تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیات 42 - 44

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
سورہ زمر آیت 42، موت کے وقت اللہ روحوں کو قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا اس کی روح نیند میں قبض لیتا ہے، پھر جس کی موت کا فیصلہ کر چکا ہوتا ہے اسے روکتا ہے اور دوسری کو ایک وقت کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ فکر کرنے والوں کے لئے اس میں نشانیاں ہیں۔
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ خدا روحوں کو قبض کرتا ہے انفس کے بارے میں گفتگو ہوگئی۔ انسان جب سوتا ہے تو روح اور جسم کا رابطہ کمزور ہوتا ہے ختم نہیں ہوتا رابطہ ختم نہیں ہوتا، رابطہ کمزور ہوتا ہے۔ جب جسم اور روح کا رابطہ کمزور ہوتا ہے تو روح ایک مستقل حقیقت ہے، روح غیر مادی ہے اور روح اور جسم میں ایک قسم کا رشتہ ہے وہ عینیت ہے دیگر نہیں ہے جسم مادی ہے روح غیر مادی ہے ابھی آپ کو بتائیں گے کہ روح مستقل چیز ہے اور روح غیر مادی ہے ۔ غیر مادی روح جسم کے اندر جب ہوتی ہے تو اس کو جسم کے ذریعے کام کرنا ہوتا ہے آزاد نہیں ہےوہ آنکھوں سے ذریعے دیکھ سکتی ہے، کانوں کے ذریعے سن سکتی ہے وغیرہ۔ جب روح تھوڑی سی آزاد ہوتی ہے اس جسم سے تو اس کو آنکھ کی ضرورت نہیں ہوتی دیکھنے کے لئے، سننے کے لئے کان کی ضرورت نہیں ہوتی، پاوں کی ضرورت نہیں ہوتی چلنے کے لئے جب انسان سوتا ہے۔ آیت میں فرمایا کہ انسان کو اگر مرنا ہے تو پھر روح قبض کرتا ہے جدا کرتا ہے اس کوروک کے رکھتا ہے تو پھر مر جاتا ہے ۔ اور پھر حالت خواب میں ہے اس کو موت نہیں دینا ہے تو اس کو چھوڑ دیتا ہے ایک مدت کے لئے۔ اس کو مطلب یہ ہے خواب میں روح قبض ہوتا ہے خواب میں، چنانچہ ہم دیکھتےہیں کہ انسان خواب دیکھتے ہیں خواب میں بغیر ان آنکھوں کے دیکھنا شروع کرتی ہے روح، بغیر ان آنکھوں کے سننا شروع کرتی ہے، بغیر ان آنکھوں کے چلنا پھرنا شروع کرتی ہے پھر روح جسم سے آزاد ہونے کے بعد غیر زمانی ہوجاتی ہے یہ قابل توجہ ہے۔
روح مستقل چیز ہے،مادی نہیں ہے جب غیر مادی ہے تو غیر زمانی بھی ہے تو پھر زمانی نہیں ہےچنانچہ آپ کو خواب میں نظر آتا ہے آئندہ آنے والے واقعات ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئے، لیکن خواب میں آپ دیکھ لیتے ہیں اس کو اور پھر عالم بیداری میں عینا اسی طرح واقع ہوجاتا ہے جیسا آپ نے خواب میں دیکھا ہے اس قسم کے ہزاروں مثالیں اپنی زندگی میں بھی کونسا شخص ہے جس نے اپنی زندگی میں آنے والے واقعات کا کچھ نہ کچھ حصہ نہ دیکھا ہو؟ ہزاروں واقعات ہیں وہ آئندہ آنے والا زمانہ پہلے دیکھ لیتا وہ غیر زمانی ہوجاتی وہ روح ۔ یہ خواب جو ہے یہ دلیل ہے کہ روح ایک مستقل چیز ہے اور وروح غیر زمانی ہے۔ روح کے بارے میں کہ روح کیا چیز ہے ؟ اس کو ایک سربستہ راز کے طور پر لیا گیا کوئی اس کو نہیں سمجھ سکتا ہے قرآن میں بھی وَ یَسۡئَلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ لوگ آپ کے بارے میں یہ سورہ اسراء میں بنی اسرائیل میں اس کی تفسیر ہوگئی اس میں فرمایا کہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دیجئے کہ روح امر الہی ہے ۔
علماء فرماتے ہیں کہ ایک عالم خلق ہے ایک عالم امر ہے ۔ عالم خلق تدریجی ہوتا ہے عالم امر غیر زمانی ہوتا ہےوَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِچشم زدن ایک مثال ہے ہم کو سمجھانے کے لئے ورنہ چشم زدن بھی زمانی ہے لیکن لَمْحٍ چشم زدن کی طرح عینا چشم زدن پھر بھی نہیں ہے ۔عالم امری جو ہے وہ غیر زمانی ہوا کرتا ہے روح قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّ روح کا تعلق عالم امر سے ہے وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلً تم نہیں سمجھ سکتے ہیں کی روح کی حقیقت کیا چیز ہے؟ عالم امری کو تم کیا سمجھتے ہیں عالم ناسوت میں رہنے والے لوگ ناسوت فزیکل کو کہتے ہیں۔ فزیکل دنیا میں ، مادی دنیا کے رہنے والے لوگ عالم امر کو نہیں سمجھ سکتے ہیں یہ قابل بیان نہیں ہے تمہارے لئے۔
روح کے بارے میں دنیا والون کو بھی نہیں پتہ چلتا تھا کہ روح کیا چیز ہے صدر الدین شیرازی جو فیلسوف گزرے ہیں ہمارا ان کی ایک تعبیر ہے یہ سائنسدانوں سے پہلے وہ فرماتے تھے کہ روح مادی کی ترقی کا آخری پھول ہے یا پھل ہے، مادہ ترقی کرتا ہےآخر میں جو پھول رہتا ہے وہ روح ہے پھر مستقل ہو جاتا ہے یہ انہوں نے فرمایا۔ سن 2000 میں آج سے 19 سال پہلے سن 2000 میں سائنسی دنیا میں ایک انکشاف ہوا اور اس کا آب و تاب سے ساتھ اعلان ہواتھا کہ روح کو سمجھنے میں سائنسدانوں کو ایک مدد مل گئی، وہ یہ کہ انسان کے ڈی این اے میں سرچ کیا لوگوں نے تحقیق کی اور پھر دیکھا انسان کے ڈی این اے کے اندر ایک لڑی ہے اس میں کچھ سالمے جو ہیں وہ پروئے ہوئے ہیں دانوں کی طرح، سائنسدانوں نے دیکھا کہ ڈی این اے کے اندر وہ جو سالمے ہیں ان کی تعداد ہے تین ارب، تین ارب سالمے آپس میں منظم طریقے سے مربوط ہونے کے بعد حیات کی کرن کہا جاتا ہے، ڈی این اے میں موجود تین ارب سالموں کی منظم ترتیب کے ساتھ آنے کے بعد حیات کی کرنٹ آجاتی ہے زندگی شروع ہوجاتی ہے یہ معلوم ہوا۔
