تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیات 27 - 31

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
سورہ زمر آیت 27، اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے ہر طرح کی مثالیں دی ہیں شاید وہ نصیحت حاصل کرے۔
قرآن مجید کتاب ہدایت ہے، ایک مضمون ایک موضوع کی کتاب نہیں ہے اس لئے آپ دیکھیں گے کہ ایک آیت کے اندر متعدد موضوعات بیک وقت بیان ہوتے ہیں۔ کتاب، کتاب ہدایت ہونے کی وجہ سے لوگوں کو سمجھانا مقصود ہوتا ہے لوگوں کو سمجھانے کے لئے اسلو ب سخن بدلنا ہوتا ہے اور مثالیں پیش کرنا ہوتاہے۔ لوگ زیادہ تر اپنے محسوسات کو سمجھتے ہیں جب تک لوگوں کے حس میں، محسوس میں نہ آئے وہ خالص معقولات سمجھنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اگر ہم نے پانی نہ دیکھا ہوتا تو کوئی ہم کو پانی نہیں سمجھاسکتا تھا کہ پانی کیا چیز ہے۔ اسی طرح جو چیزیں ہم نے نہیں دیکھی ہیں وہ ہم نہیں سمجھ سکتے ہیں کیا ہے وہ نہ کوئی سمجھا سکتا ہے۔
ایک پس ماندہ علاقہ ہے ایک سن رسیدہ خاتون ہے پس ماندہ پہاڑی علاقوں میں رہتی ہے وہ اس کا بیٹا تعلیم کے لئے شہروں میں آتا ہے اور وہ کمپیوٹر سیکھتا ہے اس کے والدہ کو بتایا جاتا ہے کہ آپ کے بیٹے نے کمپیوٹر سیکھ لیا، بیٹا کمپوٹر کیا ہوتا ہے؟ آپ کیسے سمجھائیں گے اس خاتون کو؟ کمپیوٹر کیسے سمجھائیں گے نہ وہ سمجھ سکتی ہے نہ آپ سمجھا سکتے ہیں براہ راست، آپ کوئی مثال سامنے رکھیں گے جو اس کے مشاہدے میں آتی ہے ان کو سامنے رکھ کر کے بات کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ ملکوتی باتیں کرتے ہیں ہم سے ان ملکوتی باتوں کو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں جب تک مشاہدات میں نہ لائے اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سی مثالیں دی ہیں یہاں تک کہ مشرکین نے مذاق اڑایا تھا کہ تمہارے قرآن میں مچھر کی مثالیں دی ہےاِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا مچھر بھی مخلوق ہے اس کے بھی اعصاب ہیں دماغ ہے، پیر ہے ارادے ہیں اس کا رادہ ہے اور ارادہ اس کا بھی نافذ ہوتا ہے اور وہ اڑھ جاتی ہے نیچے بیٹھ جاتی ہے وہ بھی ایک کامل نظا ہے ۔ اس کا جسہ جسم وہ چھوٹا ہی کیو ں نہ ہو۔ ہر قسم کی مثالیں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دی ہے۔ سطحی لوگوں سے بات کرنا ہوتا ہے عرب جاہلیت کے زمانے میں جو قرآن کا مخاطبین اول ہے،یہ پیغام اسلامی پیغام کو پہنچانا ہے پہلے مخاطبین اول تک پہنچانا ہے مخاطبین اول کون لوگ ہیں؟ عرب بدھو، جاہل، ان پڑھ جس نے کوئی تہذیب کا چہرہ نہیں دیکھا اور ان کو مخاطبین اول قرار دے کر آنے والی نسلوں کے لئے ان کے ذریعے پیغام پہنچانا ہے ۔ یہ مخاطبین اول جو ہے ان کو سمجھانا ہے اور ان کے ذریعے آنے والی نسلوں کو یہ دین یہ ، مذھب، یہ توحید سمجھانا ہے۔ مخاطبین اول ہے ان پڑھ غیر مہذب ان پڑھ لوگوں کو ایسے پڑھایا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مثالیں قائم کی ہے۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ تمام مثالیں پیش کر کر کے ان کو سمجھایا ان بدھوں کو ان بدھوں کو ایسا سمجھایااور یہ آخر میں اس اہل ہوگئے کہ پوری دنیا کو ایک تہذیب دے سکے۔ غیر مہذب قوم ان پڑھ قوم، اور اس کو ایسے پڑھایا اس قرآن نے، اس رسول نے کہ اس نے عالم کو ساری دنیا کو تہذیب سکھائی ۔ اس وقت جو دنیا میں تہذیبیں ہیں یہ تہذیبیں کس نے سکھائی دنیا کو؟ انہیں لوگوں نے یہ مخاطبین اول نے سکھائی ساری دنیا کو تہذیب سکھائی۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا مطالعہ کریں تاریخ کا کہ دنیا کو تہذیب سکھانے والے مسلمان ہیں۔
مسلمانوں نے دنیا کو تہذیب سکھائی مسلمانوں کے دنیا کے سامنے آنے سے پہلے یہ یورپ وغیرہ جو ہے وہ جہالت کی تاریکی میں ڈھوبا ہواتھا کچھ نہیں آتا تھا ان کو مسلمان جاتے ہیں یہاں سے سپین تک اور پھر وہان سے اٹلی سے بعض علاقوں تک پھر اس کے بعد دنیا والوں نے یورپ کی دنیا نے تہذیب دیکھی مسلمانوں میں ، دیکھی اور ان کی آنکھیں کھل گئی انہوں نے تہذیب سکھائی۔ ایک بات تھی کہ مسلمان جو ہے وہ تہذیب رکھتے تھے فریب دہی جو ہے وہ نہیں کرتے تھے اور جن لوگوں نے مسلمانوں سے تہذیب سیکھی وہ انتہائی مکار اور انتہائی فریب دینے والے لوگ تھے اور ان لوگوں نے تہذیب سیکھنے کے بعد ہمارا رخ کیا ہم پر حملہ کیا اور ہم کو پیچھے دھکیل دیا۔ یہ ایک تاریخ ہے ایک تاریخ اس کا صحیح مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا اور کیوں ہوا؟ یہ سارا مسئلہ پڑھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ سارا ایک اہم موضوع ہے یہ کہ اسلام نے دنیا کو تہذیب دی اورپھر دنیا نے اسلام کے ساتھ کیا کیا۔ یہ مثالیں ایسی قرآن میں ہیں جو عربی ہیں جس میں کوئی عیب نہیں ہے تاکہ یہ تقوی اختیار کرے۔ یہ قرآن میں کوئی عیب، کوئی پیچیدگی، کوئی تضاد گوئی نہیں ہے بلکہوَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان بنادیا ہے تو کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟
ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلًا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ اللہ ایک شخص، یعنی ایک شخص سے مراد ایک غلام کی مثال دیتا ہے جس کی ملکیت میں کئی بد خصلت مالکان شریک ہیں اور ایک دوسرا غلام ہے جس کا صرف ایک ہی آقا ہے کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ الحمد اللہ بلکہ ان میں سے اکثر نہیں جانتے ہیں۔ ان مثالوں میں سے ایک مثال یہ ہے کہ قرآن کے نزول کے زمانے میں انسان کو غلام بنانے کا رواج عام تھا، آپس میں لڑائیاں ہوتی تھیں اور پھر ان لڑائیوں میں کچھ لوگ اسیر ہوتے تھے ان اسیروں کو غلام بناکر کے بیچتے تھے۔ ایک آزاد انسان لڑائی میں وہ اسیر ہوگیا اسیر ہونے کا مطلب اس زمانے میں یہ تھا کہ غلام ہوگیا اس لئےاس معاشرے میں غلاموں کی مثال دیا جاتا ہے کہ ایک شخص ہے ایک غلام ہے اس کے دو مالک ہے دو مالک جو ہے اس میں شریک ہے دو مالک کے درمیان ایک غلام ہے ایک نوکر ہے۔ اور وہ دونوں بد خصلت ہے برے لوگ ہیں وہ صحیح پیش نہیں آتا اس غلام کے ساتھ اس غلام کا کیا حال ہوگا؟ وہ ایک کہتا ہے میرا کام کرو تو اس کام میں چلا جاتا ہے بے چارہ دوسرا کہتا ہے میرا کام کیوں نہیں کیا ؟ وہ پھر اس میں لگتا ہے تو دوسرا کہتا ہے میرا کام کیوں نہیں کیا؟اس کا کیا حال ہوگا اس شخص کا اس بے چارے غلام کا۔ ان دونوں بد خو مالکوں کے درمیان میں اس کا کیا حال ہوگا؟ دو ارادے اس کے اوپر ٹکراو دو خواہشات کا آپس میں ٹکراو اور دو حکم کا ، یہ کوئی حکم دیتا ہے وہ کوئی حکم دیتا ہے اس میں ٹکراو یہ شخص زندگی کر سکے گا؟ اے مشرکو،اگر اللہ کے ساتھ کوئی اور شریک ہے تو پھر ان کے بھی احکام مختلف متضاد ہوں گے اللہ کی طرف سے اور حکم اس کے شریک کی طرف سے اور حکم ان میں ٹکراو کیا تم زندگی کر سکوں گے؟ یہ مثا ل ۔ اور دوسرا ہے ایک شخص ہے اس ایک ایک ہی آقا ہے اس پر ایک آدمی کا حکم چلتا ہے ایک آدمی جو ہے اس کی خواہش جو ہے وہ چلتی ہے تو اس غلام کے لئے کوئی مشکل پیش نہیں آتاایک آدمی کی اطاعت کرنا آسان ہوجاتا ہے کوئی پیچیدگی نہیں آتی ھل یستویان کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ یہ غلام اور یہ غلام۔ یہ غلام جو ہے اس کی زندگی اجیرن ہوگی وہ کس کو راضی کروں میں اس کو راضی کرو یا اس کو راضی کروں یہ دونوں بد خو ہے بد اخلاق ہے دنوں زیادتی کرتے ہیں۔ اور یہ ایک آقا والا غلام جو ہے آسائش آرام و سکون سے ساتھ وہ کام کرتا ہے ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ اکثر لوگ ا س بات کو نہیں جانتے ہیں کہ دو نظام نہیں چل سکتے دو ارادے بیک وقت نہیں چل سکتے ۔ لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا دو نظام نہیں چل سکتا بیک وقت ایک نظام نے پانی بنایا دوسرے نے مٹی بنایا جس نے مٹی بنایا وہ پانی سے بے خبر جس نے پانی بنایا وہ مٹی سےبے خبر جب مٹی اور پانی ساتھ آپس میں مل جائیں گے تو ٹکراور ہوجائیں گےلفسدتا وہ تیسرا رب جو ہے اس نے دھوپ بنایا دھوپ بنانے والا جو ہے وہ مٹی اور پانی کی خصلت سے بے خبر ہےاور دھوپ ان تینوں میں آپس میں ان تینوں کو ٹکراو ہوجائے گا۔ نہیں چل سکتے دو ارادے دو نظام ابھی ہم اللہ تعالیٰ کی توحید پر دلیل قائم کرتے ہیں کائنات کے نظام کی وحدت، کائنات پوری کائنات میں ایک نظام چل رہا ہے ایک ارادہ نافذہے۔ ایک ارادہ ایک نظام دو نظام نہیں ہے پوری کائنات کے اوپر ایک نظام حاکم ہے وہ ایک نظام یہ بات ذہن میں رکھے اور اس میں مطالعہ کرے کائنات کا نظام ایک ہے متعدد نہیں ہے۔ اجرام سماویہ اور کہکشائیں اور ساری کائنات ان سب اور آپ کی زمین سب کا نظام ایک ہے دو نظام نہیں ہے پوری کائنات کا نظام ایک ہے ۔
