تو پھر وہاں امیر او رغریب سب کسی کو کوئی فر ق نہیں امیر کا بھی وقت گزر گیا ، گزر گیا ختم،کچھ نہیں اب غریب کا بھی وقت گزر گیا دونوں کا وقت گزر گیا مومن کا بھی وقت گزر گیا اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والے کا بھی یہ وقت تو گزر گیا آنے والا وقت گزرنے والا نہیں وہ ابدی ہے۔ ہر عاقل جو ہے وہ میں سنایا کرتا ہوں ہمیشہالمومن کیس مومن ہوشیار ہوتا ہے الکیس کیس الآخرۃ ہوشیاری آخرت کی ہوشیاری ہے ابدی زندگی کے لئے انسان سمجھدار او رہوشیار بنتا ہے تو سمجھداری ہے ہوشیاری ہے یہ چند دنوں کے لے یہ ہوشیاری نہیں ہے بے وقوفی ہے ۔
حدیث نبوی ہے عَلَامَۃُ حُبِّ اللہِ حُبُّ ذِکْرِہٖ وَ عَلَامَۃُ بُغْضِ اللہِ بُغْضُ ذِکْرِہٖ اللہ کی محبت کی علامت یہ ہے کہ ذکر خدا کو پسند کرے تو اللہ سے محبت رکھتا ہے اور اللہ سے بغض رکھنے کی علامت یہ ہے کہ اللہ کے ذکر کو پسند نہیں کرتا۔ انسا ن کی نیک بختی اور بد بختی کا پتہ یہاں پر چلتا ہے کہ اس کا تعلق اللہ سے کیا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کو زیر کرنے میں مزہ آتا ہے آپ کو معاذ اللہ خدا والے اللہ پر ایمان رکھنے والے اپنی بات نہیں کرتے اللہ کی بات کرتے ہیں اپنے رسول کی بات کرتے ہیں قُلِ اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ کہہ دیجئے اللہ آسمانوں او رزمین کا خالق، پوشیدہ ظاہر و باطن کا جاننے والے تو ہی اپنے بندوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ آسمان اور زمین کا خلق کرنے والا۔لفظفاطر آج کل کے دور میں یہ قابل توجہ لفظ ہے فطر خلق کے معنی میں ہے لیکن اس کا لغوی معنی شگاف، پھاڑنا۔ یہ جو آج کل دھماکہ کرتے ہیں یہ دھماکہ کے ساتھ لفظ فاطر بہت نزدیک ہے۔ ہم سائنسی تھیسز کی بنیاد پر قرآن کی تفسیر کے قائل نہیں ہیں لیکن ہم سائنسی تھیسز کا ذکر کرتے ہیں نہ قرآنی تفسیر کے حوالے سے بلکہ ایک معلومات کے حوالے سے قرآن کی تعبیر یہ ہے سائنس کی تعبیر یہ ہے دونوں میں تضاد ہے تصادم ہے؟ نہیں، تصادم نہیں ہے یہ کہتے ہیں ہم۔ یہ نہیں کہتے ہیں کہ یہ جو سائنس والے کہتے ہیں دھماکہ ہوا ہے فاطر سے مراد دھماکہ ہے اللہ فرماتا ہےلِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ حضرت عباس جن کو حبر امت کہا جاتا ہے امت کا عالم ملا، وہ فرماتے ہیں ہیں کہ میں فاطر کا معنی نہیں سمجھ رہا تھا اچھی طرح دو عرب بدھو آئے کسی کنویں میں اختلاف کرتے تھے وہ ۔ وہ کہتا تھا کہ پہلے میں نے کھودا ہے اس کو دوسرا کہتا تھا کہ نہیں انا فطرتہایہ کہتا تھاانا فطرتہا ابن عباس کہتے ہیں اس دن میں سمجھ گیا کہ فطر کسے کہتے ہیں، چیرنے ، بھاڑنے والے اور کھودنے، سب سے پہلے میں نے اس میں فاطر میں سب سے پہلے بھی ہے انا فطرتہا
قُلِ اللَّهُمَّ آپ کہہ دیں ان کے مقابلے میں جو ذکر خدا سے متنفر ہوجاتے ہیں چہرے بگڑ جاتے ہیں ان سے کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں او رزمین کا خالق ہے وہ عالم الغیب و الشھادۃ ہے أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ اورتو ہی فیصلہ کرتا ہے لوگوں کے درمیان میں جن میں اختلاف کرتےہیں فیصلہ کا دن آنے والا ہے قیامت کے دن تمام اختلافات کا فیصلہ ہوجائےگا۔ حضرت امام جعفر صادق عليه‌السلام سے ایک روایت ہے اس میں فرمایا ھَلِ الدِّیْنُ اِلَّا الْحُبُّ کیا دین محبت کے علاوہ کسی اور چیز کا نام ہے؟ دین محبت ہے، اللہ پر ایمان ہے تو اللہ سے محبت ہے اللہ سے محبت نہیں ہے وہ مومن جو ہے اشد حباللہ ہوتا ہے زیادہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے۔ ہم رسول سے محبت کرتے ہیں وہ عبد اللہ کا بیٹا ہونے کی وجہ سے کرتے ہیں بنی ہاشم کا فرد ہونے کی وجہ سے کرتے ہیں؟ اللہ کا چہیتا ہے ، حبیب خدا ہے ، میرے رب کا حبیب، میرے رب کی طرف سے پیغام پہنچانے والا ہےہم کو جو سعادت دی ہے اس زندگی میں ہم موجود ہے یہ میرے رسول کی طرف سے ہے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا کر۔ رسول سے ہم محبت کرتے ہیں اللہ کی طرف سے ہم پر اللہ کی رحمتیں ہم پر نازل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ بنا ہے ۔ اللہ کی وجہ سے رسول سے محبت کرتے ہیں وہ اللہ کا رسول ہے، رسول اللہ۔ علی عليه‌السلام سے محبت کرتے ہیں وہ اللہ کا ولی ہے وہ رسول کا وصی ہے ۔ اللہ کے ساتھ مربوط ہونے کی وجہ سے ان سب کو ہم چاہتے ہیں دل و جان سے چاہتے ہیں ھَلِ الدِّیْنُ اِلَّا الْحُبُّ،وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ایمان والے اللہ کی محبت رکھتے ہیں ۔ اس کو ذھن میں رکھو ہمیشہ اپنا محاسبہ کرو۔ کیا ہمارے دل میں اللہ کی محبت ہے یا نہیں ہے، اپنے ایمان کا وزن کرو حب خدا دل میں ہے یا نہیں ہے؟
وَلَوْ أَنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ مِنْ سُوءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ وَبَدَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ
اور اگر ظالموں کے پاس وہ سب دولت موجود ہو جو زمین میں ہے اور اتنی مزید بھی ہو تو قیامت کے دن برے عذاب سے بچنے کے لئے وہ اسے فدیہ کے لئے دینے کے لے آمادہ ہوجائیں گے اور اللہ کی طرف سے وہ امر ان پر ظاہر ہو کر رہے گا جس کا انہوں نے خیال بھی نہیں کیا تھا۔ لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ
کل قیامت کے دن کا جو ہولناک صورت حال سامنے آجائے گی تو ظلموا جن لوگوں نے اپنے ساتھ زیادتی کی ہے اپنے ساتھ زیادتی کرنے والے عذاب کا مستحق ٹھہرنے والے، قیامت کے دن جب عذاب کو دیکھ لیں گے مِنْ سُوءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قیامت کے دن کے عذاب کی بری حالت دیکھ کر یہ لوگ اگر پوری روئے زمین کا مالک ہوجائےوَمِثْلَهُ مَعَهُ اور یہ دوگنا بھی ہوجائے روئے زمین کے جتنے خزائے ہیں اور یہ دوگنا اس کے مالک ہوجائے تو اسے عذاب سے بچنے کے لئے سب کو اپنے فدیہ میں دینے کے لئے آمادہ ہوجائتے ہیں ۔ دنیا میں دوٹکہ دینے کے لے آمادہ نہیں ہوجاتے قیامت کے دن ساری دنیا اور اس کے اوپر اور ایک دنیا بھی اس کومل جائے تو فدیہ دینے کے لئے آمادہ ہے اس عذاب کو دیکھ کر ۔ لَافْتَدَوْا بِهِ مِنْ سُوءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَبَدَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ اور قیامت کے دن جب ان کے سامنے وہ عذاب آئے گا وہ صورت حال آئے گی جس کا انہوں نے گمان تک نہیں کیا تھا سوچا نہیں تھا کہ عذاب کا یہ حال ہوگا یہ عالم ہوگا۔ ہمارابھی وہ ہے کہ ہم جب صورت حال کا مقابلہ کریں گے تو ایسی صورت حال کا مقابلہ ہوگا جس کا ابھی ہم نے خیال نہیں کیا اور جنت جانے والوں کا بھی یہی حال ہے۔ جنت جانے والے اتنی نعمتوں کو دیکھیں گے جن کا انہوں نے خیال تک نہیں کیا تھا سوچا بھی نہیں تھا۔ قرآن میں ہے نا ان کے لئے وہ کچھ ہے جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس مزید بھی بھی ولدینا مزید نہ کسی دل کے خطور کیا نہ کسی آنکھ نے دیکھاوہ نعمتیں جو ہیں وہ جنت میں موجود ہیں اور ادھر عذاب کا بھی یہی حال ہے سوچا بھی نہیں تھا کہ ہولناک عذاب ہوگا۔ بَدَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ
وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ
اور ان کی بری کمائی بھی ان پر ظاہر ہوجائے گی اور جس بات کی وہ ہنسی اڑاتے تھے وہ انہیں گیر لے گی۔وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا آ پ کو بتاتا رہتا ہوں کہ انسان کے اعمال جو ہیں وہ اس صفحہ کائنات میں محفوظ ہیں اور کل قیامت کے دن وہ اپنے عمل کو دیکھیں گے۔ قرآنی آیت میں ہے کہ تمہارا عمل حاضر کیا جائے گااور بعض تعبیرات میں ہے تم اپنے عمل کودیکھیں گے زرہ برابر بھی ہو پھر بھی دیکھیں گے ۔ یہاں پر فرمایا وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ کتنا برا ہے وہ پتہ چل جائے گا۔ اخ اخ یہ کیا تھا میں نے دنیا میں پریشان ہوجائیں گے یار میں نے کیا کیا تھا۔ اور وہ مزاح بھی تو اڑاتے تھے قیامت کے بارے میں انبیاء قیامت کا ذکر کرتے تھے تو مذاق اڑاتے تھے ہم مٹی ہوجانے کے بعد خاک ہوجانے کے بعد پھر دوبارہ زندہ ہوجائیں گے اگر تمہاری بات صحیح ہے تو ہمارے آباء و اجداد کو زندہ کر کے دکھاو ۔ مذاق اڑاتے تھے ہنستے تھے اس بات پر کہاں قیامت ہے ؟ قیامت کے اوپر ان کا ایمان نہیں تھا مذاق اڑاتے تھے۔ ہم بھی زیادہ خوش نہ ہو ں کہ ہم قیامت پر ایمان رکھتے ہیں، مشرکین اور ہمارے درمیان میں فرق یہ ہے کہ مشرکین قیامت کے منکر تھے ہم منکر نہیں ہیں بس۔ قیامت ہے ؟ جی ہے قیامت ہے نہیں ہے؟ جی ہے منکر نہیں ہے ہاںاسلم اسلام ہے قبول کرتے ہیں ایمان؟ بہت دور۔ تسلیم کرتے ہیں قیامت کو انکار نہیں کرتے لیکن قیامت پر ایمان نہیں ہے بلکہ الٹا ایک عجیب و غریب غلط فہمی میں مبتلا ہے کیونکہ ہمارا مذھب حق ہے ہمیں تو کوئی پروا نہیں کوئی فکر نہیں کیوں فکر نہیں؟ ہمارا مذھب حق ہے۔ سمجھدار، تمہارا مذھب حق ہونا تمہاری لئے اس وقت فائدہ دیتا ہے جب تو اس مذھب کا پابند ہو۔ تمہارا طبیب ہازق ہے اس وقت پتہ چلتا ہے جب تم نے اس سے علاج لیاہو تو پتہ چلتا ہے وہ تمہارا طبیب ہاز ق ہے یا ماہر ہے یا نہیں ہے۔ تم نے اس سے علاج لیا ہی نہیں ہے کہ وہ بہت بڑا ہاز ق ہے ماہر ہے وہ ماہر ہے یا نہیں ہے تجھ سے کیا ربط ہے؟ تم نے تو اس سے علاج لیا ہی نہیں ہے نہ لیتا ہے۔کوئی تعلق نہیں ہے وہ ہازق ہے ماہر ہے کوئی تعلق نہیں ہے مذھب صحیح ہے غلط ہے کیا ہے تم سے کیا ربط ہے؟ اسلام دیگر ادیان میں بہترین مذھب ہے، میں مسلمان ہوں میرے لئے کیا فکر ہے میں مسلمان ہوں میں میرے لئے کیا فکر ہے میں مسلمان ہوں میں تو اسلام پر عمل کرتا ہے تو تیرے لئے کوئی فکر نہیں ہے ورنہ تم میں اور باقی مذاھب میں کیا فرق ہے وہ بھی اسلام پر عمل نہیں کرتے ۔قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ اعراب، یہ بدھو صحرا نشین لے آئیں آپ کہہ دیجئے نہیں ایمان نہیں کہہ دو اسلام لے آئیں ہیں ہاں کیا ہے انکا رکرنا ختم کیا ہے ہاں کر دیا طہے ابھی تمہارے دلوں میں ہنوز داخل نہیں ہوا۔
