ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوۡلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اَنَّ الۡکٰفِرِیۡنَ لَا مَوۡلٰی لَہُمۡ﴿٪۱۱﴾

۱۱۔ یہ اس لیے ہے کہ مومنین کا کارساز اللہ ہے اور کفار کا کوئی کارساز نہیں ہے۔

11۔ جنگ احد میں ابوسفیان کا نعرہ یہ تھا: نحن لنا العزی و لا عزی لکم ۔ ہمارے لیے عزی ہے تمہارے لیے کوئی عزی نہیں ہے۔ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اس کے جواب میں کہو: اللہ مولانا و لا مولی لکم ۔ اللہ ہمارا مولا ہے، تمہارا کوئی مولا نہیں۔ (بحار الانوار 30: 23۔ صحیح بخاری، غزوہ احد)۔ اس سورت کی ہر آیت کی تلاوت کے وقت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول فرمان یاد رکھنا چاہیے، جسے ہم نے سورے کی ابتدا میں ذکر کیا ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ یُدۡخِلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یَتَمَتَّعُوۡنَ وَ یَاۡکُلُوۡنَ کَمَا تَاۡکُلُ الۡاَنۡعَامُ وَ النَّارُ مَثۡوًی لَّہُمۡ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اللہ ایمان لانے والوں اور صالح اعمال بجا لانے والوں کو یقینا ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور جو لوگ کافر ہو گئے وہ لطف اٹھاتے ہیں اور کھاتے ہیں تو جانوروں کی طرح کھاتے ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔

12۔ انسان بھی اسی طرح کھانے کا محتاج ہے جس طرح چوپائے۔ فرق مقصد اور ذریعے کا ہے۔ چوپائے کی زندگی کا مقصد کھانا ہے، لیکن انسان کے مقدس مقصد کے لیے کھانا ایک ذریعہ ہے۔ کفار چونکہ زندگی کے اصل مقصد سے عاری ہوتے ہیں، اس لیے ان کے لیے بس کھانا ہی مقصود زندگی ہے۔ بقول سعدی انسان زندہ رہنے کے لیے کھاتا ہے، جبکہ جانور کھانے کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ آیت میں یہ بتانا مقصود نہیں ہے کہ کھانے کا کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے، جیسا کہ بعض سادہ فہم لوگوں نے خیال کیا ہے کہ اس سے ضمناً کھڑے ہو کر کھانے کی ممانعت کا بھی اثبات ہوتا ہے، چونکہ جانور کھڑے ہو کر کھاتے ہیں۔

وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ ہِیَ اَشَدُّ قُوَّۃً مِّنۡ قَرۡیَتِکَ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَتۡکَ ۚ اَہۡلَکۡنٰہُمۡ فَلَا نَاصِرَ لَہُمۡ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور بہت سی ایسی بستیاں جو آپ کی اس بستی سے کہیں زیادہ طاقتور تھیں جس (کے رہنے والوں) نے آپ کو نکالا ہے ہم نے انہیں ہلاک کر ڈالا، پس ان کا کوئی مددگار نہ تھا۔

اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ کَمَنۡ زُیِّنَ لَہٗ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ وَ اتَّبَعُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمۡ﴿۱۴﴾

۱۴۔ کیا جو شخص اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر ہو اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور جنہوں نے اپنی خواہشات کی پیروی کی ہو؟

مَثَلُ الۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ ؕ فِیۡہَاۤ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ مَّآءٍ غَیۡرِ اٰسِنٍ ۚ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ لَّبَنٍ لَّمۡ یَتَغَیَّرۡ طَعۡمُہٗ ۚ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ خَمۡرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیۡنَ ۬ۚ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ عَسَلٍ مُّصَفًّی ؕ وَ لَہُمۡ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ وَ مَغۡفِرَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ؕ کَمَنۡ ہُوَ خَالِدٌ فِی النَّارِ وَ سُقُوۡا مَآءً حَمِیۡمًا فَقَطَّعَ اَمۡعَآءَہُمۡ﴿۱۵﴾

۱۵۔ جس جنت کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کی مثال یوں ہے کہ اس میں ایسے پانی کی نہریں ہیں جو (کبھی) بدبودار نہ ہو گا اور ایسے دودھ کی نہریں ہیں جس کا ذائقہ نہیں بدلے گا اور ایسی شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لیے لذت بخش ہو گی اور خالص شہد کی نہریں (بھی) ہیں اور اس میں ان کے لیے ہر قسم کے میوے ہیں اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے، کیا یہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جنہیں کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کو کاٹ کر رکھ دے گا۔

15۔ اہل تقویٰ کے لیے جن نعمتوں کا اس آیت میں ذکر ہوا ہے، ان کے لیے یہ اوصاف بیان ہوئے ہیں: پانی بدبودار نہیں، دودھ میں جو لذت رکھی ہے، وہ بدلے گی نہیں، شراب میں لذت ہی لذت ہے، اس کے منفی خواص نہیں ہیں اور شہد صاف و شفاف ہے۔ ان چار نہروں کے جو اوصاف بیان ہوئے ہیں وہ ایک تعبیر ہے، ان نعمتوں کو سمجھانے کے لیے، ورنہ وہاں کی نعمتوں کی لذت اور صفائی وغیرہ دنیا والوں کے لیے قابل بیان اور قابل ادراک نہیں ہے۔ اس لیے آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ خود اس کا وصف اس طرح ہے، بلکہ فرمایا اس کی شان یوں ہے۔ لہٰذا مَثَلُ کو وَصۡفَ کے معنوں میں لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّسۡتَمِعُ اِلَیۡکَ ۚ حَتّٰۤی اِذَا خَرَجُوۡا مِنۡ عِنۡدِکَ قَالُوۡا لِلَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ مَاذَا قَالَ اٰنِفًا ۟ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ اتَّبَعُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمۡ﴿۱۶﴾

