طَاعَۃٌ وَّ قَوۡلٌ مَّعۡرُوۡفٌ ۟ فَاِذَا عَزَمَ الۡاَمۡرُ ۟ فَلَوۡ صَدَقُوا اللّٰہَ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ﴿ۚ۲۱﴾

۲۱۔ ان کی اطاعت اور پسندیدہ گفتار (کا حال معلوم ہے) مگر جب معاملہ حتمی ہو جاتا ہے تو اس وقت (بھی) اگر وہ اللہ کے ساتھ سچے رہتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔

21۔ یعنی جس طرح بڑھ چڑھ کر جہاد کے بارے میں چرب زبانی اور اطاعت کا اقرار کرتے ہیں، جہاد کا حتمی فیصلہ ہونے کی صورت میں بھی وہ اپنے اقرار اور عہد پر قائم رہتے تو اس میں ان کی بہتری تھی۔

فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ تُقَطِّعُوۡۤا اَرۡحَامَکُمۡ﴿۲۲﴾

۲۲۔ پھر اگر تم حکمران بن جاؤ تو تم سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم زمین میں فساد برپا کرو گے اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو گے۔

22۔ بعض مفسرین کے نزدیک تَوَلَّیۡتُمۡ کا مفہوم ولایت و حکومت میں زیادہ قرین سیاق ہے۔ یعنی اگر یہ حکومت و اقتدار تم کو مل جائے تو تم سے فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ اور قطع رحمی کے علاوہ کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟ چنانچہ چشم جہاں نے دیکھ لیا کہ حکومت جب بنی امیہ کے ہاتھ آئی تو انہوں نے نہ کسی چھوٹے پر رحم کیا، نہ کسی بڑے پر اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی جان سے مارتے رہے۔ صَدَقَ اللّٰہُ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ ۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمۡ وَ اَعۡمٰۤی اَبۡصَارَہُمۡ﴿۲۳﴾

۲۳۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے لہٰذا انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے۔

23۔ حکومت کے نشے میں وہ اس قدر اندھے ہو گئے تھے کہ اسی شجرہ کی ایک کڑی (حجاج ) نے کہا تھا: من قال لی اتق اللہ ضربت عنقہ ۔ جو کوئی مجھ سے کہے کہ اللہ کا خوف کرو، میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔(المنار)

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا ﴿۲۴﴾

۲۴۔ کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے لگ گئے ہیں؟

24۔ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہُ کے بارے میں قرآنی تعلیمات پر ایک نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ عِنۡدَ اللّٰہُ جہاد کا کیا مقام ہے۔ لیکن ان دل کے اندھوں کو اتنی توفیق بھی نہیں ملتی کہ وہ ان قرآنی حقائق میں تھوڑی دیر کے لیے سوچیں۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ ارۡتَدُّوۡا عَلٰۤی اَدۡبَارِہِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡہُدَی ۙ الشَّیۡطٰنُ سَوَّلَ لَہُمۡ ؕ وَ اَمۡلٰی لَہُمۡ﴿۲۵﴾

۲۵۔جو لوگ اپنی پیٹھ پر الٹے پھر گئے بعد اس کے کہ ان پر ہدایت واضح ہو چکی تھی، شیطان نے انہیں فریب دیا ہے اور ڈھیل دے رکھی ہے۔

25۔ ان پر حق ظاہر ہونے کے بعد بھی دنیاوی مفاد کی خاطر ان لوگوں نے ارتداد کی راہ اختیار کی۔ ان کے پیچھے اصل محرک شیطان ہے جو دو حربوں سے ان کو بھٹکاتا ہے: یعنی اچھائی برائی میں تمیز سلب کر کے نیز انہیں لمبی لمبی آرزوؤں کا فریفتہ بنا کر۔

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡا لِلَّذِیۡنَ کَرِہُوۡا مَا نَزَّلَ اللّٰہُ سَنُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ بَعۡضِ الۡاَمۡرِ ۚۖ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اِسۡرَارَہُمۡ﴿۲۶﴾