یہ مسلم ہے آج کل آج کل کی دنیا میں یہ بات مسلم ہے کہ پوری کائنات میں ایک نظام حاکم ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ یہ سورج آج جس سکنڈ میں آج طلوع کیا ہے کھربوں سال پہلے اسی سکنڈ میں طلوع کرتا ہے اسی سکنڈ میں طلوع کر رہا ہے ابھی تک۔ یہ کہکشائیں جو ہیں وہ گردش میں ہیں جس رفتار سے گردش میں ہےکھربوں سال سے اسی طرح گردش میں ہے کوئی تبدیلی نہیں ایک نظام حاکم ہے۔ نظام کی وحدت نظام دہندہ کی وحدت پر دلیل ہے۔ ءَاَرۡبَابٌ مُّتَفَرِّقُوۡنَ خَیۡرٌ اَمِ اللّٰہُ الۡوَاحِدُ الۡقَہَّارُ کیا متفرق ارباب بہتر یا اللہ واحد یکتا ہے جو سب پر غالب ہے وہ واحد رب بہتر ہے یا متعددارباب بہتر ہے۔ کہتے ہیں نا کہنے والے تمہارا ایک رب ہے ہمارے، بہر حال نام لیتے ہیں جاہل لوگ ان پڑھ لوگ گمراہ لوگ متعدد رب کا نام لیتے ہیں۔ ءَاَرۡبَابٌ مُّتَفَرِّقُوۡنَ خَیۡرٌ اَمِ اللّٰہُ الۡوَاحِدُ الۡقَہَّارُ،
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ اے رسول، آپ کو بھی انتقال کرنا ہے اور انہیں بھی انتقال کرنا ہے انہیں بھی یقینا مرنا ہے۔ اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے کوئی نہیں آیا رسول کریم کی ذات مبارک بھی اس سے مستثنی نہیں ہے ائمہ اطہار علیھم السلام بھی اس سے مستثنی نہیں ہیں۔ مشرکین یہ امید لگائے بیٹھتے تھے کہ ان کا اپنا کوئی فرزند نہیں ہے اولاد نرینہ نہیں ہے ان کی دنیا سے جانے کے بعد اس نظام کو سنبھالے ٹھہر جاو انتظار کرو، یہ جائے نکل جائے دنیا سے اور پھر یہ سارا سلسلہ ٹھپ ہوجائے گا چنانچہ رسالت مآب کی رحلت کے فورا بعدایک لہر ارتدداد کی چلی، مرتد ہوگئے ،مرتد ہوئے، مرتد ہوگئے، اطراف و اکناف میں لوگ مرتد ہوگئے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو قائم رکھنا تھا جو بھی ذریعہ ہو دین کو قائم رکھا۔ رسول للہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا سے جانے کے بارے میں قرآن نے خبر دے کر یہ بتایاإ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ، إِنَّكَ مَيِّتٌ کہہ کر کے بتادیا کہ آپ دنیا سے جانے والے ہیں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ پھر تم دنیا سے جانے کے بعد قیامت میں اللہ کے سامنے ایک دوسرے کا مقدمہ پیش کروگے۔ تَخْتَصِمُونَ خصومت، عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ قیامت کے دن اللہ کے سامنے مظلوم اپنا مقدمہ پیش کرے گا۔ مظلوم مقدمہ پیش کرے گا اللہ تعالیٰ کے سامنے وہ حساب کتاب دینے کا وقت آئے گا اور مقدمہ پیش ہوگا اس ذات کے سامنے جس کے سامنے ظلم ہوا ہے جس نے ظلم ہوتے دیکھا ہے خود شاہد حال ہے اس کے سامنے مقدمہ پیش ہوگا۔
ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ تم اپنے رب کے سامنے مقدمہ پیش کروگے۔ یہاں پر ایک روایت ہے نہایت قابل توجہ ہے اس پر ہم لوگ بھی زیادہ توجہ نہیں دیتے یہ قابل بحث ہے، قابل تحقیق ہے آپ لوگ اس میدان میں آنے کے بعد اس پر تحقیق کرے ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ مقدمہ پیش کریں گے قیامت میں کس کس کے درمیان مقدمہ ہوگا؟ کون اپنا مقدمہ پیش کرےگا؟ صحیح بخاری میں حدیث ہے، صحیح بخاری میں کتاب المغازی میں اور دیگر کتابوں میں ہےہمارے ہاں اصول کافی میں ہے حدیث کونسی حدیث؟ نہایت قابل توجہ حدیث، قابل تحقیق حدیث، وہ حدیث یہ ہے کہ حضرت علی عليه‌السلام نے فرمایاانا اول من یجثو بین یدی رحمن للخصومۃ یوم القیامہ قیامت کے دن سب سے پہلےاللہ کے سامنے مقدمہ پیش کرنے والا میں ہوں گا، روز قیامت سب سے پہلے میں اللہ کے سامنے میں اپنا مقدمہ پیش کروں گااس پر آپ کو تحقیق نہیں کرنا چاہیے؟ یہ کسی ایک فرقے کی کتاب میں نہیں ہے سب کتابوں میں موجود ہے اور قابل اعتبار کتابوں میں موجود ہے کہ سب سے پہلے علی عليه‌السلام اللہ کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کریں گے سب سے پہلے، اس لئے کہ علی عليه‌السلام اول مظلوم ہے ہم تو کہتے نا سید الشہداء مظلوم ہے سید الشہداء کا نمبر بعد میں آتا ہے سب سے پہلے علی عليه‌السلام کا نمبر آتا ہے، مظلومیت میں؟ نہیں علی عليه‌السلام چونکہ سب سے پہلا مظلوم ہے سب سے پہلا مظلوم رسالت مآب کے بعد۔ آپ جب یہ بات کرتے ہیں تو دوسرے لوگ کہتے ہیں کیا ظلم کیا ہوا ہے؟ علی عليه‌السلام نے مدینہ میں دوسروں کے ساتھ زندگی گزاری آرام سے کیا ظلم ہوا ہے؟ بہر حال علی عليه‌السلام کے گھر پہ جو ظلم ہوا علی عليه‌السلام کے ساتھ جو ظلم ہوا علی عليه‌السلام کو جو گوشہ نشینی میں بیٹھنا پڑا۔ رسالت مآب کے وقت رسالت مآب علی عليه‌السلام کے ساتھ سرگوشی کرتے تھے رسالت مآب کے پہلو پہلو میں ہوتے تھے ہمیشہ اب کہی نظر نہیں آتے۔ وہ علی عليه‌السلام جوہمیشہ رسول اللہ کے ساتھ سامنے سامنے ہوتا تھا آج نظر نہیں آتا کیا ہوگیا؟علی عليه‌السلاموہی علی عليه‌السلام،مسلمان وہی مسلمان ہے، معاشرہ وہی معاشرہ ہے لیکن اس میں علی عليه‌السلام غائب کیسے ہوا کمسا پرسی میں کیسے چلے گئے؟ حضرت امام جعفر صادق عليه‌السلام فرماتے ہیں السلام علیک یا علی اللہ انت اول مظلوم حقہ و اول من غصب حقہ علی عليه‌السلام مظلوم اول ہے اس لئے قیامت کے دن بھی سب سے پہلا مقدمہ پیش کرنے والا علی عليه‌السلام ہوں گے۔
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ پس اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہواگاجس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہو اور جب سچائی اس کے پاس آئی تو اسے جھٹلادیا کیا کفار کے لئے جہنم میں ٹھکانہ نہیں ہے۔ یہ أَظْلَمُ سب سے بڑا ظالم کس پر ظالم؟ سب سے بڑااپنے اوپر ظلم کرنے والا وہ ہوگا جس نے اللہ تعالیٰ کی تکذیب کردی یعنی سب سے بڑا ظالم ہوگا اللہ تعالیٰ کی تکذیب کرنا یہ معمولی بات نہیں ہے آپ کو روایات بیان کرتے ہوئے احادیث بیان کرتے ہوئے خیال رکھنا چاہئے۔ ہم جب بھی احادیث بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں روایت ہے۔