اِنَّ اللّٰہَ یُدۡخِلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یَتَمَتَّعُوۡنَ وَ یَاۡکُلُوۡنَ کَمَا تَاۡکُلُ الۡاَنۡعَامُ وَ النَّارُ مَثۡوًی لَّہُمۡ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اللہ ایمان لانے والوں اور صالح اعمال بجا لانے والوں کو یقینا ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور جو لوگ کافر ہو گئے وہ لطف اٹھاتے ہیں اور کھاتے ہیں تو جانوروں کی طرح کھاتے ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔

12۔ انسان بھی اسی طرح کھانے کا محتاج ہے جس طرح چوپائے۔ فرق مقصد اور ذریعے کا ہے۔ چوپائے کی زندگی کا مقصد کھانا ہے، لیکن انسان کے مقدس مقصد کے لیے کھانا ایک ذریعہ ہے۔ کفار چونکہ زندگی کے اصل مقصد سے عاری ہوتے ہیں، اس لیے ان کے لیے بس کھانا ہی مقصود زندگی ہے۔ بقول سعدی انسان زندہ رہنے کے لیے کھاتا ہے، جبکہ جانور کھانے کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ آیت میں یہ بتانا مقصود نہیں ہے کہ کھانے کا کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے، جیسا کہ بعض سادہ فہم لوگوں نے خیال کیا ہے کہ اس سے ضمناً کھڑے ہو کر کھانے کی ممانعت کا بھی اثبات ہوتا ہے، چونکہ جانور کھڑے ہو کر کھاتے ہیں۔