اِذۡ یُغَشِّیۡکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنۡہُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَہِّرَکُمۡ بِہٖ وَ یُذۡہِبَ عَنۡکُمۡ رِجۡزَ الشَّیۡطٰنِ وَ لِیَرۡبِطَ عَلٰی قُلُوۡبِکُمۡ وَ یُثَبِّتَ بِہِ الۡاَقۡدَامَ ﴿ؕ۱۱﴾

۱۱۔ (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ اپنی طرف سے امن دینے کے لیے تم پر غنودگی طاری کر رہا تھا اور آسمان سے تمہارے لیے پانی برسا رہا تھا تاکہ اس سے تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطانی نجاست دور کرے اور تمہارے دلوں کو مضبوط بنائے اور تمہارے قدم جمائے رکھے۔

9 تا 11۔اس آیت سے اس نظریے کی تائید ہوتی ہے کہ فرشتوں کی شرکت کا مقصد روحانی تقویت اور مسلمانوں کے دلوں سے خوف و ہراس کو دور اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔ جس صبح بدر کی جنگ ہونا تھی، اس رات کافی بارش ہوئی جس سے مسلمانوں کو کافی مدد ملی۔ اس وقت پانی پر مشرکین کا قبضہ تھا اور بارش سے مسلمانوں کو پانی میسر آیا۔ دوسری بات یہ کہ بارش سے ریت سخت ہو گئی جس سے مسلمانوں کے قدم جم گئے۔ تیسری بات یہ ہوئی کہ دشمن نشیبی علاقے میں تھا۔ بارش سے کیچڑ ہو گیا اور دشمن کے لیے چلنا پھرنا مشکل ہو گیا۔

اِذۡ یُوۡحِیۡ رَبُّکَ اِلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیۡ مَعَکُمۡ فَثَبِّتُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ سَاُلۡقِیۡ فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا الرُّعۡبَ فَاضۡرِبُوۡا فَوۡقَ الۡاَعۡنَاقِ وَ اضۡرِبُوۡا مِنۡہُمۡ کُلَّ بَنَانٍ ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲۔ (وہ وقت بھی یاد کرو) جب آپ کا رب فرشتوں کو وحی کر رہا تھا کہ تم ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو میں تمہارے ساتھ ہوں، عنقریب میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈالوں گا، لہٰذا تم ان کی گردنوں کے اوپر ضرب لگاؤ اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کی پوروں پر وار کرو۔

12۔ فرشتوں سے وحی میں فرمایا کہ تم ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو۔ یہ کام فرشتوں کے ذمے لگایا۔ اللہ نے اپنے ذمے لیا کافروں کے دلوں میں رعب ڈالنا اور ان کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنا۔ چنانچہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ کفار کے دلوں میں ایک عجیب قسم کا خوف و وحشت طاری تھا۔ مسلمانوں میں قربانی کے جذبات، ان کے شجاعانہ نعرے، طوفان باد و باران، مکہ میں مسلمانوں کی استقامت کی داستانیں۔ یہ سب باتیں ان کے دلوں میں رعب و وحشت ڈالنے کا باعث بنیں۔ اس کے بعد رخ کلام مومنوں کی طرف مڑ جاتا ہے۔ اگرچہ سیاق کلام فرشتوں کے ساتھ ہے، تاہم ثابت قدمی مسلمانوں کی طرف اور رعب وحشت کافروں کی طرف، ایسے سازگار حالات تھے جس میں گردنوں پر ضرب اور ہاتھوں پر چوٹ لگانے کا بہترین موقع میسر آیا۔ اس لیے یہ خطاب مومنین کے لیے ہو سکتا ہے۔

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ شَآقُّوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ۚ وَ مَنۡ یُّشَاقِقِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۱۳﴾

۱۳۔یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے تو اللہ یقینا سخت عذاب دینے والا ہے ۔

ذٰلِکُمۡ فَذُوۡقُوۡہُ وَ اَنَّ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابَ النَّارِ﴿۱۴﴾

۱۴۔یہ ہے تمہاری سزا پس اسے چکھو اور بتحقیق کافروں کے لیے دوزخ کا عذاب ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا زَحۡفًا فَلَا تُوَلُّوۡہُمُ الۡاَدۡبَارَ ﴿ۚ۱۵﴾

