تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیات 68 - 70

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ۖ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ
سورہ زمر آیت 68، اور جب وہ صور میں پھونک ماری جائے گی تو جو آسمانوں اور زمین میں ہے سب بے ہوش ہوجائیں گے مگر جنہیں اللہ چاہے پھر دوبارہ اس میں پھونک ماری جائے گی تو اتنے میں وہ سب کھڑے ہوکر دیکھنے لگیں گے۔
آیت میں ارشاد فرمایا فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ صور پھونکنے کے بعد آسمان اور زمین کے تمام موجودات جو ہیں وہ مدہوش ہوجائیں گے۔ یہ لفظ صعق شدید آواز کو کہتے ہیں اس شدید آواز کے سننے سےعقل بھی زائل ہوجاتی ہے موت بھی آجاتی ہے اور صعقۃ الموت بھی کہتے ہیں اور مہلک عذاب کو بھی صعق کہتے ہیں۔ اور اہل لغت سے صعق کے تین استعمالات ذکر کئے ہیں صعقۃ الموت، صعقۃالعذاب صعقۃ العذاب، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ آسمان اور زمین میں موجود تمام زندہ موجودات مر جائیں گے صعق اسلامی تعلیمات میں یہ بات مسلم ہے صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا، ایک صور پھونکنے سے سب مرجائیں گے دوسرے صور سے سب زندہ ہوجائیں گے۔ بعض کے نزدیک صور تین مرتبہ پھونکا جائے گا وہ نفخۃ الفزع، نفخۃ الصعق، نفخۃ القیام لیکن نفخۃ الفزع اور نفخۃ الصعق ایک ہی شمار کیا جاسکتا ہے ایک صور کی دو تعبیریں ہیں کیونکہ فزع ہولناکی کہتے ہیں اور پہلا صور پھونکے سے سب کی موت واقع ہوجاتی ہے فزع اکبرفزع کی وجہ سے ، ہولناکی کی وجہ سے چنانچہ قیام قیامت کو یوم الفزع الاکبر بھی کہتے ہیں بڑی ہولناکی۔
وَ یَوۡمَ یُنۡفَخُ فِی الصُّوۡرِ فَفَزِعَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ اور جس دن صور پھونک دیا جائے گا تو آسمان اور زمین کی تمام موجودات خوفزدہ ہوجائیں گے صعق مرجائیں گے اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللّٰہُ ؕ مگر وہ جو جنہیں اللہ چاہے وَ کُلٌّ اَتَوۡہُ دٰخِرِیۡنَ اور سب نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ کے حضور پیش ہوں گے۔ یَوۡمَ یُنۡفَخُ فِی الصُّوۡرِ آیت میں وَ کُلٌّ اَتَوۡہُ دٰخِرِیۡنَ قرینہ ہے کہ اس صور سے مراد موت ہے سب مر جائیں گے اَتَوۡہُ دٰخِرِیۡنَ آیت میں فرمایا کہ جب صور میں پھونک ماری جائی گی تو اس وقت جو ہے سب مر جائیں گے اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللّٰہُ سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ زندہ رکھنا چاہتا ہے۔
وہ کون لوگ ہیں جن کو اللہ زندہ رکھنا چاہتے ہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں وہ جبرائیل، میکائل، اسرافیل اور عزرائیل ہیں جن کو سادات ملائکہ کہتے ہیں۔ او ربعض کہتے ہیں اس میں حاملین عرب بھی شامل ہیں وَ یَحۡمِلُ عَرۡشَ رَبِّکَ بعض فرشتے ہوں گے جو عرش الہی کو اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ ہم اپنی جگہ بتائیں گے کہ عرش سے مراد جو ہے اللہ تعالیٰ کی بالادستی ہے اور اللہ کی حکومت ہے، نظام ہے تنظیم، عرش یعنی جائے نظام بادشاہ جب عرش پر بیٹھتا ہے ملک کو چلانے کے لئے وزراء مشیران وغیرہ کا ساتھ بیٹھتا ہے اور امر صادر کرتا ہے۔ عرش اشارہ ہوتا ہے تدبیر۔قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی عرش کا نام آیا ہے اس کے ساتھ یدبر، تدبیر وغیرہ کا بھی ذکر ہوتا ہے اور کرسی جو ہے اقتدار اعلی کو کہتے ہیں وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اللہ تعالیٰ کی کرسی زمین اور آسمان سے بھی زیادہ وسیع یعنی حکومت، اللہ کی حکومت جو ہے وہ آسمان زمین سے بھی زیادہ وسیع ہے آسمان اور زمین جو موجود کائنات اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی چیز نہیں ہے بہر حال یہاں پر یہ لوگ زندہ رہیں گےباقی سب لوگ مر جائیں گے پہلے صور سے۔
ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ پھر دوسری مرتبہ پھونک مار دی جائے گی تو پھر اس پھونک سے سب زندہ ہوجائیں گے۔ آ پ کو بتایا کہ سائنسدان آج کل کہتے ہیں کہ اس کائنات جو ہے آج دھماکہ کہتے ہیں نا یہ لوگ کائنا ت وجود میں آیا ایک دھماکہ سے اس دھماکہ کے بارے میں کہتے ہیں وہ دھماکہ وجود میں آیا تھا ایک سکینڈ کے چھے ساتھ ارب ویں حصے میں ۔ ایک سکینڈ کو سات ارب پر تقیسم کرو تقریبا اللہ تعالیٰ کا امر قرآن مجید میں ہے اللہ تعالیٰ کا امر،قرآن مجید میں ہے ، چشم زدن کی طرح ہے بلکہ اس سے بھی اقرب ہے۔ یہ سائنسی باتوں پر ہم قرآن کی تفسیر نہیں کرتے، ذکر کرتے ہیں یہ سائنس کا کہنا ہے یہ قرآن کا کہنا ہے دونوں قریب قریب ہے سائنس کا نظریہ بدل سکتا ہے ابھی کہہ دیا کائنات وجود میں آنے میں وقت کتنا لگا؟ ایک سکینڈ کے سات ارب ویں حصہ لگا۔ یہ ایک تھیوری ہے اور تحقیق سے پتہ چل سکتا ہے کہ اللہ تعالی کا عمل جو ہے وہ زمانی نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ کا خلق اور امر بتایا آپ کو خلق تدریجی ہوتا ہے امری جو ہے عالم امری جو ہے غیر زمانی ہوتا ہے۔ دھماکہ جو ہے عالم امری سے مربوط ہے پھر اس دھماکہ کے بعد تخلیقی مراحل سے یہ کائنات گزارے گئے اربو ں سال میں یہ شکل جو ہے ہوگیا، موجودہ شکل میں آگیا۔
ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ دوسری مرتبہ پھونک ماریں گے تو اس میں کھڑے ہوجائیں گے ، سب زندہ ہوجائیں گے وہ بھی ایک آواز ہوگی اس آواز سے لوگ مر جائیں گے ایک او رآواز ہوگی اس آوز سے زندہ ہوجائے ایک تیسری آواز ہےنہیں مختلف آواز ہے۔ صور کیا چیز ہے؟ ہم کو نہیں پتہ ، ہم نہیں کہتے صور وہی چیز ہے جس کو سائنسدان دھماکہ کہتے ہیں، نہیں کہتے ہیں ہم۔ صور کیا چیز ہے تعبیر ایک اختیار فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہم جو مادی دنیا میں رہنے والوں کو ہماری اصطلاح ناسوت کہتے ہیں مادی دنیا کو، ناسوتی لوگوں کو سمجھانے کے لئے یہ صور کہا ہے بہر حال ایک صور پھونکا جاتا ہے وہ مرجاتا ہے دوسر ےسے زندہ ہوجاتا ہے جیسے اس کائنات کی تخلیق کے لئے اس کو وجود دینے کے لئے ایک دھماکہ بقول سائنسدانوں کے اورا یک دھماکہ سے وجود میں آیا تھا اسی قسم کے ایک دھماکہ سے مرجاتے ہیں اور دوسری دھماکہ سے وجود میں آتا ہے۔ یہ امر الہی ہے اللہ تعالیٰ کاعالم امری جو ہے وہ زمانے کا محتاج نہیں ہوتا اِنَّمَآ اَمْرُہٓٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ احادیث میں ہے ائمہ علیھم السلام نے فرمایا یہ کاف و نون استعمال نہیں ہوا اللہ کو کن کہنے کی ضرورت نہیں ہے ہوجاو۔
