وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ ہُمۡ لَا یَسۡمَعُوۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے یہ تو کہدیا کہ ہم نے سن لیا مگر درحقیقت وہ سنتے نہ تھے۔

20۔ 21 کافروں کو ان کے انجام بد کی خبر دینے کے بعد مومنوں سے خطاب فرمایا: اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرو۔ اس کے بعد خصوصی طور پر فرمایا: رسول کے حکم سے روگردانی نہ کرو۔ یہاں اگرچہ تعبیر عام ہے مگر گفتگو جنگ سے مربوط ہے، لہٰذا بحیثیت سپاہ دار اعظم رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حکم عدولی ناقابل عفو جرم ہو گا۔

اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنۡدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الۡبُکۡمُ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡقِلُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اللہ کے نزدیک تمام حیوانوں میں بدترین یقینا وہ بہرے گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔

وَ لَوۡ عَلِمَ اللّٰہُ فِیۡہِمۡ خَیۡرًا لَّاَسۡمَعَہُمۡ ؕ وَ لَوۡ اَسۡمَعَہُمۡ لَتَوَلَّوۡا وَّ ہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ اور اگر اللہ ان میں بھلائی (کا مادہ) دیکھ لیتا تو انہیں سننے کی توفیق دیتا اور اگر انہیں سنوا دیتا تو وہ بے رخی کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے۔

22۔23 یہاں کافروں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام جانداروں میں بدتر وہ لوگ ہیں جو عقل و شعور ملنے کے باوجود عقل سے کام نہیں لیتے۔ اس کی وجہ یہ بتائی کہ ان میں خیر کی استعداد اور قبول حق کے لیے ان میں کسی قسم کی صلاحیت و آمادگی نہیں ہے۔اگر ان میں کسی قسم کی خوبی نہ ہونے کے باوجود ان کو سنوا دے اور اللہ کی طرف سے توفیق حاصل ہو جائے تو بھی اس سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ ۚ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ قَلۡبِہٖ وَ اَنَّہٗۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ اے ایمان والو! اللہ اور رسول کو لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائیں اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور یہ بھی کہ تم سب اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے۔

24۔ اسلامی تعلیمات دستور حیات ہی نہیں، بلکہ اس دستور میں، حیات بھی ہے اور ابدی حیات بھی۔ رسول اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کا ہر لفظ اور ہر حرف حیات ابدی کے لیے زندہ خلیوں کی مانند ہے، جس سے ایک زندہ و فعال ہستی وجود میں آتی ہے۔

وَ اتَّقُوۡا فِتۡنَۃً لَّا تُصِیۡبَنَّ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡکُمۡ خَآصَّۃً ۚ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ﴿۲۵﴾

۲۵۔ اور اس فتنے سے بچو جس کی لپیٹ میں تم میں سے صرف ظلم کرنے والے نہیں بلکہ (سب) آئیں گے اور یہ جان لو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔

25۔ کچھ فتنے ایسے ہوتے ہیں جن کے اثرات پورے معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں اور ان کی لپیٹ میں بے گناہ افراد بھی آتے ہیں۔ مثلاً خیانت حکمران کرتے ہیں لیکن اس کی سزا اقتصادی، عسکری اور ثقافتی میدانوں میں پوری امت کو بھگتنا پڑتی ہے۔ تفرقہ بازی، تنگ نظر لوگ کرتے ہیں مگر اس کے منفی اثرات پوری قوم پر پڑتے ہیں۔

وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ اَنۡتُمۡ قَلِیۡلٌ مُّسۡتَضۡعَفُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ تَخَافُوۡنَ اَنۡ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىکُمۡ وَ اَیَّدَکُمۡ بِنَصۡرِہٖ وَ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔اور (وہ وقت) یاد کرو جب تم تھوڑے تھے، تمہیں زمین میں کمزور سمجھا جاتا تھا اور تمہیں خوف رہتا تھا کہ مبادا لوگ تمہیں ناپید کر دیں تو اس نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہیں تقویت پہنچائی اور تمہیں پاکیزہ روزی عطا کی تاکہ تم شکر کرو۔

26۔ مسلمانوں کو مکی زندگی یاد دلائی جا رہی ہے کہ جہاں معدودے چند مسلمان ہمیشہ کفار کے خطرے میں گھرے ہوئے ہوتے تھے، اللہ نے ان کو مدینہ میں امن کی جگہ دے دی اور کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی مدد فرمائی اور جنگی غنیمت سے ان کو روزی عطا فرمائی۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَخُوۡنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ وَ تَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور اپنی امانتوں میں بھی خیانت نہ کرو درحالیکہ تم جانتے ہو۔

وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗۤ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ﴿٪۲۸﴾

۲۸۔اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں اور بے شک اللہ ہی کے ہاں اجر عظیم ہے۔

28۔ مال و اولاد خود مقصد ہیں یا رضائے رب کا ذریعہ؟ اس کی مثال کشتی اور پانی کی سی ہے۔ پانی اگر کشتی کے نیچے رہے تو پار ہونے کا بہترین ذریعہ ہے اور اگر یہی پانی کشتی کے اندر آجائے تو غرق ہونے کا سبب بنتا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ﴿۲۹﴾

۲۹۔ اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہیں (حق و باطل میں) تمیز کرنے کی طاقت عطا کرے گا اور تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

29۔ اہل تقویٰ کا ضمیر شفاف، وجدان صاف، احساس زندہ اور عقل بیدار ہوتی ہے، اس لیے انہیں حق و باطل کی تمیز میں مشکل پیش نہیں آتی۔ حدیث میں آیا ہے: المومن ینظر بنور ﷲ ۔ (بحار الانوار 7: 323) مومن نور خدا کی روشنی میں دیکھتا ہے۔

وَ اِذۡ یَمۡکُرُ بِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِیُثۡبِتُوۡکَ اَوۡ یَقۡتُلُوۡکَ اَوۡ یُخۡرِجُوۡکَ ؕ وَ یَمۡکُرُوۡنَ وَ یَمۡکُرُ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ اور (وہ وقت یاد کریں) جب یہ کفار آپ کے خلاف تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا آپ کو قتل کر دیں یا آپ کو نکال دیں وہ اپنی چال سوچ رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔

30۔ یہ آیت تاریخ اسلام کے عظیم واقعے (ہجرت) کے بارے میں ہے جب مکہ کے سرداروں نے دار الندوہ میں جمع ہو کر رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قید کرنے یا جلا وطن یا شہید کرنے پر غور کیا۔ آخرکار ابوجہل کی اس تجویز پر اتفاق ہوا کہ تمام قبائل کی شرکت سے محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کیا جائے۔ ادھر جبرئیل امین نے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا: آج رات آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بستر پر نہ سوئیں بلکہ اپنی جگہ علی بن ابی طالب علیہ السلام کو سلائیں۔ علی علیہ السلام بستر رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سوئے اور رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہجرت فرما گئے۔ امام علی علیہ السلام نے جان نثاری و فداکاری کی ایک ابدی مثال قائم کی۔ چنانچہ خود حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: وقیت بنفسی خیر من وطئ الحصی ۔ روئے زمین پر چلنے والوں میں سے سب سے بہتر ہستی کی خاطر میں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ (بحار الانوار 19: 63۔ روح المعانی 9: 198)

اقول: فدتک نفسی یا خیر من وفی ۔