۱۵۔اے ایمان والو! جب میدان جنگ میں کافروں سے تمہارا سامنا ہو جائے تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔

وَ مَنۡ یُّوَلِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ دُبُرَہٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوۡ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدۡ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ مَاۡوٰىہُ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿۱۶﴾

۱۶۔اور جس نے اس روز اپنی پیٹھ پھیری مگر یہ کہ جنگی چال کے طور پر ہو یا کسی فوجی دستے سے جا ملنے کے لیے تو (کوئی حرج نہیں ورنہ) وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہو گیا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور وہ بہت بری جگہ ہے۔

16۔ میدان جنگ سے جان بچانے کے لیے بھاگنا تمام دنیا کے حربی قوانین میں بڑا جرم ہے۔ اسلامی جنگوں (جہاد) میں تو دو کامیابیوں احدی الحسنیین میں سے ایک کامیابی ملتی ہے: فتح یا شہادت۔ جس سے فرار کا مطلب یہ ہے کہ بھاگنے والوں کا ان چیزوں پر ایمان نہیں ہے، اس لیے یہ جرم زیادہ سخت ہے۔

فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡہُمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمۡ ۪ وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ۚ وَ لِیُبۡلِیَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡہُ بَلَآءً حَسَنًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۱۷﴾

۱۷۔پس انہیں تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور (اے رسول) جب آپ کنکریاں پھینک رہے تھے اس وقت آپ نے نہیں بلکہ اللہ نے کنکریاں پھینکی تھیں تاکہ اپنی طرف سے مومنوں کو بہتر آزمائش سے گزارے بے شک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔

17۔ایک بے سہارا چھوٹا سا لشکر بڑی طاقت کو ذلت آمیز شکست دے۔ یہ تمہاری قوتِ بازو کی بدولت نہیں بلکہ اللہ کی مدد کی بدولت ہے۔

وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ : رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: ناولنی کفا من حصی فناولہ ۔ (بحار الانوار 19: 324) مجھے مٹھی بھر کنکریاں دے دو، سو علی علیہ السلام نے دے دیں۔ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شاھت الوجوہ کہ کر دشمن کی طرف پھینکیں تو سب کی آنکھوں میں ریزے بھر گئے۔ اس طرح عمل رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عمل خدا قرار پاتا ہے۔

ذٰلِکُمۡ وَ اَنَّ اللّٰہَ مُوۡہِنُ کَیۡدِ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ یہ تھی تمہاری بات اور رہی کافروں کی بات تو اللہ ان کی مکاری کا زور توڑ دینے والا ہے۔

اِنۡ تَسۡتَفۡتِحُوۡا فَقَدۡ جَآءَکُمُ الۡفَتۡحُ ۚ وَ اِنۡ تَنۡتَہُوۡا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ اِنۡ تَعُوۡدُوۡا نَعُدۡ ۚ وَ لَنۡ تُغۡنِیَ عَنۡکُمۡ فِئَتُکُمۡ شَیۡئًا وَّ لَوۡ کَثُرَتۡ ۙ وَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿٪۱۹﴾

۱۹۔ (کافروں سے کہدو کہ) اگر تم فیصلہ چاہتے ہو تو فیصلہ تمہارے سامنے آ گیا اب اگر تم باز آ جاؤ تو تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر تم نے (اس جرم کا) اعادہ کیا تو ہم بھی (اس سزا کا)اعادہ کریں گے اور تمہاری جماعت کثیر ہو بھی تو تمہارے کسی کام نہ آئے گی اور اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔

19۔ روایت میں آیا ہے کہ ابوجہل نے جنگ بدر کے موقع پر یہ دعا کی تھی: اے اللہ! ہمارے قدیم دین اور محمد کے جدید دین میں سے جس سے تجھے محبت ہے اور جس کو تو پسند کرتا ہے اس کے ماننے والوں کی نصرت فرما۔ (مجمع البیان) چنانچہ اللہ نے اپنے پسندیدہ دین کی نصرت فرمائی اور مستقبل میں مومنوں کے لیے دائمی فتح اور کافروں کے لیے دائمی شکست کی نوید بھی سنائی۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَوَلَّوۡا عَنۡہُ وَ اَنۡتُمۡ تَسۡمَعُوۡنَ ﴿ۚۖ۲۰﴾

۲۰۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور حکم سننے کے بعد تم اس سے روگردانی نہ کرو۔