یہ ملحدین کہتے ہیں ہوجاو کس سے کہا اللہ نے کوئی چیز ہے ہی نہیں کس سے ہوجاو کہا؟ مخاطب ہے ہی نہیں کیسے خطاب کیا ہوجاو؟ یہ ایک تعبیر ہے ہم لوگوں کے لئے ائمہ علیھم السلام نے فرمایا کاف و نون کی ضرورت نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے لئے یہ لفظ استعمال کیا ہے ارادہ الہی ہے اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اردہ الہی نافذ ہوتا ہے فوری وہ زمانہ کا محتاج نہیں ہے۔ بہر حال یہ کائنات یہ آج کل کے لوگوں کو بھی یہ تسلیم ہے کہ یہ کائنات جو ہے وہ وجود میں آئی ہے بعد میں شروع میں نہیں تھا ایک دھماکہ سے وجود میں آیا ہے اور قرآن نے فرمایا ایک اور دھماکہ سے صور سے یہ کائنات تباہ ہوجائے گی آسمان زمین سب ختم یہ پورا نظام کائنات درھم برھم ہوجائے گا، یہ کہکشائیں یہ ستارے یہ زمین سب ختم اور زمین کے بارے میں فرمایا یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ آسمان بھی تبدیل ہوجائیں گے زمین بھی تبدیل ہوجائے گی ایک اور نظام وجود میں آئے گا۔ یہ موجودہ نظام سے مختلف ہوگا یہ نظام زندگی اور وہ نظام زندگی اور، یقینا مختلف ہے لوگوں کو جہنم میں آتش میں ڈالتے ہیں یہاں آتش میں ڈالو تو پانچ منٹ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا قیامت کے جہنم میں کہتے ہیں ابد الآبدین رہیں گے ۔ اس میں نہ موت ہے نہ زندگی ہے جل کر کے روکھ ہو کر کے موت نہیں آتی؟ نہیں آتی۔ ادھر آسمانوں میں یعنی جنت میں رہنے والے جہنمیوں کو دیکھ سکیں گےمسافت زمان و مکان کا تصور اب یہاں والا نہیں ہے دیکھ سکیں گے۔ قرآن مجید میں ہے دیکھنا چاہتے ہو؟ دیکھا کہ وہ اس میں ہے جہنم میں، اور حدیث میں ہے کہ جب مومن جنت کی طرف جائیں گے تو ان کو اپنی جگہ جہنم میں دکھائیں گے اگر تو مومن نہ بنتا تو جہنم میں تمہاری وہ جگہ تھی اور کافرکو جب جہنم میں بھیج دیا جاتا ہے تو ان کو دکھایا جائے گا کہ اگر تو مومن بنتا تو یہ تمہاری جنت میں وہ جگہ تھی تو کافرکا افسوس بڑھ جائے گا اور مومن کی خوشی میں بہت اضافہ ہوگا آہ میں اس جگہ سے بچ کے اس جگہ جا رہا ہوں جنت۔
وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک جائے گی اور اعمال کی کتاب رکھ دی جائے گی اور پیغمبروں اور گواہوں کو حاضر کیا جائے گا اور ان کے دمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُونَ اور ہر شخص نے جو عمل کیا ہے اسے اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور اللہ ان کے اعمال سے خوب واقف ہے کس کو کتنا دینا چاہئے۔ وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ زمین چمک جائے گی بِنُورِ رَبِّهَا زمین سے مراد، صحرا سے مراد صحرائے قیامت ہے تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وہ زمین قیامت جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے منور ہوجائے گی ہو سکتا ہے کہ آج کل کی زمین جو ہے وہ سورج کی روشنی سے منور ہے اور قیامت کے دن کی زمین جو ہے وہ نور رب سے منور ہے، سورج کے علاوہ دیگر کوئی ذریعہ ہے اللہ تعالیٰ اپنا نور جو ہے وہ یہاں نور رب سے کیا مرا ہوگا؟ واقعا نور ہے روشنی ہے جو قیامت کی سرزمین کے اوپر جو روشنی پھیلے گی یا عدل الہی مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عدل جو ہے وہ زمین کے اوپر مختلف اقوال ہے۔ یا حقائق کا انکشاف ہے قیامت کے دن وہ پردے ہٹ جائیں گے ہم اپنے آ پ کو اچھے عمل کرتے ہوئے دیکھیں گے پردے ہٹ جائیں گے۔ قرآن مجید میں ہے نا ہم نے پردے ہٹا دیئے آج تمہاری نگاہ بہت تیز ہے جو کچھ تم نے دنیا میں کیا ہے سب نظر آئے گا بِنُورِ رَبِّهَا اور حقائق کا انکشاف ہوجائے گا سب کچھ سامنے آجائے گا یٰلَیۡتَنِیۡ قَدَّمۡتُ لِحَیَاتِیۡ کہے گا۔ بعض لوگ کہتے ہیں اس سے امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف مراد ہے پھر اس کو تفسیر ی نہیں کہیں گے اس کو تدبیری کہیں گے وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا قیامت کے دن اس لئے وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ جو ہیں وہ صاحب زمان کے ظہور کے بعد نامہ اعمال پیغمبران تو نہیں ہوتے اس لئے وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا تطبیق ہے ظہور پر۔
وَوُضِعَ الْكِتَابُ اور زمین اللہ کے نور سے روشن ہوجائے گی اور کتاب سامنے رکھ دی جائے گی کہ نگاہیں تیز ہوگئیں ہیں آج فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ، اقْرَأْ كِتَابَكَ پڑھ اپنے نامہ اعمال کو كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا محاسبہ کے لئےخود توہی کافی ہے پڑھو۔ کیا حال ہوگا اس وقت جب ہم خود اپنے نامہ اعمال، نامہ کہتے ہیں نا ہم کو سمجھانے کے لئے ہم اپنے آپ کو دیکھ رہے ہوں گے کیا کرتے رہے؟ پوری زندگی جو ہے وہ آرام سے تھوڑے سے وقت میں گزر جائے گےوہاں قیامت کے دن وقت کا تصور وغیرہ سب مختلف ہے دیکھ لیں گے اپنے آپ کو مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَاۚ کوئی چھوٹا بڑا نہیں چھوڑا اس کتاب نے اس نامہ اعمال نے سب کا شمار کیا ہے سب کا اندراج کیا ہے۔ وَوُضِعَ الْكِتَابُ کتاب نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا پھر کہا جائے گا اقْرَأْ كِتَابَكَ پڑھ وہاں نہیں کہہ سکتا میں پڑھا لکھا نہیں ہوں ان پڑھ ہوں، دیکھنا ہوتا ہے انکشاف، حقائق سامنے۔
وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ انبیاء کو بھی پیش کئے جائیں گے وَالشُّهَدَاءِ گواہوں کو بھی پیش کئے جائیں گے گواہ شھداء یَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُ گواہ بہت ہے قیامت کے دن دنیا میں جو کچھ ہوا ہے وہ اللہ کے سامنے ہوا ہے، گواہ کیا چاہئے اللہ تعالیٰ کے لئے لیکن پھر بھی اس انسان کو بتانے کے لئے ایک تو نامہ اعمال ہے خود دیکھ رہا ہے خود دوسرا گواہ جو ہے پیش کئے جائیں گے۔ پہلے فرمایا وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ پیغمبران اور ان کی امت، سب کو سامنے رکھ دیا جائے گا پیغمبران سے پوچھا جائے گا کیا آپ نے اپنے فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ ہم اس امت سے سوال کریں گے جن کی طرف پیغمبران بھیجے گئے اور پیغمبراوں سے بھی سوال کریں گے کیا تم لوگوں نے میرا پیغام پہنچایا تھا؟ لوگوں سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس ہمارے رسول نے پیغام پہنچائے گا سوال ہوگا۔ رسولوں سے بھی سوال ہوگا امتوں سے بھی سوال ہوگا۔ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ پیغمبران کو بھی پیش کیا جائے گا والشھداء گواہوں کو بھی پیش کیا جائے گا۔ وہ گواہ کیا ہے؟ گواہ بہت ہے، گواہوں سے گواہی لی جاے گی گواہوں میں ایک تو فرشتے گواہ ہیں وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ قیامت کے دن ہر شخص کو ایک فرشتہ جو ہے وہ ہانکنے والا ہوگا سائق ڈرائیو کرنے والا کھینچ کر اور ایک گواہ ساتھ ہوگا۔ وقت کا نبی بھی شاہد ہوگا فرشے شاہد ہوں گے وقت کا نبی بھی شاہد ہوں گے وقت کےحجت بھی شاہد ہے ہمارے امام زمانہ ہمارا شاہد ہے۔ ہمارےاعمال ہفتہ میں ایک بار امام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔شاہد اسے کہتے ہیں جس نے مشاہدہ کیا ہے مشاہدے میں آتا ہے پھر گواہی دے سکتا ہے اور اپنے اعضا و جوارح بھی يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ اور پاوں بھی اور دیگر اعضا میں گواہی دیں گے مجھے اس کار خیر کے لئے یا کاربد کے لئے مجھے استعمال کیا تھا۔ زمین بھی ، مستحب ہے کہ مختلف جگہوں پر نماز پڑھو وہ زمین جو ہے گواہی دے گی۔ آپ نے بہت جگہوں پر نمازیں پڑی ہیں تو سب جگہے جمع ہوکر کے بہت سے گواہ آپ کے حق میں آجائیں گے خوش ہو جائیں گے شکر اللہ یہاں نماز پڑھی تھی ادھر پڑھی تھی ادھر پڑھی تھی سب گواہی دیں گے اور زمان بھی گواہی دے گا کیا بات ہے، اور خود اللہ تعالیٰ بھی وَقُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْحَقِّ اور حق کے ساتھ جو ہے ان کے درمیان فیصلہ ہوگا وہ کیا فیصلہ ہوگا؟ وہ عظیم فیصلہ وہ ابدی زندگی کا فیصلہ یہ رزلٹ آپ جو سننے کے لئے بے تاب رہتے ہیں امتحان کے۔ یہ دو دن کے لئے فیصلہ سنایا جاتا ہے یہ ابدی زندگی کے لے فیصلہ وَقُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْحَقِّ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ ان پر ظلم و زیادتی نہیں ہوگی اللہ کو کسی پر ظلم کرنے کی ضرورت نہیں ہے وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ اور ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ثواب ثواب عذاب عذاب ، پورا کا پورا کوئی کمی نہیں ہوگی کوئی خامی نہیں رہے گی کوئی نہیں کہہ سکتا میرا تو پورا حق نہیں ملا مجھے جنت جانے کے بعد میرا پوا حق نہیں ملا نہیں کہہ سکتا یا جہنم جانے کے بعد وہ یہ نہیں کہہ سکتے اتنا گناہ تو میں نے نہیں کیا تھا۔