تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیات 32 - 38

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ
سورہ زمر آیت 32، پس اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا، جب سچائی اس کے پاس آئی تو اسے جھٹلا دیا، کیا کفار کے لئے جہنم میں ٹھکانہ نہیں ہے؟
أَظْلَمُ سب سے بڑا ظالم کس پر؟ اپنے اوپر۔ سب سے بڑا اپنے نفس کے اوپر ظلم کرنے والا وہ ہے جو اللہ تعالی کی طرف جھوٹ کی نسبت دے، اللہ پر جھوٹ باندھا۔ اللہ نے نہیں کہا اور یہ کہتا ہے اللہ نے ارشاد فرمایا ہے یہ کذب علی اللہ سب سے بڑا ظلم ہے اللہ کے اوپر جھوٹ۔ اس کو لوگ بہت آسان لیتے ہیں وہ اللہ کی طرف نسبت دیتے ہیں یہ وہ وغیرہاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَائمہ علیھم السلام کی طرف نسبت دینا ایک بات کا جو ائمہ علیھم السلام نےنہیں فرمایا یا ائمہ سے ثابت نہیں ہے۔ یہاں سے ایک بات جو اپ لوگوں کے کام کی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی روایت ائمہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےنقل کرو تو کہو روایت ہے رسول اللہؐ نے فرمایا ، کہور روایت ہے کہ امام عليه‌السلام نے فرمایا براہ راست امام عليه‌السلام نے فرمایا اللہ نے فرمایا نہ کہو۔ قرآن ہے تو کہو اللہ نے فرمایا چونکہ قرآن ثابت ہے اللہ کا کلام ہے آپ کہہ سکتے ہیں قرآن کی آیت اگر تلاوت کرتے ہیں تو کہہ سکتے ہیں اللہ نے فرمایا ۔ اللہ کی طرف نسبت دے سکتے ہیں یہ جھوٹی نسبت نہیں ہے۔ اگر کوئی حدیث روایت ہے تو کہو روایت ہےرسول اللہ ؐ نے فرمایا امام عليه‌السلام نے فرمایا۔ روایت کی طرف نسبت دے دو، روایت تو ہے نا وہ توجھوٹ نہیں ہے لیکن اگر آپ نے کہا امام عليه‌السلام نے رسول ؐنے فرمایا اور یہ روایت صحیح نہیں ہے آپ کے لئے ثابت نہیں ہے امام عليه‌السلام نے فرمایا کہاں سے ثابت ہے؟ ثابت نہیں ہے روایت ہے ثابت نہیں ہے ہر روایت ثابت نہیں ہوا کرتا اس لئے یہ جھوٹی نسبت کے ارتکاب میں آتے ہیں آپ خبردار، آپ دیکھو ہم اپنی تفسیر میں جو بھی روایت بیان کرتے ہیں شروع میں روایت ہے کا لفظ باالالتزام ہم ذکر کرتے ہیں،روایت ہے کہ امام جعفر صادق عليه‌السلام نے فرمایا، روایت ہے کہ امام محمد باقر عليه‌السلام نے فرمایا براہ راست نسبت نہ دو یہ بہت بڑا بہتان ہوتا ہے گناہ کبیرہ ہے اگر روزہ سے ہے توروزہ ٹوٹ جاتا ہے، روزہ کیوں ٹوٹتا ہے پتہ ہے؟ اس دین کو سمجھو اس دین کو اس کے صحیح مصادر سے سمجھو پھر اس دین کے اوپر آجاو اور عمل کرو اور اپنے ذہن او رخیال کے مطابق اس دین کو نہ چلاو گمراہ ہوجاو گے بچا راہ ہوجاو گے ندامت و حسرت میں پڑ جاو گے۔
وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ اس سچائی کی بھی تکذیب کی جو رسول اللہ ؐ لے کے آئے تھے۔ ان لوگوں کو کافر کہتے ہیں أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ کیا کافرین کے لیے جہنم ٹھکانہ نہیں ہے جہنم ہی ٹھکانہ ہے ایسے لوگوں کا۔ وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ اور جو شخص سچائی لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ اہل تقوی ہے وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ جو سچائی لے کر آیا، سچائی لے کر آنے والی ہستی حضرت خاتم الانبیاء حضرت محمد ؐ کی ذات ہے جو ایک سچی کتاب ، سچا دین ، ایک جامع نظام حیات لے کر آیا۔ اور جس نے اس جامع نظام حیات میں زندگی کا کوئی گوشہ نہیں چھوڑا جس سے انسان کو اپنی شناخت ہوئی جس سے انسان نے تہذیب سکھائی جس سے انسان سن بلوغ کو پہنچ گیا ، انسان سن بلوغ کو پہنچ گیا اس کے بعد کوئی شریعت نہیں آئی ۔ یہ انسان اسی شریعت کو محفوظ رکھ سکتا ہے مزید انبیاء اور مزید شریعت کی ضرورت نہیں ہے ۔ انسان سب بلوغ کو پہنچ گیا اس رسول کی تربیت سے ۔
