آیت 24
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ ۚ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ قَلۡبِہٖ وَ اَنَّہٗۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ اے ایمان والو! اللہ اور رسول کو لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائیں اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور یہ بھی کہ تم سب اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے۔

تفسیرآیات

۱۔ اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ: اسلامی تعلیمات ایک جامع دستور حیات ہی نہیں بلکہ اس دستور میں حیات ہے۔ دنیوی حیات، اخروی حیات، اقدار کی حیات، اخلاق کی حیات، ابدی حیات، ہر قسم اور ہر نوع کی حیات، غرض ہمہ گیر اور کامل ترین حیات، دعوت رسولؐ میں مضمر ہے۔ رسول اسلامؐ کی دعوت کا ہر لفظ، ہر جملہ، ہر حرف، حیات ابدی کے لیے زندہ خلیوں کی مانند ہے جن سے ایک زندہ اور فعال وجود سامنے آتا ہے۔

حیات کے مقابلہ میں ہلاکت اورموت ہے:

لِّیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحۡیٰی مَنۡ حَیَّ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ ۔۔۔۔ (۸ انفال: ۴۲)

ہلاک ہونے والا واضح دلیل کے بعد ہلاک ہو اور زندہ رہنے والا واضح دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔

لہٰذا اسلامی دعوت حیات آفرین دعوت ہے، جس کے مقابلے میں ہلاکت اور موت ہے۔

زندگی اور موت دونوں کے اپنے اپنے آثار ہیں۔ مثلاً جو چیز فاقد حیات ہے، اس کا اپنا کوئی ارادہ نہیں ہوتا۔ وہ ہوا اور پانی کی لہروں کو چیر کر اپنے لیے راستے کا تعین نہیں کر سکتی بلکہ وہ ان لہروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ حیات اپنی بقا کے لیے ممدو معاون چیزوں کا انتخاب کر لیتی ہے۔ لہٰذا حیات اور اس کے آثار کو سمجھنے کے لیے ہم موت کے ساتھ اس کا تقابل کرتے ہیں :

i۔ موت جمود ہے، حیات متحرک ہے۔

ii۔ موت ظلمت ہے اور حیات نور ہے۔

iii۔ موت بے استقلالی ہے، حیات استقلال ہے۔

iv۔ موت بے ارادہ ہے، حیات ارادہ ہے۔

v۔ موت بے اختیاری ہے، حیات خود مختاری ہے۔

vi۔ موت بے فیض ہے، حیات فیاض ہے۔

vii۔ موت نا بینا ہے اور حیات بینائی ہے۔

viii۔ مردہ سے تعفن پھیلتا ہے، حیات سے برکتیں پھیلتی ہیں۔

ix۔ موت سکوت ہے، حیات رونق ہے۔

x۔ موت وحشت ہے، حیات انس و محبت ہے۔

xi۔ موت افسردگی ہے، حیات فرحت و شادمانی ہے۔

xii۔ موت ھادم اللذات ہے۔ (فرمان رسولؐ منقول ہے جس کا معنی، لذتوں کو ختم کرنے والی ہے۔ وسائل الشیعۃ ۲: ۴۳۵) ہے، حیات لذت ہے۔

xiii۔ موت انہدام ہے، حیات تعمیر ہے۔

xiv۔ موت شر ہے، حیات خیر ہے۔

xv۔ موت عدم ہے، حیات سرچشمہ وجود ہے۔

xvi۔ موت فنا ہے، حیات بقا ہے۔

لہٰذا جس شریعت کی طرف رسول اسلامؐ نے دعوت دی ہے، اس میں حیات ہے اور اس کے آثار موجود ہیں۔ تعبیر لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ مطلق ہے۔ اس میں ہر قسم کی حیات اور حیات کے تمام آثار شامل ہیں اور جو مؤمن اس حیات آفرین دعوت پر لبیک کہتا ہے وہ حیات کے تمام آثار رکھتا ہے۔ وہ ابدی حیات کا مالک ہے اور دنیا میں بھی حقیقی حیات کا مالک ہے۔

اَنَّ اللّٰہَ یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ قَلۡبِہٖ: ربط کلام یہ ہے کہ جب رسولؐ تمہیں حیات آفرین تعلیمات کی طرف دعوت دیں تو تم اس پر لبیک کہو۔ اللہ تمہارے نہایت قریب ہے۔ تمہارا وہ مالک حقیقی ہے۔ تم پر کامل تصرف رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ جو دل تمہارے ارادوں ، تمہارے وجدان اور ضمیر کا مرکز ہے، اس سے بھی زیادہ اللہ تم پر تصرف رکھتا ہے اور خود تمہارے ارادوں (قلب) سے زیادہ اللہ کی مالکیت اور حاکمیت نافذ ہے۔

لہٰذا اگر تم نے اس حیات آفرین آواز پر دل سے لبیک نہ کہی تو اللہ تو خود تمہارے دل اور تمہارے درمیان تمہاری نیتوں اور ارادوں کو دیکھ رہا ہے کہ تم کو اس مقام کی طرف پھیر دیتا ہے جس کے تم اہل ہو۔ اگر کسی وجہ سے اسلامی دعوت پر لبیک نہ کہ سکے تو اللہ اس کا دل ایمان کی طرف پھیر دیتا ہے کیونکہ وہ اس قابل ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص بظاہر اس حیات بخش دعوت کو قبول کر رہا ہے لیکن وہ حقیقت میں منکر ہے اور اس قابل نہیں ہے کہ وہ اہل ایمان میں شمار ہو تو اللہ اس کا دل پھیر دیتا ہے اور اس کا انجام ضلالت ہوتا ہے۔

لہٰذا اس آیت میں مؤمنین کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور گمراہوں کے لیے نوید امید ہے۔ دوسرے لفظوں میں خوف و رجا اور امید و بیم کے ساتھ رہنے کے حکم کو جامع ترین لفظوں میں بیان کیا ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ حیات آفرین دعوت سے مراد ولایت علی علیہ السلام ہے۔ (اصول الکافی ۸: ۲۴۸)

علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ یہ روایت ایک کلی کی تطبیق ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اس بات میں حائل ہوتا ہے کہ باطل حق کی شکل میں نہ آنے پائے۔

اہم نکات

۱۔ اسلامی تعلیمات، تمام حیات آفرین قدروں کا مجموعہ ہیں : لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ ۔۔۔۔

۲۔ مؤمن کو اپنی عاقبت اور انجام بخیر ہونے کی فکر میں رہنا چاہیے: اَنَّ اللّٰہَ یَحُوۡلُ ۔۔۔۔


آیت 24