آیت 27
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَخُوۡنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ وَ تَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور اپنی امانتوں میں بھی خیانت نہ کرو درحالیکہ تم جانتے ہو۔

تفسیر آیات

شان نزول: روایت ہے کہ قریظہ کے یہود جب محاصرے میں تھے تو ابو لبابہ انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایلچی کے طور پر بھیجے گئے۔انہوں نے یہود کو رسول اللہؐ کے ایک راز سے آگاہ کیا۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس خیانت پر ابولبابہ نے اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے توبہ قبول ہونے تک باندھے رکھا۔

خیانت ایک غیر انسانی اورغیر اخلاقی عمل ہے۔ خصوصاً اس خیانت کا تعلق اللہ اور اس کے رسولؐ سے ہو اور معاشرے کے کسی فرد سے بھی خیانت کرنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ انسانی قدروں کو نہیں جانتا۔ امانت و خیانت کی مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نساء آیت ۵۸۔

۱۔ لَا تَخُوۡنُوا اللّٰہَ: اللہ کے ساتھ جو عہد باندھا گیا ہے اس میں خیانت نہ کرو۔

۲۔ وَ الرَّسُوۡلَ: رسول نے جو راز تمہارے حوالے کیا ہے اسے فاش نہ کرو اور صرف یہی نہیں بلکہ کسی بھی حوالے سے رسولؐ کی نافرمانی خیانت ہے۔

۳۔ وَ تَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِکُمۡ: اور جو امانتیں تمہارے سپرد کی ہیں ان میں خیانت نہ کرو۔ جو اللہ اور رسول کی امانت میں خیانت کرے گا وہ خود مؤمنین کی عمومی مصلحت کے خلاف ہے، لہٰذا یہ خود اپنے ساتھ خیانت ہے۔

۴۔ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ: حالانکہ تمہیں اس خیانت کی حرمت اور اس کے مقاصد کا علم بھی ہے۔ یعنی موضوع اور حکم دونوں کا علم ہے۔ موضوع اور حکم سے مراد یہ ہے کہ انہیں علم ہے یہ کام جو میں کر رہا ہوں خیانت ہے اور خیانت حرام ہے۔

اہم نکات

۱۔ خیانت کا تعلق حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں سے ہے: لَا تَخُوۡنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ وَ تَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِکُمۡ ۔۔۔۔


آیت 27