یہاں دو ذات کا ذکر ہے وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِسچائی لے کر آیا اور دوسری شخصیت نے اس کی تصدیق کی۔ متعدد روایات ہیں وَصَدَّقَ بِهِ سے مراد مولائے متقیان حضرت علی عليه‌السلام کی ذات ہے۔ وَالَّذِي جَاءَ سے مرا د رسول اللہ ؐ ہیں وَصَدَّقَ بِهِ سے مراد علی عليه‌السلام کی ذات ہے۔ اس روایت کو قرطبی نے اپنی تفسیر یہاں حوالہ بھی ہے میں ان حوالوں کا آپ سے ذکر نہیں کروں گا جلد 16 صفحہ 256، تفسیر کا نام لوں کا صرف آگے، قرطبی نے اپنی تفسیر میں ، ابو حیان نے البحر المحیط میں، شوکانی فتح القدیر میں، ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں، ابن بطریق نے العمدہ میں، حافظ ابو نعیم نے نا نزل القرآن فی علی میں ، موازلی میں المناقب میں،سیوطی نے در المنثور میں، حسکانی نے شواہدالتنزیل میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔
یہ روایت کے مصادر ہیں راوی کون ہے ؟ کس نے کہا یہ رسول اللہ ؐ سے کس نے سنا؟ رسول اللہ ؐ سے سننے والوں میں حضرت ابن عباس، ابو ہریرہ، ابو الاسود یہ اصحاب میں سے ہے اور تابعین میں سے مجاہد، لیث وغیرہ راوی ہے۔ دیگر جو مصادر ہیں یہاں تو مختصر کتاب ہے اس کتاب کا موضوع یہ نہیں ہے کہ علی عليه‌السلام کو صدیق ثابت کرنے کے موضوع پر تفسیر ہے یہاں پر گزرتے ہوئے ایک مختصر سا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس کے تحقیقی کتابوں میں درجنوں حوالے ہیں اور زیادہ بہت حوالے ہیں کہ اول من صدق رسول علی اور یہ آیت ان کے بارے میں ہے اس لئے علی کو صدیق اکبر کہتے ہیں ۔ علی عليه‌السلام کو صدیق اکبر کہنے کے سلسلے میں کتنی متعدد روایات ہے، خود علی عليه‌السلام کا بھی فرمان ہے کہ میں ہی فاروق اعظم ہوں میں ہی صدیق اکبر ہوں میرے بعد کوئی دعوی نہیں کرے گا متعدد احادیث ہیں یہ قابل انکار نہیں ہے اہل تحقیق کے لئے۔
لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ ذَٰلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ ان کے لئے جو کچھ جو چاہے ان کے پروردگار کے پاس ہے نیکی کرنے والوں کی یہی جزا ہے۔ لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ ان کے لئے ہر وہ چیز موجود ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ آپ کو پہلے بھی بتایا کہ جنت میں ہمارا ارادہ نافذ ہوتا ہے دنیا میں ہمارا ارادہ اپنے نفس پر نافذ ہوتا ہے باقی دنیا کی چیزوں پر ہمارا ارادہ نافذ نہیں ہوتا تگ و دو کرنا پڑتا ہے اسباب و وسائل کو حاصل کرنا پڑتا ہے پھر ارادہ نافذ ہوتا ہے قیامت کے دن علل و اسباب نہیں، چاہنے کی دیر ہے وہ چیز سامنے آتی ہےلَهُمْ مَا يَشَاءُونَ ایک اور آیت ہے؛ لَہُمۡ مَّا یَشَآءُوۡنَ فِیۡہَا وَلَدَیۡنَا مَزِیۡدٌجو چیز وہ چاہنے کی زمرے میں نہیں آتی اس کو سمجھ نہیں آتی کہ جو چیز چاہئے اور بھی چیزیں کسی کے ذھن نے فطورنہیں کیا کسی نے تصور بھی نہیں