تفسیر قرآن سورہ ‎الزمر‎ آیات 1 - 2

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

سورہ زمر، یہ سورہ مبارکہ بھی مکہ میں نازل ہوا اور بعض آیات سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ یہ ہجرت حبشہ کے موقع پر یہ سورہ نازل ہوا اور تفسیر روح المعانی کی روایت کے مطابق کہ یہ سورہ حضرت جعفر اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ حضرت جعفر ابن ابی طالب، جعفر طیار جن کو کہتے ہیں۔ سورہ زمر کے بارے میں ایک روایت ہے کہ جو اس سورہ زمر کی تلاوت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اللہ سے خوف کرنے والوں کا اجر عنایت کرے گا، اللہ کا خوف کرنے والوں کے درجے میں ہوگا یہ۔
تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِاس کتاب کا نزول بڑے غالب آنے والے اور حکمت والے اللہ کی طرف سے ہے۔ یہ کتاب کسی بشر کے ذہن کا ساختہ و باختہ نہیں ہے تَنۡزِیۡلُالۡکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ اللہ کی طرف سے وہ اللہ جو عزیز بھی ہے اور حکیم بھی ہے ۔ عزیز بالادست، بالادست کو کہتے ہیں، غالب آنے والا، عزیز غالب آنے والا اور غلبہ کے ساتھ حکمت والا۔ آپ کو بتایا ہے ہمیشہ حکمت کسے کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے حکیم ہونے میں تو کلام نہیں ہے حقیقت اور امر واقع کا دیکھنے والا یعنی دانائے حقیقت ہے اللہ تعالیٰ اور اس کتاب میں اللہ تعالیٰ کی بالادستی اور اللہ کی حکیمانہ باتیں موجود ہیں۔ اللہ حکیم ہے اس لئے اس کتاب میں جو باتیں موجود ہوں گی وہ واقع کی حقیقت کی نشاندہی کرنے والی باتیں ہوں گی۔
اِنَّاۤاَنۡزَلۡنَاۤاِلَیۡکَالۡکِتٰبَبِالۡحَقِّفَاعۡبُدِاللّٰہَمُخۡلِصًالَّہُالدِّیۡنَ ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب بر حق نازل کی ہے لہذا آپ دین کو اسی کے لئے خالص کر کے صرف اللہ کی عبادت کریں۔ اِنَّاۤاَنۡزَلۡنَاۤ یہاں پر ایک بحث ہے آپ اس کی طرف متوجہ رہیں اچھا ہے ،اس میں فرمایا تَنۡزِیۡلُالۡکِتٰبِ تنزیل اور انزل میں ایک فرق کا قائل ہے کہتے ہیں کہ تزیل آہستہ اور تدریجا نازل ہونے کو کہتے ہیں انزل دفعتا نازل ہونے کو کہتے ہیں۔ اس کو تقریبا مسلم لیا جاتا ہے کہ تَنۡزِیۡلُالۡکِتٰبِ کتاب آرام سے تدریجا اور پھر اَنۡزَلۡنَاۤ ہم نے دفعتا نازل کیا یہاں ایک جگہ دونوں چیزیں استعمال ہیں تنزیل بھی ہے اور انزل بھی ہے۔
ہم نے قرآن کے مطالعہ کے بعد جو ہے دیکھا ہے کہ قرآن اس چیز کا پابند نہیں ہے تزیلجو ہے وہ تدیجا ہو اور انزل دفعتا ہو۔ جابجا قرآن میں دونوں استعمال ہوا ہے تنزیل بھی استعمال ہوا ہے اور انزل بھی استعال ہوا ہے ایک یہاں پر بھی ہے یہاں تنزیل بھی ہے انزل بھی ایک ہی جگہ پر قرآن کے بارے میں اور ایک جگہ ہے اس میں بڑی وضاحت کے ساتھ ایک آیت موجود ہے اس میں فرمایا ہے لَوْلَانُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃًوَّاحِدَۃً،انزل علیہ القرآن جملۃ واحدہ کہنا چاہیئے اگر انزل دفعتا کے لئے ہے اور نزل تدریجا کے لئے ہے یہاں دیکھو نزل تدریجا کے لئے ہے تو جملۃ واحدہ بھی ساتھ ساتھ ہے یہ دونوں باتیں جڑتی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تدریجا قرآن کو ایک مرتبہ نازل کیا، یہ بات بنتی نہیں ہے تدریجا کو یک مرتبہ اس لئے قرآن میں دیگر شواہد کے تحت ہم اس بات کو اختیار کرنے میں تامل کرتے ہیں کہ انزل دفعتا کے لئے ہو اور نزل تدریجا کے لئے ہو اس میں سب سے بڑی دلیل یہ آیت ہے لَوْلَانُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃًوَّاحِدَۃً ، جُمْلَۃًوَّاحِدَۃً کے ساتھ نزل کہا ہے انزل نہیں کہا ہے۔
