آیت 14
 

اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ کَمَنۡ زُیِّنَ لَہٗ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ وَ اتَّبَعُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمۡ﴿۱۴﴾

۱۴۔ کیا جو شخص اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر ہو اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور جنہوں نے اپنی خواہشات کی پیروی کی ہو؟

تفسیر آیات

۱۔ اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ: اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل رکھنے والی ذات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے چونکہ قرآن نے ہمیشہ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ انبیاء علیہم السلام کے لیے فرمایا ہے اور آسمانی کتاب کو قرآن بَیِّنَۃٍ کہتا ہے۔

اَمۡ اٰتَیۡنٰہُمۡ کِتٰبًا فَہُمۡ عَلٰی بَیِّنَتٍ مِّنۡہُ۔۔۔۔ (۳۵ فاطر: ۴۰)

یا ہم نے انہیں کوئی کتاب دی ہے جس کی بنا پر یہ کوئی دلیل رکھتے ہوں؟

بیان یہ کرنا مقصود ہے: کیا وہ ہستی جسے اللہ نے اپنی رسالت کی حقانیت پر واضح دلیل و برہان عنایت کیا ہے ان مشرکین کی طرح ہو سکتی ہے جو اپنے اعمال کی برائیوں تک سے واقف نہیں ہیں، انہیں اپنے برے اعمال خوشنما لگتے ہیں اور عقل و خرد کی جگہ خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ دونوں ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ جس کے پاس بَیِّنَۃٍ ہے وہ کامیاب ہو گا اور مشرکین تباہ ہو جائیں گے۔

فضائل: عبد اللہ بن عباس روایت کرتے ہیں:

اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ علی دین من ربہ نزلت فی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم و علی کانا علی شھادۃ ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ۔ ( شواہد التنزیل ذیل آیت)

اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ سے مراد علی دین من ربہ ہے۔ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے چونکہ دونوں ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ کی گواہی قائم ہیں۔


آیت 14