وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا قَالُوۡا قَدۡ سَمِعۡنَا لَوۡ نَشَآءُ لَقُلۡنَا مِثۡلَ ہٰذَاۤ ۙ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۳۱﴾

۳۱۔اور جب انہیں ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں: ہم نے سن لیا ہے اگر ہم چاہیں تو ایسی باتیں ہم بھی بنا سکتے ہیں، یہ تو وہی داستان ہائے پارینہ ہیں۔

31۔ صرف لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹانے اور اس معجزہ کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے کہتے تھے ہم بھی ایسی عبارت اور ایسا مضمون بنا سکتے ہیں۔ اگر وہ اس پر قادر ہوتے تو ایسا ضرور کرتے اور ایک نہیں کئی ایک عبارتیں یکے بعد دیگرے ہر سو سے بن کر آ جاتیں اور قرآن کے خلاف جنگ کرنے اور جانی قربانیاں دینے کی نوبت نہ آتی۔

وَ اِذۡ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنۡ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الۡحَقَّ مِنۡ عِنۡدِکَ فَاَمۡطِرۡ عَلَیۡنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائۡتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ﴿۳۲﴾

۳۲۔ اور (یہ بھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا: اے اللہ! اگر یہ بات تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی دردناک عذاب نازل کر ۔

32۔یہ ایک چیلنج تھا جو رسالتمآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کی حقانیت کے خلاف کیا گیا۔ یہ چیلنج کرنے والا کون تھا مفسرین میں اختلاف ہے۔ علامہ امینی نے الغدیر جلد اول صفحہ 239۔266 میں شیعہ و سنی متعدد مصادر سے ذکر کیا ہے کہ یہ چیلنج غدیر کے موقع پر کیا گیا اور چیلنج کرنے والا حارث بن نعمان فہری تھا، جب رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدیر کے موقع پر فرمایا : من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ تو حارث فہری نے جو منافق تھا، کہا: آپ نے توحید کا حکم دیا ہم نے مان لیا، بتوں سے بیزاری کا حکم دیا ہم نے مان لیا، اپنی رسالت کی تصدیق کرنے کے لیے کہا ہم نے تصدیق کی، پھر جہاد، حج، روزہ، نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہم نے مان لیا۔ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان پر اکتفا نہ کیا اور اس لڑکے کو اپنا خلیفہ بنا دیا اور کہ دیا: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ۔ کیا آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اپنی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے؟ رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی طرف سے ہے۔ نعمان لوٹا اور کہا: اے اللہ اگر یہ بات حق ہے اور آپ کی طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے۔ اتنے میں ایک پتھر آسمان سے اس پر گرا اور وہ مر گیا۔ آیۂ سَاَلَ سَآئِلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ (معارج:1) اسی سلسلے میں نازل ہوا۔

اس واقعہ کو ابو عبیدہ ھروی متوفی 223ھ نے اپنی تفسیر غریب القرآن میں، ابوبکر نقاش موصلی متوفی 351ھ نے اپنی تفسیر شفاء الصدور میں، ابو اسحاق بقلی متوفی 427ھ نے اپنی تفسیر میں، حاکم حسکانی نے دعاۃ الھداۃ میں، ابوبکر یحییٰ قرطبی متوفی 567ھ نے سورﮤ المعارج کی تفسیر میں، سبط ابن جوزی متوفی 654ھ نے تذکرہ میں، حموینی متوفی 722ھ نے فراید السمطین میں و دیگر 30 کے قریب علماء نے ذکر کیا ہے۔

وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔اور اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا جب تک آپ ان کے درمیان موجود ہیں اور نہ ہی اللہ انہیں عذاب دینے والا ہے جب وہ استغفار کر رہے ہوں۔

وَ مَا لَہُمۡ اَلَّا یُعَذِّبَہُمُ اللّٰہُ وَ ہُمۡ یَصُدُّوۡنَ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ وَ مَا کَانُوۡۤا اَوۡلِیَآءَہٗ ؕ اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔اور اللہ ان پر عذاب نازل کیوں نہ کرے جب کہ وہ مسجد الحرام کا راستہ روکتے ہیں حالانکہ وہ اس مسجد کے متولی نہیں ہیں؟ اس کے متولی تو صرف تقویٰ والے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے ۔

34۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: کَانَ فِی الْاَرْضِ اَمَانَانِ مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ وَ قَد رُفِعَ اَحَدُھُمَا فَدُوْنَکُمُ الآخَرَ ۔ اہل ارض کے لیے عذاب خدا سے دو امان موجود تھیں (رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور استغفار)۔ ان میں سے ایک اٹھا لی گئی ہے اور دوسری تمہاری دسترس میں ہے۔ (نہج البلاغۃ حکمت:88)

