آیت 11
 

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوۡلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اَنَّ الۡکٰفِرِیۡنَ لَا مَوۡلٰی لَہُمۡ﴿٪۱۱﴾

۱۱۔ یہ اس لیے ہے کہ مومنین کا کارساز اللہ ہے اور کفار کا کوئی کارساز نہیں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ ذٰلِکَ: ان کی ہلاکت کی وجہ یہ ہے کہ یہ کافر اللہ تعالیٰ کی ولایت سے خارج ہو کر بے حس بتوں کی ولایت میں چلے گئے ہیں۔ ان بے حس بتوں سے ان کافروں کو تحفظ ملنا نہیں ہے۔ کون ہے جو انہیں انجام بد سے تحفظ دے۔

۲۔ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوۡلَی: اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا مولا اور مالک ہے۔

اللہ تعالیٰ تدبیر امور حیات کے اعتبار سے تمام انسانوں کا مالک و مدبر اور مولا ہے لیکن امور خیر و سعادت کی رہنمائی اور حق کی ہدایت و توفیق دینے کے اعتبار سے صرف مومنین کا مولا، مالک و مدبر ہے۔ چونکہ مومنین ہی اللہ کی اس ولایت میں داخل ہیں لہٰذا اللہ مومنین کی نصرت فرمائے گا اور کافروں کو اپنے حال پر چھوڑ دے گا۔

فضائل: ابن عباس راوی ہیں:

بِاَنَّ اللّٰہَ مَوۡلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یعنی ولی علی و حمزۃ و جعفر و الحسن و الحسین و ولی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ینصرھم بالغلبۃ علی عدوھم۔ ( شواہد التنزیل ذیل آیت)

بِاَنَّ اللّٰہَ مَوۡلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا سے مراد لیا ہے کہ اللہ علی، حمزہ، جعفر، حسن اور حسین کا ولی ہے اور اللہ ولی ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو ان کے دشمن کے خلاف ان کی مدد کرے گا۔

جنگ احد میں ابوسفیان کا نعرہ تھا: نحن لنا العزی ولا عزی لکم ہمارے لیے عزی (ایک بت کا نام) ہے تمہارے لیے کوئی عزی نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کے جواب میں کہو: اللہ مولانا ولا مولی لکم: اللہ ہمارا مولا ہے تمہارا کوئی مولا نہیں۔ ( بحار الانوار ۳۰: ۲۳۔ صحیح بخاری غزوہ احد )

اس سورہ مبارکہ کی ہر آیت کی تلاوت کے موقع پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول فرمان یاد رکھنا چاہیے کہ سورہ محمد کی ایک آیت ہمارے بارے میں ہے اور ایک آیت ہمارے دشمنوں کے بارے میں ہے۔


آیت 11