۱۶۔ ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو آپ کو سنتے ہیں لیکن جب آپ کے پاس سے نکل جاتے ہیں تو جنہیں علم دیا گیا ہے ان سے پوچھتے ہیں: اس نے ابھی کیا کہا؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔

16۔ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مجلس میں بیٹھنے والوں میں کچھ لوگ مومن کچھ منافق اور کچھ ضعیف الایمان ہوتے تھے۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان میں سے کچھ لوگ اہل علم ہوتے تھے۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب خطبہ دیتے تو نہایت فصاحت و بلاغت، صاف اور عام فہم لفظوں میں اپنا مطلب بیان فرماتے تھے۔ چنانچہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود فرمایا: اوتیت جوامع الکلم و انا افصح العرب ۔ مجھے جوامع الکلم دیا گیا ہے اور میں عربوں میں بھی سب سے زیادہ فصیح ہوں۔ لیکن کچھ لوگ اگرچہ توجہ سے سنتے تھے: یَّسۡتَمِعُ اِلَیۡکَ لیکن ان کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آتی تھی۔

وَ الَّذِیۡنَ اہۡتَدَوۡا زَادَہُمۡ ہُدًی وَّ اٰتٰہُمۡ تَقۡوٰىہُمۡ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور جنہوں نے ہدایت حاصل کی اللہ نے ان کی ہدایت میں اضافہ فرمایا اور انہیں ان کا تقویٰ عطا فرمایا۔

17۔ جبکہ کلام رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سمجھنے والے فیض حاصل کرتے ہیں نیز اپنی ہدایت اور تقویٰ میں اضافہ کرتے ہیں۔

فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا السَّاعَۃَ اَنۡ تَاۡتِیَہُمۡ بَغۡتَۃً ۚ فَقَدۡ جَآءَ اَشۡرَاطُہَا ۚ فَاَنّٰی لَہُمۡ اِذَا جَآءَتۡہُمۡ ذِکۡرٰىہُمۡ﴿۱۸﴾

۱۸۔کیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ انہیں اچانک آ لے؟ پس اس کی علامات تو آ چکی ہیں، لہٰذا جب قیامت آ چکے گی تو اس وقت انہیں نصیحت کہاں مفید ہو گی؟

18۔ انہی ناقابل ہدایت لوگوں کا ذکر جاری ہے کہ قیامت کی نشانیاں آ چکی ہیں۔ کیا یہ لوگ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرمان کو سمجھنے کے لیے قیامت کے منتظر ہیں؟ یعنی رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب عذاب کی بات کرتے ہیں تو یہ لوگ نہیں سمجھتے۔ جب خود عذاب ان پر آن پڑے گا تو یہ سمجھ جائیں گے۔

فَاعۡلَمۡ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مُتَقَلَّبَکُمۡ وَ مَثۡوٰىکُمۡ﴿٪۱۹﴾

۱۹۔ پس جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہ کی معافی مانگو اور مومنین و مومنات کے لیے بھی اور اللہ تمہاری آمد و رفت اور ٹھکانے کو جانتا ہے۔

19۔ اشراط علامات کو کہتے ہیں۔ اسی سے شرط اس چیز کو کہتے ہیں جس پر مشروط معلق ہو۔ وہ اس کی علامت بن جاتی ہے۔

خطاب اگرچہ خود رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہے، لیکن گناہ سے استغفار نہیں، بلکہ تشکیل سیرت کے لیے ہے کہ امت اس پر عمل کرے۔ مزید تشریح کے لیے سورﮤ مومن آیت 55 ملاحظہ فرمائیں۔

وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَتۡ سُوۡرَۃٌ ۚ فَاِذَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ مُّحۡکَمَۃٌ وَّ ذُکِرَ فِیۡہَا الۡقِتَالُ ۙ رَاَیۡتَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ یَّنۡظُرُوۡنَ اِلَیۡکَ نَظَرَ الۡمَغۡشِیِّ عَلَیۡہِ مِنَ الۡمَوۡتِ ؕ فَاَوۡلٰی لَہُمۡ ﴿ۚ۲۰﴾

۲۰۔ اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہتے ہیں: کوئی (نئی) سورت نازل کیوں نہیں ہوئی؟ (جس میں جہاد کا ذکر ہو) اور جب محکم بیان والی سورت نازل ہو اور اس میں قتال کا ذکر آ جائے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے موت کی بے ہوشی طاری ہو گئی ہو، پس ان کے لیے تباہی ہو۔

20۔ یعنی مومن کی خواہش ہوتی ہے کہ جہاد کا حکم لے کر کوئی سورت نازل ہو جائے تاکہ وہ جہاد کا شرف حاصل کر سکے، جبکہ اہل نفاق کا یہ حال ہے کہ جہاد کا حکم نازل ہو جاتا ہے تو پریشان ہو کر پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف ایسے تکتے ہیں جیسے ان پر موت کی غشی طاری ہو گئی ہو۔