اس کے معلوم ہونے کے بعد ہم ایک بیان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اللہ کے وجود پر ایک استدلال کرتے ہیں اسی سے اس انکشاف کے بعد، آپ طالب علم لوگ اس چیز کو وصول کریں لیں لیں ، آپ کل الحادی نظریات جو ہیں وہ پھیل رہے ہیں خدا کا انکار ہونا شروع ہوگیا ہے کافی دیر سے شروع ہواہے لیکن سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ جو ہے وہ دین کا پلڑا بھاری ہوتا جارہا ہے اور آپ لوگ آجائیں اس سائنسی موضوعات کے اوپر تحقیق کریں ریسریچ کریں، سائنسی تحقیقات کی روشنی میں دین کا پلڑا بھاری ہوتا جارہا ہے بہر حال یہاں بھی یہ ہو گیا کہ تین ارب سالمے جب مربوط منظم طریقے سےترتیب میں آتے ہیں تو روح کی کرنٹ آجاتی ہے اس میں خالق کے اوپر ایک یقینی دلیل موجود ہے پہلے بھی ذکر کیا کرتا ہوں کہ اگر یہ اتفاقا وجود میں آیا ہے تو پھر یہاں پر یہ بات ممکن نہیں ہے اتفاق کے لئے۔ آپ کو بتایا تھا کہ تین ٹوکن جو ہے وہ جیب میں ڈالو پھر اس کو نکالو اتفاقا ایک اس میں سے ہرایک کے اوپر دس ٹوکن نمبر لکھو ایک سے لے کر دس تک جیب میں ڈالو ، اس کو ملاو پھر ایک ٹوکن نکالو اتفاق سے پہلا ٹوکن آنے میں دس میں سے ایک امکان ہے پھر اس کو دوبارہ جیب میں ڈالو پھر ملاو اور پھر نکالو اتفاقا دوسرا نمبر آنے کے لئے سو میں سے ایک ہے اسی طرح جیب میں ڈالو پھر ملاو،پھر نکالو اتفاقا تیسرا نمبر نکل آنے میں ہزار میں سے ایک ہے یہ دس دس میں ضرب کھاتا جاتا ہےپھر ایک ارب میں سے ایک ہوتا ہے ایک سے لے دس تک ترتیب میں آنے کے لئے ، اور دس ارب میں سے ایک اتفاق کو ملتا ہے جو صفر ہے اتفاق کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے دس ٹوکن کے اتفاقا ترتیب میں آنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کو ذہن میں بٹھاو،دس ٹوکن یار صرف دس ٹوکنی یہاں ڈی این اے میں تین ارب ٹوکن ہیں وہ تین ارب ٹوکن منظم طریقے سے ترتیب میں آنے کی وجہ سے ایک دو آگے پیچھے ہوا تو روح وجود میں نہیں آئے گی۔ منظم طریقے سے ترتیب میں آنے سے روح وجود میں آجاتی ہے۔
اب ہم آتے ہیں کہ روح غیر مادی ہے روح غیر مادی ہونے پر ایک دلیل ہے ہمارا ارادہ ۔ ارادہ کس کا کام ہے کس کا مال ہے؟ ارادہ روح کامال ہے ارادہ کرنے والا روح ہے ۔آپ ارادہ کرتے ہیں دس میل چلنے کا اس کے لئے ارادہ کرتے ہیں اور سو میل چلتے کا ارادہ کرتے ہیں دس میل، یا ایک میل چلنے کا ارادہ کرتے ہیں اس کے لئے چھوٹا سا ارادہ سو میل کے لئے بڑا سا ارادہ وہ چھوٹا بڑا نہیں ہوتا سرکار ، ارادہ ہوتا ہے بس بڑا ہو چھوٹا ہے سو میل ہو ہزار میل ہو ایک میل ہو ارادے کو فرق نہیں کرتا ہے پھر یہ جو میل ہےوہ مادی وہ اور ہے ارادہ غیر مادی ہے اس کے لئے فرق نہیں کرتا کہ آپ ایک میل کا ارادہ کرے اور سو میل کا ارادہ کرے ارادہ ارادہ ایک ہوتا ہے۔ سو میل کے لئے لمبا چوڑا ارادہ اور اس کے لئے چھوٹا ارادہ، ارادہ ہوتا ہے۔ ایک چیز، دوسری چیز آپ کا جسم جو ہے وہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے بتایا ہے آپ کو کئی بار آپ کے سیل گرتے ہیں بنتے ہیں گرتے ہیں بنتے ہیں۔ ایک شہر ہے اس شہر میں گھر جو ہے بوسیدہ ہوتے ہیں گھر گر جاتے ہیں پھر دوبارہ بنتے ہیں یا گراتے ہیں دوبارہ بناتے ہیں پھر سو سال میں وہ شہر تبدیل ہو جاتا ہے۔ فرض کریں سو سال میں دو سو سال میں پورا شہر بدل جاتا ہے، ہمارا جسم کا شہر جو ہے وہ ہمارے جو بنیاد ہے سیل، سیل گرتے ہیں بنتے رہتے ہیں سات سال میں پورا جسم بدل جاتا ہے سات سال میں آپ کا موجودہ جسم نہیں ہے سات سال پہلے آپ کو ہاتھ یہ ہاتھ نہیں ہے اور تھا وہ چلا گیا کوئی اور آیا ہے۔ میں نے تو نہیں دیکھا آتے ہوئےجاتے ہوئے؟ جی آپ نے نہیں دیکھا لیکن آپ کے سیل جو ہے مرتے ہیں بنتے مرتے بنتے ہیں اس طرح آپ کا پورا جود چلا گیا ایک اور وجود آگیا وہ کون؟ مادہ ہے لیکن آپ کی روح آپ حاجی قاسم ہے نا؟ وہی حاجی قاسم ہے حاجی شیر علی ہے؟ تو وہی حاجی شیر علی ہے سات سال پہلے کا کوئی تبدیل نہیں ہے۔
اگر آپ نے، کسی زمانے میں مارکس کے خلاف مارکسیزم کا دور دورہ تھا اس زمانے میں روشن خیالی کا جو ہے نعرہ ہوتا ہے سوشلزم ، اشتراکیت وہ روشن خیالی کی علامت ہوتی تھی اس زمانے میں میں کہتا تھا کہ اے سوشلزم والو، وہ کہتے تھے مادے کے علاوہ کچھ نہیں ہےسو فیصد مادہ ہے کوئی روح موح روح بھی مادہ ہے اچھا مارکسزم والا،آپ سے میں نے ایک لاکھ روپیہ آٹھ سال پہلے لیا آٹھ سال بعد آپ میرے پاس آئے کہ میرا ایک لاکھ روپیہ دے دو، میں مارکس کی روح کی قسم کھا تا ہوں ان ہاتھوں نے تمہارا پیسہ نہیں لیا جن ہاتھوں نے پیسہ لیا تھا وہ نکل گیا ہے جاو واپس۔ جو بدلتا ہے وہ مادہ ہے اور جو نہیں بدلتا ہے وہ غیر مادی ہے حاجی شیر علی غیر مادی ہے جو نہیں بدلا، اور جو بدل گیا وہ مادی ہے جسم جو ہے وہ ظرف ہے اس کے لئے۔
تیسری بات آپ گفتگو کر رہےہوتے ہیں ایک صاحب آپ کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں آپ متوجہ ہوگئے کسی عجیب چیزکی طرف، یار یہ کیا چیز ہے؟ پورا ہمہ تن جو ہے وہ اس کی طرف متوجہ ہوگیا اور یہ بات کر رہاہے صاحب صاحب بات سنیں نہیں سنتے آپ، یہ باتیں کر رہا ہے اور اپ نہیں سن رہے ہیں چونکہ آپ کی روح ادھر متوجہ ہے اور وہ بہت عجیب غریب چیز آپ دیکھ رہے ہیں اور ہمہ تن وہ نظر ہو کر کے آپ دیکھ رہے ہیں اس کی بات نہیں سنیں گے سنے والی روح ہے، روح ادھر متوجہ ہے۔ یہ آپ کی آواز میری کانوں سے ٹکرا رہی ہے میرے کانوں میں جو پردہ ہے اس میں رعشہ آتا ہےوہ رعشہ سے آگے جو نصیں جاتی ہیں دماغ تک وہ سارا کام ہوگیا وہ آپ کی آواز کی لہر آگئی وہ لہر نے میرے پردے کے کان کو ہلادیا میرے پردے کے کان نے اس رگ کو ہلا دیا جو دماغ کی طرف جاتا ہے اور دماغ نے سن لیا۔ یہ کام ہوگیا اس کی آوز نے لہروں میں ٹکرا دیا، لہروں نے میرے کان کے پردے کو ٹکرا دیا اور اس نے نص کو ٹکرا دیا اور دماغ تک جو ہے وہ آوز پہنچ گئی لیکن دماغ نے سنی ان سنی کر دی، کچھ نہیں پتہ چلا دماغ کو سارا مادی کام ہوگیا لیکن دماغ چونکہ اس میں دیکھ کر کے حیران تعجب میں ہے اس کی بات نہیں سنتا ۔ اور بھی دلائل ہے کہ روح ایک مستقل چیز ہے، روح کا تعلق عالم امری سے روح غیر مادی ہے اور روح جو ہے اس دنیا میں ہے تو اس بدن میں ہے اب سے پہلے عالم زر میں ایک بدن میں ایک قسم کا بدن ہوتا ہےروح کے لئے عالم زر ہے نا، ہماری ارواح جو ہیں دو ہزار سال پہلے خلق ہو چکی ہوتی ہے پھر اس کے بعد وہ ہمارے جسم میں داخل ہوتی ہےپھر وہ اس عنصر میں داخل ہوتی ہے۔ یہاں سے نکلنے کے بعد عالم برزخ میں ایک قسم کے بر زخی جسم ہوتے ہیں اس میں داخل ہوتے ہیں اور عالم آخرت میں جب قیامت ہوتی ہےپھر دوبارہ یہی عنصر مادی عنصر جو ہے دوبارہ تخلیق ہوتی ہے پھر اس میں روح داخل کر کے حشر و نشر ہوتا ہے پھر اس کے بعدآخر تک اسی جسم کے اندر اور عالم آخرت کے قانون زندگی قانون زیست کیا ہے ہم کو نہیں پتہ۔ بہر حال روح جسم کے ساتھ روح مدیر و مدبر ہے اور جسم روح کے اندر جو ہے و ہ استعمال ہوتا ہےاس کا نوکر ہے روح کا نوکر ہے میرا ہاتھ میری روح کا نوکر ہے روح جو چاہتی ہے وہ میرا ہاتھ کرتا ہےاس کی خدمت کرتا ہے۔
إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ اس میں یہ جو روح کا واپس آنا واپس نہ آنا واپس نہ آئے تو موت ہے اور واپس آجائے تو نیند ہے اس میں یہ جو روح اور جسم کا جو تعلق ہے اس میں صاحبان فکر کے لے آیات ایک آیت نہیں آیات ہیں اللہ کی نشانیا ں ہیں۔ قرآن مجید کی بہت سی جگہوں پر آیات، آیات، آیات، کس چیز کی آیت اللہ کے وجود کی آیات۔ اگر ملحدکے مقابلے میں بات ہورہی ہے تو اللہ کے وجو د کی آیات اگر ایک مشرک کے مقابلے میں ہورہی تو آللہ کے تدبیری آیات یہ اللہ کی تدبیری آیا ت ہیں۔اس کو خیال رکھو ہمیشہ قرآن پڑھتے ہوئے آیات، آیات إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ فکر کرنے والوں کے لئے اس میں آیات، کس چیز کی آیات؟ اس چیز کی آیت کہ مدبر اللہ ہے۔ آپ کو بتایا کہ مشرکین خالق تو اللہ ہی کو مانتے تھے مدبر اللہ کو نہیں مانتے تھے اللہ تعالیٰ قرآن میں جابجا استدلال کرتا ہے کہ اللہ ہی خالق ہے اور اللہ ہی مدبر ہے ۔ آپ کو بتایا کہ بار بار خلق اور تدبیر قابل انفکاک افتراق نہیں ہے خالق ہی مدبر ہے خالق نے جس طرح خلق کیا ہے اسی کے اندر تدبیر ہے جدا نہیں ہے۔
أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ شُفَعَاءَ ۚ قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ کیا انہوں نے اللہ کے سوا اورں کو شفیع بنایا ہے کہہ دیجئے کہ خواہ وہ کسی چیز کا اختیار نہ رکھتے ہو اور نہ ہی کچھ سمجھتے ہو تب بھی وہ شفیع ہے اللہ کے ساتھ شفاعت کریں گے کون؟ وہ پتھر ، کتنی حماقت ہے کتنی بے وقوفی ہے ، یہ جو پوجا کرتے ہیں بتوں یہ شفاعت کریں گے اللہ تعالی، قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا کوئی کسی چیز کا یہ لوگ پر اختیار نہیں ہے ان کا بس چلتا، لَا يَمْلِكُونَ کسی کے اوپر ان کا بس نہیں چلتا مالک نہیں ہے تصرف نہیں کر سکتا جامد ہے اور عقل بھی نہیں ہےہو ش وحواس ادراک بھی نہیں ہے ان کی حفاظت کرنے کے لئے یہ جو بت ہے تمہارا معبود ہے معبودوں کی حفاظت کون کرتے ہیں؟ تم خود کرتے ہو اپنے معبود کی حفاظت وہ تمہارے حفاظت کے محتاج ہے اور جو تمہارا محتاج ہے وہ اللہ کے پاس تمہاری سفارش کرے کیا عقل نہیں کرتے ؟
قُلْ لِلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا ۖ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ کہہ دیجئے کہ ساری شفاعت اللہ کے اختیار میں ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کی ہے پھر تم اسی کی طرف پلٹائے جاو گے۔شفاعت اللہ کے پاس ہے اللہ جس کو چاہے شفاعت کا حق دے جس کو چاہے نہ دے وہ کسی اور کے پاس نہیں ہے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور سے کچھ حاصل نہیں کر سکو گے۔ اللہ تعالیٰ یہ شفاعت جو ہے اللہ کے پاس ہے یہ کسی کو اللہ تعالیٰ یہ شفاعت کا حق دیتا ہے تو اس کو شفاعت کا حق مل جاتا ہے خود اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اللہ کس کو شفاعت کا حق دیتا ہے؟ پہلےجو اللہ کی طرف سے اذن حاصل ہو شفاعت کرنے کی اجازت اللہ دے دے اذن دے دے پھر وہ آگے شفاعت کر سکتے ہیں وا لا نہ۔ اور دوسرا یہ ہے کہ وہ بھی اس شخص کی شفاعت کر سکتے ہیں وہ پسندیدہ ہے لَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَىٰ ہر کسی کی شفاعت نہیں ہو سکتی صرف اس کی شفاعت ہو سکتی ہے جو اللہ کا پسندیدہ ہے۔ پسندیدہ ہونا ہوتا ہے یہ شفاعت کا اہل ہے یہ شخص شفاعت کا اہل ہے یہ ہستی شفاعت کرنے کا اہل ہے شفاعت کرنے کا اہل اللہ کی اجازت سے ہوتا ہے اور شفاعت لینے کا اہل جو ہے وہ اللہ کا پسندیدہ بندہ ہونے کی وجہ سےاس کو شفاعت ملتی ہے۔
لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ پوری کائنات کے اوپر اللہ کی بادشاہت ہے اللہ کی گرفت ہے تم غیر اللہ کے پاس کیا لینے جاتے ہو؟ قیامت کے دن شفاعت دینا بھی اللہ تعالیٰ کے اختیا رمیں ہے،اللہ جس کو حق دے شفاعت کا وہ شفاعت کر سکتے ہیں۔ہمارے پاس الحمد للہ بہت سے شافعین ہیں۔ احادیث میں ہے ہمارے ائمہ علیھم السلام نے فرمایا: ہم شفاعت کریں گے شفاعت کریں گے لگتا ہے شفاعت کا سلسلہ چلتا رہے گا اور دوسرے لوگ اس کو دیکھ کر کہیں گے ہمارا تو کوئی سفارشی نہیں ہے۔ وفقنا اللہ بشفاعۃ ائمتنا۔