۲۶۔ یہ اس لیے ہوا کہ انہوں نے اللہ کی طرف سے نازل کردہ (کتاب) کو ناپسند کرنے والوں سے (خفیہ طور پر) کہا: بعض معاملات میں عنقریب ہم تمہاری پیروی کریں گے اور اللہ ان کی پوشیدہ باتیں جانتا ہے۔

26۔ منافقین اور یہودیوں کی باہمی سازش کا ذکر ہے۔ منافقین یہودیوں کے ساتھ جزوی اشتراکِ عمل کا معاہدہ کرتے ہیں۔وہ رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت اور ان کے خلاف سازش پر اتفاق کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ منافقوں اور یہودیوں کی راہیں الگ ہو جاتی ہیں۔

فَکَیۡفَ اِذَا تَوَفَّتۡہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یَضۡرِبُوۡنَ وُجُوۡہَہُمۡ وَ اَدۡبَارَہُمۡ﴿۲۷﴾

۲۷۔ پس اس وقت (ان کا کیا حال ہو گا) جب فرشتے ان کی جان نکالیں گے اور ان کے چہروں اور سرینوں پر ضربیں لگا رہے ہوں گے۔

27۔ اس آیت سے ثابت ہو جاتا ہے کہ کافروں کے لیے برزخ کا عذاب بھی ہے۔

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمُ اتَّبَعُوۡا مَاۤ اَسۡخَطَ اللّٰہَ وَ کَرِہُوۡا رِضۡوَانَہٗ فَاَحۡبَطَ اَعۡمَالَہُمۡ﴿٪۲۸﴾

۲۸۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اس بات کی پیروی کی جو اللہ کو ناراض کرتی ہے اور اللہ کی خوشنودی سے بیزاری اختیار کرتے ہیں لہٰذا اللہ نے ان کے اعمال حبط کر دیے،

اَمۡ حَسِبَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ اَنۡ لَّنۡ یُّخۡرِجَ اللّٰہُ اَضۡغَانَہُمۡ﴿۲۹﴾

۲۹۔ جن کے دلوں میں بیماری ہے کیا انہوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ اللہ ان کے کینوں کو ہرگز ظاہر نہیں کرے گا؟

وَ لَوۡ نَشَآءُ لَاَرَیۡنٰکَہُمۡ فَلَعَرَفۡتَہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ ؕ وَ لَتَعۡرِفَنَّہُمۡ فِیۡ لَحۡنِ الۡقَوۡلِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اَعۡمَالَکُمۡ ﴿۳۰﴾

۳۰۔ اور اگر ہم چاہتے تو ہم آپ کو ان کی نشاندہی کر دیتے پھر آپ انہیں ان کی شکلوں سے پہچان لیتے اور آپ انداز کلام سے ہی انہیں ضرور پہچان لیں گے اور اللہ تمہارے اعمال سے واقف ہے۔

30۔ چنانچہ بہت سے موقعوں پر ان منافقین کے چہرے بے نقاب ہو گئے۔ ان میں سے کچھ کو فاش کیا گیا اور کچھ کو آخرتک فاش نہیں کیا گیا۔ چنانچہ حضرت حذیفہ اس راز کے امین رہے کہ کون کون منافق ہے۔

اس سلسلے میں صحابی رسول سعید خدری کی ایک روایت مشہور ہے: لَحۡنِ الۡقَوۡلِ ، انداز کلام سے مراد علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے ساتھ بغض ہے۔ ہم عہد رسالت میں منافقین کو علی بن ابی طالب کے ساتھ بغض سے پہچانا کرتے تھے۔ ملاحظہ ہو مسند احمد بن حنبل باب الفضائل، تاریخ ذہبی، الاستیعاب وغیرہ۔ یہ روایت ابو سعید خدری کے علاوہ جابر بن عبد اللہ انصاری، عبادہ بن صامت، عبد اللہ بن مسعود سے بھی منقول ہے۔ عبادہ بن صامت روایت کرتے ہیں: ہم اپنی اولاد کو علی بن ابی طالب کی محبت سے جانچتے تھے۔ کوئی بچہ اگر علی سے محبت نہیں کرتا تو ہم سمجھتے کہ یہ بچہ پاکیزہ نہیں ہے لغیر رُشْدَہٗ .