آیت 20
 

وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَتۡ سُوۡرَۃٌ ۚ فَاِذَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ مُّحۡکَمَۃٌ وَّ ذُکِرَ فِیۡہَا الۡقِتَالُ ۙ رَاَیۡتَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ یَّنۡظُرُوۡنَ اِلَیۡکَ نَظَرَ الۡمَغۡشِیِّ عَلَیۡہِ مِنَ الۡمَوۡتِ ؕ فَاَوۡلٰی لَہُمۡ ﴿ۚ۲۰﴾

۲۰۔ اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہتے ہیں: کوئی (نئی) سورت نازل کیوں نہیں ہوئی؟ (جس میں جہاد کا ذکر ہو) اور جب محکم بیان والی سورت نازل ہو اور اس میں قتال کا ذکر آ جائے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے موت کی بے ہوشی طاری ہو گئی ہو، پس ان کے لیے تباہی ہو۔

تشریح کلمات

فَاَوۡلٰی لَہُمۡ:

( ا و ل ) فَاَوۡلٰی لَہُمۡ میں اَوۡلٰی کلمۂ تہدید و تخویف ہے اور جو ہلاکت کے قریب پہنچ چکا ہو اسے تنبیہ کرنے کے لیے آتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا: اہل ایمان کی تو یہ خواہش رہتی تھی کہ وحی کا سلسلہ بلا توقف جاری رہے۔ تازہ کلام سننے کا موقع ملے گا، کوئی نیا حکم آئے گا، اس کی تعمیل کی سعادت نصیب ہو گی۔ ایمان تازہ ہو گا۔

۲۔ لیکن دوسرے مریض دل لوگوں کا یہ حال ہے کہ کوئی نئی آیت واضح اور غیر مبہم حکم خدا لے کر نازل ہوتی ہے، اگر اس میں قتال و جہاد کا ذکر ہے تو ان پر موت کی سی غشی طاری ہو جاتی ہے۔ مُّحۡکَمَۃٌ سے مراد وہ آیت ہو سکتی ہے جو غیر مبہم اور پوری وضاحت کے ساتھ حکم کا بیان لے کر نازل ہو۔

۳۔ رَاَیۡتَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ: مریض دل کی تعبیر قرآن مجید میں ان لوگوں کے لیے استعمال ہوئی ہے جو سچے دل سے مومن بھی نہیں ہیں اور منافق بھی نہیں ہیں۔ مومن اور منافق کے درمیان ہیں انہیں مریض دل کہا گیا ہے۔ چنانچہ سورہ انفال آیت ۴۹ میں فرمایا:

اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ غَرَّہٰۤؤُ لَآءِ دِیۡنُہُمۡ۔۔۔۔

جب (ادھر) منافقین اور جن کے دلوں میں بیماری تھی، کہ رہے تھے : انہیں تو ان کے دین نے دھوکہ دے رکھا ہے۔

یہاں منافق اور مریض دل لوگوں کا ذکر ہے۔

اسی طرح سورہ احزاب آیت ۱۲ میں فرمایا:

وَ اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اِلَّا غُرُوۡرًا

اور جب منافقین اور دلوں میں بیماری رکھنے والے کہ رہے تھے: اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھا۔

نیز فرمایا:

لَئِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہِ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ وَّ الۡمُرۡجِفُوۡنَ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ لَنُغۡرِیَنَّکَ بِہِمۡ۔۔۔۔۔ (۳۳ احزاب:۶۰)

اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جو مدینہ میں افواہیں پھیلاتے ہیں اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کے خلاف اٹھائیں گے

ان تمام آیات میں مریض دل لوگوں کا ذکر منافقوں کے ساتھ ہوا ہے اور جہاد کے بارے میں مریض دل والوں کا ذکر آتا ہے جہاں ایمان کا صحیح امتحان ہوتا ہے۔ سورہ مدثر آیت ۳۱ میں فرمایا:

وَ لِیَقُوۡلَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ وَّ الۡکٰفِرُوۡنَ مَاذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِہٰذَا مَثَلًا۔۔۔۔۔۔

اور جن کے دلوں میں بیماری ہے نیز کفار یہی کہیں: اس بیان سے اللہ کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟

اس آیت میں مریض دل والوں اور کفار کا ذکر ہوا ہے۔

لہٰذا ان سب آیتوں سے معلوم ہوا کہ مریض دل والے نہ منافق لوگ ہیں، نہ کافر لوگ بلکہ ایمان، کفر اور نفاق میں ایک چوتھی قسم کے لوگ ہیں۔

۴۔ فَاَوۡلٰی لَہُمۡ: تباہی ہو ان مریض دل لوگوں کی۔ اَوۡلٰی لَہُمۡ کی ترکیب کے بارے کہا ہے کہ اس کے معنی ہیں: قاربہ ما یہل کہ اسے تباہ کرنے والی بات اس پر آ گرے۔ جوہری نے بھی کہا ہے: اولیٰ لک تہدید کے موقع پر کہا جاتا ہے۔

چنانچہ سورہ قیامۃ آیت ۳۴۔۳۵ میں ابوجہل کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا ہے:

اَوۡلٰی لَکَ فَاَوۡلٰی ﴿﴾ ثُمَّ اَوۡلٰی لَکَ فَاَوۡلٰی

تیرے لیے تباہی پر تباہی ہے۔ پھر تیرے لیے تباہی پر تباہی ہے۔

کہتے ہیں دراصل یہ لفظ ولیٰ یلی سے ماخوذ ہے جو قرب کے معنوں میں ہے۔ یعنی تمہاری تباہی نزدیک ہے۔

اہم نکات

۱۔ منافق کا نفاق اور مریض دل لوگوں کا ضمیر میدان جنگ میں فاش ہوا کرتا تھا۔


آیت 20