آیت 18
 

فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا السَّاعَۃَ اَنۡ تَاۡتِیَہُمۡ بَغۡتَۃً ۚ فَقَدۡ جَآءَ اَشۡرَاطُہَا ۚ فَاَنّٰی لَہُمۡ اِذَا جَآءَتۡہُمۡ ذِکۡرٰىہُمۡ﴿۱۸﴾

۱۸۔کیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ انہیں اچانک آ لے؟ پس اس کی علامات تو آ چکی ہیں، لہٰذا جب قیامت آ چکے گی تو اس وقت انہیں نصیحت کہاں مفید ہو گی؟

تشریح کلمات

الاَشۡرَاطُ:

( ش ر ط ) شرط کی جمع۔ علامت کے معنوں میں ہے۔ شرط اس چیز کو کہتے ہیں جس پر کوئی کام موقوف ہو۔ جب شرط موجود ہوتی ہے تو یہ علامت ہو جاتی ہے مشروط کے وجود میں آنے کی۔

تفسیر آیات

۱۔ فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا السَّاعَۃَ: حق سمجھانے کے لیے جن دلائل و معجزات کی ضرورت تھی وہ سب بیان ہو چکے۔ اب یہ لوگ ایمان لانے کے لیے قیامت کے منتظر ہیں کہ قیامت اچانک ان کے سر پر آ جائے تو ایمان لائیں گے؟

۲۔ فَقَدۡ جَآءَ اَشۡرَاطُہَا: قیامت کی علامات تو آچکی ہیں۔ اس کے بعد خود قیامت کا آنا بھی نزدیک ہے۔ قیامت کی علامات میں سے اہم علامت نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ہے جن کے بعد قیامت تک کسی اور نبی نے نہیں آنا ہے اور ایک علامت شق القمر ہے: اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَ انۡشَقَّ الۡقَمَرُ۔ (۵۴ قمر: ۱۔ قیامت قریب آ گئی اور چاند شق ہو گیا۔)

۳۔ فَاَنّٰی لَہُمۡ: جب قیامت آ چکے گی تو ان کے لیے نصیحت کا موقع کہاں باقی رہے گا۔ یعنی انی لہم ذِكْرٰىہُمْ اذا جاء تہم۔ چونکہ قیامت دار جزا ہے یہاں نصیحت کا وقت نہیں ہے۔


آیت 18