آیت 15
 

مَثَلُ الۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ ؕ فِیۡہَاۤ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ مَّآءٍ غَیۡرِ اٰسِنٍ ۚ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ لَّبَنٍ لَّمۡ یَتَغَیَّرۡ طَعۡمُہٗ ۚ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ خَمۡرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیۡنَ ۬ۚ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ عَسَلٍ مُّصَفًّی ؕ وَ لَہُمۡ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ وَ مَغۡفِرَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ؕ کَمَنۡ ہُوَ خَالِدٌ فِی النَّارِ وَ سُقُوۡا مَآءً حَمِیۡمًا فَقَطَّعَ اَمۡعَآءَہُمۡ﴿۱۵﴾

۱۵۔ جس جنت کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کی مثال یوں ہے کہ اس میں ایسے پانی کی نہریں ہیں جو (کبھی) بدبودار نہ ہو گا اور ایسے دودھ کی نہریں ہیں جس کا ذائقہ نہیں بدلے گا اور ایسی شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لیے لذت بخش ہو گی اور خالص شہد کی نہریں (بھی) ہیں اور اس میں ان کے لیے ہر قسم کے میوے ہیں اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے، کیا یہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جنہیں کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کو کاٹ کر رکھ دے گا۔

تشریح کلمات

اٰسِنٍ:

( ا س ن ) آسن المائُ پانی کا سخت بدبودار ہونا۔

اَمۡعَآءَ:

( م ع ی ) المعی: آنت

تفسیر آیات

۱۔ مَثَلُ الۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ: جس جنت کا اہل تقویٰ سے وعدہ کیا گیا ہے۔ اگر مَثَلُ کو بمعنی صفت لیتے ہیں تو اس کی صفت یہ ہے اور مَثَلُ کو اپنے معنوں میں لیتے ہیں کہ تو معنی یہ ہوں گے: خود جنت تو ناقابل وصف و بیان ہے البتہ اہل دنیا کے اذہان کے لیے مثال پیش کی جا سکتی ہے:

فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ (۳۲ سجدہ۔۱۷)

اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے اعمال کے صلے میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان پردہ غیب میں موجود ہے۔

۲۔ فِیۡہَاۤ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ مَّآءٍ غَیۡرِ اٰسِنٍ: جنت میں نہریں ہوں گی مگر ان کی نوعیت دنیا کی نہروں اور دنیا کے پانیوں کی طرح نہ ہو گی۔ مختلف نباتات مل جانے کی وجہ سے دنیا کے پانی کی خاصیت اور بو بدل جاتی ہے۔جنت کا پانی دنیا کے پانی سے مختلف ہو گا۔ یہ پانی ناقابل تغیر و تبدل ہو گا۔

۳۔ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ لَّبَنٍ: جنت میں دودھ کی نہریں ہوں گی۔ ان نہروں کا دودھ دنیا کے دودھ کی طرح نہ ہو گا جو جانوروں کے تھنوں سے نکالا جاتا ہے۔ زمین سے پھوٹنے والا دودھ ہو گا۔ لَّمۡ یَتَغَیَّرۡ طَعۡمُہٗ اس کا مزہ بھی ناقابل تغیر ہو گا۔

۴۔ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ خَمۡرٍ: شراب کی بھی نہریں ہوں گی اس شراب میں صرف لذت ہو گی دیگر منفی خاصیتیں نہیں ہوں گی یعنی تلخ بدبودار اور نشہ آور نہیں ہو گی۔

۵۔ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ عَسَلٍ مُّصَفًّی: صاف و شفاف شہد کی نہریں۔اس شہد میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں ہو گی۔ جیسے اس میں موم، چھتے کے ٹکڑے، مکھیاں وغیرہ نہیں ہوں گی۔

۶۔ وَ لَہُمۡ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ: کُلِّ الثَّمَرٰتِ تمام وہ میوے جو انسانی تصور میں ہیں وہاں فراہم ہوں گے۔

یہ ان نعمتوں کو سمجھانے کے لیے ایک مثال ہے ورنہ وہاں کی نعمتوں کی لذت، صفائی وغیرہ دنیا والوں کے لیے قابل بیان و ادراک نہیں ہے۔

۷۔ وَ مَغۡفِرَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ: اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور درگزر کی وجہ سے گناہوں کی آلودگیوں سے پاک ہو چکے ہوں گے۔ اس مغفرت کی وجہ سے جنت کی زندگی بے داغ ہو گی جو اپنی جگہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔

۸۔ کَمَنۡ ہُوَ خَالِدٌ فِی النَّارِ: کیا وہ شخص جسے اس قسم کی جنت میں داخل کیا جائے گا ان لوگوں کی طرح ہو سکتا ہے جو الی الابد جہنم میں رہیں گے۔جنت والوں کو ہر قسم کی نعمتیں میسر ہوں گی۔ اس کے مقابلے میں جہنم والوں کو کھولتا پانی پلایا جائے گا اور تشنگی ختم کرنے کی جگہ آنتوں تک کو پارہ کر دے گا۔

اہم نکات

۱۔ قرآن جنت کی نعمتوں کی مثال پیش کرتا ہے، خود نعمتوں کا ذکر نہیں کرتا۔

۲۔ چونکہ مومن کے لیے جنت میں ناقابل وصف و بیان نعمتیں ہوں گی۔


آیت 15