ایمان بالاخرۃجو ہے تقدیر ساز ہے سیرت کے اوپر جو ہے ایمان بالقیامت کا بہت بڑا، انبیاء اور ائمہ لرزتے تھے قیامت کے ذکر سے جبکہ ان کو پتہ تھا کہ وہ دوسروں کی شفاعت کرنے والے تھے پھر بھی لرزتے تھے پھر بھی ڈرتے تھے۔ابراہیم عليه‌السلام خلیل اللہ یہ دعا کرتے تھےوَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ اے اللہ مجھے اس دن رسوا نہ کر جب لوگوں کو اٹھائے جائیں گے۔ ابراہیم عليه‌السلام بت شکن ابو الانبیاء، آپ کو خوف ہے کہ رسواہوجائے قیامت کے دن۔ اور امام زین العابدین عليه‌السلام فرماتے ہیں وَلاَ تَفْضَحْنِی بَیْنَ یَدَیْ اَوْلِیَائِکَ اپنے اولیاء کے درمیان میں مجھے رسوا نہ کر۔ آپ سید الساجدین ہیں، آپ زین العابدین ہیں، آپ کو رسوائی کا خطرہ ؟ نہیں بَیْنَ یَدَیْ اَوْلِیَائِکَ انبیاء، اولوالعزم پیغمبران اور اللہ کے اولیاء کےدرمیان میں میرا کم درجہ ہو تو یہ میرے لئے فضیعت ہے ، جبکہ روایت ہے کہ قیامت کے دن سید الساجدین اٹھو، تو انبیاء اپنے صفوں میں دیکھیں گے فرشتے اپنے صفوں میں دیکھیں گے ، اتنے میں علی ابن حسین علیھما السلام اٹھیں گے۔یہ ہستی فرماتی ہے وَلاَ تَفْضَحْنِی بَیْنَ یَدَیْ اَوْلِیَائِکَ اپنے اولیاء کے درمیان مجھے رسوانہ کر یہ ہے ایمان۔وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ اور جس چیز کا یہ مذا ق اڑاتے تھے اس نے انہیں گیر لیا ، قیامت کے بارے میں مذاق اڑاتے تھے اور قیامت نے ان کو گیر لیا۔
فَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ۚ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اپنی طرف سے اسے نعمت سے نوازتے ہیں تو کہتا ہے یہ تو مجھے صرف علم ومہارت کی بنیاد پر ملی ہے ، اپنی مہارت نہیں بلکہ یہ ایک آزمائش ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے ۔
پہلے بھی اس سلسلے میں بہت سی آیات ہیں کہ انسان کے اوپر وقت آتا ہے مصیبت آتی ہے تو خدا یاد آتا ہے اور جب مال دولت مل جاتی ہے تو پھر خدا بھول جاتا ہے یہ مال و دولت اللہ نے دیا نہیں یہ میری اپنی مہارت ہے میرے پشتوں کا تجربہ ہے اور میں نے اپنی محبت سے بنایا ہے ، اپنی مہارت سے بنایا ہے اپنے تجربات سے میں نے بنایا ہے یہ دولت، اللہ نے دیا ہے؟ نہیں میں نے اپنی مہارت سے بنائی ہے۔ قَدْ قَالَهَا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ تم سے پہلے والوں نے بھی یہی کہا تھا۔ قارون نے بھی یہی کہا تھاکہ یہ میں نے اپنی مہارت سے بنایا ہے۔ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ بلکہ یہ مال و دولت تم کو جو ملی ہے تمہاری مہارت سے نہیں ہے یہ فتنہ ہے آزمائش ہے۔ کچھ لوگوں کو دولت دے کر آزمائش کرتا ہے اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو فقر و تنگ دستی میں اور غربت میں رکھ کر آزمائش کرتا ہے لیکن فقر و تنگ دستی میں آزمائش جو ہے آسان ہے دولت دے کر آزمائش کرنے سے مشکل ہے دولت مندی میں انسان گمراہ ہو ہی جاتا ہے اکثر و بیشتر۔