یہ قرآن جو ہے بالحق حق کے ساتھ نازل ہے فَاعْبُدِاللّٰہَ جب قرآن حقیقت بیان کرنے کے لئے ہے تو پس اللہ کی عبادت کرو مُخْلِصًالَّہٗ دِیْنِیْ دین کو اللہ کے لئے خالص کر کے کسی قسم کا شائبہ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ جو ہے عزیز اور حکیم ہے اللہ کی حکمت کے تقاضا کے مطابق قرآن نازل کیا ہے اور بالحق نازل کیا ہے پس اللہ کی عبادت کرو۔
عبادت کی تعریف میں نے آپ کو بتایا ہے اس کو یاد رکھو، عبادت کی تعریف کیا ہے؟ عبادت کی تعریف یہ ہے کہ کسی ذات کو خالق اور رب سمجھ کر کے اس کی تعظیم کرنا عبادت ہے، کسی کو خالق سمجھ کر کسی کو رب سمجھ کر، رب سمجھ کر خالق سمجھ کر اس کی تعظیم کرنے کو عبادت کہتے ہیں ہر تعظیم کو عبادت نہیں کہتے ہیں ، آپ والدین کی تعظیم کرتے ہیں استاد کی تعظیم کرتے ہیں اور کسی اور ہستی کی تعظیم کرتے ہیں ہر تعظیم عبادت نہیں ہے وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَاللَّهِ شعائر اللہ کی بھی تعظیم کرناہوتا ہے،شعائر اللہ کی عبادت نہیں ہوتی، ہر تعظیم عبادت نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کو غلط فہمی لگ گئی اور ہر تعظیم کو شرک اور شرک اور کفر اور کفر کر کے اپنے آپ کو مبتلا کر دیا ہر تعظیم کو شرک اور کفر کہہ کر اپنے آپ کو متبلاء کر دیا ، کیسے؟ یہاں ایک اور بات ذہن میں بٹھاوں اگر کوئی کسی کو کافر کہتا ہے تو صحیح بخار ی میں بھی احادیث ہے اور ہمارے اصول کافی میں بھی احادیث ہے، شیعہ سنی مصادر میں احادیث موجود ہیں، کسی کو کافر کہہ دیا تو وہ اگر کافر ہے تو چلو کافر کو کافر کہہ دیا کوئی نہیں جان چھوٹ گئی اور اگر وہ کافر نہیں ہے تو یہ کافر کہنے والا خود کافر ہوجائے گاکسی کی تکفیر آسان نہیں ہے، کسی کو کافرکہنا آسان نہیں ہے۔یہ ناداں قسم کے لوگ جاہل قسم کے لوگ ہر ایک کو کافر کہہ کے اپنے آپ کو کافر بناتے ہیں یار ہر ایک کو کافر نہ کہواس لئے کہ اگر وہ کافر نہیں ہے تو تم خود کافر ہوجائے گا حدیث ہے کسی کو کافر نہ کہو، ادھر جب مطلق تعظیم کو عبادت سمجھتے ہیں پھر ان کو مشرک کہتے ہیں ان کو کافر کہتے ہیں وغیرہ وغیرہ یہ نہایت خطرناک عمل ہے اس کو ذہن میں رکھو۔
کسی کلمہ گو کو کسی مسلمان کو کافر کافر کہنے کی سنت کب سے چلی ہے؟یہ خوارج نے چلائی ہے یہ سنت ،خارجیوں نے کہا کہ جو تحیکم کیا تھا حکم بنایا تھا ،ان کی طرف سے ایک حکم ادھر سے دونوں حکم ،حکم جو فیصلہ کرے تو ان لوگوں نے کہا لا حکم الا للہ فیصلہ کرنے کا حق اللہ کو حاصل ہے اور ان دونوں نے معاویہ اور علی عليه‌السلام نے ان دونوں کو فیصلہ کرنے کا حق دے دیا اور کافر ہوگیا، خوارج نے کفر کا فتوی لگانا شروع کر دیا یہ سنت خوارج ہے۔ حضرت علی عليه‌السلام نے جواب میں خوارج سے نہیں کہا تم کافر ہو خوارج کہتے ہیں ان کو کافر نہیں کہتے دین سے خارج ہوگئے، لفظ کافر استعمال نہیں کیا ان کے لئے، تکفیر نہیں کیا کرتے ہیں یہ بہت خطرناک کام ہے۔ یہاں پر فاعبدللہ پس اللہ کی عبادت کرو مخلصا لہ دین دین کو اس کے لے خالص کر کے اس میں غیر اللہ کا شائبہ نہ ہو، غیر اللہ کا شائبہ نہ ہو خالصتا صرف اور صرف اللہ کے لئے تو یہ عبادت ہے۔ اگر اللہ کے ساتھ کسی اور کو شامل کرتے ہیں تو وہ عبادت نہیں ہے اس کو شرک خفی کہتے ہیں۔
حضرت علی عليه‌السلام کا فرمان ہےوَ تَصْفِيَةُ اَلْعَمَلِ أَشَدُّ مِنَ اَلْعَمَلِ عمل کو صاف و شفاف بنانا خود عمل سے زیادہ مشکل کام ہے، میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں اپنی بات کہ مدرسہ بنانا آسان ہے اس مدرسہ کو خالصتا خدا کے لئے بنانا مشکل ہے اللہ تعالیٰ ہم کو اس چیز سے بچائیں کہ ہم غیر اللہ کو اللہ کےساتھ شامل کریں۔