آیا وہ بھی ہے جنت میں لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ ذَٰلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ یہ ان کے ارادے نافذ ہونا جنت میں یہ نیکی کرنے والوں کی جزا ہے یہاں دنیا میں اللہ تعالیٰ کا نافذ ہے اس کائنات کے اوپر اللہ کا ارادہ نافذ ہے اللہ کسی علل و اسباب کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہے ایک کن کہہ دیا بلکہ مولا علی عليه‌السلام نے فرمایا: یہ کاف ونون کی بھی ضرورت نہیں ہے یہ تو ایک تعبیر ہے ہم کو سمجھانے کے لئے ہم اس عالم کو نہیں سمجھ سکتے اس لئے ہمارے عالم کی بات کرتے ہیں کن کاف و نون کی ضرورت نہیں ہے، ایک ارادہ کر لیا اس ارادہ ، آج کل کے سائنسدان بھی کہتے ہیں زمانہ نہیں لگا تھا زمانہ مخلوق ہے بعد میں زمانہ آیا۔یہ کائنات کوہم لوگ اللہ کا ارادہ کہتے ہیں یہ لوگ ایک دھماکہ کہتے ہیں وہ دھماکہ ہوا تھا ایک سکینڈ کے اربویں حصے میں سکینڈ کو اربویں حصے میں تقسیم کرو وہ زمانہ نہیں بنتا نا۔ وہ دھماکہ ہوا تھا اللہ کا ارادہ نافذ ہے جنت میں آپ بھی بادشاہ ہوں گے آپ کے ارادے نافذ ہوجائیں گے یہ نیکی کرنے والوں کی جزا ہے۔
لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ تاکہ اللہ ان کے بد ترین اعمال کو مٹادے، کفارہ، اور جو بہترین اعمال انہوں نے انجام دیئے ہیں انہیں ان کا اجر عطا کرے۔
یہ جو اس آیت کا تعلق ممکن ہے عام محسنین سے ہو جن کا ذکر ذَٰلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ کے بعدلِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ ان سے کن سے؟ نیکی کرنے والوں، ان کا ارادہ بھی نافذ ہوگا ان کا گناہ جو ہے مٹا دیا جائے گالِيُكَفِّرَ کفارہ کا معنی مجمع البیان نے کیا ہے اسقط اللہ عنھم کفر، اسقط ساقط کر دیا محو کر دیا، ان سے اٹھا دیا گناہ کا بوجھ ۔ کیونکہ ایمان گزشتہ تمام گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔ ایک شخص کفر میں زندگی گزارتا ہے اور آخر میں مسلمان ہوتا ہے تو ایمان یہ جو ایمان لے آنا ہے یہ ایمان کفارہ ہوتا ہے اس کے کفر کے زمانے میں جتنے میں شرک ،کفر گناہ کیا ہے سب معاف ہوجاتا ہے۔ ایک تو کفارہ ہوگیا دوسرا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے اور بہتر اعمال کی جزا دی جاتی ہے گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے تو صرف بہتر اعمال رہتے ہیں۔ یہاں احسن سے مراد سب سے بہترین عمل ان کو جدا کر کے ان کا ان کا اجر دیتا ہے ایسا نہیں ہے جو بھی نیکی کیا ہے ان کو احسن کہا ہےبہتر ہے باقی تمام کاموں میں سے ایک مختصر سی نیکی ہے یہاں چھوٹی بڑی نیکی کی بات نہیں ہے احسن سے مراد۔، نیکی ہے نیکی احسن ہوتا ہے تمام چیزوں سے نیکی کے علاوہ تمام چیزوں سے یہ نیکی احسن سے وہ نیکی ہر نیکی کو شامل کرتا ہے احسن۔ نیکی بجا لانے والوں کو اللہ جزا دے گا۔
أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ ۚ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُضِلٍّ ۗ أَلَيْسَ اللَّهُ بِعَزِيزٍ ذِي انْتِقَامٍ کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے؟ اور یہ لوگ آپ کو اللہ کے علاوہ دوسروں سے ڈراتے ہیں جبکہ اللہ جسے گمراہ کر دے اسے راہ دکھانے والا کوئی نہیں اور جس کی اللہ رہنائی کرے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتاکیا اللہ بڑا غالب آنے والا انتقام لینے والا نہیں ہے؟
أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کیا اپنے بندے کے لئے اللہ تعالیٰ کافی نہیں ہے؟ جس کے ہاتھ میں پوری کائنات کی حکومت ہے وہ اللہ کے پاس کافی نہیں ہے اگر اپ کے پاس اللہ ہے تو کسی اور چیز کی ضرورت ہے۔ ہم لوگ اللہ کو کہاں رکھتے ہیں؟ ہم لوگ کہتے ہیں آپ کے پاس تو مال و دولت ہے آپ کے پاس تو اثر ورسوخ ہے آپ کے پاس تو قوم و قبیلہ ہے آپ کے پاس تو سب کچھ ہے ہمارے پاس تو اللہ ہی اللہ ہے،آہ، یعنی ہمارے پاس کچھ نہیں ہے بس اللہ ہی ہے اور کچھ نہیں ہے۔ آپ کے پاس دولت ہے اور ہمارے پاس اللہ ہی اللہ ہے ، اللہ کو کچھ نہیں ہے کی جگہ پر رکھتے ہیں ہم لوگ ہمارے پاس تو اللہ ہی اللہ ہے آپ کے پاس سب کچھ ہے ۔ یار اگر آپ کے پاس اللہ ہے تو آپ کے پاس سب کچھ ہےان لوگوں کے پاس کچھ نہیں ہے۔ آپ سب سے زیادہ طاقت ور ہے آپ سب سے زیادہ امیر ہے آپ سب سے زیادہ غنی ہے اگر آپ کے پاس اللہ ہے تو اور کیا چاہیے۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ اللہ ہی ہے تو پھر کافی نہیں ہے کسی اور کی ضرورت ہے؟ اگر اللہ ہمارے پاس ہے تو کسی اور کی ضرورت نہیں ہے اصلا نہیں ہے۔ مومن کے لئے کہاوَ اُفَوِّضُ اَمۡرِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بَصِیۡرٌۢ بِالۡعِبَادِاللہ ہمارا حال بہتر جانتا ہے ہم نہیں جانتے ہم غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں ہم واہمے میں مبتلا ہوتے ہیں ہم طمع و لالچ میں مبتلا ہوتے ہیں ، پتہ نہیں کس کس چیزمیں مبتلا ہوتے ہیں۔ خدا بصیر ہےآپ کی ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے۔
أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ جو لوگ اس کے اوپر ایمان رکھتے ہیں اللہ کافی ہے وہ اپنی بود وباش، اپنے ہر معاملے میں، ہر کام میں ہر قدم میں قدم اٹھاو مفت میں بیٹھنا نہیں ہوتا اللہ کافی ہے کہہ کر اور پھر اس کے بعد کہووَ اُفَوِّضُ اَمۡرِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بَصِیۡرٌۢ بِالۡعِبَادِاسی کے حوالے کرو اور یہ آیت پڑھواَلَیۡسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبۡدَہٗ خد ا ہے اور کیا چاہیے مجھے ، میرا رب ہے میرے پاس سب سے زیادہ ہے، میں امیر ہوں سب سے زیادہ میں طاقت ور ہوں میرا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے؟ آگے آیت آتی ہے اور لوگ جو آپ کو اللہ کے علاوہ دوسرے لوگوں سے ڈراتے ہیں مشرکین کہتے تھےکہ آپ ہمارے خداوں کو برا بھلا کہتے ہیں تو ہمارے خداوں کی وجہ سے آپ پر بلا آئے گی ہمارے خداوں کو ناراض کیا تو اس کے نتیجے میں آفت آئے گی ہمارے خداوں کی ناراضگی کی وجہ سے آپ کے ساتھ یہ ہوگا وہ ہوگا۔ ہم بھی دنیا میں اپنے اس میں کہتے ہیں یہ کیا تو یہ ہوا غیر خدا سے ڈراتے ہیں۔
وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے ۔ہدایت کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ہدایت صرف اور صرف اللہ سے ملتی ہے، اللہ ہدایت اس کو دیتا ہے جو ہدایت کا اہل ہے جب اہل ہے اس کو اہلیت کی بنیاد پر اس کو ہدایت دے دی تو یہ ہدایت کہی بھی نہیں جاتی۔ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ جبکہ اللہ جسے گمراہ کر دے اسے راہ دکھانے والا کوئی نہیں ہے وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُضِلٍّ ۗ اور جسکو اللہ تعالیٰ ہدایت دے اس کو گمراہ کرنے کوئی نہیں۔ جس کو اللہ گمراہ کرے آپ کو بار ہا بتادیا اللہ کسی کو ابتداء گمراہ نہیں کرتا جو ہدایت کا اہل نہیں ہے ہدایت کے لئے اتمام حجت کا ہر ذریعہ استعمال ہوتا ہے ۔ اس وقت بتادیا کہ ہم نے قرآن میں ہر قسم کی مثالیں پیش کی ہے ہر اسلوب اختیار کیا ہے ہر حربہ استعمال کیا ہے پھر بھی وہ ہدایت نہیں حاصل کرتے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا تو کون ہدایت دے گا؟ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍاس کو ہدایت دینے والا اورتو کوئی نہیں اللہ کے علاوہ اللہ نے اس کو چھوڑ دیا تو کیا ہوگا؟ گمراہ۔اور اسی طرح وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُضِلٍّ جس کو اللہ نے ہدایت دی اس کو گمراہ کرنے والاکوئی نہیں ہے ہدایت اللہ دیتا ہے اہل کی بنیاد پر وہ اہل ہے ہدایت۔ اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِعَزِیۡزٍ ذِی انۡتِقَامٍ کیا اللہ تعالیٰ جو ہےوہ غالب آنے والا اور انتقام لینے والا نہیں ہے؟ ہے، اللہ تعالیٰ عزیز ہے، بالادست ہے، طاقتور ہے اللہ انتقام لینے والا ہے ، اللہ مجرم کو نہیں چھوڑتا اگر مجرم کو چھوڑ دے تو یہ عدل الہی کے خلاف ہے ، مجرم کو کچھ نہ کہے اور اس کو میدان دے دے اور دنیا و آخرت میں کوئی ان کے لئے باز پرسی نہ ہو۔
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ ۚ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ ۖ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ اور اگر آپ ان سے پوچھے یہ جو مشرکین ہیں ان سے پوچھے کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو ان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو یہ معبود اس کی اس تکلیف کو دور کر سکتا ہے؟ یا اللہ اگر مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ ان کی مہربانی روک سکتے ہیں؟ کہہ دیجئے کہ میرے لئے اللہ ہی کافی ہےحَسْبِیَ اﷲُبھروسہ رکھنے والے اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ قرآن مجید میں متعدد آیات ہیں متعدد یہ ان میں سے ایک آیت ہے کہ مشرکین سے پوچھا جائے کہ بتاو آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا، اس کائنات کو پیدا کرنے والا کون ہے ؟ ضرور کہیں گے اللہ نے پیدا کیا جن مشرکین کا مقابلہ تھاانبیاء علیھم السلام سے اور ہمارے رسول کا مقابلہ تھا جن مشرکین کا، اورجن مشرکین کو علی عليه‌السلام نے قتل کیا ہے، قاتل المشرکین کہتے ہیں آپ علی عليه‌السلام کے فضائل میں سے علی عليه‌السلام کےمنقبت میں سے مقام میں سےایک اہم مقام جو ہے وقاتل المشرکین ہے مشرکین کا قتل کرنے والا۔ وہ جن کو علی عليه‌السلام نے جن مشرکین کو قتل کیا ہے ان کا عقیدہ کیا تھا؟ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اس کائنات کا خالق اللہ ہے وہ اللہ کو خالق مانتے تھے، رازا ق نہیں مانتے تھے ، مدبر نہیں مانتے تھے، رب الارباب مانتے تھے اللہ کے علاوہ اور چیزوں کو رب بناتے تھے ورنہ تعدد خالق کے قائل نہیں تھے یہ مشرکین جن کو علی عليه‌السلام نے قتل کیا وہ ایک خالق کے قائل تھے۔ یہاں پر گفتگو ہوتی ہے تعدد خالق کی بھی گفتگو ہوتی ہے۔ آج ہم یہاں پر گفتگو ختم کرتے ہیں ٹائم ختم ہوگیا اس آیت کی تشریخ آئندہ ان شاء اللہ۔