وَ مَا کَانَ صَلَاتُہُمۡ عِنۡدَ الۡبَیۡتِ اِلَّا مُکَآءً وَّ تَصۡدِیَۃً ؕ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَکۡفُرُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔اور خانہ کعبہ کے پاس ان کی نماز سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی پس اب اپنے کفر کے بدلے عذاب چکھو۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ لِیَصُدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ فَسَیُنۡفِقُوۡنَہَا ثُمَّ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ حَسۡرَۃً ثُمَّ یُغۡلَبُوۡنَ ۬ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی جَہَنَّمَ یُحۡشَرُوۡنَ ﴿ۙ۳۶﴾

۳۶۔جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ اپنے اموال (لوگوں کو) راہ خدا سے روکنے کے لیے خرچ کرتے ہیں، ابھی مزید خرچ کرتے رہیں گے پھر یہی بات ان کے لیے باعث حسرت بنے گی پھر وہ مغلوب ہوں گے اور کفر کرنے والے جہنم کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے۔

لِیَمِیۡزَ اللّٰہُ الۡخَبِیۡثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجۡعَلَ الۡخَبِیۡثَ بَعۡضَہٗ عَلٰی بَعۡضٍ فَیَرۡکُمَہٗ جَمِیۡعًا فَیَجۡعَلَہٗ فِیۡ جَہَنَّمَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿٪۳۷﴾

۳۷۔ تاکہ اللہ ناپاک کو پاکیزہ سے الگ کر دے اور ناپاکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باہم ملا کر یکجا کر دے پھر اس ڈھیر کو جہنم میں جھونک دے، (دراصل) یہی لوگ خسارے میں ہیں۔

36۔37۔ ان آیات میں کفار کے مستقبل کے عزائم اور ان کا انجام بیان ہوا ہے کہ وہ زمانہ حال و مستقبل دونوں میں اسلام اور انسانیت کے خلاف اپنا سارا سرمایہ خرچ کریں گے۔ اسی سرمایہ کے بل بوتے پر وہ اقتصادی، سیاسی، عسکری اور ثقافتی غرض ہر لحاظ سے ناروا سازشیں کرتے رہیں گے۔ اللہ بھی انہیں مہلت دیتا ہے تاکہ یہ ناپاک عناصر ایک مرکز پر جمع ہو جائیں اور اپنا آخری سرمایہ بھی خرچ کر دیں۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور انسانیت کے خلاف ان ناپاک عناصر کا عالمی اتحاد ہو گا تو خداوند ان سب کو اٹھا کر جہنم میں جھونک دے گا، یوں یہ کفار کے دیوالیہ پن کی انتہا ہو گی اور اپنا سب کچھ مٹانے کے بعد بھی نتیجہ ان کی اپنی تباہی کی شکل میں نکلے گا۔

قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ یَّنۡتَہُوۡا یُغۡفَرۡ لَہُمۡ مَّا قَدۡ سَلَفَ ۚ وَ اِنۡ یَّعُوۡدُوۡا فَقَدۡ مَضَتۡ سُنَّتُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۳۸﴾

۳۸۔ کفار سے کہدیجئے کہ اگر وہ باز آ جائیں تو جو کچھ پہلے(ان سے سرزد) ہو چکا اسے معاف کر دیا جائے گا اور اگر انہوں نے (پچھلے جرائم کا) اعادہ کیا تو گزشتہ اقوام کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ (ان کے بارے میں بھی) نافذ ہو گا۔

وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۳۹﴾

۳۹۔ اور تم لوگ کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارا اللہ کے لیے خاص ہو جائے، پھر اگر وہ باز آ جائیں تو اللہ یقینا ان کے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔

39۔ہم نے لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ کے ذیل میں یہ بات واضح کی ہے کہ اسلامی جنگیں سلب شدہ آزادی کے حصول کے لیے تھیں نہ آزادی کو سلب کرنے کے لیے۔ اس آیت سے بھی اسلام کے انسانیت ساز نظریے کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ اسلام فتنے کے خاتمے کے لیے جنگ کرنے کا حکم دیتا ہے، نہ کہ جنگ کے ذریعہ فتنہ قائم کرنے کا۔

وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَوۡلٰىکُمۡ ؕ نِعۡمَ الۡمَوۡلٰی وَ نِعۡمَ النَّصِیۡرُ﴿۴۰﴾

۴۰۔اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو جان لو کہ اللہ تمہارا سرپرست ہے، جو بہترین سرپرست اور بہترین مددگار ہے۔