تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیات 62 - 67

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ۫ وَّ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ
سورہ زمر آیت 62، اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز کا نگہبان ہے۔
آپ کو کرارا بارہا بتادیا مشترکین کا کیا عقیدہ تھا؟ مشرکین کا عقیدہ تھا خالق اللہ ہے وہ ایک خدا کو خالق مانتے تھے، لیکن تدبیر وہ اللہ کے پاس نہیں ہے ، تدبیر کرنے والے ہمارے دیگر ارباب ہیں رب ہیں، کافی رب تھے ان کے۔ ہر رب جو ہے زندگی کے ہر شعبہ کی تدبیر کرتا ہے یہ عقیدہ تھا اس کو شرک کہتے ہیں ، شرک یہی ہے ۔ شرک کی کیا تعریف ہے؟ شرک کی تعریف یہ ہے کہ اللہ خالق ہے تدبیر کرنے والے اللہ کے علاوہ اور اس کے شریک ہے، یہ ہے شرک۔ جو بدترین نظریہ ہے اور نہایت ہی مہلک نظریہ ہے کہ تدبیر کائنات اللہ کے ہاتھ میں نہیں ہے اللہ نے کائنات کو خلق کرکے بیٹھ گیا آرام سے۔ اس آیہ مبارکہ میں فرمایا اللہ ہر چیز کا خالق ہےاَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ۫ وَّ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ اور اللہ ہی ہر چیز کا نگہبان ، ہر چیز اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے خلق کرنے کے بعد اس کو کسی اور کے ہاتھ میں نہیں چھوڑا، خود اللہ تعالی وکیل ہے نگہبان ہے ،خود اللہ ہی تدبیر کرتا ہے، تدبیر حیات، بارہا آپ کو بتایا خلق اور تدبیر قابل افتراق نہیں ہے خلق کوئی تدبیر کوئی اور کرے ممکن نہیں ہے۔ خلق کے اندر تدبیر ہے تخلیق کے اندر تدبیر ہے بارہا بتایا آپ کو۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کو اس طرح خلق کیا تخلیق کے اندر پانی میں اللہ نے ہر چیز کی زندگی جو ہے وہ پانی میں رکھی۔
مٹی کو خلق کیا اس کے اندر روئیدگی، مٹی میں روئیدگی کی طاقت دے کر خلق کیا،نہ اینکہ پانی کو اللہ نے پاوڈر کی طرح خلق کیا اور یہ اللہ کے شریکوں نے اس کو سیال بنا دیا، تدبیر سیال ہونے میں ہے، پانی کے سیال ہونے میں تدبیر ہے۔ وہ شریکوں نے بنایا ہے تب تو خالق اللہ ہوتا ہے ا مدبر شریک ہوتے ہیں۔ کتنی آیات ہیں اللہ کے علاوہ کوئی خالق ہے؟ نہیں ہے تو پھر کوئی مدبر بھی نہیں ہے وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ وہ جہاں ہر چیز کا خالق ہے وہاں ہر چیز کا تحفظ اس کے ہاتھ میں ہے جس چیز کی بقاء کا انحصاراسی کی ذات پر ہے، وکیل، مدبر ہے ، محافظ ہے ذمہ دار ہے۔ قرآن کاروئے سخن ہمیشہ مشرکین ہیں، آیات ، آیات قرآن آیات کہتا ہے کس چیز کی آیات؟ تدبیری آیات۔ لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ آسمانوں اور زمینوں کی کنجیاں اسی کی ملکیت میں ہیں اور جنہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔ اللہ کی تدبیری آیات کا انکار لَهُ مَقَالِيدُ، مقالید جو ہے وہ چابی کو کہتے ہیں۔ آسمانوں اور زمین کی چابیاں اللہ کے ہاتھ میں ہیں، کنجیاں اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ آسمان اور زمینوں میں جو بھی خزانے ہیں ان خزانوں کی طرف اگر جاتا ہے تو اللہ کے ہاں سے اس کے لئے راستہ ملے گا۔ آسمان اور زمینوں میں جو خزانے ہیں، آسمان سے دھوپ کا خزانہ ہے، آسمان سے ہواؤں کا خزانہ ہے اور آسمان نے اور بہت سے کہکشانوں کی طرف سے خزانے آتے ہیں زمین پر وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ آسمان میں تمہارا رزق ہے ۔۔ بعض لوگوں کا کہتا ہے کہ ستر فیصد آسمان سے ہے اور تیس فیصد زمین سے ہے رزق۔ ہمارے مشاہدے کے مطابق تو زمین سے ہی ہے زمین سے جو ہاتا ہے روئیدگی زمین سے نکلتے ہیں دانے نکلتے ہیں پھل نکلتے ہیں پھل نکلتے ہیں جو کچھ ہے زمین سے اور اس کو ہم کھاتے ہیں وہ زمین سے نکلتے ہیں لیکن زمین سے تب نکلتے ہیں جب آسمان ساتھ دے زمین کے ورنہ زمین کچھ نہیں کر سکتی۔ آسمان کی کنجیاں اللہ کے پاس ہیں اور زمین کی بھی اللہ کے پاس ہے یعنی کل کائنات کی کنجی اللہ کے پاس ہے کچھ لینا ہے اللہ کے پاس جاؤ کسی غیر اللہ کے پاس خاک لینے جاتے ہو کچھ نہیں ہے لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ جو لو گ اللہ تعالیٰ کی جو تدبیری نشانیاں ہیں، اس قدر اللہ کی تدبیری نشانیاں ہیں، انسان کی عقل حیرت میں پڑجاتی ہے کہ کتنی نشانیاں ہیں اور ہم ان سے گزر جاتے ہیں یہ تو معمول ہے روز کا معمول ہے کا معمول ہے۔ اللہ کی تدبیری نشانیاں بہت زیادہ ہے سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ ابھی زمانہ جیسے جیسے گزرتا ہے آیات الہی آفات اور انفس میں روز بہ روز جو ہے وہ نمودار ہو رہی ہیں اللہ کی آیات۔ اور جو لوگ آیات اللہ ، اللہ کی ان تدبیری آیات کا انکار کرتے ہیں، نہیں اللہ کے ہاتھ میں نہیں ہے ہمارے یہ جو بت جو ہیں وہ تدبیر کرتے ہیں کائنات کے وہ لوگ جو ہیں خسارے میں ہیں ۔ جن کو خزانہ اور ان کی کنجیوں کا کھوج لگانے میں ناکامی ہوئی ہے وہ پھر خزانہ تک ان کی رسائی نہیں ہوگی وہ خسارے میں ہے وہ غیر اللہ جو سمجھتے ہیں وہ کھاتے تو ضرور ہیں لیکن خسارے میں ہیں وہ اللہ کا دیا ہوا رزق سمجھ کر نہیں کھاتے ہیں بتوں نے دیا ہے، کھاتے ہیں خسارے میں ہے ۔ وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔
قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ کہہ دیجئے اے نادانو، اے جاہلو، کیا تم مجھے کہتے ہو کہ میں غیر اللہ کی بندگی کروں؟ قل کہہ دیجئے، جس اللہ کو چھوڑ کر جس کے ہاتھ میں آسمان و زمین کی کنجیاں ہیں جس کے ہاتھ میں مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ ہر چیز کی بادشاہی اس کے ہاتھ میں ہے آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے اس کی قبضہ قدرت میں ہے اس کو چھوڑ کر کے اس پتھر کی پوجا کروں؟ اس کے پاس شعور بھی نہیں ہے، جس کی حفاظت کرتے ہیں اس کی پوجا کرنے والے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کو تراشتے ہیں اپنے ہاتھ سے تراش کر بناتے ہیں پھر معبود بن جاتا ہے۔
کہتے ہیں جاہلیت کے زمانے میں کھجور سے معبود بناتے تھے کھجور سے اور پھر سفر میں اس کو ساتھ لے کے جاتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے تھے اور کہی زاد راہ ختم ہوتا تھا پھر کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا تو پھر اس معبود کو کھا لیتے تھے، یہ ہے ان لوگوں کی عقل جو غیر اللہ کی پرستش کرتے ہیں، جاھل لوگ ہیں۔ جاھل لوگوں کی بارے میں مولا علی عليه‌السلام کا ارشاد ہے لا تری الجاھل الا مفرطا او مفرطا جاھل کو دو حالتوں میں پاو گے یا زیادتی کر رہا ہوگا وہ یا کوتاہی کر رہا ہوگا۔ دو حال سے خالی نہیں ہے؛ جاھل یا زیادتی کر رہا ہوگا یا کوتاہی کر رہا ہوگا، راہ راست اور اعتدال میں نہیں آسکتا جاھل۔
