تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیات 38 - 42

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ ۚ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ ۖ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ
سورہ زمر آیت 38، اگر آپ ان سے پوچھیں ان سے، مشرکین سے اگر آپ ان سے پوچھیں آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟ تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے، کہہ دیجئے اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو ان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ اگر اللہ مجھے کوئی تکلیف پہنچاناچاہے تو کیا یہ معبود اس کی اس تکلیف کو دور کر سکتے ہیں یا اگر اللہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ کہہ دیجئے میرے لئے اللہ ہی کافی ہے، بھروسہ رکھنے والے اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
جن انبیاء علیھم السلام نے مشرکین کا مقابلہ کیا ہے جنگ کی ہے مشرکین کا ظلم اور تکلیف برداشت کی ہے ان مشرکین سے یہ بات ہو رہی ہے۔ ان مشرکین کا موقف یہ تھا کہ خالق اللہ ہے، تمام کائنات کو اللہ نے خلق کیا لیکن تدبیر کائنات یا ہماری ان کی اپنی زندگی کی تدبیر جو ہے مشرکین کا یہ نظریہ تھا ہماری زندگی کی تدبر جو ہے وہ مختلف ارباب کے سپرد کر دیا ہے اللہ تعالیٰ نے ۔ اللہ کو رب الارباب کہتے تھے ربوں کا رب، اور اللہ ابھی اس میں مداخلت نہیں کرتا مجھے روزی دیتا ہے میرا رب مجھے کامیابی دیتا ہے، میرا کامیابی والا رب، اس طرح وہ مختلف ارباب کو مانتے تھے رب مختلف مربی مختلف، تدبیر حیات مختلف ایک عقیدہ ان کا یہ تھا۔ دوسرا عقیدہ یہ تھا کہ قیامت نہیں ہے یہی زندگی ہے اسی میں ہم آتے ہیں مرتے ہیں ختم اور یہ جو بت ہے ان کی پوجا کرتے ہیں کس لئے کرتے ہیں؟ آخرت کے لئے نہیں آخرت ہے ہی نہیں اسی دنیا کی خوش بختی کے لئے ہم اپنے بتوں کی پوجاکرتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ تھا وہ نبوت کا منکر تھا وحی کا انکار کرتے تھے لیکن اللہ کو خالق سمجھتے تھے ان کے نزدیک خالق ایک ہے خدا ایک ہے لیکن اس ایک خدا کے شریک بھی ہے تدبیر کائنات میں اللہ کے ساتھ شریک بھی ہے اس لئے وہ مشرک ہے ۔
جن مشرکوں کو علی عليه‌السلام نے قتل کیا ہے ہم قاتل مشرکین علی عليه‌السلام کو کہتے ہیں علی عليه‌السلام نے ان مشرکوں کو قتل کیا ہے جو اللہ کو خالق سمجھتے تھے اور غیر اللہ کو مدبر سمجھتے تھے، ارباب۔ ہے نا قرآن میں أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ کیا مختلف ارباب بہتر ہے یا اللہ تعالیٰ جو واحد قہار ہے ایک رب بہتر ہے؟ فرمایاوَلَئِن سَأَلْتَهُم اگر آپ ان سے پوچھے اس کائنات کو کس نے پیدا کیا؟ تو کہتے ہیں اللہ نے پیدا کیا۔قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّ پھر تمہارا کیا خیال ہے؟ یہ أَفَرَأَيْتُمْ روئیت سے نہیں ہے سوالیہ جملہ ہے یہ ہمیشہ یاد رکھو بہت سوں کو اشتباہ ہوا ہے أَفَرَأَيْتُمْ کیا تم نے دیکھا ہے ترجمہ کرتے ہیں ایسا نہیں ہے یہ تو بتلاو ہے اس کا ترجمہ اخبرنی، أَفَرَأَيْتُمْأَفَرَأَيْتُمْ پھر مجھے بتاو جس کو تم بلاتے ہو اللہ کے علاوہ وہ جب خالق نہیں ہے تو وہ کس طرح مدبر ہے؟ وہ ہمارے خیر اور شر کے ساتھ اس کا کوئی تصرف کس طرح ہے؟ آپ کو بارہا بتایا ہے کہ خلق اور تدبیر قابل افتراق نہیں ہے خالق ہی مدبر ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہی فرمایا کہ اگر خالق اللہ ہے تو بتاو تمہارے تدبیر حیات جو ہے وہ دوسرے لوگ کیسے کرتے ہیں؟ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ پھر بتاو مجھے، مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّ اللہ کو چھوڑ کر جو دوسروں کی تم پوجا کرتے ہیں ان کو پکارتے ہیں اگر اللہ میرے ساتھ ضرر کا ارادہ کرے هَلْ هُنَّ کیا یہ جو شریک ہے كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ اور اگر اللہ نے رحمت کا ارادہ کیا میرے ساتھ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ کیا یہ بت جو ہے وہ اللہ کے مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ ان کے ہاتھ میں کچھ ہے؟ یہ نہ دے سکتے ہیں نہ روک سکتے ہیں کچھ نہیں کرنے کے اہل۔ یہ مشرکین جو ہیں وہ پتھر کا پوجا کرتے تھے پتھر ، یہ نا معقول ترین لوگ ہوتے تھے مشرکین۔ انسان کو اللہ کا نمائندہ ہونے کا اہل نہیں سمجھتے تھےانسان یہ اہلیت نہیں رکھتا کہ وہ اللہ کا نمائندہ ہو پتھر اہلیت رکھتا ہے معبود ہو ۔ کہاں اللہ کا نمائندہ اور کہاں خود معبود۔ پتھر معبود ہو سکتا ہے انسان اللہ کا نمائندہ نہیں ہو سکتا اس قسم کا غیر معقول مذھب۔ مذھب کے طور پر شرک کے طور پر قبول نہیں کرتا اسلام، یہود و نصار ی کو ایک مذھب کے طور پر قبول کرتا ہے تحریف شدہ مذھب۔ مذھب کہتے ہیں مگر یہ کہ اس میں تحریف ہوگئی ہے شرک راسا مذھب ہی نہیں ہے کچھ نہیں ہے اس کی حیثیت نہیں ہے۔
قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ آپ کہہ دے ان بتوں سے کوئی سروکار نہیں ہے، میرے لئے اللہ ہی کافی ہے۔ کل بھی آپ کو بتایا اللہ کافی ہےأَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ اگر ہمارے پاس اللہ ہے تو ہم کو پھر کچھ نہیں چاہئےحَسْبِيَ اللَّهُ ۖ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ اللہ پر بھروسہ کرنے والے اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں ، ادھر ادھر در در کی ٹھوکریں نہیں کھاتے یہ اللہ پر بھروسہ کرنے والے اطمینان کے ساتھ ایک مکمل یقین کے ساتھ ،آرام سےوقت گزارتے ہیں کام کرتے ہیں کامیابیاں حاصل کرتے ہیں محنت کرتے ہیں اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ در در کی ٹھوکریں نہیں کھاتے ، خاک نہیں چاٹتے ۔ غیر اللہ کے دروں پر یعنی ہم جو لوگوں سے اگر کوئی توقع رکھتے ہیں یہ توکل بر خدا کے خلاف ہے یعنی لوگوں پر توقع رکھ کر حکم خدا بیان نہیں کرتا ایک شخص یا خلاف بیان کرتا ہے جہاں لوگ راضی ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں جس کو لوگ پسند نہیں کرتے وہ بیان ہی نہیں کرتے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پر اس کو بھروسہ نہیں ہے۔
قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ کہہ دیجئے میری قوم تم اپنی جگہ عمل کئے جاواعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ اپنی جگہ عمل بت پرستی کرتے جاو، شرک کرتے جاوإِنِّي عَامِلٌ میں بھی عمل کر رہاہوں اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتا ہوں، دونوں عمل کریں گے تم بھی عمل کرو ہم بھی عمل کریں گے اور پھر نتیجہ کا انتظار کریں گے تم اپنے عمل کے نتیجے کا انتظار کرو ہم بھی اپنے عمل کے نتیجے کا انتظار کرتے ہیں۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ فَسَوْفَتَعْلَمُونَ پھر تم کو پتہ چل جائے گا جب نتیجہ ملنے کا جو وقت آتا ہےعَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ عمل کرو اپنی جگہمکان فکری و نظریاتی مکان اپنا فکر و عقیدہ ہو اپنا جو نظریہ ہے تمہارا اس کے مطابق عمل کئے جاوعَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ اپنے عقیدے کے اوپر عمل کرو اپنے نظریے کے مطابق عمل کروإِنِّي عَامِلٌ میں بھی اپنے نظریے کے مطابق عمل کرتا ہوں تم بھی اپنے نظریے کے مطابق عمل کرو پوری طاقت صرف کرو پوری زندگی لگاو فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ آنے والا وقت بتائے گا کہ تمہارے عمل کا کیا نتیجہ ہمارے عمل کا کیا نتیجہ ہے۔ یعنی اپنے موقف پر جو یقین ہے وہ سب سے بہت اہم ہے ایک چلینج ہے اپنے موقف کے اوپر یقین کا مظاہرہ ہے، کرتے جاو تم لوگ ہم بھی کرتے جائیں گے پتہ چل جائے گاکل۔ یقین ہے کل کے بارے میں یوم حساب کے اوپرجب یقین ہے تو اس قسم کا چیلیج کر تے ہیں۔
إِنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ ہم نے آپ پر یہ کتاب انسانوں کے لئے برحق نازل کی ہے لہذا جو ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے لئے حاصل کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہے۔إِنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ ہم نے آپ کے اوپر کتاب نازل کی ہے لوگوں کی ہدایت کے لئے حق کی ہدایت کے لئے واقع، حق کہتے ہیں واقع کو امر واقعحق الشئی اذا تحقق جو واقعیت رکھتا ہےاس کوحق کہتے ہیں جو واقع نہیں رکھتا اس کو باطل کہتے ہیں۔ اگر آپ کی بات حق اور واقع کے مطابق ہے اس کو سچ کہتے ہیں اگر واقع کے مطابق نہیں ہے اس کو جھوٹ کہتے ہیں واقع کو حق کہتے ہیں اور آپ کی بات کو سچ کہتے ہیں۔ یہاں پر فرمایاکہ ہم نے یہ کتاب لوگوں کی ہدایت کے لئے حق کی بنیاد پر نازل کیا ہے جو یہ حق ہے ایک امر واقع کے مطابق ہے تو فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَلِنَفْسِهِ جو ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنا بھلا کرتا ہے اپنے حق میں کام کرتا ہے، اپنے فائدے میں کام کرتا ہے کسی اور کے لئے نہیں۔ اگر اس کتاب پر اگر کوئی عمل کرتا ہے تو کسی پر احسان نہیں کرتا نہ رسول پر نہ اللہ پر نہ امام پر نہ عالم دین پر کسی پر احسان نہیں کرتا اپنے اوپر احسان کرتا ہے۔ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَلِنَفْسِهِ ، وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا اور جو گمراہ ہوتا ہے، گمراہی اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو گمراہی میں ڈالتا ہے کسی اور کے لئے کوئی ضرر نہیں ہے کسی اور کا کچھ نہیں بگڑتا خود تمہارا بگڑتا ہے کسی اور کا کچھ نہیں جاتا تمہاری آخرت کی پوری زندگی جاتی ہے ختم ہوجاتی ہے۔
وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ رسول جو ہے وہ حق پہنچانے کے ذمہ دار ہے اور حق کو قبول کرانے کے ذمہ دار نہیں ہے ۔ ایمان کی دعوت دینے کے ذمہ دار ہے مومن بنانے کے ذمہ دار نہیں ہے اللہ کا رسول جو ہے لَسْتَ عَلَیْهِمْ بِمُصَۜیْطِرٍ آپ ان پر مسلط نہیں حاکم نہیں آپ ان کو مجبور نہیں کر سکتے ، لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ جبر نہیں ہے، جبر اگر ہے تو پھر جابر کا ارادہ ہوتا ہے مجبور کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا مجبور کا کوئی ارادہ نہیں ہے تو ایمان بھی نہیں ، مجبور کا کوئی ارادہ نہیں ہے تو اس کا کوئی عمل بھی نہیں ہے سارا جابر کا ہے ۔ یہ جو نظریہ جبر ہے اس سے نامعقول ترین نظریہ نہیں ہے دنیا میں۔ ہماری روایات میں یہ جو نظریہ جبر والے ہیں ان کے بارے میں بہت عجیب و غریب خطرناک روایات ہیں۔ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ آپ ان کو مجبور نہیں کر سکتے۔ پہلے بھی بتایا اللہ دعوت دیتا ہے، حجت مکمل کرتا ہے، کوئی کسر نہیں چھوڑتا اپنی بات کو پہنچانے کا ہر ذریعہ وسیلہ اختیار فرماتا ہے اس کے بعد اگر قبول نہیں کرتا تو اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ مجبور نہیں کرتا کئی بار بتایا آپ کو مجبور کو قانون نہیں دیا جاسکتا، مجبور اپنا ارادہ نہیں ہے اس کا اپنا رادہ نہیں ہے تو پھر اس کو قانون دینے کا کیا مطلب؟ یہ کرو یہ نہ کرو کہنے کا کیا مطلب ؟ عبث ہے وہ نہ یہ کر سکتا ہے نہ یہ چھوڑ سکتا ہے ، نہ چھوڑ سکتا ہے نہ کر سکتا ہے پھر اس سے کہتے ہیں کرو نہ کرو کیا کروں کیا نہ کرو؟ میرے بس میں نہیں ہے کرنا نہ کرنا شریعت قانون نہیں دیا جاتا مجبورکو مکلف نہیں بنایا جاتا مجبور کو۔ مجبور کا ارادہ نہیں ہوتا جب ارادہ نہیں تو اس کا عمل نہیں ہوتا عمل کرنے ھرنے والا سارا ارادہ ہمارا ۔آپ کو بتایا کہ ہمارا عمل جو ہے ہمارا عمل جو ہم سے صادر ہوتا ہے وہ ہمارے جسم کا حصہ نکل جاتا ہے ہمارا جسم استعمال ہوتا ہے ہم اپنے جسم کو خرچ کر رہے ہوتے ہیں جب عمل کر رہے ہو تے ہیں ۔اپنے آپ کو خر چ کر رہے ہوتے ہیں جب عمل کر رہے ہو تے ہیں اس وقت اس کو خرچ کرنے والا کون ہے؟ اس انرجی کو مادے میں تبدیل کرنے والا کون ہے؟ اس کوعملی شکل دینے والا کون ہے؟ ارادہ ہے آپ کا ارادہ نافذ ہے آپ ارادہ کر تے ہیں آپ عمل کرتے ہیں، پھر وہ عمل جو ہے محفوظ ہوتا ہے مجبور کا کوئی عمل نہیں ہوتا ارادہ نہیں ہے عمل ہوتا ہے ارادے سے، یہ مسلمات میں سے ہے آج کل۔ عمل ہوتا ہے ارادے سے مجبور کا اپنا کوئی ارادہ نہیں ہوتا۔
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ موت کے وقت اللہ روح کو قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے پھر وہ جس کی موت کا فیصلہ کر چکا ہوتا ہے اسے روک لیتا ہے اور دوسری کو ایک وقت کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّ وہ نیند سے بیدار ہوجاتا ہے فکر کرنے والوں کے لئے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔
موت اور نیند کا ذکر ہےاللَّهُ يَتَوَفَّى اللہ پورا لیتا ہے وفی پورا يَتَوَفَّ مکمل کرنے کو کہتے ہیں۔ اللہ کسی کی عمر مکمل کر لیتا ہے الْأَنْفُسَ انفس کا مطلب یہاں روح ہے، روحوں کو اللہ تعالیٰ لے لیتا ہےوفات کرتا ہےحِينَ مَوْتِهَا جب یہ انفس مر جاتے ہیں حِينَ مَوْتِهَا ھا کی ضمیر انفس کی طرف ہے انفس ہے آپ نے کہا انفس سے مراد روح ہے مَوْتِهَا یعنی روح کی موت، روح کی موت نہیں روح جو ہے خلتقم للبقا لا للفناء روح کا انتقال ہوتا ہے موت نہیں آتی روح کو موت آتی ہے جسم کو، جسم مرتا ہے جسم بے جان ہوتا ہے جان نکلتی ہے تو جسم بے جان مرتا جسم ہے تو پھر یہ کیا ہوا؟ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا ، حین موت الانفس اس کا مطلب روح مرتی ہے قرآن کی مطابق آپ کیا کہتے ہیں؟ روح نہیں مرتی قرآن کہتا ہے روح مرتی ہے یہاں کیا کہیں گے؟اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا،موتھا کی ضمیر جو ہے روح اور جسم کا مرکب ذات کو لیں گے ہم ذات پر موت آتی ہے ذات کیا ہے ؟ جسم اور روح دونوں کے مشترکہ چیز کو ہم ذات کہیں گے۔ اس ذات کے اوپر جب موت آتی ہے تو پھر روح جسم کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے ، وصول کرتا ہے اللہ تعالیٰوَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَجس پر موت کا فیصلہ ہوا ہے وہاں روح کو واپس نہیں کرتا ہے یمسک روک کے رکھتا ہے، روک رکھتا ہے وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ دوسرے کو چھوڑ دیتا ہے اگر روح کو چھوڑ دیا پھر وہ دوبارہ جسم میں جاتا ہے اور بیدار ہوجاتا ہے اور اگر نہیں چھوڑا پھر اس کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔ یعنی نیند بھی ایک قسم کی روح اور جسم سے جدائی ہے۔ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ایک مدت تک کے لئے اس کو کہتے ہیں جاو واپس جاو، جسم کے اند رواپس جاو اس کو اٹھاو کام ہے نما ز پڑھنا ہے، یا ڈیوٹی پر جانا ہے وہ روح واپس آتی ہے جسم میں۔
جسم اور روح دو مختلف چیزیں ہیں جسم الگ چیز ہے روح الگ چیز ہے۔ روح جب تک جسم میں ہے تو روح پابند ہے جسم کے ذریعے کام کرنے کا وہ آنکھوں کے ذریعے دیکھ سکتی ہے روح ، کان کے ذریعے سن سکتی ہے، دماغ کے ذریعے سوچ سکتی ہے ٹھیک ہے جی۔ روح جب تک جسم کے اندر موجود ہے وہ روح جو ہے جسم کو استعمال میں لے آتا ہے آزاد نہیں ہے بند ہے ادھر۔ وہ جو کچھ کرنا ہےاس روح کو جسم کے اعضاکے ذریعے اپنا ارادہ نافذ کرنا ہے جب روح جسم سے آزاد ہوجاتی ہے نیند میں کسی حد تک روح جسم سے آزاد ہوجاتی ہے۔ روح آزاد ہوگئی، پھر جب روح جسم سے آزاد ہوگئی پھر وہ ان آنکھوں کے بغیر دیکھ لیتی ہے اس کے بغیر باتیں کرتی ہے اس کے بغیر آوازیں سنتی ہےاور پھر وہ غیر زمانی ہوتی ہے روح۔ آنے والے واقعات کو دیکھتی ہے ابھی واقعہ نہیں ہواآنے والے واقعات کو خواب میں دیکھتی ہے اور اس کو نظرآتی ہے آنکھیں جو ہے وہ بند ہے چیزیں نظر آتی ہیں، زبان بند ہے باتیں کر رہا ہے ۔ روح، روح باتیں کر رہی ہے زبان کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس نے روح کو وقتی طور پر چھوڑا ہے إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّ روح کے مستقل ہونے روح کے وجود کے اوپر یہ ایک دلیل ہے۔ ابھی یہاں وقت ہوتا ہے ہم اس آیت کی مزید تشریح آئند بیان کریں گے روح کے بارے میں۔