آیت 16
 

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّسۡتَمِعُ اِلَیۡکَ ۚ حَتّٰۤی اِذَا خَرَجُوۡا مِنۡ عِنۡدِکَ قَالُوۡا لِلَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ مَاذَا قَالَ اٰنِفًا ۟ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ اتَّبَعُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمۡ﴿۱۶﴾

۱۶۔ ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو آپ کو سنتے ہیں لیکن جب آپ کے پاس سے نکل جاتے ہیں تو جنہیں علم دیا گیا ہے ان سے پوچھتے ہیں: اس نے ابھی کیا کہا؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّسۡتَمِعُ اِلَیۡکَ: ما انزل اللہ کو ناپسند کرنے والے لوگوں میں سے کچھ منافقین ایسے بھی ہیں جو آپ کی مجلس یا جمعہ کی نماز میں آپ کا خطبہ سن رہے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ مشرکین مکہ کی طرح نہیں ہیں جو اپنا کفر ظاہر کرتے تھے اور آپ کو سنتے ہی نہیں تھے۔

۲۔ حَتّٰۤی اِذَا خَرَجُوۡا مِنۡ عِنۡدِکَ: جب آپ کے محضر سے نکلتے اور آزاد فضا میں آتے ہیں۔ مجلس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو ان کے لیے بار گراں تھی نکل آتے ہیں،

۳۔ قَالُوۡا لِلَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ مَاذَا قَالَ اٰنِفًا: تو اہل علم سے پوچھتے ہیں: ابھی کیا کہ رہے تھے؟ یعنی یہ منافقین جب مجلس رسولؐ سے باہر آتے تو اہل علم سے پوچھتے تھے: ابھی ابھی رسول کیا کہہ رہے تھے؟ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ غیر مبہم، واضح لفظوں میں مطالب بیان کرتے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان مشہور ہے:

انا افصح العرب و العجم۔ (عوالی اللآلی ۴: ۱۲۰)

میں عرب اور عجم میں سب سے زیادہ فصیح ہوں۔

نیز ارشاد فرمایا: وَ اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ۔۔۔۔ ( من لا یحضرہ الفقیہ ۱: ۲۴۰) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قلیل الفاظ میں کثیر مطالب بیان فرماتے تھے۔ اس کے باوجود وہ کلام رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں سمجھ رہے تھے۔ چونکہ وہ کلام رسولؐ سے استفادہ کے لیے نہیں آتے تھے اس لیے مجلس رسولؐ میں بیٹھ کر اپنی دنیا میں گم رہتے تھے۔ جب اثنائے کلام میں منافقین کا ذکر آتا تو گھبرا کر اہل علم سے پوچھتے تھے۔ اہل علم کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ سمجھنا چاہتے تھے منافقین کے بارے میں کیا کہا؟ ایسا نہیں ہے کہ وہ از راہ تمسخر کہہ رہے ہوں جیسا کہ اکثر مفسرین نے لکھا ہے۔ چونکہ تمسخر کے لیے اہل علم کی طرف رجوع نہ کرتے تھے بلکہ آپس میں تمسخر کرتے تھے۔ چنانچہ سورہ توبۃ آیت ۱۲۴ میں ان منافقوں کا یہ قول مذکور ہے۔

وَ اِذَا مَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ اَیُّکُمۡ زَادَتۡہُ ہٰذِہٖۤ اِیۡمَانًا۔۔۔۔

اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ (از راہ تمسخر) کہتے ہیں: اس سورہ نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا ہے؟

غیر شیعہ مصادر میں آیا ہے کہ ابن عباس نے کہا ہے کہ سوال مجھ سے ہوتا تھا۔ اس صورت میں حضرت ابن عباس کو ان لوگوں کا علم ہوا ہو گا جن کے خلاف یہ آیت نازل ہوئی ہے۔

شیعہ مصادر میں آیا ہے: اصبغ بن نباتۃ راوی ہیں حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

فانا کنا عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فیخبرنا بالوحی فاعیہ ویفوتہم فاذا خرجنا قالوا: مَاذَا قَالَ اٰنِفًا۔ ( بحار الانوار ۴۰: ۱۳۷)

ہم رسول اللہؐ کی خدمت میں ہوتے تھے اور آپ ہمیں وحی کی باتیں سناتے تھے جنہیں میں سمجھ لیتا تھا دوسرے رہ جاتے۔ جب ہم باہر نکلتے تو پوچھتے تھے ابھی رسولؐ کیا کہہ رہے تھے۔

اور یہ بات شیعہ سنی مصادر میں متعدد طرق سے وارد ہے کہ آیت وَّ تَعِیَہَاۤ اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ۔۔۔۔ (۶۹ حاقۃ: ۱۲) اور سمجھدار کان ہی اسے محفوظ کر لیتا ہے، حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ ملاحظہ ہو الکوثر فی تفسیر القرآن سورۃ الجاثیہ ۔

۴۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ: یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنی گمراہی پر ڈٹ جانے اور ہدایت قبول نہ کرنے کی وجہ سے اللہ نے اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ ایسا ہونے سے ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے اور اللہ ابتداء ً ایسا نہیں کرتا بلکہ وَ اتَّبَعُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمۡ خواہشات کی پیروی کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ منافق کا ذہن کلام حق سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔

۲۔ منافقین اپنی مشکلات کے لیے اہل علم کی طرف رجوع کرتے تھے، ہدایت کے لیے نہیں۔


آیت 16