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ اور آپ کی طرف اور آپ سے پہلے انبیاء کی طرف یہی وحی بیجھی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا، انبیاء سے اور انبیاء تم نے اگر شرک کیا وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ آپ کی طرف اور انبیاء کی طرف وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ آ پ سے پہلے جتنے انبیاء گزرے ہیں سب کی طرف یہ وحی کی ہے اے رسول، اگر تم نے شرک کیا آپ نے، تو لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ آپ کا عمل ناکارہ ہوجائے گا حبط ہوجائے گا وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ اور آپ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجاو گے آپ۔ کیا مطلب ہے؟ رسول اللہ سے شرک سرزد ہونے کا سوال پیدا ہوتا ہے؟ نہیں ہوتا ہے تو پھر یہ کیا فرما رہا ہے اللہ تعالیٰ؟ اگر آپ اے رسول شرک کرنا تو آپ کا عمل حبط ہوجائے گا آپ کا سارا عمل اکارت بے کار ہو جائے گا نیست و نابود ہوجائے گا، حبط مٹ جائے گا عمل کالعدم ہوجائے گا۔ رسول اللہ سے یہ خطاب کیا مطلب ہے اس کا؟ کیا رسول اللہ سے شرک سرزد ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی فرما رہا ہے خبردار شرک نہ کرنا؟ اللہ تعالی نے یہ خطاب کہ خبردار شرک نہ کرنا صرف اس رسول خاتم الاانبیاء سے نہیں فرمایا تمام انبیاء سے فرمایا ہر نبی سے فرمایا؛ خبردار شرک نہ کرنا اگر تونے شرک کیا تو تیرا عمل حبط ہوجائے گا ہر نبی سے کہا۔
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ یہ بات آپ سے کہی گئی اور آپ سے پہلے آنے والے انبیاء سب سے یہ بات کہی گئی کہ اگر شرک کیا تو آپ کا عمل جو ہے وہ کالعدم ہوجائے گا، یہ کیسے؟ لئن اگر فرض کر تے ہیں ۔ فرض کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا ہے ، فر ض محال محال نہیں ہے۔ فرض کرنا درست ہوتا ہے اس کے لئے لازم نہیں ہے کہ شرک کے سرزد ہونے کا خطرہ ہے، امکان ہے ہوسکتا ہے کہ رسول سے معاذ اللہ شرک سرزد ہوجائے اس لئے اللہ تعالی خبردار شرک نہ کرنا ۔ ایسا کوئی امکان نہیں ہے۔ پھر کیسے خطاب ہوا ؟ اس کے دو جواب ہیں۔ ایک جواب یہ ہے کہ فرض محال محال نہیں ہے لَئِنْ أَشْرَكْتَ اگر آپ نے شرک کیا ، رسول شرک نہیں کریں گے لیکن اگرکیا ، قرآن مجید میں اس کے نظائر موجود ہے قُلۡ اِنۡ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدٌ ٭ۖ فَاَنَا اَوَّلُ الۡعٰبِدِیۡنَ فرض، اگر تعالی کی کوئی ولد ہے بیٹا تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کروں گا۔ فرض ، یہاں بھی فرض کیا نا اللہ کے لئے اولاد ہوانا ناممکن ہے محال ہے فرض محال محال نہیں ہے ۔ فرض کیا گیا قُلۡ اِنۡ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدٌ ٭ۖ فَاَنَا اَوَّلُ الۡعٰبِدِیۡنَ بالکل یہ بھی اسی طرح ہے لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ اگر آپ نے شرک کیا۔ ایک جواب یہ ہے دوسرا جواب یہ ہے کہ انبیاء کے معصوم ہونے کا مطلب سلب قدرت نہیں ہے کہ وہ مجبور ہے گناہ نہ کرنے پر، یہ تو فضیلت نہ ہوئی ۔ ان کا ہاتھ پکڑ لیا اللہ تعالیٰ نے باندھ دیا ہے کر ہی نہیں سکتے تو پھر یہ کوئی فضیلت نہیں ہے فضیلت اس میں ہے پھر کر سکتے ہیں ۔معصوم ہے معصومین سے قدرت سلب نہیں ہوتی۔ معصوم شرک کرسکتے ہیں لیکن کرتے نہیں ہے ، گناہ کر سکتے ہیں لیکن کرتے نہیں ہیں تبھی تو معصوم ہیں اور اگر گناہ کرنے کی قدرت ہی نہیں ہے اس کو معصوم ہی نہیں کہتے، جو نہیں کر سکتا وہ معصوم نہیں ہے۔یہ دو جواب ہے اول تو فرض محال محال نہیں ہے دوسرا جو ہے وہ شرک کا کرنا نا ممکنات میں سے نہیں ہیں معصومنین کے لئے ممکن ہے لیکن وہ معصوم ہیں اس لئے وہ شرک نہیں کرتے۔
آپ کو بتایا ہے کہ معصوم کیسے معصوم ہوتے ہیں؟ ان کے ایمان میں ایقان کی وجہ سے معصوم ہوتے ہیں۔ ان کا اتنا یقین کامل ہے اس یقین کے ساتھ اس یقین کامل کی مخالفت نہیں کرتا کوئی بھی عاقل۔ ان چیزوں کے اوپر ہم کو یقین ہے کہ اگر پہاڑسے نیچے چھلانگ مارے تو مر جاوں گا نہیں لگاتا مارتا چھلانگ عام حالت میں کوئی خودکشی کرنا چاہے تو اور بات ہے۔ وہ بٹھے میں ہاتھ ڈالنا جو ہے وہ آپ نہیں کریں گے یہ کام کیونکہ یقین ہے آپ کو یہ آگ جلاتی ہے، یقین ہے ہاتھ نہیں ڈالیں گے اس میں معصوم کے لئے یقین کا یہ مرحلہ جو ہے عصمت کے لئے عصمت آور ہے وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ اور اگر شرک کیا تو نقصان میں ہوگا۔
بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ شرک نہ کرو اللہ کی بندگی کرو اور شکر گزاروں میں سے ہوجاؤ۔ اللہ کی جو عظیم نعمت ہے بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ شرک نہ کرو بلکہ اللہ کی عبادت کرو اور شکر گزاروں میں ہوجاو۔ اِنۡ شَکَرۡتُمۡ وَ اٰمَنۡتُمۡ اللہ کا یہ فرمان ہے مَا یَفۡعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُم ان کو عذاب دے کر اللہ نے کیا کرنا ہے؟ اِنۡ شَکَرۡتُمۡ وَ اٰمَنۡتُمۡ اگر تم شکر گزار بنو اور ایمان دار بندو، وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ شکر ، قدردانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نعمتیں ہم کو ملی ہیں وہ بہت اس کی قدردانی جو ہے ہونا چاہیئے وہ انسان بڑ اانسان ہوتا ہے جو قدردانی کرتا ہے، خواہ بندے کی ہو خواہ اللہ کی ہو۔ اپنے ساتھیوں میں سے کسی نے آپ کے ساتھ نیکی کیا ہے اس کےساتھ بھی قدر دانی کرنا، ہے نا حدیث میں جو مخلوق کی قدردانی نہیں کرتا وہ خالق کی بھی نہیں کرتا ہے۔ قدروں کا مالک ہے تو دونوں کی کرے گا قدروں کا مالک نہیں ہے تو دونوں کی نہیں کرتے گا۔
وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ اور ان لوگوں نے اللہ کی قدرشناسی نہ کی جیسا کہ اس کے قدر کرنے کا حق ہے اور قیامت کے دن پوری زمین اس کے قبضہ قدرت میں ہوگی اور آسمان اس کے دست قدرت میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ دوسری جگہ ہے نا كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ وہ پاک اور بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ۔
وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ اللہ تعالیٰ کی قدر، اللہ تعالیٰ کی قدر کون کرتا ہے؟ مشرکین جو ہیں اللہ تعالیٰ کی قدر نہیں کرتے وہ انتہائی نا قدری میں ہے انتہائی نا قدری۔ ہوتے تو ہم سب ناقدر اللہ کی قدر شناسی ہم میں نہیں ہے۔ مولا کا ایک خطبہ ہے اس میں فرمایا کہ ایک شخص وہ پوری زندگی عبادت کرے، قیامت تک ایک شخص زندہ رہتا ہے دن رات عبادت کرتا ہے، قیامت تک زندہ رہتا ہے فرض فرمایا مولا نے۔ ایک شخص قیامت تک زندہ رہتا ہے دن رات عبادت کرتا ہے پھر بھی وہ اللہ کا حق ادا نہیں کر پاتا۔ ہم لوگ یہ احساس کرتے ہیں تھوڑا سا کام پر۔ یہ جو بے عمل ہوتے ہیں نا قدر ہوتے ہیں وہ اپنے تھوڑے سے کام کو بہت سمجھتے ہیں، یہ ایک بہت خرابی ہے۔ ایک شخص بے نماز تھا ہمارے مدرسے میں آیا جماعتا نماز پڑھنے نماز پڑھنے کے بعد بیٹھ گیا کہتا ہے کہ آج میں نے جماعتا نماز پڑھی ہے میرے چہرے سے نور پھوٹ رہا ہے دیکھو۔ اس نے یہ احساس کیا نا کہ میں نے نماز پڑھی ہے بہت کام کیا ہے، چہروں سے نور خود کہہ رہا تھا ہمارے سامنے یہ دیکھے چہروں سے نور۔ اس کو یہ احساس ہوا کہ میں نے بڑا کام کیا ہے ایک نماز پڑھ کے۔ ہم لوگوں کا یہی حال ہے سب کا یہی حال ہے۔ ہم تو نماز پڑھتے ہم تو یہ کرتے ہیں ہم تو وہ کرتے ہیں ۔
وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ اللہ کے قدر ومنزلت کو پہنچانے اور حق ادا کرنے، سورہ انعام میں فرمایا وَ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖۤ اِذۡ قَالُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنۡ شَیۡءٍ جنہوں نے اللہ کی قدردانی نہیں کی اور کہا کہ اللہ نے کوئی چیز نازل نہیں کی آسمان سے کوئی وحی نہیں آتی، کوئی پیغمبر رسول نہیں آتا وہ وحی کے منکر تھے نا مشرکین۔ وہ رسول رسالت کے منکر تھے پھر ان سے کہتے ہیں اگر وحی بھی نہیں ہوتی اللہ کی طرف سے رسول بھی نہیں آتا اللہ کی طرف سے تم نے مذہب کہاں سے لیا؟ جو تم کہتے ہو اللہ خالق ہے، کس نے کہا تم کو اللہ خالق ہے؟ اور یہ شریک جو ہیں ہماری زندگی چلارہا ہے کس نے کہا یہ شریک جو ہیں تمہاری زندگی چلا رہا ہے کس نے کہا؟ یہ ہمارے آباء و اجدا د یہ کرتے چلے آئے ہیں۔ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی سوائے اندھی تقلید کے۔
وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قیامت کے دن زمین اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہوگی وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ اور آسمان جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں لپتے ہوئے ہوں گے یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ یعنی ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ کائنات، موجودہ کائنات جو ہے وہ ختم ہوجائے گا، آسمان کو لپیٹ لیا جائے گا اور زمین بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں چلی جائے گی۔ يَوْمَ تُبَدَّلُ الأرْضُ غَيْرَ الأرْضِ زمین بدل جائے گی ساری کائنات بدل جائے گی نظام بدل جائے گا قانون زیست بدل جائے گا ہر چیز بدل جائے گی نئی نئی کائنات جو آئے گی اس کا نظام دوسرا ہوگا۔