آیت 26
 

وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ اَنۡتُمۡ قَلِیۡلٌ مُّسۡتَضۡعَفُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ تَخَافُوۡنَ اَنۡ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىکُمۡ وَ اَیَّدَکُمۡ بِنَصۡرِہٖ وَ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔اور (وہ وقت) یاد کرو جب تم تھوڑے تھے، تمہیں زمین میں کمزور سمجھا جاتا تھا اور تمہیں خوف رہتا تھا کہ مبادا لوگ تمہیں ناپید کر دیں تو اس نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہیں تقویت پہنچائی اور تمہیں پاکیزہ روزی عطا کی تاکہ تم شکر کرو۔

تفسیرآیات

۱۔ اِذۡ اَنۡتُمۡ قَلِیۡلٌ: مسلمانوں کو مکی زندگی یاد دلائی جا رہی ہے کہ جہاں معدودے چند مسلمان ہمیشہ کفار کے خطرے میں گھرے ہوئے ہوتے تھے۔ چنانچہ حضرت فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہا خطبہ فدک میں فرماتی ہیں :

وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ مذقۃ الشارب ونھزۃ الطامع و قبسۃ العجلان و موطی الاقدام ۔ (بحار الانوار ۲۹: ۲۲۳)

تم تو آگ کے گڑھے میں گرنے والے ہی تھے اور (اپنے دشمنوں کے مقابلے میں ) تم پینے والے کے لیے گھونٹ بھر پانی، حریص حملہ آور کا ایک تر نوالہ، ایک چنگاری اور قدموں کے نیچے پامال ہونے والے خس و خاشاک سے زیادہ تمہاری حیثیت نہ تھی۔

۲۔ فَاٰوٰىکُمۡ وَ اَیَّدَکُمۡ: اللہ نے ان کو مدینہ میں امن کی جگہ دے دی اور کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی مدد فرمائی اور جنگی غنائم سے ان کو روزی عطا فرمائی۔

۳۔ وَ رَزَقَکُمۡ: اللہ نے مسلمانوں کو پاک و پاکیزہ نعمتوں سے نوازا جب کہ عہد جاہلیت میں یہی لوگ بہت ہی بدحالی کا شکار تھے۔ جیسا کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں :

تشربون الطرق و تقتاتون الورق اذلۃ خاسئین ۔ (بحار الانوار ۲۹: ۲۲۳)

تم بدبودار کیچڑ والے پانی سے پیاس بجھاتے تھے اور گھاس پھوس سے بھوک مٹاتے تھے اور ذلت و خواری کی زندگی گزارتے تھے۔

اہم نکات

۱۔ تعداد میں اضافہ، امن، فتح و نصرت اور پاک روزی، اللہ کے احسانات ہیں۔


آیت 26